نیپال میں اردو زبان کے تحفظ وبقاء کے لیے دو اہم مواقع

تحریر: رحمت اللہ ثاقب مدنی

16 مارچ, 2021
نیپال کے آئین کے مطابق نیپال میں بہ طور مادری زبان بولی جانے والی ساری زبانوں کو قومی زبان کا درجہ حاصل ہے۔ کل 123 زبانیں نیپال کی مادری زبان کی فہرست میں درج ہیں، ان میں سے ایک اردو زبان بھی ہے، جو کہ دس بڑی زبانوں میں دسویں نمبر پر ہے۔
نیپال کے اکثر و بیشتر مسلمان اردو بولتے اور سمجھتے ہیں۔ جب کہ 2011 کی مردم شماری کے مطابق %2.6 یعنی 691,546 نیپالی شہریوں نے اسے بہ طور مادری زبان درج کرایا ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ سارے کے سارے مسلمان ہی ہیں۔ گر چہ سارے مسلمانوں نے اردو کو بطور مادری زبان درج نہیں کرایا ہے، لیکن اتنا تو طے ہے کہ مسلمانان نیپال کے باہمی رابطے کی زبان اردو ہی ہے۔
نیپال میں مسلمانوں کی کل آبادی 2011 کی سرکاری مردم شماری کے مطابق یوں تو %4.39 یعنی 11,62,370 ہے۔ لیکن مسلم تنظیموں کے ذاتی تخمینے کے مطابق ان کی آبادی بیس سے بائیس لاکھ کے قریب یعنی 9 سے 10 فیصد ہے۔ ان میں سے بیشتر مسلمان اردو سمجھتے اور بولتے ہیں۔ جبکہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد اردو لکھنا اور پڑھنا بھی جانتی ہے۔ لیکن چونکہ عموما نیپال کے اندر مدارس اسلامیہ میں ہی اردو کی تعلیم دی جاتی ہے، اور کوئی بھی اسلامی مدرسہ انٹرمیڈیٹ یا کالج کی سطح پر حکومت کی جانب سے منظور شدہ نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے مدارس کے فارغین کی اسناد کو تسلیم نہیں کیا جاتا ہے۔ نتیجتاً حکومتی طور پر اردو کو روزگار سے نہیں جوڑا جا سکا ہے۔ لہذا اردو کی ترویج و اشاعت کا کام سست رفتاری کا شکار ہے، اور اس کے تحفظ وبقاء کا مسئلہ ہمہ وقت در پیش رہتا ہے۔
یقیناً اردو کی اس نا گفتہ بہ صورتحال کے لیے حکومت کے ساتھ ساتھ خود مسلمان بھی ذمہ دار ہیں، بلکہ اس میں مسلمانوں ہی کی کوتاہی زیادہ ہے۔
یاد رہے کہ کسی بھی قوم کی فلاح و بہبود، ترقی اور اس کی قومی شناخت کے تحفظ وبقاء کے لیے اس کی تہذیب وثقافت اور زبان وادب کی ترویج وترقی کا بڑا اہم رول ہوتا ہے۔ چونکہ نیپال کے مسلمانوں کی قومی اور باہمی رابطے کی زبان اردو ہی ہے، (کیوں کہ مسلمانوں کی کوئی بھی مذہبی تقریب ہو، جمعہ کا خطبہ ہو، شادی کا خطبہ اور ایجاب و قبول کا معاملہ ہو، مذہبی اجلاس اور تقریری پروگرام ہوں، اور پورے ملک کے مسلمانوں کا آپس میں رابطے کا معاملہ ہو، ان تمام مواقع پر اردو ہی کا استعمال ہوتا ہے۔ اور دینی تعلیم بھی اردو میں ہی ہوتی ہے) لہذا مسلمانوں کو اپنی علیٰحدہ شناخت برقرار رکھنے اور اپنی تہذیب وثقافت کے تحفظ کے لیے اردو زبان کی ترویج و اشاعت کر کے اسے مضبوط اور مستحکم بنانے کی بھر پور کوشش کرنی ہوگی۔ یوں تو اس کے لیے کئی ایک اہم کام کرنے ہوں گے، تاہم فی الوقت اس کے لیے مسلمانوں کے پاس دو اہم موقعے ہیں:
1- لینگویج کمیشن نے ملک کی تمام 753 پالیکاؤں (مقامی حکومتوں) میں زبان کی صحیح صورتحال کی جانکاری کے لیے چار نکاتی فارم بھیج رکھا ہے، جس میں ہر وارڈ کے اندر سب سے زیادہ تعداد میں بولی جانے والی زبان، دوسرے نمبر پر بولی لجانے والی زبان، تیسرے نمبر پر بولی جانے والی زبان اور سب سے کم بولی جانے والی زبان کے بارے میں سوالات درج ہیں۔ باشندگان وارڈ کے ذریعے پُر کیے گئے فارم کی بنیاد پر ہی لینگویج کمیشن مقامی حکومت کی دفتری (حکومتی کام کاج کی) زبان کا تعین کرنے اور سب سے زیادہ خطرناک حالت میں رہنے والی زبان کے تحفظ کے بارے میں اقدامات کرنے کے لیے مرکزی حکومت کو سفارشات پیش کرے گا۔
چونکہ اس کمیشن کو 5 سال کے اندر ہی وفاقی، صوبائی، اور مقامی دفتری زبان اور بہت کم بولی جانے والی زبانوں کے حالات پر مشتمل رپورٹ حکومت کو سونپنے کی ذمہ داری دی گئی ہے، یہ پنج سالہ میعاد رواں مالی سال کے اختتام کے ساتھ ختم ہو رہی ہے، لہذا کمیشن نے رواں مالی سال کے اختتام سے قبل ہی حکومت کو رپورٹ پیش کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یوں تو کمیشن نے صوبائی دفتری زبانوں کا تعین کر لیا ہے، لیکن اس نے اب تک حکومت کو نہیں سونپا ہے۔
چونکہ اگلے سال (2078 بکرمی) مردم شماری ہونی ہے، اگر اس کا انتظار کیا جائے تو کافی دیر ہوجائے گی، لہذا لینگویج کمیشن نے تمام مقامی حکومتوں سے جلد از جلد فارم پُر کرا کے بھیجنے کی درخواست کی ہے، تاکہ وقت رہتے ہی رپورٹ بنا کر مرکزی حکومت کو پیش کی جا سکے۔ لیکن آئندہ سال کی مردم شماری کے مکمل ہونے کے بعد اس میں موجود زبانوں کی تفصیل کو سامنے رکھ کر اس رپورٹ کو حتمی شکل دی جائے گی۔
2- آئندہ سال پورے ملک میں مردم شماری کرائی جائے گی، اسی ضمن میں مادری زبان کے بارے میں بھی سوال کیا جائے گا، تاکہ اس بات کا پتہ لگایا جا سکے کہ کس زبان کے بولنے والے کتنے ہیں۔ اور پھر اس کی روشنی ہی میں اس زبان کے مقام ومرتبہ کا تعین ہوگا، مرکزی سے لے کر مقامی سطح تک کام کاج کی زبان کا انتخاب و تعین عمل میں آئے گا، اور زبانوں کی ترویج و اشاعت اور تحفظ وبقا کے لیے پروگرام متعین کیے جائیں گے۔
یقیناً تمام مسلمانوں کے لیے یہ دونوں موقعے بہت ہی اہم ہیں، لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے باشعور افراد اور مدارس ومساجد کے ذمہ داروں کی نگرانی میں ان دونوں فارموں کو پُر کریں، اور مادری و بول چال کی زبان کے خانے میں اردو کو درج کرا کر اپنی زبان اور تہذیب کے بقا وتحفظ کو یقینی بنائیں۔
اگر ہم اردو بولنے والوں کی زیادہ سے زیادہ تعداد ان دونوں فارموں میں درج کرانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، یا ملک کے سارے مسلمان اردو ہی کو اپنی مادری زبان کے طور پر درج کراتے ہیں تو پھر حکومت سے مطالبات کر کے اسلامی مدارس کی اسناد کو منظور کرانا آسان ہوگا، اور ہر ناحیے سے اردو کو اس کا اصل مقام اور حق دلانے اور اسے روزگار سے جوڑنے میں ہم کامیاب ہو سکتے ہیں، اور جب اردو زبان روزگار سے جڑ جائے گی، تو اس کے بقاء وفروغ کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔ اس طرح سے ہم مسلمان اپنی زبان اور تہذیب و ثقافت کی حفاظت با آسانی کر سکیں گے۔
اس لیے میں مسلمانوں کی مؤثر شخصیات اور تنظیموں نیز مدارس اسلامیہ کے ذمہ داروں سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ سب اسے قومی وملی فریضہ سمجھ کر تمام ممکنہ وسائل کا استعمال کر کے تن من اور دھن سے اس جانب پوری توجہ مبذول کریں اور اس مشن کو کامیاب بنانے کی بھر پور کوشش کریں۔
اللہ کامیابی سے ہمکنار فرمائے، آمین۔

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter