بلدیاتی انتخابات:ہم ووٹ کسے دیں اور لیڈر کسے چنیں؟

صفی اللہ محمد الانصاری

14 فروری, 2022

نیپال میں بلدیاتی انتخاب بالکل قریب ہے ، 13 مئی 2022ء تاریخ بھی مقرر ہے، گہما گہمی کا ماحول ہے، لیڈران اقتدار میں آنے اور کرسی پر براجمان ہونے کیلئے پوری قوت کے ساتھ لوگوں کی نہ صرف ذہن سازی کر رہے ہیں بلکہ سیاسی داؤ پیچ اور پینل بازی بھی کر رہے ہیں نیز وہ تمام ہتھکنڈے اپنا رہے ہیں جس سے انکی جیت ہو اور برسوں کا نقصان ایک ہی لمحے میں سمیٹ لیں اور راتوں رات کھرب پتی بن جائیں تاکہ انکی اولاد تا دم حیات عیش کرتی رہے بھلے ہی قوم و سماج کا بیڑا غرق ہو جائے۔

جمہوری ملکوں میں انتخابات کا بڑا اہم رول ہوتا ہے، ووٹ کو ایک طاقت اور پاور کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، ووٹ کا تعلق براہ راست آئینی حقوق سے ہے نیز ووٹ ایک امانت ہے اور صحیح لیڈر چننے کا واحد ذریعہ بھی ہے چونکہ لیڈر سماج کو صحیح دشا میں لے جانے کا ضامن ہوتا ہے اسلئے بصیرت و دانائی کے ساتھ ووٹنگ کرنا ہر فرد کی بنیادی ذمہ داری ہے، اس سے پہلو تہی انتہائی خطرناک امر ہے ۔

اگر ہم قابل، تعلیم یافتہ، باہمت، دور اندیش اور امانتدار لیڈر کو چھوڑ کر کسی کرپٹ، بد اخلاق، بدعنوان، نا اہل، مفاد پرست اور لالچی شخص کو محض اس وجہ سے سپورٹ کر رہے ہیں کہ وہ ہمارا رشتے دار ہے، ہماری برادری کا ہے، ہمارے حلقے کا ہے یا سماج کا بڑبھیا ہے اور اس کی دولت و ثروت کا دور دور تک ڈنکا بجتا ہے تو یقین جانیں آپ عقلا و شرعاً غدار اور خائن ہیں، بچوں کے مستقبل کے دشمن ہیں، عدل و انصاف کے کے قاتل ہیں اور ملکی و سماجی ترقیات و بہبود کے سوداگر ہیں

عموماً دیکھا جاتا ہے کہ لوگ صحیح لیڈر چننے میں بڑی بھیانک غلطی کرتے ہیں، چند ٹکوں میں اپنے ایمان کا سودا کر بیٹھتے ہیں، دارو شراب اور وساطت کے نام پر جاہل نیتاوں کی خصیہ برداری کرتے ہیں اور کچھ تو ایسے ہوتے ہیں جو کئی چہرے رکھتے ہیں جہاں بھی انھیں موقع مل جاتا ہے اپنی منہ مانگی قیمت اصول لیتے ہیں ایسے لوگوں کو پہچاننے کی ضرورت ہے اور ان نیتاوں کی بھی قلعی کھولنے کی ضرورت ہے جو پیسوں کے ذریعہ ہمارا برین واش کرتے ہیں جنکے پاس نہ تو کوئی مشن اور وژن ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی ٹھوس مدعا اور ایجنڈا ہوتا ہے۔

آج کل مارکیٹ میں ایسے ایسے بزعم خویش یوا نیتا بنے گھوم رہے ہیں جنھیں نہ تو سیاسی سمجھ بوجھ ہے، نہ علمی گیرائی ہے، نہ آئینی حقوق و اختیارات کا پتہ ہے اور نہ ہی دین و عقیدہ سے کوئی مطلب ہے مگر پارٹی کے نام پر لوگ انھیں کے پیچھے دیوانے نظر آرہے ہیں، دیکھئے پارٹی کی اہمیت و افادیت اپنی جگہ پر مسلم ہے، اسکے نظریات اور آئیڈیالوجی کو دیکھنا بیحد ضروری ہے اگر پارٹی سیکولرزم اور جمہوریت کے خلاف نہ ہو اور اسکا کنڈیڈیٹ اور نمائندہ ہر لحاظ سے مناسب ہو تو بلا جھجھک اسے ہی ووٹنگ کرنی چاہئے، بیجا پارٹی کی اندھ بھکتی میں نا اہل کو کرسی پر بٹھا کر لوٹنے کھانے کا موقع نہیں دینا چاہئے، کیونکہ آج کل اتنی گندی سیاست ہو رہی ہے کہ ان نیتاوں کا خود کوئی بھروسہ نہیں ہے کہ یہ راتوں رات کون سا نقاب اوڑھ لیں گے۔

اور یہ بات بھی ذہن نشین کرنے کی ہے کہ کوئی بھی پارٹی ہمارے حق میں مخلص نہیں ہے سب کی اپنی اپنی سیاسی روٹی ہے کیونکہ جن پارٹیوں کی صحیح قیادت کا لوگ راگ الاپتے ہیں انھیں ماضی قریب میں سیکولرزم کی بنیاد اکھاڑنے کیلئے جگہ جگہ پروگرام کرتے اور مہم چلاتے دیکھا گیا ہے، اسلئے ذاتی طور پر ہماری مثبت رائے یہ ہے کہ سیاسی بصیرت و حکمت اور اجتماعیت کے ساتھ پوسٹ کے لحاظ سے کسی تعلیم یافتہ، طاقتور، باہمت اور امین شخص کو اپنا قیمتی ووٹ دیں اور اسے ہی قائد اور لیڈر بنائیں اور ایک ہی سیٹ پر نا اہلی کے باوجود آپسی منافست کرنے والوں سے ہوشیار رہیں کیونکہ یہی لوگ ہزیمت و پسپائی اور ناکامی کی بنیادی وجہ ہوتے ہیں۔

بالخصوص میئر (رئیس بلدیہ) جیسے عظیم منصب پر کسی ایرے غیرے، دھرم کی سیاست کرنے والے، نفرت پھیلانے والے اور بد عنوان شخص کو قطعاً جگہ نہیں دینی چاہیے خصوصاً ایسے شخص کو جو اپنے دور اقتدار میں چند گلیوں کی ناقص ترمیم اور مذہبی اصنام و معابد کی تأسیس کے علاوہ ڈھنگ کا کوئی کام نہ کیا ہو، اسکے ہاں تعلیم، صحت، روزگار، اقتصاد، کسانوں کا مسئلہ وغیرہ کوئی معنی نہ رکھتا ہو ایسے شخص کو دوبارہ موقع دینا سادہ لوحی اور بیوقوفی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے، نیتا وہ نہیں ہوتا کہ عوام کو اسکے پاس جاکر ویکاس کی بھیک مانگنی پڑے بلکہ نیتا اور لیڈر کی خود ذمہ داری ہے کہ وہ جس علاقے کا مسؤل ہے وہاں جاکر دورہ کرے، لوگوں کے مسائل کا جائزہ لے، ایریا کا سروے کرے کہ کہاں کس چیز کی ضرورت ہے!اور ویکاس و ترقی کیسے ممکن ہے! پھر ترجیحی بنیادوں پر ایمانداری کے ساتھ کام کرنا شروع کرے نیز مذہب و کلچر، جان و مال، عفت و نسل اور عقل و خرد پر ذرا بھی آنچ نہ آنے دے، بین المذاھب بھید بھاؤ کی فضا قائم نہ ہونے دے تب حقیقت میں وہ لیڈر ہے۔

سوال یہ ہیکہ ایسے لوگ تو عنقاء ہیں، جب دین کے ٹھیکدار ان صفات سے متصف نہیں ہیں تو پھر سیاسی لیڈران کے اندر یہ خوبیاں چہ معنی دارد؟ جواب: اہل علم قرآن کی آیت ” فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلا عَادٍ فَلا إِثْمَ عَلَيْهِ” (البقرہ/173) سے استدلال کرتے ہوئے ایک قاعدہ وضع کیا ہے کہ جہاں سارے لوگ برے ہوں اور آپ کے پاس کوئی دوسرا آپشن نہ ہو تو "أخف الضررین” کے تحت دیکھا جائے گا کہ ان میں سے سماج و معاشرے کیلئے کم ہانیکارک اور نقصاندہ کون ہے پھر اسی کو اخیتار کیا جائے گا۔
آئیے ہم شرعی قواعد و ضوابط اور نصوص کے دائرے میں اجمالاً جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ سیادت و قیادت کا اہل کون ہے؟ نیتا اور لیڈر بننے کے قابل کون ہے؟

اللہ رب ذو الجلال فرماتا ہے: "إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِين” [القصص: 26]. جنہیں آپ اجرت پر رکھیں ان میں سب سے بہتر وہ ہے جو مضبوط اور امانتدار ہو۔
یہ آیت موسی علیہ السلام کے سلسلے میں وارد ہوئی ہے جب وہ مصر سے مدین کی طرف آرہے تھے تو راستے میں دو بچیوں کے بکریوں کو پانی پلانے کا واقعہ پیش آیا جہاں موسی علیہ السلام کے اندر دو خوبیاں نظر آئیں (طاقت و قوت اور امانتداری) جس کی خبر پاتے ہی لڑکیوں کے بڈھے باپ نے انھیں طلب کیا اور متاثر ہوکر اپنے گھر کے کام پر بطور اجرت و مزدوری لگا دیا اور اپنی ایک بچی سے نکاح بھی کر دیا (ابن كثير)
اس آیت سے اہل علم نے استدلال کیا ہے کہ جس کو کوئی منصب یا ذمہ داری سونپی جائے اسکے اندر دو چیزوں کا پایا جانا ناگزیر ہے: ایک کام پر قدرت و مہارت اور دوسرے امانتداری (تفسير سعدي)
اور یہی بات عزیز مصر نے بھی یوسف علیہ السلام کے متعلق کہا تھا جس کو قرآن نے یوں نقل کیا ہے:إِنَّكَ الْيَوْمَ لَدَيْنَا مَكِينٌ أَمِينٌ} [يوسف: 54].تو آج سے ہمارے پاس عزت و مرتبہ والا اور (شاہی خزانوں کا) امین رہے گا – جنانچہ یوسف علیہ السلام نے اپنی صلاحیت و لیاقت کا ذکر کرتے ہوئے بخوشی اس ذمہ داری کو قبول کیا: "اجْعَلْنِي عَلَى خَزَائِنِ الْأَرْضِ إِنِّي حَفِيظٌ عَلِيمٌ” [يوسف: 55].آپ مجھے ملک کے خزانوں پر مقرر کر دیں کیونکہ میں حفاظت کرنے والا اور علم و خبر رکھنے والا ہوں ۔ یہاں حفیظ سے اشارہ ہے امانت کی طرف اور علیم سے اشارہ ہے تصرفات کی سمجھ بوجھ اور قابلیت و صلاحیت کی طرف۔
اسی نکتے کی جانب اللہ نے دوسری جگہ ارشاد فرمایا:
قَالَ عِفْرِيتٌ مِنَ الْجِنِّ أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَنْ تَقُومَ مِنْ مَقَامِكَ وَإِنِّي عَلَيْهِ لَقَوِيٌّ أَمِينٌ}[النمل: 39]. عفریت نامی ایک جن نے سلیمان علیہ السلام سے کہا آپ کی مجلس برخاست ہونے سے پہلے ہی میں ملکہ سباء کا تخت آپ کے پاس لے آؤنگا کیونکہ میں اس پر قدرت رکھتا ہوں اور امین بھی ہوں۔
جبرئیل علیہ السلام کی بابت بھی مذکورہ دونوں خوبیوں کی طرف اللہ نے اشارہ کیا جس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ عہدہ و منصب اور ذمہ داری کے باب میں امانتداری کے ساتھ محنت و جفاکشی، قابلیت و صلاحیت اور قوت و ہمت لازمی امر ہے چنانچہ فرمایا: ” إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ ذِي قُوَّةٍ عِنْدَ ذِي الْعَرْشِ مَكِينٍ مُطَاعٍ ثَمَّ أَمِين} [التكوير: 19 -20- 21] یہ قرآن ایک بزرگ فرشتہ کا کہا ہوا ہے جو طاقتور ہے، عرش والے کے نزدیک قوت والا ہے ، آسمان میں دیگر فرشتے اسکی اطاعت بھی کرتے ہیں اور وہ امانتدار بھی ہے ۔
مذکورہ آیتوں سے استدلال کرتے ہوئے علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: منصب و ولایت کے دو رکن ہیں (1) قوت (2) امانتداری جنکے بغیر منصب کی کوئی حیثیت نہیں اور یہ دونوں حسب ظروف مقدم و موخر کئے جائیں گے ۔۔۔۔۔الخ۔ (السياسة الشرعية /46-63)

اسی طرح سے طالوت کی قیادت و بادشاہت کو جب بنی اسرائیل نے یہ کہہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا کہ وہ تو قلاش و فقیر ہے، اس کے پاس مال و دولت نہیں ہے تب اس وقت کے پیغمبر نے کہا: إِنَّ ٱللَّهَ ٱصْطَفَىٰهُ عَلَيْكُمْ وَزَادَهُۥ بَسْطَةً فِى ٱلْعِلْمِ وَٱلْجِسْمِ (البقرہ/247) یعنی اللہ نے اسی کو تمہارے لئے سلیکٹ کیا ہے کیونکہ اس کو علم و جسم میں زیادتی عطا فرمائی ہے۔

خلاصہ کلام یہ کہ جس کسی کو بھی قوم کی ذمہ داری سونپی جائے، ووٹ دیا جائے یا اپنا لیڈر اور نیتا بنایا جائے اسکے اندر کوالیٹی دیکھی جائے، عہدے کے مطابق علمی قابلیت و لیاقت، قوت و ہمت اور ایمانداری دیکھی جائے تبھی ملک و سماج کی ترقی ممکن ہو سکے گی ورنہ کشتی بیچ سمندر میں ہچکولے ہی کھائے گی جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: إذا وُسِّدَ الأمر إلى غير أهله فانتظر الساعة» (رواه البخاري [59]) جب عہدے اور مناصب نا اہلوں کو سونپ دیے جائیں تو پھر قیامت کا انتظار کرو۔
لہذا ضروری ہے کہ جس طرح ہم اپنے بچوں کو کسی اناڑی ٹیچر کے حوالے کرنے پر راضی نہیں ہوتے اسی طرح پوری تگ و دو کریں کہ ملک و ملت اور قوم و سماج کی امانت کسی نا اہل کے ہاتھ میں قطعاً جانے نہ پائے اسی میں ہم سب کی بھلائی اور کامرانی ہے۔

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter