مدارس دینیہ کی تعلیم اورشرق وغرب کی تقسیم

مولانا شمیم احمد ندوی

19 دسمبر, 2021

یہ بات شک وشبہ سے بالاترہے کہ ہمارا دین اسلام ایک آفاقی مذہب ہے، وہ جہاں زندگی سے تعلق رکھنے والے تمام پہلوؤں پرمحیط ہے وہیں اس کافیض پوری دنیا کے لیے عام ہے، وہ جغرافیائی حدودوقیودسے بالاترہے، اس کاپیغام ہمہ گیر اوراس کاوجودپوری دنیاکے لیے ایک بشارت ہے اور اس کی دعوت عالم انسانیت کے لیے باعث رحمت ہے۔
ہم یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ اسلام کواس کی حیات بخش تعلیمات کے ساتھ کسی بھی خطہئ ارض میں محدودنہیں کیا جاسکتا بلکہ اس کی خوشبوپوری دنیا کے لیے ہے اورپوری دنیا میں پھیلتی ہے اوراپنی آفاقیت اورہمہ گیری کالوہامنواتی ہے، ایک مسلمان کانعرہئ مستانہ اوراس کا تصوروطن ہے ع
ہرملک ملکِ ماست کہ ملک خدائے ماست
اسی تصوروطن کے تحت شاعرمشرق علامہ اقبال نے کہاتھا ؎
چین وعرب ہماراہندوستان ہمارا
مسلم ہیں ہم وطن ہے ساراجہاں ہمارا
وطن کے ساتھ محبت انسان کی فطرت میں شامل ہے اوریہ جذبہ محموداور قابل تحسین ہے لیکن یہی محبت جب اس قدربڑھ جائے کہ اسلام کی محبت سے نبردآزمااورمتصادم ہوجائے تواس کوکبھی بھی قابل تعریف نہیں سمجھاجاسکتا بلکہ علامہ اقبال نے تواس کومذہب کے کفن سے تعبیرکیاہے اور بڑی ہی سختی کے ساتھ کہاہے ؎
ان تازہ خداؤں میں بڑاسب سے وطن ہے
جوپیرہن اس کاہے وہ مذہب کاکفن ہے
آدمی کاتصور وطن مختلف ہوسکتاہے،کوئی اپنے گھربار، اپنے گاؤں اوراپنے شہرہی کواپناوطن سمجھتاہے،کوئی اپنے صوبہ کو، کوئی اپنے خطہ کواورکوئی اپنے ملک کواپناوطن سمجھتاہے، اپنے علاقہ اوراپنے خطہ یاصوبہ کووطن سے تعبیر کرنے کی مثال کوہندوستان کے عروس البلادممبئی میں برسرروزگاریوپی وبہار کے لوگوں کی تعبیرات میں محسوس کیاجاسکتاہے، وہ اپنے صوبہ کو اپناوطن کہتے ہیں اورکچھ لوگ تواپنے وطن اورگھر اوراپنے صوبہ کوملک سے بھی تعبیرکرتے ہیں،چنانچہ ان میں سے بعض لوگ جب ممبئی سے یوپی وبہارمیں آنے لگتے ہیں توکہتے ہیں ”مُلک جارہے ہیں۔“
اگرچہ کم پڑھے لکھے لوگوں کاہی تصوروطن کچھ اس طرح کاہوتاہے کہ وہ اسے علاقہ وخطہ اورصوبہ میں محدود مانتے ہیں جب کہ تعلیم یافتہ لوگ پورے ملک کواپناوطن سمجھتے ہیں اوریہی درست ہے، لیکن ایک مسلمان اس قدروسیع النظر اوروسیع القلب ہوتاہے کہ پوری دنیاکواپناگھر اوراپنی جولاں گاہ سمجھتاہے، وہ جغرافیائی حدود وقیودکا شکارنہیں ہوتا بلکہ اسلام کی آفاقیت کاجھنڈاپوری دنیامیں بلندکرنے کاخواہش مندہوتاہے اس طرح مسلمان شرق وغرب اورشمال وجنوب کابھی پابندنہیں ہوتا، وہ اس درویش خدامست کی طرح ہوتاہے جس کے بارے میں کہاگیا ؎
درو یش خدامست نہ شرقی ہے نہ غربی
گھرمیرا نہ دلی،نہ صفا ہاں،نہ سمرقند
