علیحدہ مسلم سیاسی پارٹی، صرف انتشار وتفرقہ پھیلانے کا سبب بنے گی

ڈاکٹر عبد اللہ فیصل

1 فروری, 2022

مسلمانوں کے نام سے قائم کی جانے والی سیاسی پارٹیاں کتنا مفید ہیں اور کتنا مضر ہیں اس کا اندازہ دوران الیکشن ہوتا ہے اور مضر اثرات بھی متب ہوتے ہیں.یہ مسلم پارٹیاں دو طرح سے بی جے پی کو فائدہ پہنچاتی ہیں. ان پارٹیوں کو سامنے رکھ کر بی .جے پی. اپنے ووٹوں کو متحد کرتی ہے. اور ان پارٹیوں کا مقصد بی جے پی کےخلاف ووٹو ں کو تقسیم کر دیتی ہیں .جس سے بی .جے پی.کو براہ راست فائدہ ہوجاتا ہے.

ہم کسی کی نیت پر شبہ نہیں کرتے ہیں لیکن یقینی طور پر کچھ پارٹیاں ایسی ہیں جن کو بی جے.پی باقاعدہ مدد کرتی ہے اور کچھ پارٹیاں نادانستہ طور پر ہی سہی بی.جے .پی. کا آلہء کار بن گئ ہیں. جو پارٹیاں انجانے میں بی. جے .پی کو فائدہ پہنچانے کاسبب بن رہی ہیں ان سے ہم گزارش کریں گے کہ وہ اللہ کے واسطے اپنے اس روش سے باز آجائیں. اور جو پارٹیاں اس کے بعد بھی ووٹ تقسیم کرانے کے درپہ ہیں تو پھر مسلمانوں کہ یہ ذمہ داری ہوجاتی ہے کہ وہ ان کو مسترد کردیں.
"آل انڈیااتحاد المسلمین” کے نام سے بھی فرقہ پرستی کی بو آتی ہے اس کی موجو دگی سے فرقہ پرست متحد ہوجائیں گے.
لیکن مسمان انتشار کے شکار رہیں گے. کہیں مسلک کے نام پر کہیں ذات برادری کے نام پر مسلمان متحد نہیں ہو پاتے. ایسا نہیں کی سارے ہندو متحد ہی ہیں. بلکہ ان میں شدید اختلافات ہیں ذات برادری کے نام پر اتنی دوریاں ہیں ان میں زبردست خلیج پائ جاتی ہے برہمن ٹھاکر میں اختلاف دلت اور دیگر پسماندہ ذات وبرادریوں میں اختلافات موجود ہیں..برہمن اور دلتوں میں جو دوریاں ہیں وہ سیاسی ہی نہیں سماجی ومذہبی بھی ہیں. مندروں میں دلتوں وچماروں کا جانا سخت ممنوع ہے.سیاسی مفاد کے لئیے اب کہیں کہیں ڈھیل ہے لیکن پوجا پاٹ کی قطعی اجازت نہیں ہے.
سابق مرکزی وزیر اور دلتو ں کے مسیحا جگجیون رام بنارس کے مند ر میں گئے تو وہاں کے پانڈوؤں نے زبردست احتجاج کیا اور مندر کو گنگا جل سے دھویا پھر گؤ متر چھڑکا اور ہھر سیکڑوں لیٹر دودھ سے دھویا تب ان کی نزدیک ہوتر ہوا ایک دلت جو معروف شخصیت تھی کابینی وزیر تھے ان کے ساتھ ایسا سلوک ہوا تھا تو اوروں کے ساتھ کیا برتاؤ کیا جاتا ہوگا.

مسلم نام کی سیاسی پارٹیاں سماجی کام میں حصہ لیں اس طرح کی تنظیمیں خدمت خلق اور مذہب کے شعبے میں توسر گرم رہ سکتی ہیں لیکن سیاست میں یہ کسی طرح مناسب نہیں ہیں.
"مسلم مجلس’، مجلس مشاورت اور مسلم لیگ کا بھی تجربہ رہا ہے جس سے نادانستہ طور پر ہی سہی بہت تلخ رہا ہے.
"آل انڈیا مسلم مجلس” کے بانی ڈاکٹر عبد الجلیل فریدی کی نیت پر شک وشبہ نہیں وہ بھی مسلمانوں کی سیاسی بے وزنی دور کرنا چاہتے تھے. لیکن کچھ سیٹیں تو حاصل کر لئیے تھے لیکن مستقل پائدار مضبوط قیادت ابھر نہ سکی کہ دوسری قومیں ان سے جڑ نہ سکیں.مسلم نام کی وجہ سے دوسرے برادری کے لوگ نذیک ہونے کے بجائے دور ہوتے گئے. ڈاکٹر عبد الجلیل.فریدی صاحب ہی قائدانہ صلاحیت کے مالک تھے بڑے بڑے سیاست داں ان کی بے پناہ مقبولیت وہر دلعزیزی سے پریشان تھے. وہ دور کچھ اور تھا یہ دور کچھ اور ہے. سیاسی فرقہ پرستی اتنی زیادہ نہیں تھی نہ سیاسی پارٹیوں کی اتنی بڑی زیادہ تھی.ہر ذات برادری کے نمائندے مرکز وریاستوں کی حکومتوں میں شامل ضرور تھے لیکن ان کی حیثیت ایک غلام کی تھی.
یادو، دلت ،پاسی ،ودیگر برادری کے قائدین سیاسی طور پر ابھرے انہوں نے سیاسی پارٹیاں بنا ئیں نام سیکولر رکھا برادری کے نام پر سیاسی پارٹی نہیں بنائ تمام برادریوں کو ہارٹی میں نمائندگی دی ان کو پارٹی شامل کیا لیکن کام سب سے زیادہ اپنی برادری کا کیا اگر یہ لوگ ذات برادری کے نام پر پارٹی کا نام رکھتے تو سیاسی طور پر بے موت مر جاتے اقتدار حاصل کرنا بہت دور کی بات تھی.

جن سنگھ (بی جے پی کا پرانا نا م) نام ایسا ہو جو سیکو لر ہو ہندو مسلم سکھ عیسائ پنڈت ٹھاکر سب ذات برادری کے لوگوں کے لئیے قابل قبول ہو.
بی.جے.پی.بھارتیہ جنتا پارٹی. سیکولرنام ہے. کام جو بھی ہو.

ہوسکتا ہے کی "آل انڈیاتحاد المسلمین” کے صدر اویسی صاحب کی نیت میں خلوص ہو وہ مسلمانوں کا بھلا کرنا چاہتے ہوں لیکن اس کا سیدھا فائدہ بی جے ہی کو ہوجاتا ہے. اسد الدین اویسی اکبر الدین اویسی کے بھاشن سے مسلم ووٹ بھلے نہ اکھٹے ہوئے ہوں لیکن ہندو ووٹ ضرور متحد ہو گئے ہیں.

آئندہ سال 2022 کو ہونے والے اترپردیش اسمبلی انتخاب کو مسلمانوں میں لیڈر شپ پیدا کرنے کا بہترین موقع ہے. اترپردیش میں مسلمان اگر چاہیں تو اپنے دم خم پر کم و بیش سو سے زائد سیٹوں پر انتخاب جیت سکتے ہیں۔ اور برادران وطن کو ملا کر اور سیٹیں بھی حاصل کر سکتے ہیں.

جب تک مسلمان سیاسی معاہدہ نہیں کریں گے۔اس وقت تک سیاسی بے وزنی دور نہیں ہوگی.مسلمانوں کے بیشتر مسائل ہیں ان کی سیاسی بے وزنی، عدم اتحاد، مسلکی انتشار اور سیاسی خلفشار ہے۔ ملک کی سیاسی پارٹیوں میں مسلمانوں کی ایک حیثیت صرف ایک مہمان اور کرایہ دار کی طرح ہوتی ہے کچھ عزت تو مل سکتی ہے لیکن کوئی حق نہیں ملتا۔

ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے اندر سیاسی شعور پیدا کریں اتحاد کا دامن کسی صورت میں جانے نہ دیں۔ جس طرح دلت کانشی رام کے بینر کے تلے جمع ہوگئےآج دلت سیاسی طور پر مضبوط ہوگئے سیاسی، سماجی، تعلیمی اور اقتصادی معاملے میں مسلمان آج دلتوں سے بدتر ہوگئے ہیں جیسا کہ سچر کمیٹی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے، اس کے لئے ذمہ دار صرف ہماری سیاسی بے وزنی ہے۔  صدیوں سے ستائے ہوئے دلت چمار جب اپنا مقام حاصل کرسکتے ہیں تو مسلمان کیوں نہیں .
دلتوں کی بات ہر سطح پر آج اس لئے کی جاتی ہے اور سنی جاتی ہے کیوں کہ ان کے پاس لیڈرشپ اور سیاسی قوت ہے ۔ ایسا نہیں کی اور پارٹیوں میں دلت نہیں ہیں سارے دلت ایک ہی جگہ جمع ہیں. لیکن ان کے پاس بہوجن سماج پارٹی ہے جس سے دوسری پارٹیاں خوف زدہ ہو کر دلتوں کو نمائند گی دیتی ہیں.آ زادی کے بعد مسلمان صرف سیاسی پارٹیوں کے آلہ کارا ور ووٹ بینک بنے رہے اور ان سیاسی پارٹیوں نے مسلمانوں کو فرقہ پرستوں سےخوف زدہ کرنے کے علاوہ کوئی کام نہیں کیا اور نہ ہی ان میں کوئی لیڈر پیدا ہونے دیا مسلمانوں نے سیاسی پارٹی بنائ تو مسلم نام سے جس کی وجہ سے دوسری قومیں جڑ نہ سکیں اور فرقہ پرستی کا لیبل لگ گیا. مسلمان سیاسی بے وقعتی کا شکار ہوگئے.

اترپردیش کا آنے والا انتخاب ایک بہترین موقع ہے اور مسلمان اپنی سیاسی شعور کا ثبوت پیش کرتے ہوئے اپنے کھوئے ہوئے سیاسی وقار کو حاصل کر سکتے ہیں جس سے سیاسی بے وزنی دور ہوسکتی ہے.
سرکاری اعدادوشمار کے مطابق مسلمانوں کی آبادی پندرہ فیصد ہے اور ایک سو پندرہ 115 لوک سبھا سیٹوں پر ہارجیت کا فیصلہ کرسکتے ہیں.

ہندستان میں جتنی ریاستیں ہیں وہاں کی تہذیب وثقافت ان کے مسائل بھی جدا ہیں زبان ونسل کا مسلہء، کسی بھی علاقےاور ملک کی تقسیم نسلی ولسانی بنیادوں پر ہوئ ہے اور ہوتی رہے گی. ملک کے صوبے بھی انہیں بنیادو ں پر بنے ہیں مذہبی بنیادوں پر نہیں. گرچہ مذہبی اشتعال دلاکر سیاسی پارٹیاں ووٹ حاصل کرلیتی ہیں.

آزادی کے بعد مسلمانوں کے مسائل سنگین ہوتے گئیے اور سیاسی پارٹیوں نےانہیں ووٹ بینک کے
طور پر استعمال کیا.
مسلم سیاسی پارٹیوں نے بھی وقتی طورمسلمانوں کو جذبات میں مبتلاء کر کے کچھ سیٹیں حاصل ضرور کرلیں تھیں لیکن اس سے ناقابل تلافی نقصانات بھی ہوئے ہیں.
مسلم پارٹیوں کے رہنما مسلمانوں کو متحد کر نے کا اعلان تو کرتے ہیں پر خود متحد نہیں ہوتےالبتہ ہندو متحد ہوجاتے ہیں.

مسلم نام سے سیاسی پارٹی ہرگز کامیاب نہیں ہو سکتی ہے دیگر قوموں کو بغیر ملائے ہوئے کامیابی ناممکن ہے.اور نہ سیاسی بے وزنی دور ہوسکتی ہے.
مسلم لیگ، آل انڈیا اتحاد المسلمین، آل انڈیا مسلم مجلس وغیرہ نام رکھ کر مسلمانوں کےعلاوہ دوسری قوموں سے ووٹ کی توقع کرنا عبث ہے.
بی جے.پی. کا پرانا نام جن سنگھ تھا .ہندو مھا سبھا تھا. یہ لوگ جن سنگھ کے نام سے الیکشن لڑتے تھے. مشکل سے دوسیٹیں پارلیمنٹ کی جیت پاتے تھے. اٹل بہاری واجپائ نے محسوس کیا کہ یہ نام فرقہ پرستی کو ہوا دیتی ہیں دوسری ذات برادری کے لوگ جڑ نہیں پاتے ہیں دلت ودیگر پسماندہ طبقات دور ہیں انہوں نے "جن سنگھ” کا نام بدل کر "بھارتیہ جنتا پارٹی "رکھا دیا تھا اور سیکولر نام پر رجسٹریشن کروایا تھا.

آج جمہوریت کی جڑیں کمزور ہوگئیں ہیں اور کمزور کرنے میں نام نہاد سیکولر پارٹیوں کا بھی اہم رول ہے.جو اپنے آئیڈیا لوجی ہرالیکشن میں تبدیل کرتی رہتی ہیں. سیکولر پارٹیوں کا کرداد انتہائ گھناؤنا ہے فرقہ پرستی کے خلاف جنگ کر نے والی پارٹیاں ان کا کھل کر ساتھ دیتی ہیں. جو یوپی اے میں شامل تھیں وہ پارٹیاں این. ڈی.اے میں بھی شامل ہوجاتی ہیں. وہ سیاسی مفاد کے لئیے تبدیل ہوتی رہتی ہیں. انہوں نے بی.جے.پی.سے سیاسی سمجھوتہ کر کے کئ بار حکومت بنائیں. بی جےپی کو اچھوت سمجھا جاتا تھا پہلے بی جے پی والے مندر مسجد فرقہ پرستی کی بات کرتے ضرور تھے لیکن انہیں یہ خوف لاحق تھا کی کہیں دوسری ذاتیں دورنہ ہوجائیں.
مسلم لیگ. کیرلا
آل انڈیا مسلم مجلس حیدرآباد
آل انڈیا علماء کونسل. یوپی.
یہ پارٹیاں اپنی ریاستوں تک محدود ہیں اور نام سے دوسری قومیں جڑنے کے بجائے فرقہ پرست و نفرت پیدا کرنے والی پارٹیا ں سمجھتی ہیں
پیس پارٹی. یوپی میں حکومت سازی میں اہم رول ادا کرسکتی تھی لیکن گزشتہ الیکشن میں بھیانک غلطی کی تھی جس کی سزا آج بھگت رہے ہیں. لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائ.
پیپلز پارٹی. نیشنل کانفرنس پارٹی. کشمیر میں حکومت کر چکی ہیں
یو.ڈی.ایف. آسام
یہ پارٹیاں سیکولر نام سےہیں گرچہ اس کے صدر مسلم ہیں دوسری ذات برادری کے لوگ جڑ سکتے ہیں اور جڑے بھی ہیں. آسام میں گرچہ بی.جے.پی.کی حکومت ہے لیکن یو. ڈی.ایف سے مسلمانوں کی سیاسی بے وقعتی دور ہوئ ہے.

اگر ملائم سنگھ "یادو” پارٹی کانشی رام "دلت یا چمار” پارٹی رکھ دیتے تو کامیاب نہیں ہو پاتے.
اگر بی.جے.پی.ہندو پارٹی.
یا برہمن پارٹی یا ٹھاکر پارٹی بنا دیتے تو کوئ بی جےپی بھی اقتدار سے دور رہتی. ان سیاست دانوں نے ذات برادری کے نام پر پارٹی نہیں بنائ نہ کمیونل نام رکھا. اس لئیے تمام قوموں اور جماعتوں کی بات کرتے ہیں اور بلاتفریق تمام مذاہب کے لوگ ان سے جڑے ہیں.لیکن جن پارٹیوں کے نام میں ہندو یا مسلمان نام ہیں وہ ناکام ثابت ہوئ ہیں.وقتی طور پر مذہبی جذبات بھڑ کا کر کے کچھ سیٹیں جیتی جاسکتی ہیں لیکن دیر تک سیٹیں نہیں رہ سکتی ہیں. اکھلیش یادو جب یوپی کے وزیر اعلیٰ تھے تو مختلف پارٹیوں سے اسمبلی میں کم وبیش پچہترمسلمان چن کر آئے تھے. لیکن بے وقعت تھے. کسی ایک سیکولر سیاسی بینر تلے جیت کر اتنی تعداد میں آجائیں تو تمام پارٹیوں کے لیڈران قدم بوسی کریں گے.اور سیکولر نام کے بینر سے جیت دوسری ذات برادری کے لوگ بھی مسلم قوم کا سیاسی وزن بڑھا سکتے ہیں. مسلمانوں کی سیاسی بے وزنی اسی وقت دور ہوسکتی ہے جب ہم ان سیاسی جماعتوں سے معاہدہ کریں. اور ان پارٹیوں مضبوط بنائیں جو دھرم یاذات برادری کے نام سے نہ ہوں سیکولر نام ہو ں تاکہ دوسری قومیں وبرادری کے لوگ بھی جڑ سکیں.
آج تمام برادری کےلوگوں میں مظلوم، مجبور، غریب، پسماندہ دیگر طبقات میں بھی ہیں. بی.جے.پی جیسی فرقہ پرست پارٹیوں سے پریشان ہیں .عاجز ہیں.اگر صرف مسلمانوں کی بات کی جائےگی تودوسرے لوگ نہیں جڑیں گے جس طرح سے ہندو "مہاسبھا” جن سنگھ یا کسی ہندو نام کی سیاسی پارٹی سے مسلمانوں کو الرجی ہے اسی طرح سے دوسرے لوگ کسی بھی ذات دھرم کے ہوں اعلیٰ ذات کے ہندو ہوں یا پسماندہ طبقات کے لوگ ہوں مسلم نام کی سیاسی پارٹی سے نفرت ہے.مسلمانوں کے خلاف اشتعال دلانے میں کمیونل لوگوں کا موقع فراہم یہ مسلم نام کی پارٹیاں کرتی ہیں. مسلم نام کی سیاسی پارٹیاں سیاست میں حصہ نہ لیں سماجی کام کریں اور سیاست میں دخل انداری کرنے سے گریز کریں ورنہ مسلمان سیاسی اعتبار سے کمزور ہیں مزید اور کمزور ہوجائیں گے.
مضموم نگار: المصباح کے ایڈیٹرہیں9892375177
almisbah98@gmail.co

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter