ڈاکٹر آر کے نور محمد مدنی کی وفات پر معاصرین علما و محبین کے تاثرات و تعزیت

22 مارچ, 2021
جنوبی ہند کی معروف علمی شخصیت ڈاکٹر آر کے نور محمد مدنی کی ۲۱ مارچ ۲۰۲۱ کو مختصر علالت کے بعد چنئی میں انتقال ہوگیا انکی وفات حسرت آیات پر  معاصرین علما و محبین کے تاثرات و تعزیت پیش کئے جارہے ہیں-
آہ ! میرے محسن میرے محب دکتور آر کے نور محمد عمری مدنی رحمه الله
از۔ شیرخان جمیل احمد عمری برطانیہ
کل ہی بذریعہ وائس میل شیخ انیس الرحمن اعظمی عمری مدنی صاحب حفظه الله امیر صوبائی جمعیت اہل حدیث تامل ناڈو و پانڈیچیری نے یہ پریشان کن خبر دی تھی کہ دکتور آرکے نور محمد عمری مدنی صاحب کی طبیعت بہت زیادہ خراب ہے، رپورٹ اور آثار کچھ اچھے نہیں ہیں۔ میں گھبرا کر فوری شوشل میڈیا پر اخوان سے دکتور کی صحت کے لئے دعا کی اپیل کی۔ ہر طرف سے دعائیں کی جارہی تھیں کہ آج ۲۱ مارچ ۲۰۲۱ء علی الصبح یہ غم ناک خبر ملی کہ انڈیا کے وقت کے مطابق صبح آٹھ بجے چنئی کے نوبل ہسپتال میں دکتور کا انتقال ہوگیا ہے۔ إنا لله وانا اليه راجعون۔ یقین مانئے دل آپ کی وفات کی خبر کو نہ ماننے کے لئے تیار تھا اور نہ ہی اس خبر کو شیئر کرنے کے لئے تیار تھا۔ اتنے میں میرے پرسنل نمبر پر شیخ انیس الرحمن اعظمی عمری مدنی حفظہ اللہ کا وائس مسیج پہنچا کہ آرکے صاحب کی وفات ہوگئی ہے اور شیخ نے آپ کی وفات کو جماعت وملت کا بڑا خسارہ ٹھہرایا۔ إنا لله وإنا اليه راجعون۔
اپنے آپ کو سنبھالا اور فوری شیخ کے لئے نماز جنازہ غائبانہ پڑھی اور اللہ سے خلوص دل سے دعا کی کہ اے اللہ کتاب وسنت کے شیدائی ہمارے بھائی کی بشری لغزشوں کو درگذر فرما، اس کی ہمہ جہت خدمات کو اپنی بارگاہ میں قبول فرما، آخرت کی منزلوں کو اس کے لئے آسان فرما، جنت الفردوس میں نبیوں، صدیقوں، شھداء و صالحين کی صحبت میں جگہ عنایت فرما اور ان کی بیوی بچوں اور جملہ لواحقین کو صبر جمیل عطا فرما آمین۔
دکتور کے صاحبزادہ عزیزم عمر سلمہ کو تعزیت کے لئے فون کیا۔ اللہ اللہ خود کی حالت ایسی تھی کہ کوئی مجھے دلاسہ دے، آنسو پونچھے، سمجھائے ، صبر کی تلقین کرے۔ سات سمندر پار تڑپتا رہا ! میں نے بچہ سے بات شروع کی، ایک جملہ بھی مکمل نہیں ہوا تھا کہ دل بھر آیا ہچکیاں بندھ گئیں، اسی حالت میں عزیزم عمر سے تعزیت کی۔ بچہ نے دعاؤں کی درخواست کی، پھر میں نے دوبارہ بات کرنے کا وعدہ کرکے فون بند کردیا۔
میں کیا بتاؤں ہمارا آپس میں کیا رشتہ تھا۔ ایک دوسرے سے کتنا گہرا تعلق تھا۔ خلاصہ کے طور پر اتنا کہدینا کافی سمجھتا ہوں کہ ہمیں ایک دوسرے سے محبت ہی نہیں بلکہ گہری عقیدت بھی تھی۔ ہمیں ایک دوسرے پر بھرپور اعتماد تھا۔ ہم آپس میں راز و نیاز کی خوب باتیں کیا کرتے تھے۔ پیش آمدہ امور میں ایک دوسرے سے مشورہ کیا کرتے تھے۔ شاید کہ کوئی ہفتہ ایسا گذرا ہو جس میں آپ نے مجھ سے یا میں نے ان سے رابطہ نہ کیا ہو۔ سات سمندر کی مسافت ہمارے لئے کوئی معنی نہیں رکھتی تھی۔ ایک ہفتہ قبل دو چیزوں پر آخری مشورہ ہوا ایک یہ کہ ملک میں “منھج سلف کی بقاء اور دفاع عن السنہ” پر منظم انداز میں کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس کے لئے دس بارہ خالص منھجی شخصیات پر مشتمل ایک واہٹساپ گروپ بناکر مشورہ سے کام کرنے کی تجویز طے ہوئی۔ ہم نے ممبرز کے نام تجویز کرنا شروع کردئے تھے۔ دونوں کا دو ناموں پر اتفاق ہوا تھا۔ میں نے حافظ عبدالحسیب عمری مدنی صاحب کا نام پیش کیا، دكتور نے شیخ طه سعيد خالد عمرى مدنى صاحب کا نام پیش کیا۔ آگے ایک ایک نام کا اضافہ کرنے کی بات طے ہوئی تھی۔ دوسرا موضوع صوبائی جمعیت اہل حدیث تامل ناڈو کی تاریخ اہل حدیث کے پروجیکٹ کو مکمل کرنے کا تھا۔ آپ ہی کی تحریک اور نگرانی میں مولانا انعام الحق عمری صاحب امام وخطیب ویلور نے مواد جمع کرنا شروع کردیا تھا۔ ان دونوں احباب کی خواہش تھی کہ اس پروجیکٹ کی تکمیل میں میں بھی ان کا ساتھ دوں۔ چنانچہ دونوں حضرات سے تجاویز اور مشوروں کا تبادلہ ہوتا رہا۔ ابتک جو مواد جمع ہوا ہے اس کا مسودہ مجھے بھیجا گیا۔ اس کی روشنی میں دونوں کو میں نے اپنی تجاویز سے آگاہ کیا تھا۔ وعدہ تھا کہ بہت جلد اس سلسلہ میں آگے کے مراحل پر بات کریں گے۔ لیکن قضاوقدر نے اپنا کام کردیا اور دکتور ہم سے جدا ہوگئے۔ آپ علم و مرتبہ میں مجھ سے کافی بلند اعلی و ارفع تھے لیکن آپ کو مجھ پر غضب کا اعتماد و اعتبار تھا۔ مجھے حیرت ہوتی تھی۔ شاید یہی وجہ تھی کہ کسی متنازعہ موضوع پر جب بھی کچھ لکھتے تو اسے شائع کرنے سے قبل مجھے بھیج کر میری رائے معلوم کرتے۔ میری تجاویز کو بہت اہمیت دیتے۔ کتنی ہی مرتبہ میری تجویز پر اپنے مضامین میں حذف واضافہ فرمایا۔ میرے ایمیل اور میرے فون آپ کے اس قسم کے پیغامات سے لبریز پڑے ہیں۔
آج آپ کی طالبعلمی سے لے کر تادم واپسیں کی زندگی میری آنکھوں میں گھوم گئی۔ جامعہ دارالسلام عمرآباد میں مجھ سے دو تین سال سینئر تھے۔ ۱۹۸۵ میں آپ نے سند فراغت لی تھی۔ قارئین کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ آپ کا تعلق سخت قسم کے حنفی المسلک گھرانے سے تھا۔ آپ عمرآباد اور ویلور کے درمیان ایک چھوٹے سے گاؤں “پلی کنڈا” کے باشندے تھے۔ آپ جامعہ دارالسلام عمرآباد میں جب تک تھے سخت قسم کے حنفی تھے، اور جماعت اسلامی کی فکر سے بھی کافی حد تک متأثر تھے۔ حالانکہ جامعہ کا ماحول مسلکوں کی سختی میں نرمی پیدا کردیتا ہے، لیکن بعض لوگوں پر اس کا اثر نہیں ہوتا ہے۔ آپ کا شمار بھی انہی لوگوں میں سے تھا۔ مادر علمی میں، اہل علم کے لئے ائمہ کرام کی تقلید کرنا کہاں تک درست ہے ؟ نیز دیگر افکار ونظریات پر بھی دکتور سے کئی مرتبہ میری جھڑپ بھی ہوچکی تھی۔ ہمارے درمیان علمی مباحثے بھی ہوتے رہے۔ لیکن دکتور تقلیدی مذھب پر ڈنکے کی چوٹ پر قائم تھے اور اس کا بھر پور دفاع بھی کرتے تھے۔ لیکن اللہ نے مہربانی فرمائی، آپ کا داخلہ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے کلیة الحدیث میں ہوگیا اور ہوسٹل میں آپ کے روم میٹ ایک خالص سلفی العقیدہ کویتی ساتھی شیخ عايد بن خليف الشمری بن گئے تھے۔ وہاں سے آپ کی دنیا ہی بدل گئی۔ اس سلفی العقیدہ کویتی ساتھی نے دلائل اور اپنی عملی زندگی سے آپ کے دل ودماغ کی ساری مقید پرتیں کھول دیں۔ فکر ونظر کی اصلاح کے ساتھ ساتھ کتاب وسنت کو آپ نے ایسے گلے لگایا کہ خاندانی سلفیوں کے لئے بھی آپ آئینہ بن گئے۔ علم کے اندر ایسا رسوخ پیدا کیا کہ خود جامعہ اسلامیہ میں علمی مرجع بن گئے۔ میرا مشاہدہ ہے، بلا مبالغہ عرض کرتا ہوں کہ طلبہ تو طلبہ اساتذہ بھی اپنے طلبہ کو دکتور سے رہنمائی لینے کا مشورہ دیتے تھے۔ میں جب کبھی دکتور کو مادر علمی کی ہماری جھڑپوں کو یاد دلاتا تو افسردہ ہوتے پھر اس کے اسباب پر بات کرتے۔ پھر بتاتے کہ دراصل صحیح رہنمائی اور نیک صحبت انسان کی دنیا بدل دیتی ہے۔ جامعہ اسلامیہ میں جب میرا داخلہ ہوا تو آپ کلیہ کے آخری سال میں تھے۔ ہمارا خوش دلی کے ساتھ استقبال کیا۔ کئی نسبتوں کی وجہ سے مجھے اپنے سے اس قدر قریب رکھا کہ میں مختصر عرصہ میں مدینہ منورہ کے فیوض وبرکات سے مالا مال ہوگیا۔ مجھے اپنے ساتھ کبھی شیخ حماد الانصاری رحمه الله کے گھر لے جارہے ہیں تو کبھی شیخ ربیع المدخلی حفظه الله کے گھر۔ کبھی شیخ عمر فلاتہ رحمه الله کے گھر لے جارہے ہیں تو کبھی شیخ عبدالمحسن العباد حفظه الله کے گھر۔ آپ ہی کے ساتھ میں پہلی مرتبہ دکتور ضیاءالرحمن الاعظمی عمری مدنی رحمه الله کے گھر بھی گیا تھا اور دکتور کی صحبت سے استفادہ کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ پھر مدینہ منورہ میں ہونے والے دروس کا خاکہ بناکر دے رکھا تھا کہ فلان دن فلاں شیخ کے درس میں شریک ہونا ہے اور فلاں دن فلاں شیخ کے درس میں شریک ہونا ہے۔ مدینہ منورہ کے کبار علماء سے آپ کا گھریلو تعلق تھا۔ سب مشائخ اپنے بیٹے کی طرح آپ کے ساتھ معاملہ کرتے تھے۔ جب بھی مسجد قبا جاتے مجھے بھی ساتھ لے جاتے۔ غالبا کسی استاد نے آپ کو اپنی ایک پرانی کار دے رکھی تھی جس کو آپ استعمال کرتے تھے۔ فجر کی نماز مسجد نبوی میں پڑھنے کے لئے اپنے ساتھ مجھے بھی پابندی کے ساتھ لے جاتے تھے۔ ١٤٠٩ھ میں علامہ شیخ عبدالعزیز ابن باز رحمه الله کی خصوصی دعوت پر محدث عصر شیخ محمد ناصرالدین البانی رحمه الله حج کے لئے سعودیہ تشریف لائے تھے۔ حج سے بہت پہلے شیخ البانی رحمه الله مدينہ منورہ بھی تشریف لے آئے۔ شیخ کی مدینہ آمد کی خبر کس کو ہوتی ! دکتور آرکے نور محمد رحمه الله چونکہ مدینہ کے مشائخ کے چہیتے تھے آپ کو اس کی نہ صرف اطلاع تھی بلکہ جامعہ میں عقیدہ کے ہمارے ایک استاد دکتور موسی الدویش حفظه الله کے گھر پر شیخ کے درس کے پروگرام کی بھی آپ کو خبر ہوگئی تھی۔ جس میں چند مخصوص مشائخ اور بعض طلبہ کو شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔ اللہ دکتور آرکے کی قبر کو ٹھنڈی کردے، انہوں نے یہاں بھی مجھ پر احسان کرتے ہوئے شرکاء کی لسٹ میں اپنے ساتھ میرا بھی نام لکھوا دیا تھا۔ دکتور آرکے ہی کے طفیل سے مجھے نہ صرف شیخ البانی رحمه الله سے پہلی مرتبہ بالمشافہ ملاقات کرنے کا موقعہ ملا بلکہ شیخ کے انتہائی قیمتی درس میں شریک ہوکر استفادہ اور شاگرد بننے کا بھی شرف حاصل حاصل ہوا۔ ۱٤۰۹ھ ہی میں میرے سسر محترم شیخ مختار احمد ندوی رحمہ اللہ اپنی فیملی سمیت مدینہ منورہ تشریف لے آئے تھے۔ مولانا کی بیٹی سے میرا رشتہ طے ہوچکا تھا۔ ابھی ہمارا نکاح نہیں ہوا تھا۔ اسی رشتہ کی بنیاد پر مولانا سے میری ملاقات رہی۔ دکتور آرکے صاحب کو اس کا علم ہوا تو وہ چند مخصوص ساتھیوں ( جن میں سر فہرست شیخ ارشد فہیم الدین سلفی مدنی حفظہ اللہ تھے) کے ساتھ فوری مشورہ کیا کہ جامعہ میں شیخ مختار کا محاضرہ رکھنا چاہئے۔ شیخ مختار سے میں نے طلبہ کی خواہش کی اطلاع دی۔ شیخ نے کہا کہ جامعہ میں محاضرہ کے لئے رسمی اجازت کی ضرورت ہوتی ہے۔ شیخ آرکے کے لئے یہ بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ آپ نے اجازت لے لی۔ شیخ ارشد فہیم الدین مدنی صاحب نے شیخ مختار احمد ندوی صاحب کا جامع تعارف کرایا پھر شیخ مختار رحمه الله نے علامہ ابن تیمیہ پر ایک گھنٹہ کا ایسا خطاب فرمایا کہ طلبہ سر دھنتے رہ گئے۔ رحمه الله رحمة واسعة۔ شیخ کے محاضرہ کے بعد شیخ آر کے نور محمد صاحب نے اظہار خیال فرماتے ہوئے کہا تھا کہ غیر سعودی جامعات سے فارغ یہ پہلی شخصیت ہے جن کو میں نے علامہ ابن تیمیہ رحمه الله پر اس قدر جامع خطاب کرتے ہوئے دیکھا اور سنا ہے۔
آپ کے دکتورہ کے بعد آپ کو مدینہ منورہ میں علمی کام اور ملازمت کے بڑے مواقع تھے۔ کئی کام کی پیش کشیں ہوئیں، لیکن آپ نے مادر وطن ہند کو ترجیح دی اور اپنے وطن کو اپنے عمل کا مستقر بنایا۔ آپ ۲۵ مئی ۱۹٦٦ میں پیدا ہوئے اور ۲۱ مارچ ۲۰۲۱ کو کوچ کرگئے۔ پچپن سال کی مختصر عمر مستعار پائی۔ لیکن اللہ تعالی نے آپ سے اس قدر کام لئے کہ بڑی بڑی عمر والے بھی نہیں کرسکے۔ اللہ نے آپ کے کاموں میں خوب برکت ڈالی۔ وقت کی پابندی آپ کی پہچان تھی۔ اپنے اوقات کو کام میں لانے کے لئے ہمیشہ پلان بناتے تھے۔ ہر گھنٹہ کے ہر منٹ کا حساب رکھتے تھے۔ آپ کو میں نے کبھی نہ فالتو کام کرتے دیکھا اور نہ ہی بے فائدہ بحثوں میں حصہ لیتے دیکھا۔ جو کچھ کہا، کیا اور لکھا وہ کتاب وسنت کے فروغ کے لئے تھا، یا دفاع میں تھا۔ سب کے لئے آپ کا دل صاف تھا۔ انہیں اپنے حاسدین اور دوستوں کا خوب علم تھا۔ جمعیت کے عہدوں سے ہمیشہ بھاگتے ہوئے دیکھا۔ لیکن جمعیت جماعت کی اصلاح و فلاح کے لئے فکر مند بھی ہمیشہ پایا۔ دو جمعیتوں کی صلح کے لئے بہت بے چین تھے۔ وزارت شؤون الاسلامیہ سعودی عرب سے جب دو رکنی وفد دہلی پہنچا تو شیخ احمد الرومی حفظه الله مدیر ملحق دینی سعودی سفارت خانہ نے آپ کو اور دکتور عبداللطیف الکندی المدنی حفظه الله کو بحیثیت مبصر شریک ہونے کا حکم دیا۔ آپ دونوں دہلی کی ایک ہوٹل جہاں یہ مشائخ طرفین سے مذاکرات کر رہے تھے وہاں پہنچ کر حکم کی تعمیل کی تھی۔ لیکن ماقدر اللہ اس وقت صلح کی بات بن نہیں پائی تھی۔ مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے دستور ساز کمیٹی کے رکن رہ کر اس میں اصلاحات کے لئے سرگرم رہے۔ صلح بین الجمعتین میں میری کامیابی پر بے حد خوش ہوئے۔ مجھے، شیخ اصغر علی سلفی صاحب اور شیخ صلاح الدین مقبول مدنی صاحب حفظهما الله کو الگ الگ مبارکبادی اور دعائیں لکھ بھیجیں۔ دونوں مشائخ کو لکھے گئے خطوط کی کاپی مجھے بھی بھیجی۔ آپ کا ماننا تھا کہ ملک میں خالص کتاب وسنت کی دعوت کی ذمہ داری کوئی تنظیم ادا کرسکتی ہے تو وہ جمعیت اہل حدیث ہی ہے۔ اس لئے اس تنظیم کے استحکام کے لئے ہمیشہ فکر مند رہے۔ دکتور مجھے بار بار کہتے تھے کہ شیخ زندگی کا دورانیہ بہت مختصر ہے۔ دن سال بہت تیزی سے گذر رہے ہیں، اس لئے ہمیں وقت ضائع کئے بغیر جتنا ممکن ہوسکے کام کردینا چاہئے۔ آپ ہند میں سرمایہ ملت تھے۔ علم کا مینار تھے۔ علماء کا مرجع تھے۔ احباب کو بہت متوازن اور صائب مشورے دیتے تھے۔ آپ کی خدمات ہمہ جہت تھیں۔ آپ نے جو بھی کام کیا وہ خالص تھا، ملاوٹوں سے پاک، مصلحتوں سے خالی تھا۔ آپ اصولوں کے پابند تھے۔ منھج میں بالکل کھرے تھے۔ اس میں ذرہ برابر جھول نہیں پایا جاتا تھا۔ لا یخافون لومة لائم کی مثال تھے۔ شروع سے دیکھا پیر اور جمعرات اور ایام بیض کا روزہ رکھتے تھے۔
ملک اور بیرون ملک میں آپ کو چاہنے والے سیکڑوں اہل علم ہیں۔ جو آپ کی زندگی اور آپ کی خدمات پر تفصیلی روشنی ڈالیں گے۔ غم و دکھ کی اس گھڑی میں یہ چند سطریں نوک قلم پر آگئی ہیں۔ پھر کبھی تفصیلی مضمون لکھا جائے گا۔
دکتور کو اللہ تعالی نے چار بیٹیوں اور دو بیٹوں سے نوازا ہے۔ آپ نے اپنی اولاد کو حافظ قرآن بنایا، دینی علوم کے ساتھ عصری علوم سے بھی آراستہ فرمایا۔ بڑے بیٹے نے چنئی ہی سے میکانیکل انجنیئرنگ کی ڈگری بھی حاصل کی ہے۔ پوسٹ گراجیویشن کے لئے برطانیہ آنا چاہتے تھے۔ دکتور نے مجھے آکسفورڈ کی تفصیلات بھیج کر مزید معلومات بھیجنے کے لئے کہا تھا۔ حکم کی تعمیل ہوگئی تھی۔ کرونا وبا کی وجہ سے دنیا کا نظام درھم برھم ہے۔
آپ نے مئی ۲۰۲۱ء کو اپنی بڑی بیٹی کی شادی طے کرکھی تھی۔ اسی بچی کے کپڑوں وغیرہ کی خریداری کے لئے حیدرآباد دکن گئے اور بیمار ہوکر لوٹے۔ ٹیسٹ کرنے پر کرونا پازیٹیو نکلا۔ صحت اتنی خراب نہیں تھی پھر بھی فیملی فرینڈ ایک ڈاکٹر نے احتیاطا ہسپتال میں داخل ہونے کا مشورہ دیا۔ منگل کو جاندار بدن اور پورے ہوش وحواس کے ساتھ ہسپتال میں داخل ہوئے لیکن چار دن بع اتوار کو بے جان اور بے ہوش باہر آئے۔ اللہ نے خیر کا معاملہ فرمایا۔ باڈی فوری مل گئی اور وفات کے چار پانچ گھنٹوں کے اندر اندر دوپہر ہی میں استاد محترم مولانا محمد عبداللہ عمری مدنی حفظه الله سابق امیر صوبائی جمعیت اہل حدیث تامل ناڈو نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور چنئی ہی کے قبرستان میں آپ کی تدفین عمل میں آئی۔ إن العين تدمع والقلب يحزن ولا نقول إلا ما يرضى ربنا وإنا بفراقك يا دکتور لمحزونون۔
اللھم اغفر له وارحمه وادخله فسيح جناته جنات النعيم آمین۔
——————————-
ڈاکٹر آر کے نور محمد مدنی :جوار رحمت میں*
علمی ودعوتی اور جماعتی حلقوں میں یہ اندوھناک خبر بڑے رنج وغم کے ساتھ سنی گئی کہ جماعت کے ممتاز ومعروف عالم دین،جامعہ دارالسلام عمرابادکے فارغ التحصيل، جامعہ اسلامیہ مدینہ طیبہ کے فیض یافتہ، معروف اسکالراور فعال وسرگرم داعی بے مثال، خطیب باکمال، مشہور مصنف ومحقق شیخ ڈاکٹر آر کے نور محمد عمری،مدنی مختصر علالت کے بعد مورخہ:21/3/2021بروز اتوار  انڈیا کے وقت کے مطابق صبح 8بجے بمقام چنئی ،نوبل اسپتال میں اس دارفانی سے رحلت فرما گئے،إنا لله وإنا إليه راجعون، إنا لله وإنا إليه راجعون،
"ان لله ماأخذ وله ما أعطى وكل شيء عنده بأجل مسمى فلتصبرولتحتسب”
ڈاکٹر صاحب کی  ھمہ جہت علمی ودعوتی شخصیت محتاج تعارف نہیں،آپ علم وعمل کے پیکر، خلیق وملنسار اور عمدہ سیرت وکردار کے مالک تھے، میدان تعلیم ودعوت اور علوم حدیث کے شہسوار تھے، جامعہ اسلامیہ مدینہ طیبہ کے زمانہ طالب علمی ہی سے میرا  ان سے تعارف وتعلق ہے، جامعہ میں شفقت ومحبت سے پیش آتے تھے، مرکزی جمعیت اہل حدیث ھند کے زیر اہتمام کانفرنسوں او سیمیناروں میں ملاقات کے وقت خندہ پیشانی سے ملتے تھے اور حوصلہ افزا کلمات سے نوازتے تھے، اللہ نے آپ کے اندر بہت ساری خوبیاں ودیعت فرمائی تھیں، آپ کے اندر  جماعتی ومسلکی اور سلفی غیرت وحمیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، پوری حیات مستعار سلف صالحین کے منہج ومسلک کو فروغ دینے، شرک وبدعات کی بیخ کنی میں کوشاں رہے اور ابنائے ملت کو زیور علم وعرفان سے آراستہ کرنے میں اپنی پوری توانائی صرف کردی،
ھم ضلعی جمعیت اھل حدیت ،سدھارتھ نگر کے تمام عہدے داران، ذمہ داران مع ارکان عاملہ وشوری آپ کے غمزدہ اھل وعیال اور رفقاء واحباب کی خدمت میں تعزیت پیش کرتے ہیں اور لاحقہ غم میں برابر کے شریک ہیں،
آپ تمام افراد جماعت وجمعیت سے گزارش ہے کہ شیخ موصوف محترم ڈاکٹر صاحب رحمہ اللہ کی مغفرت اور رفع درجات کے خلوص وللہیت سے دعا کریں، اللہ ان کے جملہ حسنات، علمی، دینی ودعوتی،جماعتی ومسلکی ،تنظیمی ،سماجی خدمات جلیلہ اور مساعی جمیلہ کو قبول فرمائے، بشری لغزشوں کو درگذر کرتے ہوئے جنت الفردوس کا مکین بنائے اور تمام لواحقین وپسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین.
*طالب دعا وشریک غم*
*( مولانا) محمد ابراہیم مدنی (امیر جمعیت)*
*راقم آثم:وصی اللہ عبدالحکیم مدنی*
*ناظم ضلعی جمعیت اور دیگر ارکان عاملہ وشوری*
——————————————————————————————————-
علم وعمل کے پیکر ڈاکٹر آر کے نور محمد۔
(ڈاکٹر عبد اللہ مشتاق)
میں 1998 میں مدینہ یونیورسٹی آیا، پہلے دن ہی داخلہ کی کارروائی سے فارغ ہو گیا، اور تخصص کے لئے عربی زبان کا انتخاب کیا، دوسرے دن ظہر کی نماز میں برادرم طارق عمری مدنی حفطہ اللہ نے جو عمرآباد میں مجھ سے ایک سال سنیر تھے اور مدینہ بھی مجھ سے ایک سال پہلے آئے تھے، جامعہ کی مسجد میں آکر خبر دی کہ سعید احمد عمری پڈنوی، آر کے نور محمد عمری، اور الیاس عمری صاحب نئے طلبہ سے ملنے آئے ہوئے ہیں، یہ تینوں اس وقت مدینہ میں ڈاکٹریٹ کے مرحلہ میں تھے, میں، میرے ساتھی حافظ عبد العظیم اور حافظ ارشد بشیر سب لوگ ان سے ملنے کے لئے مسجد سے باہر نکلے، یہ تینوں آدمی جامعہ کی مسجد اور مرکزی لائبریری کے درمیان کھڑے ہوئے تھے، وہیں میری جناب ڈاکٹر آر کے نور محمد عمری مدنی رحمہ اللہ سے پہلی ملاقات ہوئی، دیکھنے سےہی علمی وقار, سلوک میں انکسار, اعلى کردار, اور گفتگو میں بلند معیار ظاہر ہو رہا تھا, سب سے پہلے آپ نے ہم لوگوں کا تخصص پوچھا، میرے دونوں ساتھی کلیة الحديث میں تھے، جو ان کے لئے زیادہ تعجب خیز نہیں تھا، لیکن میرے تخصص پر انہوں نے تعجب کا اظہار کیا, کیونکہ اس وقت تک ہندوستانی طلبہ اسے مشکل سمجھ کر کم ہی اس طرف رخ کرتے تھے، انہوں نے کہا اچھا تو آپ نے کلیة اللغة کا انتخاب کیا ہے۔
اس کے بعد پھر چار سال آپ کے ساتھ رہنے، اور آپ سے سیکھنے کا موقع ملا، آپ جامعہ اسلامیہ میں ہم عمری طلبہ کے لئے گارجین اور آئیڈیل کی حیثیت رکھتے تھے، ہمیشہ کوشش رہتی تھی کہ آپ کے نقش قدم پر چلا جائے، آپ علم دوست انسان تھے، ذاتی گفتگو میں بھی صرف علم اور تحصیل علم کی گفتگو کرتے، حصول علم کے لئے یکجہتی, یکسوئی، محنت لگن، اور اخلاص پر ابھارتے، ہمیشہ مخلصانہ جد وجہد کی تلقین کرتے، اور ہر شخص کے ساتھ خیر خواہانہ سلوک کرتے، ایک اور جو بڑی خوبی آپ کے اندر تھی جو اس زمانے میں بہت کم پائی جاتی ہے وہ تھی علم کو اپنے اوپر نافذ کرنے کا جذبہ، اپنے علم کے مطابق اپنے کردار واخلاق کو بنانے کا جذبہ، جو کچھ سیکھا اس پر عمل کرنے کا جذبہ، آپ کا علم صرف کتابوں تک محدود نہیں تھا، بلکہ اسے اپنی زندگی میں اتارتے بھی تھے۔
آپ کریمانہ اخلاق کے مالک تھے، خندہ پیشانی، تبسم ومسکراہٹ، تواضع وانکساری، مہمان نوازی، لوگوں کی مدد، طلبہ کی علمی رہنمائی یہ سب خاصیتیں آپ کی شخصیت میں رچ بس گئی تھیں.
آپ کی ایک نمایاں صفت جو میں نے دیکھی، وہ تھی لوگوں کو کھانا کھلانا، کھانا کھلانا بڑی اہم نیکی ہے، یہ آدمی کو جنت میں لے جانے والی نیکی ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: أفشوا السلام، وأطعموا الطعام، وصلوا بالليل والناس نيام ، تدخلوا الجنة بسلام، آپ کے گھر کوئی بھی جاتا تو کھانا کھائے بغیر واپس نہیں آتا، ہم جتنے عمری طلبہ جامعہ اسلامیہ میں تھے کم از کم مہینے میں ایک بار تو ان کے یہاں کھانا ضرور کھاتے، ابھی 2016 میں میں فیملی کے ساتھ مدارس گیا تھا،ڈاکٹر صاحب کو پہلے ہی اطلاع کر چکا تھا, ڈاکٹر صاحب کی خواہش تھی کہ میں انہی کے گھر پر قیام کروں, لیکن میں پہلے ہی ہوٹل بک کر چکا تھا, ڈاکٹر صاحب نے کہا کم از کم کھانا رات میں گھر پر کھائیں, ڈاکٹر صاحب کو کا فی مشغولیت تھی, اس سے فارغ ہو کر کھانے کا وقت 10 بجے رات میں مقرر کیا, ہم لو گ دن بھر شہر کی زیارت سے تھک چکے تھے, اور دوسرے دن 4 بچے صبح ہی میری واپسی تھی, جب ہوٹل پر آئے تو شدت تھکان سے کہیں جانے کی خواہش نہیں تھی, ڈاکٹر صاحب سے فون کر کے معذرت کرنی چاہی, تو آپ اپنا سارا پروگرام چھوڑ کر فیملی کے ساتھ کھانا لے کر ہوٹل پر ہی پہنچ گئے, وہاں بھی میں نے ان کے کھانا کھلانے کے اصرارکو محسوس کیا.
آپ جامعہ اسلامیہ میں ہمیشہ نمایاں نمبرات سے کامیاب ہوتے تھے, اس زمانے میں مدینہ منورہ میں ریاستی سطح پر نمایاں کامیابی حاصل کرنے والوں کو گورنر مدینہ کی طرف سے خصوصی اعزاز سے نوازا جاتا تھا, 1423 ھ میں آپ کو ڈاکٹریٹ میں نمایاں کامیابی پر اس اعزاز سے نوازا گیا, اس وقت بیچلر ڈگری میں میں اور میرے دوست, عمراباد میں میرے رفیق درس برادرم حافظ عبدالعظیم عمری مدنی بھی اس اعزاز کے مستحق ہوئے, استاذ محترم حافظ حفیظ الرحمن صاحب عمری مدنی حفظہ اللہ نے راہ اعتدال میں ایک قمتی مضمون کے ذریعہ ہماری کامیابی پر ہمت افزائی کی.
ہندستان ہی نہیں عالمی پیمانے پر ڈاکٹر ذاکر نائک صاحب کی کارکردگی کو کافی شہرت ملی, ڈاکٹر ذاکر نائک صاحب کو دینی ادارے کے فارغین سے متعارف کرنے میں آپ کا نمایا رول رہا ہے, بلکہ آپ ڈاکٹر ذاکر نائک اور دینی ادارے کے فارغین کے درمیان ہمزہ وصل کی حیثیت رکھتے تھے, 2001 میں جب پیس ٹی وی کا وجود نہیں تھا, اور ڈاکٹر ذاکر نائک بمبئی میں اسکول کھولنا چاہ رہے تھے, تو عربی ٹیچر کے لئے انہیں کے گھر میں پہلی بار کچھ فارغین کا انتخاب کیا تھا, جس میں برادرم ثناء اللہ مدنی اور میرے ہم سبق برادرم شمیم فوزی منتخب ہو کر گئے تھے, پھر ڈاکٹر آر کے نور محمد رحمہ اللہ بھی جامعہ اسلامیہ سے فارغ ہونے کے بعد ڈاکٹر نائک کے ادارے سے منسلک ہو گئے, اور خالص سلفی منہج پر ان کے اسکول کا دینی سلیبس تیار کیا, بلکہ ڈاکٹر نائک کی بھی دینى ثقافت اور معلومات میں اضافہ کا سبب بنے, پھر جب آپ کا سعودی اسلامی وزارت سے ابتعاث ہو گیا تو بمبئ سے اپنے شہر چنئی منتقل ہو گئے, اور وہاں اس قسم کے اسکولوں کا جال بچھا دیا, کسی اسکول کی نظامت کرتے, کسی کی سرپرستی کرتے, کسی کے مجلس مشاورت میں نمایاں مقام رکھتے, اس کے ساتھ ہی بنگلور میں جامعہ اسلامیہ مدینہ کے کلیۃ الحدیث کے سلبس کے طرز پر ایک کالج کی بنیاد رکھی, جس کی سرپرستی آپ ہی کے ذمہ تھی.
آپ انڈیا جانے کے بعد کافی متحرک اور فعال تھے, اور بہت جلد ہندوستان کے علمی حلقوں میں آپ کی پہچان ہو گئی, اور آپ ہندوستان میں جامعہ اسلامیہ کی نیک نامی کا بھی سبب بنے, آپ کے ہندستان جانے کے کچھ عرصہ بعد ندوۃ العلماء لکھنو کے شیخ الحدیث مولانا ابو سحبان روح القدس صاحب حج کے لئے سعودی عرب آئے, مسجد نبوی میں ہم لوگوں کی ملاقات ہوئی, مغرب کے بعد مسجد کےصحن نے ہی کافی دیر تک نششت رہی, نششت کا اکثر حصہ آپ ڈاکٹر آرکے نور محمد صاحب کا ہی ذکر خیر کرتے رہے, آپ کی علمی صلاحیت, کام کرنے کا جذبہ, محنت لگن, ذہانت فطانت کو سراہتے رہے.
ڈاکٹر صاحب جماعتی اور جمعیتی کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے , ہندستان واپس ہونے کے کچھ دنوں کے بعد ہی آپ ہندوستان میں سعودی یونیورسٹی سے فارغین کے آرگنائزیشن کے ذمہ دار بنائے گئے, اس کے ساتھ ہی جمعیت اہل حدیث کے کلیدی عہدوں پر فائز رہے, آپ کی بڑی خوبی یہ تھی کہ اتنے عہدوں کی ذمہ داری کے باوجود, او ر اس قدر مشغولیت کے باوجود میں ہی نہیں, مجھ جیسا کوئی بھی جونیر فون کرتا, مشورہ لیتا ,تو فورا جواب دیتے, مناسب مشورہ سے نوازتے.
عام طور پر ہندوستان میں اہل علم کے اندر ایک کمی ہے کہ اگر وہ علمی طور پر نمایاں مقام حاصل کر لیتے ہیں, یا مناصب پر پہنچ جاتے ہیں تو پھر عوام سے کٹ جاتے ہیں , عوامی موضوعات پر بولنا اپنے لئے کسر شان محسوس کرتے ہیں , لیکن ڈاکٹر صاحب اس سے بھی پاک تھے, بہت کم عالم کے اندر آپ کے جیسی علمی گیرائی وگہرائی تھی, لیکن اس کے باوجود عوام کے لئے دروس کا اہتمام کرتے, علمی پروگرام بناتے, کتابی شکل میں چھوٹے چھوٹے فولڈرس اور پمفلیٹ تیار کروا کر تقسیم کرواتے.
الغرض آپ کے اندر بہت ساری خوبیاں تھیں, آپ کے جانے سے علمی حلقہ میں کمی محسوس کی جائے گی, ہم سب آپ کے جدائی میں سوگوار ہیں, لیکن اللہ کے فیصلہ پر راضی ہونا ہی مومن کا امتیاز ہے, (ما نقول إلا ما يرضي ربنا), ہم وہی کہیں گے جس سے اللہ راضی ہو. میں اللہ تعالى سے دعا کرتا ہوں کہ اے اللہ تیرا بندہ دین کے لئے کوشاں رہتا تھا,اب وہ تیری رحمتوں کا محتاج ہے, تو ان کی کوششوں کو قبول فرما, انکی اطاعتوں کو ان کے نامہ اعمال میں اضافہ کا سبب فرما, انکی لغزشوں کو درگزر فرما, اور جنت الفردوس میں انہیں اعلى مقام عطا فرما.
عبداللہ محمد مشتاق
حائل.
———————————————————————————————-
(جامعہ سلفیہ بنارس میں ڈاکٹر آر کے نورمحمدعمری مدنی رحمہ اللہ کی نمازجنازہ غائبانہ اداکی گئ)
 بتاریخ 21 مارچ 2021م بروزاتوار بعدنمازعشاء جامعہ سلفیہ(مرکزی دارالعلوم) بنارس کی مسجد میں مولانامحمدمستقیم صاحب سلفی حفظہ اللہ(شیخ الجامعہ) کی امامت میں فضیلۃ الدکتور آر کے نور محمدعمری مدنی رحمہ اللہ کی نمازجنازہ غائبانہ ادا کی گئی۔
نماز جنازہ سے قبل جامعہ کے مؤقراستاد مولانااسعد اعظمی صاحب حفظہ اللہ نےحاضرین (جامعہ کےاساتذہ وطلبہ) کے سامنے مختصر درس دیا۔محترم اعظمی صاحب نے سب سےپہلےڈاکٹر موصوف رحمہ اللہ کے انتقال کی اطلاع دی اورانتہائی مختصراورجامع اندازمیں ان کی علمی وتحقیقی، تعلیمی وتربیتی اوردعوتی واصلاحی زندگی کے بعض اہم گوشوں پر روشنی ڈالی۔ پھرجامعہ سلفیہ بنارس سے ان کے تعلقات اوروالہانہ عقیدت کا ذکر فرمایا۔نیزآپ نے کہاکہ ہم سب کوچاہئے کہ ہم اس عظیم حادثہ سے عبرت حاصل کرتے ہوئے اپنی زندگی کے ہرلمحہ کو مثبت اورنیک کاموں میں لگائیں۔کیوں کہ کب کس کا بلاوا (موت) آجائے کسی کو پتہ نہیں ہے۔
ابوصالح دل محمد سلفی
جامعہ سلفیہ بنارس
—————————————————————————-
آہ میرے محسن آہ…….آر کے نور محمد رحمت اللہ علیہ
از : محمد آدم
قرآن و سنت کے داعی تعلیم و تعلم کی دنیا کا مرد مومن امت مسلمہ کو عظمت رفتہ سے جوڑنے کی فکر میں گھلنے والا میرا محسن، نئی نسل کے مربی جناب ڈاکٹر آر کے نور مدنی رحمہ اللہ اس دارفانی سے رخصت ہو گئے۔
ابھی کل کی بات ہے جب انہیں ہم نے جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کے انصاری آڈیٹوریم میں ایک لیکچر کے لئے مدعو کیا تھا ماشاءاللہ کیا کامیاب پروگرام تھا شیخ کس قدر خوش ہوئے تھے… انہوں نے ہم سے کتنی امیدیں وابستہ کی تھیں…ابھی پچھلے مہینے ہی شیخ کا فون آیا تھا وہ دکتور لقمان رحمۃاللہ علیہ کی تفسیر جو میں نے اپنی آواز میں ریکارڈ کی ہے اس کی اپلیکیشن کا لنک مانگ رہے تھے آہ….
اللہ ہم سے کام لے ان کا بہترین بدل اس امت کو عطاء فرما ان کی مغفرت فرمائے آخرت کی ہر بھلائی سے نوازے لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین
انا لله وانا اليه راجعون…
اللهم اغفر لهم وارحمهم, وعافهم واعف عنهم, وأكرم نزلهم ووسع مدخلهم, واغسلهم بالماء والثلج والبرد, ونقهم من الخطايا كما ينقى الثوب الأبيض من الدنس, وأبدلهم داراً خيراً من دارهم, وأهلاً خيراً من أهلهم, وازواجَا خيراً من ازواجهم, وأدخلهم الجنة وأعذهم من عذاب القبر ومن عذاب النار
انا لله وانا اليه راجعون اللهم اجرني في مصيبتي واخلف لي خيرا منها

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter