اردو صحافت بھی بنے ڈیجیٹل انقلاب کا نقیب، صحافیوں کے پانچ روزہ ورکشاپ کی افتتاحی تقریب میں مقررین کااظہار خیال

13 جولائی, 2021

حيدرآباد/ نيوز 18 اردو

آج کا دور معلومات کا دور ہے۔ جو لوگ اس دور میں صحافت سے وابستہ ہورہے ہیں ان کے لیے یہ دور بہت اہم ہے۔  اس دور میں لوگ حقیقی معلومات کو جاننا چاہتے ہیں۔ اس دور میں معلومات ایک بہت بڑا ہتھیار ہے۔ ان خیالات کا اظہار دی وائر کی سینئر ایڈیٹر اور معروف صحافی ڈاکٹر عارفہ خانم شیروانی نے تلنگانہ اردو اکیڈیمی کی جانب سے اردو صحافیوں کے لیے منعقدہ پانچ روزہ ورکشاپ کے افتتاحی سیشن میں کیا۔

ڈاکٹر عارفہ خانم شیروانی نے کہا کہ ہندوستان کا میڈیا دنیا کے بڑے میڈیا میں سے ایک ہے۔ یہاں میڈیا کا مضبوط اور وسیع نیٹ ورک موجودہ ہے۔ اس لیے یہاں صحافت میں کئے مواقع ہیں‘‘۔ عارفہ نے اپنے کلیدی خطاب کے دوران کہا کہ صحافت جمہوریت کا اہم حصہ ہے۔ ایک آزاد ملک میں آزاد صحافت بھی ضروری ہے۔ انھوں نے کہا کہ حکومتیں صحافت کو دبانے کی کوشش کرتی ہیں لیکن صحافی لوگوں تک آزاد آواز بن کر خبریں پہنچاتے ہیں۔ لوگ جانتے ہیں کہ معاشرہ میں کیا ہورہا ہے۔ اسی لیے صحافی کو معلومات کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کے بجائے درست اور مکمل معلومات پیش کرنا ہوتا ہے۔ جب کہ آج بولنے کی آزادی پر حملہ درپیش ہے۔ خبر کو پیش کرنے کے درمیان درست معلومات، بہترین تجزیہ اور اچھی پیشکش صحافیوں کی کامیابی کا ذریعہ بن سکتا ہے۔نیچے دیئے گئے فیس بک ویڈیو میں اس ورکشاپ کی افتتاحی تقریب کا مشاہدہ کرسکتے ہیں ۔

 

آج کے دور میں معاملی صحافت کو غیر معاملی سمجھا جارہا ہے وہ اس لیے کہ آج کہیں نہ کہیں صحافت کی آزادی پر خطرات اور حملے درپیش ہیں۔ اسی لیے سب سے خراب وقت بھی سب سے اچھا وقت ہوتا ہے۔  دی وائر کی سینئر ایڈیٹر اور معروف صحافی ڈاکٹر عارفہ خانم شیروانی نے کہا کہ نئے آئی ٹی قوانین کے تحت ملک میں صحافت اور صحافیوں کی ذمہ داریاں بڑھ گئی ہیں۔

عارفہ نے کہا کہ ملک کے چوکیداروں کی بھی چوکی داری صحافی ہی کرتے ہیں۔ صحافی پورے سماج کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ دلیتوں، کسانوں، آدی باسیوں، اقلیتیوں اور پسماندہ طبقوں کی بھی صحافی نمائیندگی کرتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ عوام کی جانب سے کیے جارہے تعاون والے میڈیا اداروں (public funded media houses) کا مستقبل روشن اور تابناک ہوگا۔

    • صحافت میں خواتین کی نمائندگی:

عارفہ نے صحافت میں خواتین کی نمائیندگی سے متعلق کہا کہ اردو صحافت میں خواتین کی نمائندگی بھی ضروری ہے۔ کیونکہ یہ سماج کا بڑا حصہ ہے۔ تاکہ ان کے مسائل اور جذبات و احساسات کی نمائندگی بھی ہو۔

انھوں نے ماضی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اردو صحافت آج بھی قائدانہ رول ادا کرسکتی ہے۔ اردو صحافت نے جنگ غدر میں اہم کردار ادا کیا۔ اس کے بعد ملک کی آزادی کے لیے جنگ آزادی میں بھی اردو صحافت نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ اسی سنہری دور کو آج بھی دہرایا جاسکتا ہے۔

    • نوجوان میں صحافت سے متلعق کشش:

سینئر صحافی اور روزنامہ انقلاب ممبئی ایڈیشن کے ایڈیٹر  شاہد لطیف نے اس افتتاحی پروگرام میں مہمان خصوصی کے طور پر اپنے خطاب میں کہا کہ موجودہ دور میں عام نوجوانوں میں صحافت سے متعلق کشش پیدا ہوئی ہے لیکن اب بھی اس سے متعلق عام بیداری ضروری ہے۔ صحافت کو اپنے کیرئیر کا بہترین ذریعہ بنایا جاسکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ ایک فن بھی ہے اور یہ ایک پیشہ بھی ہے۔ کیونکہ یہ ایک وسیع میدان ہے۔

تعلیم، سائنس، صحت اور سماجی موضوعات:

انھوں نے کہا کہ اردو صحافت نے موجودہ دور کے تقاضوں سے اپنے آپ کو ہم آہنگ کیا ہے۔ صحافت کو ایک موثر ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ صحافی کے اندر سماج کو دینا کے لیے بہت کچھ ہوتا ہے۔ وہ پوری قوم کو تعلیم، سائنس صحت اور سماجی موضوعات پر متوجہ کرسکتا ہے۔

ایک صحافی بہترین انداز میں غور و فکر ، تجزیہ اور خلاصہ پیش کرکے اپنا منفرد مقام بنا سکتا ہے۔ یہ مسلسل خدمت اور عبادت بھی ہے۔ اگر آپ ملازمت کے دوران خدمت کا جذبہ پیدا کردے تو وہ عبادت بن جائے گی، اگر اس کو عبادت سمجھ لیا جائے تو پوری صحافتی سرگرمیاں بہتر سے بہتر طور پر پیش کرسکتے ہیں۔

    • حالات سے واقفیت:
    • ورکشاپ کے مہمان اعزازی سید احمد جیلانی سینئیر اینکر نیوز 18 اردو نے اپنے خطاب میں کہا ہے کہ بہ حیثیت صحافی ایک صحافی کا مشاہدہ بہت وسیع ہو۔ وہ تمام میڈیا پلیٹ فارم میں پیش ہونے والی خبروں پر گہری نظر رکھیں۔ تاکہ اپنے اطراف کے حالات اور واقعات سے واقفیت ہو۔

انھوں نے بتایا کہ صحافیوں کے لیے ہر دن ایک نیا چیالنج ہوتا ہے اور ہر دن نئی چیزیں سیکھنے کو ملتی تھی۔ اسی لیے کامیاب صحافی بننے کے لیے گہرا مشاہدہ اور روزانہ مطالعہ ضروری ہے۔  آج کے دور میں ہر ایک کی پہنچ فوبائل فون تک ہے۔ اسی لیے وہ سوشل میڈیا سے بھی جڑا ہے۔

تلنگانہ اردو اکیڈیمی کے صدر نشین و سرپرست ڈاکٹر مولانا محمد رحیم الدین انصاری نے اردو صحافت کے رحجانات اور امکانات پر تفصیلی روشنی ڈالی۔ پروفیسر محمد عبدالسمیع صدیقی (سی پی ڈی یو ایم، مانو) نے اس ورکشاپ کے رہنمایانہ خطوط سے شرکا کو واقف کرایا۔

صحافیوں کے لئے منعقد ہونے والے پانچ روزہ ورکشاپ کا شیڈیول

صحافیوں کے لئے منعقد ہونے والے پانچ روزہ ورکشاپ کا شیڈیول

تلنگانہ اردو اکیڈیمی کے ڈائریکٹر و سکریٹری ڈاکٹر محمد غوث نے کہا ہے کہ یہ ورکشاپ صحافیوں کی صلاحتیوں کو فروغ دینے کے لیے منعقد کیا ہے۔ وہیں اس کے لیے میدان صحافت کی اہم اور سینیئر صحافیوں کی خدمات حاصل کی گئی۔ ڈاکٹر محمد غوث نے اس دوران اردو میں بلاک کیسے لکھیں؟ پر تفصیلی پریسنٹیشن پیش کیا۔

پروگرام کے کوآرڈینیٹر فصیح اللہ شیخ نے تلنگانہ اردو اکیڈیمی کی خدمات کا ذکر کیا، جس میں انھوں نے کہا کہ اکیڈیمی پوری ریاست میں اردو کی ترقی اور فروغ کے لیے مسلسل کوشاں ہے۔ یہ پروگرام بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔
انھوں نے بتایا کہ اس پروگرام میں شرکت کے لیے تقریبا سات سو سے زائد ملک بھر کے صحافیوں نے رجسٹریشن کرایا ہے۔ جس میں سو سے زائد خواتین صحافیوں نے بھی اپنا رجسٹرڈ کرایا۔ انھوں نے بتایا کہ کہ یہ بات اردو صحافت کے روشن مستقبل کی ضمانت ہے۔ یہ ورکشاپ اگلے چار دن تک بھی جاری رہے گا۔

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter