شیخ الاسلام محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کی دعوتی تحریک کا جزیرہ نما عرب پر اثر

ابو حماد عطاء الرحمن المدنی

16 اپریل, 2024
ایک موقع پر شیخ محمد بن عبد الوہاب مسجد نبوی میں موجود تھے۔لوگ استغاثہ و استعانت کی صداؤں میں گم تھے اورعجیب و غریب حرکتیں کررہے تھے۔ اسی لمحے تدریس حدیث کے جلیل القدر معلم محمد حیات سندی جو شیخ محمد کے استاد بھی تھے، وہاں آگئے۔ شیخ نے جاہلانہ حرکتیں کرنے والوں کی طرف اُنگشت نمائی کی اور پوچھا: ان لوگوں کی نسبت آپ کی کیا رائے ہے؟ موصوف نے معاً سورہ اعراف کی یہ آیت پڑھی:
﴿ اِنَّ هٰۤؤُلَآءِ مُتَبَّرٌ مَّا هُمْ فِيْهِ وَ بٰطِلٌ مَّا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ﴾الاعراف139
’’یہ لوگ جس کام میں لگے ہوئے ہیں، وہ باطل ہے اور نیست و نابود ہوکر رہے گا۔‘‘
مذہبی حالت کے علاوہ عرب کی سیاسی اور سماجی حالت بھی خراب تھی۔ عثمانی ترکوں کی حکمرانی کا سکہ چل رہا تھا، نجد چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹا ہوا تھا۔ خانہ جنگی عام تھی۔ فقر وفاقہ مسلط تھا۔ ترکوں کے زیر اہتمام مصر سے رقوم آتی تھیں اورمزاروں کے مجاوروں اورمتولّیوں میں بانٹی جاتی تھیں۔ لوگوں کی گزر بسر مزاروں، قبروں اور آستانوں کی مجاوری ، گداگری اور لوٹ کھسوٹ پر موقوف تھی۔ یہ حالات دیکھ کر شیخ کا حساس دل تڑپ اٹھا اور وہ لا إله إلا الله محمد رسول الله کی دعوت کا پرچم لے کر اُٹھ کھڑے ہوئے۔
شیخ  کا جذبہ حق پرستی بڑا پُرجوش تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ ان کی دعوت ہر مسلمان کے رگ و ریشے میں نفوذ کرجائے اور برگ و بار لائے۔ اُنہوں نے دعوت کا آغاز اپنے گھر سے کیا۔ ان کے والد جناب عبدالوہاب اپنے نورِنظر کی حق پرستی اور علمی وجاہتوں سے اتنے خوش ہوئے کہ اُنہوں نے خود نماز پڑھانی موقوف کردی اوراپنے داعی الیٰ اللہ بیٹے کو آگے بڑھاکر اِمامت کے مُصلے پر کھڑا کردیا۔ شیخ نے اپنے اہل خانہ، عزیز و اقارب اور عیینہ کے رہنے والوں کے علاوہ دور و نزدیک کے تمام اکابر و اصاغر کو اصل دین کی طرف رجوع کی دعوت دی۔ موصوف کا خیال تھا کہ بااثر حکام کی مدد حاصل کیے بغیر دعوت کا کام آگے نہیں بڑھے گا، چنانچہ اُنہوں نے امیر عیینہ عثمان بن معمر کو قبولِ حق کی دعوت دی تو اُس نے خوش سے قبول کرلی لیکن ملال کی بات یہ ہے کہ وہ اس عظیم دعوت پر استقامت نہ دکھا سکا۔ شیخ نے عثمان بن معمر کو اپنی رفاقت میں رکھ کر نماز باجماعت کا اہتمام کیا جو پہلے اس علاقے میں مفقود تھا۔ نماز نہ پڑھنے والوں اورجماعت کا التزام نہ کرنے والوں کے لیے سزائیں تجویز کیں۔ شرک و بدعت کے اڈّوں کا صفایا کردیا۔
جن درختوں کی پوجا کی جاتی تھی وہ کٹوا دیئے اورجن قبروں اور قبوں کو ملجا و ماویٰ سمجھا جاتاتھا، اُنہیں ڈھا دیا۔ یہ کوئی انوکھا اقدام نہیں تھا۔ حضرت عمر نے بھی بہت سے دینی مصالح کی بنا پر وہ درخت کٹوا دیا تھا جس کی چھاؤں میں جناب رسول اللہ ﷺ کے دست مبارک پر بیعتِ رضوان ہوئی تھی۔ پکّی قبروں اور قبوں کو مسمار کرنے کے بارے میں علامہ ابن حجر ہیثمی اپنی کتاب الزواجر عن اقتراف الکبائر میں فرماتے ہیں:
” وتجب المبادرة لهدمها وهدم القباب التي علىٰ القبور إذ هي أضر من مسجد الضرار ” الزواجر عن اقتراف الکبائر: ١ /١٤٩
یعنی ’’قبروں اور ان پر بنے ہوئے قبوں کو فوراً مسمار کردینا چاہیے، اس لیے کہ یہ’مسجد ضرار‘ سے بھی زیادہ خطرناک ہیں۔…واضح رہے کہ شیخ محمد بن عبدالوہاب زیارتِ قبور کے خلاف نہیں تھے۔ وہ ان مشرکانہ رسوم اورخرافات کے خلاف تھے جو قبروں اور آستانوں پر روا رکھی جاتی تھیں۔ اسی موقع پر آپ نے تبلیغی رسالے لکھنے کا سلسلہ شروع کیا جو مرتے دم تک جاری رہا۔
عیینہ میں اصلاح عقیدہ و عمل کا کام آہستہ آہستہ پھیلتا جارہا تھا کہ ایک دن ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ ہوا یوں کہ ایک لڑکی کسی کمزور لمحے میں جوانی کی بھول کا شکار ہوگئی۔ یہ لڑکی شادی شدہ تھی۔ اپنے گناہ پر بہت نادم ہوئی۔ شیخ کی خدمت میں پہنچی۔ سارا ماجرا سنایا اور سبیل نجات کی خواہش ظاہر کی۔ شیخ اس لڑکی کی روداد سن کر سنّاٹے میں آگئے۔ اُنہوں نے اس المیے کے تمام پہلوؤں کی چھان پھٹک کی اوراس بدقسمت لڑکی پر بار بار جرح کرتے رہے۔ وہ ہٹ کی پکّی تھی، ٹلی نہیں۔ رہ رہ کر اقرارِ گناہ کرتی رہی،چنانچہ شیخ نے سنگساری کا فیصلہ سنا دیا اور علاقے کے مسلم حاکم عثمان بن معمر نے مسلمانوں کی ایک جماعت کےساتھ اس لڑکی کو سنگسار کردیا۔
لڑکی کے سنگسار ہوجانے کی خبر سارے نجد میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔اس زمانے میں یہ اپنی نوعیت کا انوکھا واقعہ تھا، جس نے سنا دم بخود رہ گیا۔ خاص طورپر وہ مالدار لوگ بہت گھبرائے جو زر خرید عیاشیوں سے رت جگے کرتے تھے۔ اللہ اللہ! ربّ العزت کےاحکام کی تعمیل میں کس قدر برکتیں اور خیر کثیر چھپی ہوئی ہے، جب تک اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل نہیں کیا جاتا، اس وقت تک ان حکموں میں چھپی ہوئی زبردست حکمتیں اور فیوض و برکات بھی عیاں نہیں ہوتے۔ اس کااندازہ اسی سنگساری کے واقعے سے لگائیے کہ جونہی یہ واقعہ رونما ہوا، سابقہ حالت یکسر بدل گئی اور شیخ محمد بن عبدالوہاب کی دعوت گھر گھر پھیل گئی ۔ پہلے کوئی شیخ کی بات پر توجہ نہیں دیتاتھا، اب سبھی شیخ کی طرف متوجہ ہوگئے اور ہر جگہ انہی کی تحریک کاچرچا ہونے لگا۔
ہوتے ہوتے یہ خبر حکامِ بالا کو پہنچی۔احساء و قطیف کا حاکم اعلیٰ سلیمان بن محمد عزیز حمیدی بدمعاش اور عیاش آدمی تھا۔ اِسے یہ خبر سن کر بڑاغصہ آیا۔ اس نے امیر عیینہ عثمان بن معمر کو فوراً لکھا : مجھے معلوم ہوا ہے کہ تمہارے ہاں ایک مولوی شرعی فیصلے لاگو کررہا ہے ۔ اسے فوراً قتل کردو، ورنہ ہم تمہیں جو سالانہ بارہ سو دینار اور دیگر امداد بھیجتے ہیں، وہ بند کردی جائے گی۔ عثمان بن معمر یہ حکم نامہ پاکر سراسیمہ ہوگیا۔ اسے اپنے منصب اوردرہم و دینار چھن جانے کا خطرہ لاحق ہوا تو اس نے شیخ محمد کو عیینہ سے باہر نکل جانے کا حکم دے دیا۔
جو لوگ اللہ رب العزّت کو اپنا دل دے دیتے ہیں، ان کےلیے اپنے وطن کے مالوفات بھی کوئی کشش نہیں رکھتے۔ وہ جہاں جاتے ہیں، نیکی کے بیج بوتے ہیں اور اعمالِ صالحہ کی فصلیں تیار کرنے لگتے ہیں۔ شیخ نےجلا وطنی کا حکم صبر اور سکون سے سنا۔ وہ بڑی بے بسی اور تہی دامنی کی حالت میں عیینہ سےنکلے۔ درعیہ کا قصد کیا۔ بے آب و گیاہ صحرا کی وسعتیں تھیں، شدید گرمی تھی، کڑی دھوپ پڑ رہی تھی اور شیخ  تنہا بہ تقدیر پیدل چلے جارہے تھے  پیچھے پیچھے عثمان بن معمر کا فرستادہ سپاہی فرید طفیری گھوڑے پرسوار چلا آتاتھا۔ اس نے ویرانے میں شیخ کو قتل کرنےکے لیےہاتھ اُٹھانا چاہا مگر اللہ کی ایسی زبردست نصرت آئی کہ وہ اس مذموم ارادے سے خود ہی ڈر گیا اور الٹے پاؤں عیینہ بھاگ گیا۔
شیخ محمد بن عبدالوہاب درعیہ پہنچے ۔ امیر درعیہ محمد بن سعود اور ان کےبھائیوں نے شیخ کا پرتپاک خیر مقدم کیا۔ موصوف نے محمد بن سعود کو بھی دعوتِ حق کی ترغیب دی جو اس نیک بخت انسان نے قبول کرلی۔ یوں شیخ محمد بن عبدالوہاب اورخاندانِ سعود میں باطل عقائد کے خاتمے اوراللہ کے دین کے نفاذ کے لیے وَتَعَاوَنُوا عَلیٰ الْبِرِّ وَالتَّقْوَی کا معاہدہ طے پاگیا۔ اس کی برکت سے وہ عظیم الشان انقلاب ظہور میں آیا کہ خاندانِ سعود کو اللہ تعالیٰ نے پورے ملک کی فرمانروائی عطا کردی۔ اور سارے جزیرہ نمائے عرب سے شرک و بدعت اور مکروہات و خرافات کا خاتمہ ہوگیا۔ آج وہاں توحید کے زبردست حسنات و برکات کا کھلے عام مشاہدہ ہورہا ہے۔ الحمدللہ! دنیابھر میں کہیں اتنا امن و استحکام اورعدل و انصاف موجود نہیں جتنا سعودی عرب میں ہے۔ یہ سب کچھ شرک و بدعت کے خاتمے اور دین قیم کے نفاذ کا فیضان ہے۔
کسی دعوے یا دعوت کی سچائی پرکھنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اس کے داعی کا عمل دیکھا جائے اور یہ جانچا جائے کہ وہ دنیاوی شان و شوکت ، مال و زر،اونچے عہدے اور نفسانی مطلوبات و مرغوبات کا دل دادہ تو نہیں ہے؟ اگر وہ ان چیزوں سے دور ہے تو یقیناً سچا ہے۔ اس کسوٹی پر شیخ محمد کو پرکھا جائے تو وہ کامل معنوں میں سچے، کھرے، مخلص، بےلوث اورمثالی مسلمان نظر آتے ہیں۔ بے داغ صداقت کی وجہ سے تمام اہل نجد شیخ محمد کے فدائی بن گئے تھے اورشیخ کےکردار کی بلندی اور دعوت کی سچائی کی بدولت سارا نجد شیخ کی زندگی ہی میں خاندانِ سعود کے زیر نگیں آگیاتھا۔ امیر محمد بن سعود اور ان کے جانشین امیر عبدالعزیز شیخ کی راہوں میں آنکھیں بچھاتے تھے اور اُن سے مشورہ کیے بغیر کوئی کام نہیں کرتے تھے۔ مگر شیخ نے اپنے اس عالی رتبے سے کبھی کسی قسم کا کوئی فائدہ نہیں اُٹھایا۔ وہ دعوت الیٰ اللہ ہی کے فروغ کی دھن میں سرگرمِ عمل رہے۔ کسی اونچے منصب، عیش و راحت یا دنیاوی مال و دولت کی طرف نگاہ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔ اُنہوں نے اپنی اولاد کو بھی اعلیٰ درجے کی دینی تعلیم و تربیت دی اوردنیاوی جاہ و حشم اور مال و زر کی طمع سے دور رکھا۔ اللہ کا کتنا بڑا کرم ہے کہ آج بھی ان کی اولاد و احفاد سعودی عرب میں عظیم دینی خدمات انجام دے رہی ہے اورکسی دنیاوی منصب یا منفعت سے کوئی تعلق نہیں رکھتی۔ شیخ کی اولاد سعودی عرب میں’آل شیخ‘ کے نام سے معروف ہے اور انتہائی عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے۔
تاریخ شاہد ہے کہ دنیا میں جب بھی دعوتِ حق کا ظہور ہواہے، اس کا واسطہ تین طرح کے لوگوں سے پڑا ہے:
1۔ وہ لوگ جنہوں نےد عوت قبول کرلی۔
2۔ وہ لوگ جنہوں نےقبول نہیں کی اورچُپ چاپ اپنی ڈگر پر چلتے رہے۔
3۔ اور تیسری قسم ان لوگوں کی ہے جنہوں نے نہ صرف دعوت قبول نہیں کی بلکہ وہ داعی اور دعوت کے دشمن بن گئے اور آخر دم تک دعوت حق کا چراغ بجھانے کی مذموم کوشش کرتے رہے۔
ہر داعی حق کی طرح شیخ محمد بن عبدالوہاب پر بھی یہی ماجرا گزرا۔ انہوں نے کوئی نئی چیز پیش نہیں کی۔ اُن کی ساری دعوت، تمنا اور تڑپ صرف یہ تھی کہ مسلمان فضول باتیں ترک کردیں۔ قرآن و سنت کی طرف پلٹ آئیں اور سچّے عملی مسلمان بن جائیں۔
فرنگی سامراج، ترکی اورمصری مدتوں شیخ  پر رکیک حملےکرتے رہے۔ ان کی کمک پر مامور یا مجبور علما مزاروں کی آمدنی سے مالا مال پیر فقیر، ان کے مرید اور متوسلین بھی کم و بیش ڈھائی سو سال سےالزام و دشنام کے تیر برساتے آرہے ہیں۔ اگر ایک انسان کا قاتل پوری انسانیت کا قاتل ہے تو شیخ محمد کی دعوتِ حق پر جھوٹے الزامات لگانے اورسچائی کا خون کرنے والوں کو کیاکہاجائے گا؟
اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت دے اور صحیح سمجھ عطا فرمائے۔
ابو حماد عطاء الرحمن المدنی

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter