اس سلسلے میں انہوں نے معروف شارح علامہ ابن جبرین کا حوالہ دیا ہے جن کے مطابق صرف اسی صورت میں خاتون کے لیے محرم کا ساتھ ہونا ضروری ہے، اگر وہ ایک دِن اور ایک رات کا مسلسل سفر کر رہی ہو۔ جبکہ آج کل جدید ٹرانسپورٹ کے نظام کے باعث خواتین کو کہیں بھی جانے میں 24 گھنٹے سے زیادہ کا وقت نہیں لگتا۔ اس حساب سے خواتین ریاض اور جدہ بلکہ مصر بھی محرم کے بغیر سفر کر سکتی ہیں، کیونکہ اس سفر کے دوران اُن کے2 گھنٹے سے زیادہ صرف نہیں ہوتے۔جبکہ امریکا جانے میں بھی خواتین کے صرف 12 گھنٹے لگتے ہیں، اس لیے اُن پر محرم کے ساتھ ہونے کی شرط کا اطلاق نہیں ہوتا۔ واضح رہے کہ چند ماہ قبلسعودی عرب کے ایک اور ممتاز عالم ڈاکٹر خالد المصلح نے بتایا تھا کہ خواتین کو بازار جانے کے لیے محرم کے ہونے کی کوئی شرعی پابندی نہیں ہے۔محرمکے بغیر بھی خواتین قریبی بازار وغیرہ میں جا سکتی ہیں۔سرکاری ٹی وی پر ایک مذہبی پروگرام ’یستفتونک‘ میں ایک خاتون نے اُن سے سوال کیا تھا کہ کیا وہ محرم کے بغیر بازار سودا سلف خریدنے جا سکتی ہے اور کیا 8 سال کا بچہ بھی محرم کہلا سکتا ہے؟ اس پر ڈاکٹر خالد نے کہا کہ اپنے شہر اور علاقے کے بازار میں جانے کے لیے خاتون کے ساتھ محرم ہونے کی شرط کا اطلاق نہیں ہوتا۔ خواتین اپنے علاقے اور شہر سے واقف ہوتی ہیں جس کے باعث وہ خطرے سے محفوظ رہتی ہیں۔ اس لیے شہر کے اندرونی بازاروں میں آنے جانے کے لیے محرم کا ساتھ ہونا لازمی نہیں۔ صرف دُوسرے شہروں میں محرم کے ساتھ ہونے کی پابندی کا اطلاق ہوتا ہے۔ ڈاکٹر خالد المصلح مملکت کے معروف عالم اور القصیم میں دارالافتاء کے سربراہِ اعلیٰ بھی ہیں۔
آپ کی راۓ