ہمارے مذہب اسلام میں تعلیم کی جواہمیت ہے وہ اہل علم ہی نہیں عامۃ الناس پربھی مخفی نہیں، اللہ اوراس کے رسولﷺ نے علم وجہل اورعلماء وجہلاء کافرق اچھی طرح سمجھادیاہے، قرآن کریم کی آیات مبارکہ میں بھی علماء دین کے تفوق وبرتری کوواضح کیاگیاہے، اورعلماء وجہلاء کومساوی درجہ دیے جانے کی یہ کہہ کرنفی وتردیدکی ہے (… قُلْ ہَلْ یَسْتَوِیْ الَّذِیْنَ یَعْلَمُونَ وَالَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُون…) (الزمر:۹)اوراحادیث مبارکہ میں یہ کہہ کر علماء کے درجہ ومقام کومتعین کیاگیاہے کہ وہ انبیاء کے وارث وجانشین اوران کے دعوتی مشن میں ان کے نائبین ہیں جیساکہ ارشادنبوی ہے”العلماء ورثۃ الأنبیاء“۔
علم کی اسی اہمیت کے پیش نظراسلام کے نام لیواؤں نے تاریخ کے ہردورمیں اوردنیا کے ہرخطہ میں علوم دینیہ کی روشنی کوعام کرنے کی کوشش کی ہے، اس کے لیے مختلف وسائل وتدابیر اختیارکیے ہیں،گاؤں گاؤں،قریہ قریہ اوربستی بستی تعلیم دین کے لیے چھوٹے بڑے مکاتب قائم کیے ہیں،جب کہ بڑے شہروں اوردوردراز علاقو ں میں دین کے قلعے تعمیرکیے ہیں اوراعلیٰ شرعی تعلیم کاانتظام کیاہے،مسلمان فرماں رواؤں اور حاکمان وقت نے اپنے اپنے عہدمیں دینی تعلیم کی سرپرستی کی ہے اورمسلم نونہالوں کوشرعی علوم کے زیورسے آراستہ کرنے کے لیے اپنے خزانوں کے منہ کھول دیے ہیں،تعلیم کے اعلیٰ مراکز میں طلبہ دوردراز کا سفرکرکے کشاں کشاں حاضرہوتے ہیں اور طلب علم کے تقاضوں کوپوراکرتے اورعلوم دینیہ کے چشمہئ صافی سے سیراب ہوتے ہیں۔
حصول علم کے اس عظیم مقصدکی خاطرطلبہ دوردراز کا سفرکرتے اورہرطرح کی مشقتیں برداشت کرتے آئے ہیں، بھوک پیاس کی شدت، اورطرح طرح کی مشقت کوکبھی خاطر میں نہیں لائے،موسموں کی سختی، دھوپ کی تمازت، بادِزمہریرکے جھونکے اورطوفانِ بادوباراں کی ہولناکی سے ان کے پائے ثبات میں لغزش نہیں پیداہوئی، مولاناحالیؔ نے اپنی مشہورزمانہ مسدس میں ایسے مشتاقان علم اورطالبان علوم نبوت کی علم کے تئیں بے تابی ووارفتگی کوبیان کیاہے اوراس وقت اسلامی دنیامیں واقع علوم وفنون کے مراکز کاذکرکیاہے جہاں دنیاکے دوردراز گوشوں سے طلبہ آکراپنے علم کی تشنگی دورکرتے تھے، اورانتہائی پرمشقت اسفار کرتے تھے،ان کے آہنی عزم کے آگے ملکوں وبراعظموں کے فاصلے مٹ گئے تھے اوران کے جوش وجذبہ کے آگے وقت کی طنابیں سمٹ گئی تھیں اوران کوتحصیل علم کے شوق نے ایسی لذت پروازعطاکی تھی کہ وہ پاپیادہ ہزاروں میل کاسفرکرتے ہوئے بھی اپنے کوتازہ دم محسوس کرتے تھے اورہرناممکن کام کوممکن کرکے دکھادیتے تھے سچ ہے ؎
دے ولولہئ شوق جسے لذت پرواز
کرسکتاہے وہ ذرّہ مہ ومہرکوتاراج
ایسے ہی ولولہئ شوق سے لبریزومالامال طلبہ کے بارے میں مولاناالطاف حسین حالیؔ نے ”مدوجزراسلام“ میں چند اشعارکچھ اس طرح کہے ہیں ؎
کرویاداپنے بزرگوں کی حالت
شدائد میں جوہارتے تھے نہ ہمت
جہاں کھوج پاتے تھے علم وہنرکا
نکل گھرسے لیتے تھے رستہ ادھرکا
عراقین وشامات وخوارزم وتوراں
جہاں جنس تعلیم سنتے تھے ارزاں
وہیں پہ سپرکرکے کوہ وبیاباں
پہنچتے تھے طُلاّب افتاں وخیزاں
علامہ حالیؔ علیہ الرحمہ نے ان مذکورہ بالااشعارمیں ان طالبان علوم نبویہ کے ذوق وشوق اورحصول علم کے لیے ان کی محنت ومشقت کوبیان کیاہے جنھوں نے طلب علم میں دوردراز کے اسفارکیے اورگوہرعلم سے اپنے دامن مرادبھرلیے، اوریہ اس وقت کا حال ہے جب ذرائع آمدورفت محدود اوراسباب نقل وحمل کم یاب یا نایاب تھے، بیشترسفرپیدل طے کرنا پڑتاتھا یاگھوڑوں، اونٹوں وخچروں پرآندھی وطوفان کامقابلہ کرتے ہوئے،موسموں کی ناہمواریوں سے نبردآزمارہتے ہوئے اور بھوک پیاس اور تکان کی مشقت برداشت کرتے ہوئے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے شوق علم اورطلب حدیث کے بارے میں ان کے سوانح نگاروں نے لکھاہے کہ انھوں نے طلب علم میں مجموعی طورپرکم ازکم اٹھارہ ہزار میل کاسفرکیا،جوبخاراوتاشقندسے لے کرمغربی ایشیاء سے ہوتے ہوئے شمال مشرقی افریقہ تک پھیلاہواتھا، ان میں سے سفرکا بڑا حصہ انھوں نے پیدل طے کیا، اوربعض شہروں اورعلم کے مراکز میں باربارحاضری دینی پڑی، یہی وہ محنتیں تھیں جن کی بدولت علوم وفنون کے بیش بہاخزانوں کی حفاظت ممکن ہوپائی، اور طلب علم کایہی وہ جذبہئ صادق تھا جس کے طفیل صحیح بخاری جیسی مہتم بالشان تصنیف وجودمیں آئی جواصح الکتاب بعد کتاب اللہ قرارپائی۔
طلب علم کی راہ میں ہمارے اسلاف نے جو مصائب ومشکلات برداشت کیے اورآمدورفت کے وسائل کی قلت کے باوجود دوردراز کے اسفار کیے وہ اسی وجہ سے ممکن ہوا کیونکہ علوم شرعیہ کی ان کی نظروں میں جوغیرمعمولی اہمیت اورقدرومنزلت تھی وہ ایک جذبہ صادق بن کرہمیشہ ان کے سمندشوق کوتازیانہ لگاتارہا۔
ہماراملک نیپال دنیاکے نقشہ پرایک چھوٹاساملک ہے جودوبڑے طاقتوراور وسائل سے مالامال ملکوں ہندوچین کے درمیان واقع ہے لیکن اپنے مخصوص قدرتی اورجغرافیائی حالات کی وجہ سے دنیامیں ایک خاص اہمیت رکھتاہے، یہاں مسلمان ایک چھوٹی سی اقلیت کی حیثیت سے رہتے ہیں جن کی تعداد ملک کی غالب اکثریت کے درمیان ۵/فیصد سے بھی کم ہے، ملک میں غربت وپسماندگی عام ہے مسلمان بھی اس کے شکارہیں لیکن اپنی کم مائیگی اورغربت وافلاس کے باوجود اپنی نئی نسل کودینی تعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے کافی فکرمندررہتے ہیں، جس کانتیجہ ہے کہ گزشتہ چندبرسوں میں دینی تعلیم کی قدردانی میں خاطرخواہ اضافہ ہواہے اورمسلم سماج دینی مدارس کے فارغین کوبھی قدرکی نگاہ سے دیکھنے لگاہے اس کی ایک وجہ دنیاوی اعتبارسے اس تعلیم کے فوائد کاسامنے آنااوراس کے فیض میں اضافہ کاہوناہے۔
یوں توملک کے شرق وغرب تمام خطوں میں دینی مدارس ومکاتب بڑی تعدادمیں پائے جاتے ہیں،لیکن افسوس اس بات کاہے کہ ان مدارس کے قیام میں منصوبہ بندی اورتخطیط کی کمی ہے اوران کے بانیان وقائمین کے درمیان تعاون وتناصرکی بجائے ایک مقابلہ آرائی کی کیفیت محسوس کی جاسکتی ہے،اپنے قدکونمایاں کرنے اوردوسروں کوبوناثابت کرنے کے لیے مختلف طرح کے حربے آزمائے جاتے ہیں، ان میں کاہردوسرا تیسر ا مکتب راتوں رات جامعہ میں تبدیل ہوجاتاہے، اس طرح ملک نیپال میں جامعہ کالفظ ایک مذاق بن کررہ گیاہے اورجامعہ کی تعریف پوری طرح تبدیل ہوگئی ہے، جامعہ کالفظ سننے کے بعدعام سامعین یہ سمجھنے سے قاصررہ جاتے ہیں کہ اس سے کیامرادہے، اسی طرح دعوے تویہ بھی کیے جاتے ہیں کہ ہمارے جامعہ؟ میں عالمیت وفضیلت تک کی تعلیم ہوتی ہے لیکن پھر وہی دعوے دار حضرات اس بات کابھی اعتراف کرتے نظرآتے ہیں کہ ان مدارس میں دوسری تیسری جماعت سے آگے طلباء رکتے ہی نہیں اور۵۹/فیصدبچے ہندوستان کارخ کرنے پرمجبورہوجاتے ہیں، اگراس دعوی میں مبالغہ نہیں ہے توپھراس مسئلہ پرسنجیدگی کے ساتھ غورکرنے کی ضرورت ہے کہ جب یہاں عالمیت وفضیلت تک کی تعلیم گاؤں کی سطح پرہی ہورہی ہے توپھرایسی کیامجبوری ہے کہ طلبہ کوہندوستان میں اپنے درس کی تکمیل کے لیے سفر کے مصارف وتکالیف برداشت کرنے پڑتے ہیں۔
اس کی ایک وجہ ان مدارس کی شہادات کاکسی بھی معتمد وتسلیم شدہ جامعہ میں مقبول نہ ہوناہے، اس بات میں کافی حدتک صداقت ہے لیکن دوسری بڑی وجہ ان مدارس کامعیارتعلیم اوروہاں تعلیمی وتدریسی اوراقامتی سہولیات کافقدان ہے، اس صورت حال کی اصلاح کے لیے ارباب حل وعقدکوغورکرناچاہیے۔
حقیقت یہ ہے کہ ملک نیپال میں طلبہ کے لیے مدارس دینیہ کی کمی ہرگزنہیں بلکہ اس کے برعکس یہ دینی مدارس طلبہ کی کمی کاشکارہیں، وہ عالمیت وفضیلت کی جماعتیں توکھول کربیٹھ جاتے ہیں جن کے لیے ان کے سامنے کچھ خاص مقاصدہوتے ہیں، لیکن پھرایسے طلبہ کی راہ تکتے رہ جاتے ہیں جوان میں داخلہ حاصل کرنے کے خواہش مند ہوں،توکیایہ قوم کے سرمایہ اوروسائل کاضیاع نہیں ہے؟ اورپھرصورت حال کے مخدوش اورابترہونے کے بعداس طرح کے مشورے سامنے آتے ہیں کہ تمام چھوٹے بڑے مدارس کوایک وفاق میں مربوط کرکے انھیں حقیقی معنی میں ایک جامعہ کی شکل دے دی جائے،لیکن ایساہوگاکیوں کر؟ جب سارے مدارس کے موسسین اس بات کے لیے کوشاں رہتے ہیں کہ ان کاادارہ ہی ترقی کرے اس کوقوم کی طرف سے ناموری حاصل ہو، اور وہ قوم کااعتماد جیتنے میں کامیاب ہو،پھر ایسی تجاویزاس وقت بھی نتیجہ خیز اورقابل عمل سمجھی جاسکتی ہیں جب واقعتا مدارس کے قیام کے پس پردہ صرف نونہالان ملت کوتعلیم یافتہ بنانے کی فکرہو اوراگراس طرح کے کام اخلاص سے خالی ہوں توبہتر نتائج کی امیدعبث ہے۔
یہ توایک عمومی صورت حال ہے جس کاآسانی سے تجزیہ کیاجاسکتاہے؟ اس میں مشرق ومغرب کی تفریق نہیں لیکن پھر اگرتعلیم کی اس زبوں حالی کے درمیان علاقائیت کا فتنہ بھی کھڑا کیاجائے اورطالبان علوم نبوت کے درمیان علاقائیت کی دیوار کھڑی کی جائے تومعاملہ مزیدسنگین ہوجاتا ہے،ہمارامذہب اسلام ہرطرح کی عصبیت اورہرطرح کے امتیازات مٹانے اور اپنے نام لیواؤں کوایک جھنڈے کے نیچے جمع کرنے کے لیے آیاتھا، اس میں جہاں رنگ ونسل، زبان وبیان اورلب ولہجہ کی ہرتفریق کومٹانااوراس کاقلع قمع کرناشامل ہے وہیں علاقائی بنیادوں پرامتیازات کوروارکھنا بھی اس نے معیوب قراردیا اورعرب وعجم اورابیض واحمرکی تفریق کوختم کرنے پراس نے غیرمعمولی زوردیا، لیکن افسوس اورحیرت کامقام ہے کہ ہمارے ملک نیپال میں مسلمانوں بالخصوص موجودہ دورکے سلفیوں میں ایک چھوٹا ساطبقہ ایساہے جوان کواکثروبیشتر مشرق ومغرب کے خانوں میں تقسیم کرنے کے درپے رہتاہے، اور مختلف محاذوں میں بٹی ہوئی امت کے سامنے علاقائیت کاایک نیافتنہ کھڑاکرنے کی کوشش کرتاہے، اس طرح کی آوازیں بالعموم مشرق سے ہی گاہے بہ گاہے اٹھتی ہیں کہ فلاں کام میں مشرق کونظرانداز کیاجارہاہے یافلاں کام میں مشرق کوترجیح دی جانی چاہیے، ایسی آوازیں جمعیت کی امارت ونظامت یاان دونوں مناصب کی نیابت کے بارے میں بھی اٹھتی ہیں اوربالعموم اس میں دونوں سمتوں کی نمائندگی کالحاظ والتزام بھی کیاجاتاہے، ایسااگر انتظامی سہولتوں کے مدنظر کیاجائے تواس میں کوئی حرج بھی نہیں لیکن صلاحیت وصالحیت اوراخلاص ونیک نیتی کونظرانداز کرکے صرف مشرق ومغرب کی نمائندگی کوہی معیار بنالیاجائے توشاید اس قدرمفید وکارآمد نہیں ہوسکتا۔
ان سطورمیں جمعیت اہل حدیث نیپال کے طریقہئ انتخاب اوراس کے مناصب کوموضوع بحث بنانامیرا مقصد نہیں لیکن علاقائیت کے اس موضوع پرقلم اٹھانا اس لیے ضروری ہوگیاکہ اب تعلیم کے مواقع کوبھی مشرق ومغرب میں تقسیم کرنے کی غیرمحسوس طورپر جوکوشش ہورہی ہے قوم وملت کے حق میں شاید اس کے نتائج اتنے اچھے نہ ہوں، اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک کوایسی معیاری دینی درس گاہوں کی ضرورت ہمیشہ رہی ہے کہ طلبہ نیپال کوہندوستان کی تعلیم گاہوں کارخ کرنے کی مجبوری سے بے نیاز کیاجاسکے،لیکن اس پربھی غورکرنے کی ضرورت ہے کہ بہت بڑی تعداد میں ملک میں دینی مدارس یاجامعات؟ کے ہوتے ہوئے طلبہ ہندوستان کارخ کرنے پر مجبورکیوں ہورہے ہیں۔ اپنے مدارس کے معیارتعلیم اورتعلیمی واقامتی سہولیات کوبہتربنانے کی ضرورت ہے اوریہ کام مشرق ومغرب کی تقسیم یاتفریق کے بغیرہوناچاہیے۔
ہماراملک اتناوسیع وعریض نہیں ہے کہ ایک سرے سے دوسرے سرے تک سفرکرنا مشکل ہواوراب جب کہ ہرخطہ اورہرعلاقہ میں اچھی،کشادہ اورپختہ سڑکیں بن چکی ہیں،ہرجگہ سے تیزرفتار اورآرام دہ سواریاں،بسیں یاپرائیویٹ گاڑیاں دستیاب ہیں،نیپال کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک صرف چندگھنٹوں یاروزوشب میں پہنچنا ممکن ہے،پھرکوئی ضرورت اس بات کی باقی نہیں رہ جاتی کہ طلبہ کو ان کے گاؤں اورشہریاان کے ضلع وصوبہ میں ہی تمام ترتعلیمی سہولیات دستیاب ہوں، تعلیمی ادارے دوردرازسے آنے والے طلبہ کی رہائش وخوردونوش کے لیے اپنے یہاں ہاسٹل کاانتظام کرتے ہیں، جہاں طلبہ طویل چھٹیوں کوچھوڑکرپورے سال قیام کرتے ہیں،پھرجب طالب علم اپنے اعزہ واقرباء سے رخصت ہوکر گھرسے نکل گیاتواس کواوراس کے اہل خانہ کواس سے کوئی فرق نہیں پڑتاکہ وہ ۰۰۱/کلومیٹردورگیا،یاہزار کلومیٹر، بلکہ اگر مدرسہ اوراس کے ہاسٹل سے اس کاگھربہت نزدیک ہوگا تو طالب علم باربارگھرجانے کی خواہش کرے گا جس سے تعلیمی یک سوئی میں خلل پڑے گا یہ ایک تجربہ کی بات ہے جس سے تمام اہل مدارس واقف ہوں گے،طلب علم کے لیے طالبان علوم نبویہ کااپناگھربارچھوڑکر دوردراز کاسفرکرنااوروہاں ایک عرصہ تک قیام کرکے علوم شرعیہ میں درک ودسترس حاصل کرنا توعین مطلوب ہے، اس میں شرم او رقباحت کی کوئی بات نہیں، اللہ رب العزت نے گھربار کوخیربادکہہ کرحصول علم میں مصروف ہوجانے کی قرآن پاک میں ان الفاظ میں ترغیب دلائی ہے(فَلَوْلاَ نَفَرَ مِن کُلِّ فِرْقَۃٍ مِّنْہُمْ طَآءِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّہُواْ فِیْ الدِّیْنِ وَلِیُنذِرُواْ قَوْمَہُمْ إِذَا رَجَعُواْ إِلَیْْہِمْ لَعَلَّہُمْ یَحْذَرُون)(التوبۃ:۲۲۱)
مشرق میں ایک ایساعالی شان دینی تعلیمی مرکزیا جامعہ قائم ہوجائے جس میں صرف مشرق ہی نہیں مغرب کے طلبہ بھی تعلیم حاصل کرسکیں اورجونہ صرف وہاں کے بچوں کوہندوستان کے مدارس کارخ کرنے سے بے نیاز کردے بلکہ ہندوستانی طلبہ کے لیے بھی اس میں کشش وجاذبیت ہو،یہ بات ہمارے لیے باعث مسرت ہے ہم اس فکر کااستقبال کرتے ہیں لیکن صرف مشرق کے لیے نہیں بلکہ پورے ملک کے لیے اس طرح کے جذبات ہونے چاہئیں اوریہ بات علاقائیت سے بالاتر ہوکرہوناچاہیے۔
جامعہ سراج العلوم السلفیہ،جھنڈانگر ملک نیپال کا سب سے قدیم دینی تعلیمی مرکزہے جو اللہ کے کچھ مخلص وبے لوث اوربرگزیدہ بندوں کے ہاتھوں قائم کیاگیا وہ نہ صرف ملک نیپال میں بلکہ برصغیر ہندوپاک اورعالم اسلام میں متعارف ہے اورخلیجی ملکوں میں بھی اس کی خدمات قدرکی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں،اس کا ہندوستان کی کئی عالمی سطح کی معروف یونیورسٹیوں سے الحاق ہے، اس کی اسناد بلادعرب کی کئی یونیورسٹیوں میں مقبول ہیں اوراب حال ہی میں جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سے اس کامعادلہ ہوکراس کے اعتبارووقار میں اضافہ ہوگیاہے، اس کے فارغین ملک کے طول وعرض میں بلاتفریق شرق وغرب پھیلے ہوئے ہیں جوملک وبیرون ملک تعلیمی ودعوتی خدمات انجام دے رہے ہیں، اس کے دروازے صرف نیپال ہی نہیں پڑوسی ملک ہندوستان کے طلبہ کے لیے بھی کھلے ہوئے ہیں۔
یہ سارے حقائق ایسے ہیں جن کے اثبات کے لیے کسی دلیل کی ضرورت نہیں، یہاں طلبہ کے داخلے،فراغت، شہادات کے اجراء اورہاسٹل میں قیام کے جوبھی شرائط یاقواعد وضوابط مقرر ہیں وہ بلاتفریق شرق وغرب یکساں طورپرسب کے لیے ہیں، ان میں علاقائی بنیادوں پرکسی طرح کاامتیاز روانہیں رکھاجاتا، سارے طلبہ کایکساں طریقہ سے استقبال کیاجاتاہے، اورحسب گنجائش ان کوداخلہ دیاجاتاہے، بلکہ حیرت انگیز طورپرعالمیت وفضیلت کی اونچی جماعتوں میں مشرق سے آنے والے طلبہ کی تعداد ہمیشہ مغربی اضلاع سے زیادہ ہوتی ہے۔
مشرق ومغرب کی کوئی قانونی اعتبارسے مستندومسلم خط فاصل نہیں ہے،لیکن عام طورسے سمجھاجاتاہے کہ نارائنی ندی یاداونّے پہاڑسے جواضلاع مغرب میں واقع ہیں انھیں مغربی نیپال اورجو اس کے مشرق میں واقع ہیں انھیں مشرقی نیپال تصورکیا جائے،اگر اس تعریف کودرست مان لیاجائے تونول پراسی وروپندیہی سے لے کرکپل وستوودانگ وارگا کھانچی اور دیگر پہاڑی و مغربی اضلاع بشمول نیپال گنج ودھنگڑی وغیرہ سمیت جہاں بھی اہل حدیث آبادی ہے طلبہ کی مجموعی تعداد بارا،پرسا، روتہٹ،سرہا، سپتری،سنسری،دھنوسہ اورجھاپاوغیرہ کے مشرقی اضلاع کے طلبہ سے بالعموم کم رہتی ہے،اس کویوں بھی سمجھ سکتے ہیں کہ مشرقی اضلاع کے طلبہ کی تعداد یہاں ہمیشہ زیادرہ رہتی ہے بالخصوص اوپرکی جماعتوں میں یعنی ان کوبلاامتیاز یکساں طورپرجامعہ سراج العلوم میں تعلیم کے مواقع حاصل ہیں اوران کے ساتھ کسی بھی طرح کی علاقائی عصبیت یاتفریق کا معاملہ حاشاوکلا روانہیں رکھاجاتا، پھرسوال اٹھاناکہ ”اگر ہندوستان نے اپنے یہاں نیپالی طلبہ پرتعلیم کے دروازے بند کردیے تو مغربی نیپال کے بچے توسراج العلوم میں سماجائیں گے ایسے میں مشرقی نیپال کے بچے کہاں جائیں گے؟“یہ ایک بدترین قسم کی مغالطہ انگیزی یاالزام تراشی ہے اورنارواطورپریہ تاثردینے کی کوشش ہے کہ گویا جامعہ سراج العلوم صرف مغربی نیپال کے طلبہ کے لیے قائم کیاگیاہے جب کہ ایساہرگزنہیں یہ ادارہ پورے ملک کے اہل حدیث طلبہ کاہے،تمام اہل حدیثان نیپال کی مشترکہ میراث ہے اورہر خطہ کے طلبہ کویکساں طورپرتعلیمی خدمات فراہم کررہاہے، اورایک صدی سے زائدعرصہ سے اپنی اس روش پرقائم اوراپنی اس پالیسی پرگامزن ہے آج تک کبھی مشرق کے کسی ایک طالب علم کو یااس کے سرپرست کواس بات کی شکایت نہیں ہوئی کہ اس کوعلاقائی بنیادپر کسی تفریق کاسامناکرناپڑا ہو، ملک کے طول وعرض کے تمام طلبہ کواس کے تعلیمی معیار ہی نہیں اس کی مساوات پرمبنی بے غبار پالیسی پراعتماد ہے،ہم ان طلبہ اوران کے سرپرستوں کے اس اعتماد کے لیے شکرگزارہیں۔
میں راقم الحروف شمیم احمدندوی ایسے تمام لوگوں سے اپیل کرتاہوں جوجانے انجانے یعنی دانستہ یانادانستہ طورپر جامعہ سراج العلوم کے خلاف مغالطہ انگیزی کررہے ہیں یااس کی شبیہ کوداغ دار اوراس کی شہرت کونقصان پہنچانے کی کوشش کررہے ہیں کہ وہ اس مہم سے بازآجائیں اورمختلف محاذوں پر بٹی ہوئی جماعت اہل حدیث کوکسی نئے علاقائی فتنہ کاشکارنہ بنائیں اوریہ بات ذہن نشین کرلیں کہ اگر کسی بھی ناحیہ سے جامعہ سراج العلوم کوکوئی نقصان پہنچا توحاشاوکلایہ نقصان تمام سلفیان نیپال کاہوگا، مشرقی نیپال میں بھی جامعہ سراج العلوم جیسایااس سے بہترکوئی تعلیمی ادارہ قائم ہوجائے ہم اس تصور اورتجویز کاتہ دل سے استقبال کرتے ہیں لیکن اگریہ جامعہ سراج العلوم کے خلاف غلط پروپیگنڈوں کے ذریعہ یا اس کونیچاد کھانے کی کوشش کے ذریعہ ہوتوہمیں یہ قبول نہیں،یوں توملک میں چل رہے تمام ہی دینی تعلیمی اداروں کااحترام اوران کی خدمات کااعتراف ہوناچاہیے، لیکن یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ہرتعلیمی ادارہ سے کسب فیض کرنے والے لوگ اوراس کے فارغین ومستفیدین اپنی مادرعلمی سے طبعی طورپرمحبت اوراس کی تعمیروترقی سے دلچسپی رکھتے ہیں اوراس کوآگے بڑھتے دیکھ کرخوشی محسوس کرتے ہیں اوریہ ادارے بھی ایسے پھل دار وثمر بار درخت ہوتے ہیں جواپنے ان پھلوں پربجاطورپر ناز کرتے ہیں اوران پھلوں سے ہی ان کی پہچان ہوتی ہیں، لیکن افسوس اس وقت ہوتاہے جب ان پھلوں سے ہی ان کے درختوں کونقصان پہنچنے لگتاہے،حالانکہ جامعہ سراج العلوم السلفیہ کے فارغین ومستفیدین ہرتعلیمی ادارہ کے فارغین کی طرح اس کو اپنامادرعلمی سمجھتے ہیں اوراس کی تعلیمی ترقی اوراس کی فیض رسانیوں کے دائرہ کی وسعت کودیکھ کر اظہارمسرت کرتے ہیں،اس کی تعمیر وترقی میں اپناگراں قدر اخلاقی ومادی تعاون پیش کرتے ہیں اور اس کے مخالفین وحاسدین کامنہ ازخودبندکرنے کی کوشش کرتے ہیں، اس کے بدخواہوں وحاسدین کی تعدادآٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے،لیکن اس علمی قلعہ کے خلاف بغض وحسد کااظہار یااس کے خلاف کسی بھی طرح کی ریشہ دوانی اگر اس کے فارغین ومستفیدین یااس کے خوشہ چینوں کی جانب سے ہوتو یہ بات نہ صرف مزید معیوب اورباعث تکلیف ہے بلکہ یہ بدترین قسم کی احسان فراموشی ہے کہ جس ادارہ نے آپ کوزیورتعلیم سے آراستہ کرنے،آپ کی شخصیت کونکھارنے، آپ کی صلاحیتوں کوجلا بخشنے اورآپ کو سماج میں ایک باعزت مقام دلانے میں ایک اہم کرداراداکیا،جس کی اسنادنے آپ کوجامعہ اسلامیہ میں داخلہ حاصل کرنے کے لائق بنایا،جس کی انتظامیہ نے آپ کوخورد ونوش اوررہائش کی سہولیات فراہم کیں اورجس کے اساتذہ نے آپ کو مہذب وتعلیم یافتہ بنانے میں اپناخون جگر جلایا آپ اگراسی کی جڑوں پرتیشہ چلانے کے درپے ہوں تویہ بات محسن کشی اوراحسان فراموشی کی کتنی بڑی مثال ہے،اس ذہنیت کے لوگوں کواپنے رویہ پرغورکرناچاہیے، اپنے گریبان میں جھانکناچاہیے اوراپنے اس افلاس ذہنی کی اصلاح کی کوشش کرنی چاہیے۔
ہم تمام خدام جامعہ سراج العلوم تمام مسلمانان نیپال سے بالخصوص سلفیان نیپال سے اس کی تعمیروترقی کے لیے ہرطرح کے تعاون کے خواستگارہیں اوراللہ سے یہ دعاکرتے ہیں کہ اس جامعہ کے پلیٹ فارم سے ہمیں پورے ملک کے طلبہ کوبشمول طلبہ شرق وغرب تعلیمی خدمات فراہم کرنے اورانھیں ملک کاایک اچھااو ر تہذیب یافتہ شہری بنانے میں اپنافعال کردار اداکرنے کی توفیق ارزانی فرمائے۔(آمین)
تجليات ماهنامه "السراج” دسمبر 2021
از: شمیم احمد ندوی

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter