جھوٹ؛ حسد اور غیبت کی قباحتیں

تحریر:د. عبد المحسن بن محمد القاسم / ترجمة: خالد بشير المحمدي

6 اکتوبر, 2020

جھوٹ کی قباحت :
جھوٹ نفاق کی کنجی اور اس کی اساس ہے ، جھوٹ گھٹیا اور ذلیل ترین لوگوں کی سب سے خاص صفت ہے ،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:((آية المنافق ثلاث : إذا حدث كذب ، وإذا وعد أخلف ، وإذا ائتمن خان )). متفق عليه . ’’منافق کی تین نشانیاں ہیں : جب گفتگو کرے تو جھوٹ بولے ، اور جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے ، اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے‘‘۔
آدم و حوا صرف اس وجہ سے جنت سے نکالے گئے کہ ابلیس نے ان سے جھوٹ بولا تھا ، اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ابلیس کے بارے میں فرمایا: ﴿وَقَاسَمَهُمَآ إِنِّي لَكُمَا لَـمِنَ النَّـٰصِحِينَ﴾(الأعراف : 21)’’ اور اس نے ان دونوں کے رو برو قسم کھالی کہ یقین جانیئے میں تم دونوں کا خیر خواہ ہوں ‘‘۔
اہل علم نے کہا کہ جھوٹے کی حالت جانوروں کی حالت سے بری ہے ، شیخ الاسلام رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’جھوٹا حالت میں گونگے جانوروں سے بھی بدتر ہے ‘‘۔(الفتاوی 20/74)۔
جھوٹ دنیا وآخرت کی بربادی کا سبب ہے ،ابن القیم رحمہ اللہ نے (بدائع الفوائد 1/136 میں )فرمایا: ’’ ہر خراب عمل چاہے ظاہر ہو یا باطن جھوٹ کی پیداوار ہے ،اللہ تعالیٰ جھوٹے کو اس طور سے سزا دیتا ہے کہ اسے اپنے مصالح اور منافع سے روک دیتا ہے ،اور سچے کو اس طور سے ثواب دیتا ہے کہ اسے اپنی دنیا وآخرت کے مصالح انجام دینے کی توفیق دیتا ہے چنانچہ نہ تو صدق کی طرح کسی اور چیز سے دنیا و آخرت کے مصالح حاصل ہو ئے ہیں ،اورنہ ہی جھوٹ کی طرح کسی اور چیز سے دنیا و آخرت کے نقصانات و مفاسد ‘‘۔
اگر جھوٹ کی کوئی خرابی تمہیں لاحق نہ ہو سوائے اس کے کہ یہ تمہیں آخرت میں صدیقیت کے درجے سے محروم کردے گا تو اس کی یہی ایک خرابی کافی اور تمام خرابیوں پر بھاری ہے ،بیشک صدیقیت کا درجہ کوئی جھوٹا کبھی نہیں پاسکتا ہے ،اسواسطے اپنی گفتگو میں جھوٹ سے بچو جھوٹ تمہیں پستیوں میں ڈال دے گا ،تمہارے دوستوں کو تم سے دور کردے گا ،لوگوں کو تم سے متنفر کردے گا ، لین دین اور تعامل میں لوگوں کو تم سے آگاہ اور ہوشیار کردے گا ۔

حسد :
حسد دل کی بیماریوں میں سے ایک بیماری ہے ،یہ ایک عام بیماری ہے جو ہمسروں میں پائی جاتی ہے ،ایک دوسرے کو ناپسند کرنے کی وجہ سے ،یا دوسرے کی فضیلت کی وجہ سے ،حسد شیطان کے انسان کے اندر داخل ہونے کے راستوں میں سے ایک سب سے بڑا راستہ ہے ،یہ یہود کی خصلتوں میں سے ایک بری خصلت ہے ،اللہ عز وجل نے فرمایا:﴿أَمْ يَحْسُدُونَ النَّاسَ عَلَـٰى مَآ ءَاتَـٰهُمُ اللهُ مِن فَضْلِهۦ فَقَدْ ءَاتَيْنَآ ءَالَ إِبْرَاهِيمَ الْكِتَـٰبَ وَالْحِكْمَةَ وَءَاتَيْنَـٰهُم مُّلْكًا عَظِيمًا﴾(النساء : 54)’’ یا یہ لوگوں سے حسد کرتے ہیں اس پر جو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے انھیں دیا ہے ،پس ہم نے تو آل ابراہیم کو کتاب اور حکمت بھی دی ہے اور بڑی سلطنت بھی عطا فرمائی ہے‘‘۔
حسد جلا نے والی آگ ہے جو اس میں مبتلا ہوا وہ اللہ کے عذاب میں ہے ،شاعر کہتا ہے :
لله در الحسد ما أعدله
يبدأ بصاحبه فيقتله
اللہ حسد کا بھلا کرے کیا ہی منصف اور عدل پرور ہے وہ سب سے پہلے حاسد سے اپنا عمل شروع کرتا ہے اور اسے قتل کردیتا ہے ۔
کہا گیا ہے : سب سے پہلے جس گناہ سے اللہ کی نافرمانی کی گئی وہ تین گناہ ہیں : حرص ، کبر اور حسد ، حرص آدم علیہ السلام کے اندر پیدا ہو ،کبر ابلیس کے اندر پیدا ہوا ،اور حسد قابیل کی طرف سے رونما ہو ا اور اس نے اپنے بھائی ہابیل کو قتل کردیا ۔
حسد کرنا دراصل ایک طرح سے اللہ سے لڑنا ہے ،حاسد بندے پر اللہ کی نعمت کو ناپسند کرتا ہے ،اللہ اپنے بندے کو نعمت دینا پسند کرتا ہے اور حاسد بندے سے نعمت کا زوال چاہتا تا ہے ،اور اللہ تعالیٰ اس بات کو ناپسند کرتا ہے چنانچہ یہ اللہ کی قضا و قدر ،اور اس کی پسند و ناپسند میں اس کی مخالفت کرنا ہے ،اور یہ اسلامی بھائی چارہ کے بھی خلاف ہے ،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ((لا تحاسدوا ، ولا تناجشوا ، ولا تباغضوا ، ولا تدابروا ، ولا يبع بعضكم على بیع بعض ، وكونوا عباد الله إخوانا )). رواه مسلم .’’آپس میں ایک دوسرے سے حسد نہ کرو ،بھاؤ بڑھانے کے لیے ایک دوسرے سے بڑھ کر بولی نہ لگاؤ ،آپس میں بغض نہ رکھو ،ایک دوسرے سے پیٹھ نہ پھیرو اور اپنے بھائی کے بیع پر بیع نہ کرو ،اور اللہ کے بندے ! آپس میں ایک دوسرے کے بھائی بن کر رہو ‘‘۔
حاسد بندوں پر اللہ کے فضل کو ناپسند کرنے والا ہوتا ہے ، لوگوں میں مبغوض ہوتا ہے ،اپنی ذات کے لیے پسند کرنے والا ہوتا ،اور دوسروں کے نفع کو ناپسند کر نے والا ہو تا ہے۔
معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ’’ کسی نعمت کے حاسد کے سوا ہر شخص کو میں راضی کرسکتاہوں اس لیے کہ اسے صرف نعمت کا زوال ہی خوش کرسکتا ہے ‘‘۔
ابن القیم رحمہ اللہ نے (بدائع الفوائد 2/462 میں )فرمایا : ’’حاسد اللہ کی نعمتوں کا دشمن اور اللہ کے بندوں کا دشمن ہے ،وہ اللہ کے نزدیک اور اس کے بندوں کے نزدیک مبغوض اور ناپسندیدہ ہوتا ، وہ کبھی بھی سردار بنائے جانے کے لائق نہیں ہوتا اور نہ ہی اسے اسوہ بنایا جاسکتا ہے ، بیشک لو گ صرف ایسے آدمی کو اپنے اوپر سردار بناتے ہیں جو ان کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہتا ہو ‘‘۔فاضل حاسد نہیں ہوتا ہے ، حسد صرف مفضول کرتا ہے ،اور اللہ تعالیٰ اکثر و بیشتر محسود کو وہی نعمت عطا کرتا ہے جس پر حاسد حسد کرتا ہے یا اس سے زیادہ عطا کرتا ہے۔
شیخ الاسلام رحمہ اللہ (الفتاوی 10/112 میں ) فرماتے ہیں : ’’حاسد کا اللہ کی اپنے بندے پر نعمت سے بغض رکھنا ایک مرض ہے ،بیشک وہ نعمت محسود پر لوٹتی ہے اور اس سے عظیم بھی ،اور بسا اوقات اس نعمت کی نظیر اس محسود کے نظیر کو حاصل ہوتی ہے ‘‘۔
محسود مظلوم ہے اسے صبر اور تقوی کا حکم دیا گیا ہے ، اسے حاسد کی تکلیف پر صبر کرنا چاہئے اسے معاف کردینا اور اس سے درگزر کردینا چاہئے ،بلندی محسود ہی کے لیے ہے ،جو شخص اپنے دل میں دوسرے کےلیے حسد پائے اسے فورا صبر اور تقوی کا دامن تھام لینا چاہئے حسد اس کے دل سے ختم ہوجائے گا ،لہذا تم اپنے دل سے حسد کے ازالہ کی کوشش کرو ،محسود کے ساتھ نیکی کرکے احسان کرو ،اس کے لیے دعا کرو ،اس کے فضائل کو عام کرو ،دل سے اس کے لیے حسد کو ختم کرو اور اس حسد کو ایسی محبت سے تبدیل کرو کہ تمہارا مسلمان بھائی تم سے افضل اور بہتر لگنے لگے ۔ابن رجب رحمہ اللہ نے (جامع العلوم و الحکم 1/263 میں )فرمایا:’’یہ ایمان کا اعلی درجہ ہے ،اور ایسا شخص جو اپنے بھائی کے لیے بھی وہی پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرے کامل مؤمن ہے‘‘۔
ابن القیم رحمہ اللہ نے (بدائع الفوائد 2/468 میں )فرمایا : ’’ نفس پر سب سے مشکل اور دشوار کام ،جس کی توفیق صرف اسی کو ملتی ہے جو اللہ کی طرف سے بہت خوش نصیب ہوتا ہے ،حاسد ،باغی اور تکلیف دینے والے کی آگ کو اس کے ساتھ بھلائی اور احسان کے ذریعہ بجھانا ہے ،جب بھی وہ تکلیف ،شر ،ظلم اور حسد میں بڑھ جائے ،تم اس کے ساتھ احسان و نصیحت میں اور اس پر شفقت میں اضافہ کردو‘‘۔

غیبت :
جس کا نفس عزت دار ہے وہ اس کی حفاظت وصیانت کرے گا ،اور جس کا نفس ذلیل ہے وہ اس کی رسی کھول دے گا اسے بے لگام کردے گا ، اسے برائیوں اور گندگیوں میں ڈال دے گا ،اور اسے نقصانات سے نہیں بچائے گا ،لوگ بےپردہ اور باعیب ہیں ،نقصان اور خامیاں ہیں ،تم یہ نہ سمجھو کہ جو تم جانتے ہو وہ دوسرے نہیں جانتے ہیں ،یا تم نے وہ حاصل کرلیا ہے جس سے دوسرے عاجز ہیں ،کامیاب اور ہدایت یاب وہ ہے جس کے عیوب اسے لوگوں کے عیوب سے غافل کردیں ۔
غیبت کرنے والا دین کو بگاڑ دیتا ہے ،اور سلامتی اس سے دور رہنے میں ہے ،عبد اللہ ابن المبارک رحمہ اللہ نے فرمایا : ’’تم غیبت کرنے والے سے دور بھاگو جس طرح تم شیر سے دور بھاگتے ہو ‘‘۔
غیبت برائیاں پیدا کرتی ہے ،حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’اللہ کی قسم غیبت آدمی کے دین میں جسم میں کھانے سے بھی تیز اثر کرتی ہے ‘‘۔تعجب کی بات ہے آدمی صرف اپنے سے افضل شخص کی غیبت کرتا ہے ، رہا اس سے کمتر تو رحمت کو غیبت پر مقدم کرتا ہے ۔
اسلام خواہشات نفسانی سے لڑتا ہے اور غیبت کا بدلہ یوں مرتب کرتا ہے کہ تمہاری نیکیاں اسے دے دی جائیں گی جس کی تم غیبت کرو گے ،یہ تمام باتیں غیبت سے نفرت دلانے کےلیے ہیں ،امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’اگر میں کسی کی غیبت کرنے والا ہوتا تو اپنی ماں کی غیبت کرتا ،کیونکہ لوگوں میں وہی میری نیکیوں کی سب سے زیادہ مستحق ہیں ‘‘ ۔غیبت نیکیوں کی آگ ہے جو نیکیوں کو ایسے ہی کھالیتی ہے جیسے آگ سوکھی لکڑیوں کو ۔
چونکہ غیبت سے دل سخت اور زبان خراب اور بدبودار ہوجاتی ہے اس واسطے علماء اپنے اوپر غیبت سے ڈرتے رہے ہیں ، امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’میں نے کسی کی غیبت نہیں کی جب سے میں نے جانا کہ غیبت حرام ہے ‘‘۔
لہذا تم اپنی زبان لوگوں کی عزتوں سے ،گرے ہوئے اور گھناؤنے الفاظ سے بچاؤ ،تمہارا نفس پاکیزہ ہوجائے گا اور تم لوگوں کے نزدیک محبوب اور خالق کے نزدیک مقرب بن جاؤگے ۔

(من كتاب :خطوات إلى السعادة
تأليف:د. عبد المحسن بن محمد القاسم
إمام و خطيب المسجد النبوي والقاضي بالمحكمة العامة
ترجمة: خالد بشير المحمدي)

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter