جن ملکوں میں بھی جمہوریت قائم ہے،وہاں حکومت کی طرف سے ملک کے ہر باشندہ کو یکساں حق ملنا چاہیے اور کسی کو کسی پر کسی طرح کا کوئی امتیاز روا ہونا،نہیں چاہیے،یہی تقاضائے عقل ہے:جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں*بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے(علامہ اقبال)
تو چوں کہ نیپال بھی اب چند سالوں سےجمہوری ملک بن گیا ہے؛ اس لیے یہاں کے فکر مند علماء اور مسلم قائدین کے دل ودماغ میں فطری طور پر یہ بات بڑی ہی سرععت سے گردشِ عمل میں رہتی ہے کہ’ نیپال حکومت’ ہمارے مدارس کے جملہ اخراجات و مصارف کیوں برداشت نہیں کرتی ہے؟ کیا ہم نیپال کے باشندے نہیں ہیں کہ’ نیپال حکومت’ ہمیں نذر انداز کر رہی ہے؟؟نیپال حکومت ہمارے مطالبات-جن میں ایک مطالبہ دینی مدارس کے اخراجات کا بھی ہے-ضرور پورا کرے اور اس کے لیے مدرسہ بورڈ قائم کرے!
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ نیپال کے مسلمان،نیپال کے ہی باشندے ہیں اور اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ ‘نیپال حکومت’ مسلمانانِ نیپال کو کسی نہ کسی درجے میں ہمیشہ نظر انداز کرتی رہی ہے اور کر بھی رہی ہے۔
‘نیپال حکومت’کا باشندگان نیپال کے تئیں کسی طرح کا کوئی دوہرا اختیار کرنا اور ہر ایک کو برابر حق نہ دینا،یہ انتہائی غلط طریقہ ہے؛اس لیے حکومت اپنے نظریے کو جلد بدلے؛کیوں کہ جمہوریت دوہرا رویہ اختیار کرنے کا نام نہیں ہے؛بل کہ جمہوریت مساوات اور برابری کا نام ہے۔
اس موقع سے مسلمانان نیپال کی خدمت میں اس حقیر کی ایک ذاتی رائے پیش خدمت ہے: آپ نیپال حکومت سے اپنے مطالبات وصول یابی کے لیے ہر ممکن جد وجہد ضرور کریں اور جہاں تک ممکن ہو اپنے حقوق ضرور حاصل کریں؛مگر اپنے مدارس کو بس اپنے ہی پیسوں(صدقات ،زکاة اورعطیات )سے چلائیں اور اس’ مد’ میں سرکار سے کسی طرح کا کوئی تعاون ہر گز نہ لیں؛اس لیے کہ سرکار جب آپ کے مدارس کو امداد دے گی، تو پھر مدارس پر سرکار کا کنٹرول ہو جائے گااور پھر مدارس اسلامیہ آپ کی ملکیت سے نکل جائے گی اور مدارس پر بس حکومت ہی کا اختیار اور نصاب چلے گا،اس طرح مدراس کے قیام کا اصل مقصد فوت ہوجائے گا اور پھر رفتہ رفتہ ایک وہ بھی وقت آئے گا کہ حکومت سارے مدارس کو اپنے تحویل اور قبضے میں کرلے گی اور انھیں سرکاری اسکولوں میں تبدیل کردے گی اور آپ بس دیکھتے ہی دیکھتے رہ جائیں گے اوراس وقت پھر آپ کو کف افسوس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
یہ ‘رائے’میری اس لیے ہے کہ پڑوسی ملک ہندوستان،جو نیپال کے مقابلے ایک پرانا’ جمہوری ملک’ اور وہاں نیپال کے مقابلے’ مسلم آبادی’ بھی کئی گنا ہے، وہاں جب سرکار سے امداد پانے والے مدارس بار بار شکنجے میں کسے جاتے رہتے ہیں،تو نیپال کے مدارس کی بھلا کیا خاصیت ہے؟؟
ابھی ہندوستان کے صوبہ آسام سے مدارس کے تئیں ایک بڑی خبر گردش میں ہے کہ ریاست آسام میں بی جے حکومت نے 31/اضلاع میں کم از کم 1281/ مدارس کے نام تبدیل کرکے،انھیں اسکولوں میں بدل دیاہے۔
خیال رہے کہ آسام کے جن 1281/مدارس پر ریاست کی بی جے پی حکومت نے قبضہ کرلیا ہے،ان میں کم ازکم 400/سے زائد ایسے مدارس ہیں،جن کی تعمیر ملت کی رقم سے کرائی گئی تھی،ریاستی حکومت کا کردار محض ان مدارس کے اساتذہ کو تنخواہیں دینے تک محدود تھا،تاہم ان مدارس کو اسکولوں میں تبدیل کر،ان کی جائدادیں بھی ہڑپ کرلیں۔
یہی وجہ ہے کہ تقریباً 20/سالوں سے علماء دیوبند کے سرتاج حضرت الاستاذ مولانا سید ارشد مدنی کہتے چلے آرہے ہیں: کہ مسلمان مدارس کے لیے سرکاری امداد حاصل نہ کریں؛کیوں کہ حکومت اگر مدد دے گی ،تو کسی نہ کسی طرح مداخلت ضرور کرےگی ۔مولانا نے آسام بی جی پی حکومت کے اس آمرانہ فیصلہ پر کہا:کہ دیگر ریاستوں میں سرکاری امداد حاصل کرنے والے مدارس کا بھی یہی انجام ہے۔
اس میں قطعی کوئی شک نہیں ہے کہ مولانا ارشد مدنی صاحب کی بات صد فیصد درست ہے کہ ”سرکار سے امداد پانے والے ہر مدرسہ کا حال وہی ہوگا،جو آسام میں ہواہے”اس لیے مدارس کے لیے سرکار سے امداد ہرگز نہ لیں۔
میں نیپال کے معزز علماء اور قائدین سے یہی کہوں گا:کہ پڑوسی ملک ہندوستان کے سرکاری مدارس سے سبق حاصل کرتے ہوئے نیپال کے مدارس کے لیے سرکار سے امداد لینے کی ہر گز کوئی بات،کبھی نہ کریں !اگر ملت کی بہتری چاہتے ہیں تو؛کیوں کہ دانشمندی کا تقاضا یہی ہے کہ اوروں سے سبق حاصل کیا جائے نہ یہ کہ ‘سبق’ کے لیے مصیبت میں خودی کی گرفتاری کا انتظارکیا جائے۔
آپ کی راۓ