ملک نیپال میں آج 18واں یوم جمہوریہ پورے آن بان اور شان سے منایا جا رہا ہے: مولانا مشہود خاں نیپالی

23 اپریل, 2024

کٹھمنڈو۔ آج 18 واں یوم جمہوریه مختلف پروگراموں کے ساتھ منایا جا رہا ہے۔ جس دن عوام کی جیت ہوئی۔ جس دن ملک کی سڑکوں پر جمہوریت کے نعرے لگے تھے۔

بیساکھ 11 کو سنہری دن سمجھا جاتا ہے جب اس وقت کے بادشاہ گیانیندر شاہ کی شہنشاہی براہ راست حکومت ختم ہوئی اور نئے نیپال کا خاکہ تیار کیا گیا۔ اسی دن کی یاد میں ہر سال بیساکھ 11 کو یوم جمہوریت کے طور پر منایا جاتا ہے۔

2062/63 بکرمی سنبت کی تاریخی عوامی تحریک سات سیاسی جماعتوں اور اس وقت کے باغی‏ ماؤ وادی کیندر کی شمولیت سے اپنے عروج پر پہنچنے کے بعد، آمرانہ بادشاہت نے اسی دن عوام کی طاقت کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے۔ 11 بیساکھ 2063 کی رات اس وقت کے بادشاہ گیانیندر شاہ نے 8 جیٹھ 2059 کو تحلیل ہونے والی پارلیمنٹ کو بحال کیا۔ سیاسی جماعتوں کے مطالبات کے مطابق گیانیندر نے پارلیمنٹ کو بحال کیا۔4 جیٹھ کو تشکیل نو پارلیمنٹ کے اجلاس نے بادشاہت کو معطل کر دیا اور وزیر اعظم کو سربراہ مملکت کے طور پر کام کرنے کا حق دے دیا۔

نیپالی کانگریس کے اس وقت کے چیئرمین گریجا پرساد کوئرالا کی قیادت میں قائم ہونے والی آل پارٹی حکومت، جو عوامی تحریک میں ایک کمانڈر بھی تھی، نے 28 چیت 2064 کو آئین ساز اسمبلی کے پہلے انتخابات کا انعقاد کیا۔ اس تحریک کو نیپال کے سیاسی سفر میں بہت ہی اہم سمجھا جاتا ہے، جو نیپال میں 10 سال سے مسلح جدوجہد کرنے والے ماؤ نوازوں کو ایک پرامن تحریک میں لانے کی بنیاد بنی۔

اس عوامی تحریک کی بنیاد پر اس وقت کی ماؤ وادی کیندر اور حکومت کے درمیان ایک جامع امن معاہدہ طے پایا۔ اس تحریک کے بعد دستور ساز اسمبلی کے انتخابات ہوئے اور 15 جیٹھ 2065 کو دستور ساز اسمبلی کے اجلاس نے نیپال میں بادشاہت کے خاتمے کا اعلان کیا اور نیپال کو ایک وفاقی جمہوری جمہوریہ ملک بنا دیا گیا

آئین ساز اسمبلی کے ذریعے آئین بنایا گیا اور پھر ملک وفاقی نظام میں چلا گیا۔ واضح ہو کہ اس کے بعد ہی سے نیپال میں بیک وقت تین سطح کی حکومت کا قیام عمل میں لایا گیا لوکل حکومت جن کی مجموعی تعداد 753 ہیں ، صوبائی حکومت پورے نیپال میں مجموعی صوبوں کی تعداد سات ہے. اور آخر میں مرکز میں ایک مرکزی حکومت ہے ۔
واضح رہے کہ نیپال میں نئے تشکیل شدہ سات صوبوں میں لمبنی پردیش واحد ایسا صوبہ ہے کہ جس نے وزارت سماجی فلاح وبہبود کے عالیجناب وزیر کی صدارت میں مدرسہ بورڈ لمبنی پردیش کا قیام کیا اور ماؤ وادی کیندر کے ایک سینیئر لیڈر مولانا مشہود خاں نیپالی کو نائب صدر کے عہدے پر کابینہ نے منتخب کیا۔
واضح ہو کہ لمبنی پردیش حکومت کے قیام کے بعد ہی صوبائی حکومت نے لمبنی پردیش میں مسلم کمیونٹی کی تاریخ اور ان کے حالات نیز ان کی مذہبی تعلیمی سرگرمیوں کا جائزہ لینے کیلئے معروف اسلامی اسکالر، راشٹریہ مدرسہ سنگھ کے صدر ڈاکٹر عبدالغنی القوفی، نیز راشٹریہ مدرسہ سنگھ کے جنرل سکریٹری، جامعہ سراج العوم جھنڈا نگر کے ترجمان اور ماؤ وادی کیندر کے رہنما کو منتخب کیا گیا۔
اس کمیٹی نے حکومت کو جو رپورٹ دی، اسی رپورٹ کو بنیاد بنا کر نیپال کی تاریخ میں پہلی بار صوبائی حکومت نے مدرسہ بورڈ کا قیام کیا.
حکومت کی تین سطحی اختیارات اور پاور کی تقسیم کا فائدہ یہ ہوا کہ نچلی سطح تک رفاہی ترقی کے پہنچنے کی راہ ہموار ہوئی اور عوام کے حقوق کی دستیابی دیہات اور پسماندہ علاقوں تک پہنچ چکی ہے۔ لیکن عوام اس بات پر مایوسی کا اظہار کر رہے ہیں کہ اب بھی یکساں ترقی نہیں ہو رہی ہے۔ عوام میں مایوسی پھیلی ہوئی ہے کہ ملک میں ہونے والی تبدیلیوں کو صحیح طریقے سے ادارہ جاتی شکل نہیں دی گئی اور سیاسی جماعتوں نے اپنا پرانا کردار دکھایا ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ ان اختیارات کی نچلی سطح تک شفاف تنفیذ کو یقینی بنانے کی مخلصانہ کوششیں صحیح سمت میں لگاتار جاری رہنی چاہئے۔

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter