بات یہ ہے کہ میں منافق ہوں

محمد ہاشم خان

18 مارچ, 2021
مجھے عائشہ کے ساتھ کوئی ہمدردی نہیں ہے اور اس کی دو وجوہات ہیں۔ اول تو یہ کہ میں ایک منافق شخص ہوں جو یہ سمجھتا ہے کہ عورت صرف اور صرف مرد کو جنسی تسکین فراہم کرنے کا فریضہ ادا کرنے کے لئے تخلیق کی گئی ہے۔ جب تک وہ مرد ذات کی وحشت کو رام کرتی رہے گی عورت ہونے کی مریادا بنی رہے گی اور جیسے ہی وہ اپنے حقوق، عزت نفس اور فیصلے کی آزادی وغیرہ کی بات کرے گی حرافہ، رنڈی اور چھنال ہوجائے گی۔ میں ان لوگوں میں سے ہوں جو اپنے گھر کی خواتین کو کوئی حق دینے کے لئے تیار نہیں ہیں لیکن دنیا کی تمام خواتین کو ہر رنگ میں عریاں اور بہ آسانی دستیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔ پس چونکہ میں انتہائی بدترین قسم کا منافق شخص ہوں سو مجھے اس کی موت اور موت کے اسباب وغیرہ کی مذمت کرنے کا حق حاصل نہیں۔ کم از کم اتنی اخلاقیات تو باقی ہے کہ جن برائیوں میں، میں بذات خود ملوث ہوں اس کی مذمت نہ کروں۔ لہٰذا میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ مرد کو ظالم، سفاک اور بیوفا نہیں ہونا چاہئے، جہیز سماج کی قبیح ترین لعنت ہے اور اس کا حل میراث کی تنفیذ میں مضمر ہے۔ ایسا اس لئے نہیں کہہ سکتا کہ اگر میرے اندر سے ظلم، خود غرضی، سفاکی اور بے وفائی کو نکال دیں گے تو پھر میں بچوں گا کیا؟ میں تو انسان ہی نہیں رہوں گا اور چونکہ میں انسان رہنے سے کم کسی اور چیز پر اکتفا نہیں کر سکتا سو یہ عیوب مجھے عزیز ہیں اور اگر یہ عیوب و خبائث ٹنوں کے حساب سے ہوں تو پھر عزیز تر ہیں۔ جہیز کی بھی میں مذمت نہیں کر سکتا کہ اب اس سے بھی بڑی دو اور نعمتیں اپنی حسین جڑیں مضبوط کر چکی ہیں۔ ایک تو ہم ننگے بھوکے معزز باراتیوں کو پیٹ پھٹے تک کھانا کھلانا اور دوم منکوحہ کی پردہ بکارت پھٹنے کی خوش خبری میں شہر کو شریک کرنا۔ آجکل ہمارے یہاں شادیوں میں اوسط خرچ دس لاکھ روپے ہے اور یہ غریب ترین ننجتیوں کی شادیوں کا اوسط خرچ ہے جس میں بنیادی مطالبات یعنی بائک، زیور، فرج اور واشنگ مشین کے علاوہ استقبالیہ دعوت شامل ہے۔ اس دس لاکھ میں تقریباً پانچ لاکھ روپے کھانے پر خرچ ہوتے ہیں۔ متوسط اور اعلیٰ متوسط گھرانوں کی شادیوں کی بات ہی نہ کریں کہ وہاں مدعوئین کی تعداد تین ہزار سے اور کھانے کا بل پندرہ لاکھ سے شروع ہوتا ہے۔ شادی ہال کی آرائش و زیبائش اور دیگر اخراجات پر جو لاکھوں روپے الگ سے خرچ ہو جاتے ہیں، وہ ایک الگ گوشوارہ ہے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں مسلمان اپنی سیاسی بے وزنی کے بدترین ایام سے گزر رہا ہے، جہاں ایک طبقے نے اس کی بقا کی الٹی گنتی شروع کر دی ہے وہ اپنے بھرم، ساکھ، نام و نمود اور وہم کے لئے ایک ایسے پروگرام میں لاکھوں روپے ضائع کر رہا ہے جس کے شرعی تقاضے چند گھنٹوں، چند پیسوں اور چند افراد سے بھی پورے ہو سکتے ہیں۔ لیکن میں ان تمام چیزوں کو دل کھول کر انجوائے کرتا ہوں کہ خدا معلوم دوبارہ اس طرح پیٹ بھر کر کھانا کھانے کو ملے یا نہ ملے۔ میری ذات میں کچھ ایسے فضائل تجسیم ہو گئے ہیں کہ مجھ نابکار کو شادیوں میں کم ہی بلایا جاتا ہے تقریباً صفر کے برابر، لیکن اللہ گواہ ہے کہ جب بھی مجھے شریک ہونے کا موقعہ ملا ہے میں نے پیٹ کے ساتھ کوئی ناانصافی نہیں ہونے دی ہے۔ سو میں ایک ایسے سماج کا فرد ہوں جس کا خیال ہے کہ وہ اپنی غلط ترجیحات کی وجہ سے نہیں بلکہ ’الکفر ملۃ واحدۃ‘ کے ایک پلیٹ فارم پر آجانے کی وجہ سے مارا جا رہا ہے، سو مجھے عائشہ کی خودکشی کا کوئی غم نہیں ہے، ایک منافق کو صرف اپنے مفاد کا غم ہونا چاہئے، سو مجھے اپنے مفاد کا غم ہے۔ اور مجھے اس لئے بھی عائشہ کے ساتھ کوئی ہمدردی نہیں کہ اس نے خودکشی کو بغاوت کے طور پر استعمال نہیں کیا بلکہ اسے عارف کے ساتھ محبت کا اعلیٰ ترین مظہر بنا دیا اور میں ایسی خسیس محبت پر جان دینے والی لڑکیوں کا ہمدرد و غم گسار نہیں ہو سکتا۔ ایسی بیوقوف لڑکیوں کے ساتھ ہمدردی ہونا غیر فطری عمل ہے۔ مجھے وہ لڑکیاں زیادہ عزیز ہیں جو بے وفائی کرتی ہیں، مرد ذات سے اپنی محرومیوں کا انتقام لیتی ہیں اور زندہ رہتی ہیں۔ میرا بھائی کہتا ہے کہ میں ظالم بن کر ہزار سال جی سکتا ہوں لیکن مظلوم بن کر ایک دن بھی نہیں۔ میرا خیال ہے کہ وہ ٹھیک کہتا ہے۔
——————————————————————————————–

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter