کورونا کا علاج نہ کرنے کے اعلان پر اولی حکومت نے اقتدار میں رہنے کا جواز کھو دیا!

بقلم : عبد الصبور ندوی

20 اکتوبر, 2020

نیپالى عوام کو اس وقت حکومت کے غلط فیصلوں کے سبب مشکلات اور دقتوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے- نیپالی وزارت صحت کے ترجمان مسٹر جاگیشور گوتم کے مطابق کورنا وائرس (کووڈ –١٩) کے مریضوں کا اسپتالوں میں بنا پیسہ کے علاج نہیں کیا جائے گا۔ اس اعلان کے بعد کٹھمنڈو کے سول اسپتال نے مریضوں کے لئے نوٹس جاری کردی کہ پہلے ایڈوانس پیسے پھر اسپتال میں داخلہ۔ اب کیا تھا تمام اسپتالوں نے کورونا کے مریضوں کے داخلہ پر روک لگادی اور کہا پہلے پیسے جمع کرایں پھر علاج-
١٨ اکتوبر ٢٠٢٠ کو حکومت کے ذریعے لئے گئے اس فیصلے پر مبصرین اور قانون کے ماہرین نے شدید تنقید کی ہے- اور کہا ہے کہ حکومت کا فیصلہ غیر متوازن اور غیر قانونی ہے- وہیں حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں نے اولی حکومت پر مریضوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کا الزام عائد کیا ہے-
قانون دانوں کے مطابق چار وجوہات کی بنا پر حکومت کا فیصلہ غیر قانونی اور غیر دستوری و جمہوری روح کے منافی ہے-
١- نیپالی آئین کی دفعہ ٣٥ کی ذیلی دفعہ ایک میں اس بات کا ذکر ہے: کہ حکومت ہر شہری کو بنیادی صحت کی خدمت مفت فراہم کریگی اور ایمرجنسی کی صورت میں طبی امداد کی مفت فراہمی حکومت پر واجب ہے اور یہ ہر شہری کا بنیادی حق ہے-
٢- مذکورہ بالا دفعہ کی ذیلی دفعہ تین میں اس بات کی یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ : ہر شہری کو صحت کی خدمات تک رسائی کا حق مساوی طور پر حاصل ہے-
٣- عوامی صحت قانون ٢٠٧٥ کے مطابق متعدی امراض کو بنیادی صحت کے دائرے میں رکھا گیا ہے ۔ اور کورونا ایک متعدی بیماری ہے جس پر دنیاۓ طب متفق ہے۔ اس قانون کے مطابق بھی عوام کو کورونا کی جانچ اور علاج مفت ملنا چاہئے۔
٤- آئین نیپال کے مقدمے میں کہا گیا ہے: ‘سوشلزم پر قائم رہ کر ایک خوشحال قوم کی تعمیر کرنا’۔ اس پر ماہر آئین مسٹر بھیم ارجن آچاریہ کا کہنا ہے ، "حکومت کی طرف سے کورونا متاثرہ لوگوں کا علاج نہ کرنے کا فیصلہ آئین کے منافی ہے۔”
اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اولی حکومت نے نیپالی دستور و آئین کی دھجیاں اڑا کر رکھ دی ہے-

بین الاقوامی اسٹیج پر سوالات اٹھیں گے!

حکومت نے عوام کے ساتھ کورونا علاج کے اخراجات لینے کا فیصلہ کرنے سے دو ہفتے قبل ، سپریم کورٹ نے پی سی آر کے مفت ٹیسٹ کا حکم دیا تھا۔ عدالت نے یہ بھی فیصلہ دیا ہے کہ نجی لیبارٹری اور ویزا کے مقاصد کے لئے کورونا ٹیسٹ پر پیسے وصول نہیں کئے جانے چاہییں-
آئین کے ماہر آچاریہ کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے حکم کی تعمیل کی جانی چاہئے بجاے اس کے کہ کوئی یہ کہے مجھے پسند ہے یا نہیں پسند ہے۔ انہوں نے کہا ، عدالتی حکم اختیاری نہیں ہوتا ہے کہ حکومت کہہ دے مجھے پسند نہیں-
ایک اور ماہر آئین ڈاکٹر چندرکانت گیوالی کا کہنا ہے کہ حکومت کے فیصلے میں توہین عدالت ہے۔ انہوں نے کہا ، "سپریم کورٹ کے فیصلے کی نافرمانی پر کوئی بھی ایک رٹ کے ذریعے حکومت کو چنے چبوا سکتا ہے۔”
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر حکومت اس فیصلے کو واپس نہیں لیتی ہے تو ، بین الاقوامی سطح پر نیپال کی شبیہہ خراب ہو جائے گی۔ گیوالی نے کہا ، "بنیادی حقوق پر عمل درآمد نہ کرنے اور کورونا کا علاج نہ کرنے پر حکومت کو اقوام متحدہ اور عالمی ادارہ صحت کو جواب دینا ہوگا۔”

آئین کا نفاذ نہ کرنے والوں کو حکومت میں رہنے کا کوئی حق نہیں!
وزارت صحت نے دعویٰ کیا ہے کہ متاثرہ افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے اور پیسا نہیں ہے ؛ لہذا ان کا علاج نہیں کیا جاسکتا۔ حکومت دوسرے شعبوں میں بے دریغ پیسے خرچ کر رہی ہے جس میں عارضی پوسٹس تشکیل دینا اور سفری الاؤنس بھی شامل ہے۔لیکن صحت کے لئے ایک پیسہ بھی سرکاری خزانے سے دینا گوارہ نہیں-

آچاریہ کہتے ہیں "یہ نہیں کہا جاسکتا کہ عوام کی خدمات صحت کے لئے کوئی رقم نہیں ہے۔” ، "وہ لوگ جو عوام کی بنیادی صحت کی ضمانت بھی نہیں دے سکتے انہیں اقتدار میں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔”

ماہرین کا کہنا ہے کہ لوگوں کی زندگی سے متعلق امور پر بھی غیر آئینی فیصلے کرنے کے بعد حکومت کے رہنے اور نہ رھنے میں کوئی فرق نہیں ہے۔ گیوالی کہتے ہیں ، "ایک بنیادی حق کی تضحیک کرنا اقتدار میں رہنے کا جواز کھونا ہے۔”
اب دیکھنا یہ ہوگا کہ کمیونسٹ حکومت ہوش کے ناخن لیتی ہے یا ملک نیپال کے لئے عالمی پیمانے پر رسوائی کا سامان تیار کرتی ہے-

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter