شیخ العرب والعجم سند العلماء محدث حضرت مولانا محمد اعظمی کا انتقال،ہزاروں سوگوار اہل علم کے درمیان سپرد خاک

12 جولائی, 2023

مئو ناتھ بھنجن / کئیر خبر

یہ خبر نہایت ہی رنج و افسوس کے ساتھ سنی گئی کہ شیخ العرب والعجم استاذ الاساتذہ سند العلماء بقیۃ السلف نامور عالم دین حضرت مولانا محمد اعظمی صاحب طویل علالت کے بعد بتاریخ 11 جولائی 2023ء، بوقت تقریبا سوانو بجے شب بعمر تقریبا ٩٦ سال داعی اجل کو لبیک کہہ گئے ۔اناللہ وانااليه راجعون آج صبح دس بجے بروز بدھ بمقام عیدگاہ اہلحدیث ڈومن پورہ پچھم مئو ناتھ بھنجن صحرا میں ادا کی گئی اور ڈومن پورہ قبرستان میں ہزاروں سوگوار اہل علم کے درمیان سپرد خاک کر دیے گئے —

—————————————-

مولانا محمد اعظمی رحمہ الله کی وفات ۔عظیم علمی خسارہ عرب عجم میں آپ کی علمی شخصیت کی دھوم تھی:
مولانا عبدالعظیم مدنی جھنڈانگری
۔۔۔۔‌۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جھنڈا نگر/زاھدآزاد جھنڈانگری

استاذ الاساتذہ مولانامحمد اعظمی رحمہ اللہ کی وفات خصوصا درس وتدریس سے وابستہ اشخاص کے لیےعظیم خسارہ ہے، ان خیالات کا اظہار نیپال کی پہلی اقامتی نسواں درسگاہ جامعہ خدیجۃ الکبریٰ جھنڈانگر کے ناظم اعلیٰ مولانا عبد العظیم مدنی جھنڈانگری نے کیا
آپ نے آگے کہا ۔
"آپ کی علمی شخصیت اور تحقیقی کتابوں سے انھیں بھرپور استفادے کا موقع ملتا تھا،
عرب علماء بھی آپ کی شخصیت سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے ، کبھی خلیجی ممالک میں مدعو کرکے اورکبھی خود ہند تشریف لاکر زانوئے تلمذ تہ کیا اوراپنی علمی تشنگی بجھائی ، ہندو نیپال کے علماءو طلباءنے بھی آپ سے خوب استفادہ کیا ہے اللہ رب العالمین آپ کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلی مقام سے نوازے مہتمم جامعہ خدیجۃ الکبریٰ ڈاکٹر سعید أحمد اثری نے کہا ۔
"شیخ محمد اعظمی رحمہ اللہ کی وفات سے علمی دنیا سکتے میں ہے ، آپ کی سند اجازہ کو عالی درجہ حاصل تھا جس کو حاصل کرنے کےلیے دور دراز سے لوگ سفر کرکے آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے، ایسی شخصیتیں برسوں میں پیدا ہوتی ہیں، اللہ آپ کی خدمات کو قبول فرمائے اور جنت الفردوس کا مکیں بنائے ۔
.مدرسہ بورڈ لمبنی پردیش حکومت نیپال مولانا مشہود خان نیپالی نے کہا کہ مولانا محمد اعظمی رح جیسی شخصیت سیکڑوں سال میں پیدا ہوتیں ہیں ۔انہوں نے بڑا علمی کام کیا ہے جو آپ کے لیے صدقئ جاریہ ہے ۔
مولانا محمد اکرم عالیاوی نے آپ کے انتقال کو گہرے رنج و غم کا باعث بتایا ۔
انجمن ارتقائے اردو ادب کے سکریٹری جنرل الحاج عبد السلام عبداللہ مدنی جھنڈانگری نے بھی گہرے رنج وغم کا اظہار کیا ہے
اللہ مولانا رحمہ اللہ کی غلطیوں کو درگزر کرتے ہوئے ان کی قبر کو نورسے منور کردے آمین

—_—_—————————-
مولانا محمد اعظمی رحمہ اللہ کی وفات
پاک و ہند کے علمی حلقوں میں یہ خبر یقیناً افسوس کے ساتھ سنی جائے گی کہ یادگارِ سلف مولانا محمد اعظمی اب نہیں رہے۔ مولانا اس عہد آخر میں دبستان نذیریہ کا فیض اور ایک نشانی تھے۔ شیخ الکل السید الامام نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ کے صرف ایک واسطے سے شاگرد تھے۔ جس کی وجہ سے مولانا کی سند بہت عالی تھے۔ یہی وجہ تھی کہ اہل علم کثرت سے ان کی طرف رجوع کرتے تھے۔
مولانا محمد اعظمی کا خاندانی تعلق مئو ناتھ بھنجن سے تھا۔ یہ خطہ حضرت میاں صاحب محدث دہلوی کے شاگردوں سے بھرا ہوا تھا، جس کی تفصیل "دبستان نذیریہ” جلد دوم میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔ مولانا محمد اعظمی کو سید نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ کے چار شاگردوں سے شرف تلمذ حاصل تھا۔ جن کے نام باعتبار ترتیب وفات حسب ذیل ہیں:-
1 مولانا محمد احمد بن حسام الدین مئوی (وفات: 1948ء)
2 مولانا ابو القاسم سیف بنارسی (وفات: 1949ء)
3 مولانا ابو العرفان محمد اعظمی (وفات: 1951ء)
4 مولانا حکیم محمد سلیمان مئوی (وفات: 1959ء)
مولانا اعظمی کی یہ بہت بڑی خوش قسمتی تھی کہ انھیں ایسے جلیل المرتبت اکابر سے مستفید ہونے کا موقع ملا۔ تکمیل علم کے بعد مولانا کی تدریسی زندگی شروع ہوئی۔ وہ بنیادی طور کے ایک لائق و فائق مدرس تھے جن کی ذات سے ہزارہا طلاب علم مستفید ہوئے اور معاشرے کے لیے کار آمد ثابت ہوئے۔ مولانا نے جن مدارس میں تدریس کے فرائض انجام دیے ان میں "مدرسۃ الاصلاح سرائے میر” بھی شامل ہے۔ جو اصلاحی مکتب فکر کا نمائندہ مدرسہ تھا۔ یہاں مولانا شیخ الحدیث کے منصب پر فائز ہوئے۔
مولانا نے ابتدائی کتابوں سے لے کر انتہائی کتابوں تک کی تدریس کی اور ایک اندازے کے مطابق صحیحین کی تدریس کا فریضہ 23 برسوں تک انجام دیا۔
مولانا کی قلمی خدمات میں چند کتابیں بھی ہیں اور کچھ تراجم بھی۔ نواب صدیق حسن خاں کی مشہور فارسی کتاب "جلب المنفعۃ فی الذب عن الائمۃ المجتھدین الاربعہ” کا اردو ترجمہ "ائمہ اربعہ کا دفاع اور سنت کی اتباع” حال ہی میں مکتبہ دار السلف پاکستان سے بھی طبع ہو گیا ہے۔
مولانا کی ولادت بقول امام خاں نوشہروی 1930ء میں ہوئی۔ اس اعتبار سے بوقت وفات مولانا کی عمر 93 برس کے قریب تھی۔ مولانا نے بھرپور زندگی گزاری اور سعادت کی زندگی گزاری۔ کسب علم اور نشر علم یہی ان کا مقصد حیات تھا۔
اللھم اغفر لہ وارحمہ
محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

——————-

شیخ العرب والعجم استاذ الاساتذہ سند العلماء بقیۃ السلف مولانا محمد اعظمی صاحب کا انتقال پُرملال
یہ خبر نہایت ہی رنج و افسوس کے ساتھ سنی گئی کہ شیخ العرب والعجم استاذ الاساتذہ سند العلماء بقیۃ السلف نامور عالم دین مولانا محمد اعظمی صاحب طویل علالت کے بعد آج بتاریخ 11 جولائی 2023ء، بوقت تقریبا سوانو بجے شب بعمر تقریبا 93 سال داعی اجل کو لبیک کہہ گئے ۔اناللہ وانااليه راجعون.اللهم اغفرله وارحمه وعافه واعف عنه واكرم نزله ووسع مدخله ونقه من الذنوب كمانقيت الثوب الابيض من الدنس وادخله الفردوس الاعلى من الجنة والهم اهله وذويه الصبر والسلوان.ان العين تدمع والقلب يحزن ولانقول الابما يرضى ربناسبحانه وتعالى . ان لله مااعطى وله مااخذ وكل شئى عنده باجل مسمى.
مولانا محمد بن مولانا عبدالعلی بن شیخ عبداللہ بن مولانا علیم اللہ بن حکیم جمال الدین رحمہ اللہ بڑے خلیق و ملنسار، سادگی پسند، متواضع، علماء نواز اور ورع و تقویٰ میں سلف کی یادگار تھے ۔ان کا انتقال علمی و تحقیقی دنیا کا عظیم خسارہ ہے۔ مولانا محمد اعظمی نے جامعہ عالیہ عربیہ مئو، جامعہ دار السلام عمر آباد، مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ دہلی اور مدرسہ اسلامیہ دارا نگر بنارس میں اکابر علماء و جہابذہ علم و دانش سے اکتساب فیض کیا جن میں سے مولانا محمد بن سلیمان داود مئوی، مولانا احمد بن ملا حسام الدین مئوی، مولانا محمد لقمان اعظمی اور مولانا ابوالقاسم سیف بنارسی شیخ الکل فی الکل سید نذیر حسین محدث دہلوی کے شاگرد رشید تھے۔آپ نے تقریباً پینتالیس سال تک جامعہ عالیہ عربیہ مئو ، مدرسۃ الاصلاح سرائے میر، جامعہ فیض عام مئو، مدرسہ خیرالعلوم سیونی اور کلیۃ فاطمۃ الزھراء للبنات مئو میں تدریسی و تربیتی اور انتظامی خدمات انجام دیں۔ آپ نے اس دوران متعدد دینی و علمی کتابیں تصنیف فرمائیں جن میں آداب زواج، شریعت و عادت، نقوش رحمانی، کائنات کا آغاز و انجام، نماز نبوی، مستند دعائیں، تذکرۃ البخاری، دعایۃ الایمان، قرآن کریم پڑھنے پڑھانے کے آداب وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ آپ برصغیر کے ان چند علماء میں سے تھے جو فن حدیث میں سند عالی رکھتے تھے، اس لئے عرب و عجم کے ہزاروں طلباء نے آپ سے اکتساب فیض کیاجو آپ کے لئے صدقہ جاریہ ہیں۔ ان شاء اللہ۔
مولانا مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے کاز سے بڑی دلچسپی رکھتے تھے اور ناچیز کو بہت عزیز رکھتے تھے اور جمعیت کی ہمہ جہت خدمات کے بارے میں سن کر خوشی کا اظہار کرتے اور دعاؤں سے نوازتے تھے۔ابھی کچھ دنوں پہلے لوہیا ، مبارک پور کے جلسے کی مناسبت سے محض مولانا سے ملاقات اور دعا کی غرض سے حاضر ہوا۔ مولانا نے برجستہ فرمایا کہ آپ ماشاء اللہ بہت ساری خدمات انجام دے رہے ہیں۔ہرملاقات میں بے حد ہمت افزائی فرماتے تھے۔مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کی گراں قدر علمی و تحقیقی اور تدریسی خدمات کے اعتراف میں ان کو ایوارڈ سے نوازا تھا۔
ان کے جنازے کی نماز آبائی وطن مئو کے عیدگاہ اہل حدیث ڈومن پورہ پچھم میں کل صبح دس بجے ادا کی جائے گی۔ ان شاء اللہ پسماندگان میں معروف عالم دین اور صاحب قلم مولانا اسعد اعظمی سمیت چھ بیٹے عزیزان احمد، اجود، ارشد، امجد اور اسجد اور چھ بیٹیاں اور متعدد پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں ہیں۔
اللہ تعالیٰ ان کی بال بال مغفرت فرمائے، بشری لغزشوں سے درگذر فرمائے، دینی و دعوتی خدمات کو شرف قبولیت بخشے،جنت الفردوس کا مکین بنائے، جملہ پسماندگان ومتعلقین کوصبرجمیل کی توفیق بخشے اور ملک ملت اور جمعیت و جماعت کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے ۔ آمین
شریک غم و دعا گو
اصغر علی امام مہدی سلفی
امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند

——————————————-

ایک اور علمی ستارہ غروب ہو گیا ۔(محمدرحمانی)

استاد الأساتذہ مولانا محمد اعظمی”حفظہ اللہ “ اب رحمہ اللہ ہو گئے ، اللہ انکی علمی کاوشوں کو انکے لئے صدقۂ جاریہ بنائے ۔ مولانا رحمہ اللہ کی ولادت غالبا ۱۹۳۰ میں مئو ناتھ بھنجن میں ہوئی ، مولانا کے پاس حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سند عالی موجود تھی یعنی آپ میاں نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ کے شاگرد کے شاگرد تھے ، اسی مقام کی سند عالی استاد گرامی مولانا اسرائیل ندوی رحمہ اللہ کے پاس بھی میاں صاحب کے شاگرد رشید مولانا عبد الحکیم جیوری رحمہ اللہ کے واسطہ سے بیک واسطہ موجود تھی اور مولانا اسرائیل ندوی رحمہ اللہ سے مجھے بھی سند اجازۂ حدیث حاصل کرنے کا شرف حاصل ہے ، یعنی اللہ کے فضل سے میاں صاحب سے بدو واسطہ مجھے بھی سند اجازہ کا شرف حاصل ہے ۔ وللہ الحمد المنہ ۔
مولانا محمد اعظمی رحمہ اللہ سے مجھے ملاقات کا شرف انکے دولت خانہ مئو ناتھ بھنجن پر ایک بار حاصل ہوا ہے اور مجھے اس بات کا افسوس ہے کہ یہ ملاقات محض ملاقات تک محدود ہے ، کاش میں نے ان سے بھی سند اجازہ حاصل کر لی ہوتی ، مولانا رحمہ اللہ کے شاگردوں کا ایک طویل سلسلہ ہندوستان اور عرب ممالک میں موجود ہے ، ان سے سند اجازہ لینے کے لئے ہندوستان کے باہر سے بھی لوگ آیا کرتے تھے اور وہ خود بھی علم حدیث کے دورات کے لئے بیرون ہند تشریف لے جایا کرتے تھے ، بعض أئمۂ حرم ملاقات کے دوران مجھ سے انکی خیریت اور احوال معلوم کیا کرتے تھے ۔مولانا رحمہ کی شخصیت بالخصوص جماعت اہل حدیث کے لئے بڑا خسارہ ہے۔
مولانا رحمہ اللہ درس وتدریس سے مستقل جڑے رہے وہ ایک کامیاب مدرس ومربی تھے ،انہوں نے بحث وتحقیق کے اہم کام انجام دیے ، بعض کتابیں بھی تالیف کیں اور چند کتابوں کا ترجمہ بھی کیا ۔
مولانا کے چھ بیٹے اور چھ بیٹیاں ہیں ، جامعہ سلفیہ بنارس کے استاذ اور معروف علمی شخصیت مولانا اسعد اعظمی حفظہ اللہ آپ کے صاحب زادے ہیں جو بڑے خلیق اور ملنسار شخصیت کے مالک ہیں ۔
اللہ مولانا رحمہ اللہ کی اللہ رب العالمین بال بال مغفرت فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق سے نوازے ۔ مولانا رحمہ اللہ کا ۱۱ جولائی ۲۰۲۳ بروز منگل طویل علالت کے بعد مئو ناتھ بھنجن میں تقریبا ۹۳ سال کی عمر میں انتقال ہوگیا ، انا للہ وانا الیہ راجعون ۔ (محمدرحمانی)

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter