پڑوس: لوجہاد و تبدیلئ مذہب ایک بہانہ ہے

ڈاکٹر عبد اللہ فیصل

6 جولائی, 2021

آئندہ سال 2022 میں ملک کی پانچ ریاستوں میں اسمبلی الیکشن ہونے والے ہیں. جن ریاستوں میں بی جےپی. کی حکومتیں ہیں وہاں اس کا ریکارڈ بہت ہی خراب ہے.عوامی خدمات عوامی سہولیات کی فراہمی کے بجائے فرقہ پرستی کا زور اشتعال انگیز بیانات تبدلئی مذہب اور”لو جہاد” کا فرضی ومن گڑھنت کہانی ہندو مسلم میں مغارئت زہریلے بیانات پھیلانے کے سوا کچھ نہیں کیا ہے. تعمراتی وترقیاتی کاموں کو نظر انداز کر کے سابقہ حکومتوں کی کارکردگی کو اپنا کام بتا کر عوام کو گمراہ بھی کیا جارہا ہے.بی جے.پی کے پاس کوئ عوامی فلاح وبہبود کا جیسے لائحہ عمل ہے ہی نہیں. اس بات کا کوئ امکان نہیں کہ ان ریاستوں میں بی.جے.پی اپنی ناقص کار کردگی کی بنیاد پر حکومت بنا سکے.ناقص کارکردگی سے لوگ بھاجپا سے متنفر ہیں. بھاجپا کے پاس فرقہ پرستی پھیلانے کے علاوہ ہے کیا. ہندو مسلم تنازعہ بی جے پی کی بہت مرغوب غذاء ہے اسی کا استعمال کر کے انتہائ گھٹیا کارکردگی کے باوجود بی.جے.پی.اقتدار میں آجاتی ہے. اس مرتبہ دو ایشوز بطور خاص بڑی شدت کیساتھ ابھارے جارے ہیں.
ایک "لو جہاد” اور دوسرا تبدلئ مذہب. لو جہاد ایک فرسودہ اور مہمل اصطلاح ہے دنیا کے کسی مذہب میں ایسا کوئ تصور نہیں ہے .جہاں تک تبدلئ مذہب کا سوال ہے ہندستان اور دنیا کے بہت سے سیکولر اور جمہوری ممالک میں لوگوں کو اپنا مذہب تبدیل کرنے کا قانونی حق ملا ہوا ہے. ہندستان سے لیکر امریکہ افریقہ اور یورپ تک میں لوگ اپنے ضمیر کی آواز پر اپنا مذہب متعین کرتے ہیں اس وقت پوری دنیا میں قبول اسلام کی ایک لہر سی چلی ہوئ ہے.لوگ بخو شی راضی حلقہء بگوش اسلام ہورہے ہیں امریکہ اور یورپ میں لوگ بڑی تعداد میں اسلام قبول کر رہے ہیں. خاص طور سے یورپ مغرب میں اسلام بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے سرمایہ دار طبقہ عالمی شہرت یافتہ شخصیات بھی اسلام قبول کر رہے ہیں اسلام کے خلاف جتنی شدت کے ساتھ دشمنان اسلام کی ریشہ دوانیاں جاری ہیں اور مخالفت ہوتی ہے اسلام جیسے پاکیزہ اور محسن انسانیت مذہب پر رکیک حملے کرتے ہیں دہشت گردی کا مذہب قرار دینے کی ناپاک سازشیں ہوتی ہیں اللہ کے فضل وکرم سے اتنے ہی لوگ مطالعہء اسلام کر کے جو ق در جوق اسلام قبول کر رہے ہیں. انگریز کرکٹ کھلاڑیوں فلمی دنیا اور دیگر کھیلوں اور شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے اسلام کو گلے لگا یا اور اس پر کار بند ہیں.ہندستان میں بھی زمانہء قدیم سے ہی اپنی مرضی سے مذہب تبدیل کرنے کا رواج رہا ہے.بڑی تعداد میں لوگ ہندو سے مسلمان اور عیسائ بنے ہیں ہندستان میں جتنے بھی ہندو یا عیسائ ہیں ان کے آباواجداد کی غالب اکثریت ہندو رہی ہے.

اب ذرا لوجہاد اور تبدلئی مذہب کو ملا کر دیکھتے ہیں آئین ہند نے ہر بالغ مرد اور عورت کو اپنی مرضی کے مطابق اپنا مذہب چننے اور اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ واشاعت کی کھلی آزادی دے رکھی ہے ٹھیک اسی طرح ہر مرد اور ہر عورت کو اپنی مرضی اور پسند کا جیون ساتھی بھی چننے کا اختیا ہے اگر چہ غیر مذہب میں شادی کو سماجی طور پر قبولیت حاصل نہیں ہے لیکن آئین نہ صرف اس کی اجازت دیتا ہے بلکہ زوجین کو ہر طرح کا تحفظ بھی فراہم کرتا ہے.
مذہبی اعتبار سے مسلمانوں میں ایسی کوئ شادی سرے سے جائز ہی نہیں ہے جس میں زوجین میں سے کوئ ایک غیر مسلم ہو اس سے بہت سے سماجی مسائل پیدا ہوتے ہیں اس سے مسلمانوں کی آنے والی نسل کابھی گمراہ ہونے کا پورا اندیشہ موجود ہے.اگر کسی مسلم گھرانے میں کوئ غیر مسلم لڑکی بیاہ کر کے آتی ہے تو نہ صرف اس لڑکی کے لئیے بلکہ پوری فیملی کے لئیے طرح طرح کے مسائل اور پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں.
بچوں کی پرورش زیادہ تر ماں کے ہاتھ میں ہوتی ہے ماں اگر غیر مسلم ہے تو بچوں کے اسلام سے دور ہونے کا قوی امکان ہے.لیکن اگر کوئ ہندو لڑکی اپنی مرضی سے قانون کے مطابق اسلام قبول کر کے مسلم فیملی میں داخل ہوتی ہے تو یہ ایک نیک مبارک شگون ہے.
ہندو مسلمانوں کے مقابلے زندگی کے ہر شعبے میں بہت آگے ہے اس کے باوجود کوئ ہندو لڑکی ہندؤں کو چھوڑ کر کسی مسلم نوجوان کو اپنا جیون ساتھی بناتی ہے تو یہ اس بات کا اعلان ہوتا ہے کہ وہ لڑکی یہ بات محسوس کرتی ہے کہ آج کے مادہ پرستانہ دور میں بھی مسلم فیملی کے اندر عورت کو جو مقام ومرتبہ وقار وعزت احترام حاصل ہے وہ ان کے اپنے معاشرے میں موجود نہیں ہے. یہی وجہ ہے کی بڑی تعداد میں ہندو لڑکیاں اسلام قبول کرکے مسلم.معاشرے کا حصہ بننا چاہتی ہیں.
یہی وہ چیز ہے جو فرقہ پرستوں کی نگاہوں میں کھٹکتی ہے.وہ اپنی بیٹیوں کو اسلام قبول کرنے سے روک نہیں پارہے ہیں اور قانون کا سہارا لیکر مسلمانوں کے خلاف ایک محاذ کھولے ہوئے ہیں یہاں ایک بات واضح کردینا چاہتے ہیں کہ اسلام قبول کئیے بغیر کوئ ہندو لڑکا کسی مسلم لڑکی سے شادی کرتا ہے یا کوئ ہندو لڑکا کسی مسلم لڑکی سے شادی کرتا ہے تو یہ سراسر فتنہ ہے مسلم معاشرہ اور اسلامی قوانین میں اس کی کوئ گنجائش موجود نہیں ہے اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کا حق صرف مسلمانوں کو ہے.
جیسا کہ ہم نے اوپر حوالہ دیا ہے اپنی مرضی کا مذہب اختیار کرنا ہر ہندستانی کا بینادی حق ہے. تبدلئی مذہب کے خلاف آواز اٹھانا سراسر غیر آئینی اور غیر قانونی ہے اگر کسی شخص کو لالچ دیکر اسلام قبول کرنے پر آمادہ کیا گیا ہے تویہ قانونا بھی جرم ہے اسلام میں بھی اس کی کوئ گنجائش نہیں ہے.اسی طرح کوئ عالم مبلغ یاعام مسلمان اسلامی تعلیمات کی روشنی میں لوگوں کو دین حق قبول کرنے کی دعوت دیتا ہے تو یہ عمل آئین وقانون کے مطابق ہے اور یہ اسلام کا.معجزہ ہے کہ جن معاشروں میں مسلمان مغلوب ہیں وہاں بھی لوگ اسلام کی طرف راغب ہورے ہیں.
جہاں تک فرقہ پرستوں کا سوال ہے وہ تبدلئی مذہب اور "لوجہاد” کی آڑ میں ہندؤوں اور سکھوں میں عدم تحفظ کا احساس پیدا کر کے ہندؤوں اور سکھوں کو مسلمانوں سے لڑانا چاہتے ہیں اور اس کا سیدھا فائدہ الیکشن میں بی.جے.پی کو پہونچ سکتا ہے.

کسان آندولن کا مورچہ سکھ جاٹ اور مغربی یوپی کے لوگ سنبھالے ہوئے ہیں سکھوں نے این. آر.سی کے خلاف ہونے والے آندولن میں دہلی اور دیگر شہروں میں ہونے والے مظاہرے دھرنے میں بھر پور حصہ لیا تھا جس سے فسطائ جماعتوں میں کھلبلی مچ گئ تھی اور اسے سبوتاژ کرنے کی بھر پور کوشش کرتے رہے لیکن سکھوں کے آہنی عزائم وارادوں کو سرد نہ کر سکے اب لوجہاد کا شوشہ چھوڑ کر سکھ مسلم کو لڑانے کی ناپاک سازش کر رہے ہیں.

ہم یہاں واضح کر دینا چایتے ہیں کی ہمیں ایسے نو مسلم کی کوئ ضرورت نہیں ہے جس نے لالچ میں آکر اسلام قبول کیا ہو نہ ہمیں یہ منظور ہے کہ کوئ مسلم لڑکی کسی ہندو لڑکے سے یا کوئ مسلم لڑکا کسی ہندو لڑکی سے شادی کرے بھلے اس شادی کو قانونی تحفظ حاصل ہو لیکن شرعی اعتبار سے یہ ہمیں قبول نہیں ہے اس سے ہمارا پورا شجرہء نصب ہی مشکوک ہوجائےگا.اس لئیے فرقہ پرستوں سے زیادہ مسلمانوں کے لئیے تشویش کی بات ہے.
ہمیں ایسی اطلاعات کثرت سے موصول ہوتی ہیں کہ کوئ غیر مسلم تنظیم اپنی بیٹیوں کو مسلم نوجوانوں کو ورغلا کر اور ان کو جھوٹی محبت کےدام میں گرفتار کر کے ان کو اپنے ایمان وعقیدے سے دور کر کے سازش رچ رہی ہیں ہمیں اس فتنے کا بھی مقابلہ کرنا ہے. یہودیوں نے مسلم اور عرب نو جوانوں کو گمراہ کرنے کے لئیے اپنی عورتوں کا بہت کثرت سے استعمال کیا ہے اور یہ سلسہ آج بھی جاری ہے.تاریخ اس بات کہ شاہد ہے صلاح الدین ایوبی ودیگر سلاطین کے زمانے میں بھی یہودیوں وعیسائیوں نے اپنی عورتوں دوشیزاؤں کا استعمال کیا ہے تاکہ نوجوان مجاہد ین کے جذبات بے قابو ہو جائیں اور جنگ، لڑائ جیت لیں.

ہندستان میں بھی یہ فتنہ جاری ہے.مسلمانوں کو اس
اور کہیں کہیں مسلم.لڑکیوں کو ہندو نوجوانوں کے ساتھ شادی پر آمادہ کر کے مسلم لڑکیوں کو ان کے دین ومذہب سے دور کرنے کی سازش ہورہی ہے.
"لوجہاد” ایک مصنوعی اصطلاح ہے صرف ماحول کو کشیدہ کر کے اقتدار حاصل کرنے کا ایک بہانہ ہے. تبدیلئ مذہب کے نام پر بھی شرپسند عناصر فرقہ پرست تنظیمیں واویلا مچا کر مسلم داعیوں ومبلغوں پر عرصہء حیات تنگ کیا جارہا ہے اور یہ سب الیکشن جیتنے کا منصوبہ ہے.لوجہاد اعر تبدیلئ مذہب اک بہانہ ہے. ہمیں ان سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے.
مضمون نگار: المصباح کے ایڈیٹر ہیں.9892375177

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter