مسلم الیکٹرانک میڈیا کا قیام؛ اہم ترین ضروت

ڈاکٹر عبد اللہ فیصل

25 اگست, 2020

مسلم میڈیا مسلمانوں کی ہی نہیں ملک کی ضرورت ہے.
برقی میڈیاکی حیران کن وسعت وحیرت انگیز ایجاد (موبائل ٹیلی ویژن) نے دنیاکو گلوبل ولیج
بنادیا ہے.جس کو خبرو کھیل کود مباحثوں خبروں مختلف دلکش پروگراموں کے ذریعہ اپنی طرف توجہ مبزول کرائ جاتی ہے اس کے علاوہ آج میڈیا سے جنگیں بھی لڑی جا رہی ہیں جسے ہم میڈیائ جبگ  کہ سکتے ہیں. گجرات کے 2002کےفسادات کو یاد کجئیے گجرات میں کوئ مسلم میڈیا نہیں تھا. مقامی گجراتی اخبارورسائل کی شرپسندی اپنے عروج پر تھی. میڈیا اور پولس افسران حکومت کے دباؤمیں ظالم کو مظلوم قاتل کو مقتول بتارہے تھے.احسان جعفری کے گھر میں پناہ گزینوں کے ساتھ جو وحشیانہ سلوک کیا گیا اس کی حقیقت بھی چھپائ گئ.

آج کورونا لاک ڈاؤن سے پریشان حال لوگوں کے حالات اور تبلیغی جماعت کو بدنام کرنے کی سازش مسلم تاریخ سے چھیڑ چھاڑ اور یکطرفہ میڈیا کو استعمال کیا جارہا ہے.ایک کیمونٹی کو نشانہ بناکر دوسری کمیونٹی کو خوش کرنے کی منصوبہ بندی بھی یے.ملک کا میڈیا جانبدار اور کسی ایک خاص پارٹی کا ترجمان بن گیا ہے. ملکی وغیر ملکی خبروں کو توڑ مروڑ کر کے ہی پیش کیا جاتا ہے. ماحول کو خراب کرنے کا ذمہ دار چاٹو میڈیابھی ہے.جوسچائ دکھانے کے بجائے من گڑھت فرضی اور یکطرفہ خبریں پیش کی جاتی ہیں.
مسلمانوں کا کوئ پرسان حال نہ تھا.حکومت کو بھی حقیقی صورت حال سے مطلع کرنےوالا کوئ نہیں تھا.اس کے برعکس ممبئ 1992/93 کے فرقہ وارانہ فسادات سے لیکر آزاد میدان سانحہ تک مسلم.میڈیا کا رول نہایت مثبت رہا مسلم میڈیا کو اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے لئیے وسائل وذرائع کی ضرورت ہوتی ہے جو بد قسمتی سے مسلم کمیونٹی پورا نہیں کر پاتی ہے.ہمارے یہاں دولت وثروت کی کمی نہیں بے شمار مواقع پر اسراف وفضول خرچی کا بدترین مظاہرہ دیکھا جا سکتا ہے. شادی بیاہ ودیگر تقریبات میں کروڑوں خرچ کر دینے والی یہ کمیونٹی اپنی میڈیا کی سرپرستی کے موقع پر پیچھے ہٹ جاتی ہے جس کی وجہ سے میڈیا کو ہاتھ پیر مارنا پڑتا ہے. اگرمسلم کمیونٹی کی فلاح وبہبودعزیز ہے تو میڈیا کی طاقت وقوت واہمیت وافادیت کو پہچاننا ہوگا.اور اس کی حوصلہ افزائ کرنی ہوگی.یہ میڈیا کی ہی نہیں بلکہ خود مسلم کمیونٹی کےوجود وبقاء کا سوال ہے.
الیکٹرانک میڈیا کے قیام کی کوششیں ہو چکی ہیں.
اور کئ ٹی وی چینل چل بھی رہے ہیں. لیکن وہ نیوز چینل نہ رہ کر اپنے اپنے مسلک کی تبلیغ کا ذریعہ ہیں.

سابق وزیر اعظم ایچ دڈی دیوگوڑا کی کابینہ میں سی. ایم. ابراھیم صاحب وزیر اطلاعات ونشریات تھے میں الیکٹرنک میڈیا کی کوشش کی تھی لیکن معرض التواء میں ڈال دیا گیا. ایک مضمون کی تلخیص وترتیب پیش خدمت ہے. "آج شدت کےساتھ الیکٹرانک میڈیا کی ضروت کو محسوس کیا جاتا ہے. برقی میڈیا کے قیام کا وقت کی اہم ضرورت ہے.آج ذرائع ابلاغ کا اپنی متعدد قسموں اور چینلوں کے ساتھ بچے کی اور خاندان ومعاشرہ کی فکر کی تشکیل میں اور اخلاقی رویوں کی درستگی میں بڑا زبردست رول ہے۔ یہ ذرائع ابلاغ جن مضامین ومواد کو شوق پیدا کرنے، ابھارنے اور بہت سی چیزوں کی طرف مائل کرنے کے لیے شائع کرتے ہیں نہایت ہی حساس اور عصر حاضر کا سلگتا ہوا موضوع ہے۔ نہ صرف یورپ وامریکہ؛ بلکہ دنیا کا پسماندہ سے پسماندہ ملک بھی اس کے چنگل سے باہر نہیں ہے۔ اور سب سے زیادہ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جو انسان یا قوم یا ملک ترقی کی راہ پر چلنے کی کوشش کرتا ہے،اس کےلیے ناگزیر ہے اس کے بغیر اس دور میں ترقی کا تصور اور اپنی بالادستی کا خیال ایک وہم کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ آج دنیا اس کو میڈیا کے نام سے جانتی ہے۔اخبارات، جرائد، مجلے، ماہنامے، ٹیلی ویژن، ریڈیو، انٹرنیٹ وغیرہ اسی تناور درخت کی مختلف شاخیں ہیں۔خیر اور شر کے اعتبار سے ہم میڈیا کو دو خانوں میں بانٹ سکتے ہیں۔ ظاہر ہے میڈیا کااستعمال صالح مقاصد کے لیے کیا جائے تو اس کے فوائد اس قدر ہیں کہ گنے نہیں جا سکتے.جبکہ برے مقاصد کے لیےاستعمال کیا جائے تودنیا میں اس سے بری چیزاور کیا ہوسکتی ہے!یقینا آج میڈیا کے یہ دونوں دروازے سب کے لیے کھلے ہوئے ہیں۔ اور حسب منشا لوگ اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔میڈیا کی تقسیم
دیکھا جائے تو میڈیا کوتین خانوں میں بانٹا جاسکتا ہے جس کا تعلق دیکھنے سے ہو۔ مثلا: ٹیلی ویژن اور وی سی آر وغیرہ۔دوسراجس کاتعلق سننے سے ہو۔جیسے: آڈیوکیسٹ، ایم پی3، ریڈیو اور باجے وغیرہ۔
تیسرا جس کا تعلق پڑھنے سے ہو۔ جیسے: اخبار، جرائد، رسالے اور مجلے وغیرہ۔ان میں سے اوّل الذکر اور ثانی الذکردونوں کو ہم الیکٹرانک میڈیا سے تعبیر کرتے ہیں۔ جبکہ تیسری قسم کو پرنٹ میڈیا کا نام دیا جاتاہے۔ آج میڈیا کے ان عناصر کی اہمیت کا کون منکرہو سکتا ہے، اور انسانی زندگی کا کون ساشعبہ ہے، جو ان سے خالی اور الگ تھلگ ہے۔ بلکہ نئی نسل کی زندگی کا آغاز ہی میڈیا سے ہوتاہے۔آج چاہے مسئلہ حکومت و سیاست کا ہو، چاہے دین کی نشر واشاعت کا ہو، کمپنی، ٹریڈاوربزنس کےفروغ کا معاملہ ہو، جدید تعلیمی وسائل کی فراہمی کی بات ہو، یا کورٹ کچہری کا معاملہ ہو. مگر دین کی نشر واشاعت میں بھی ہر مذہب کے پیروکارجس حد تک آگے نکل چکے ہیں، ہم اس کی گردِ راہ کو بھی نہیں پاسکتے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ نا ممکن اور محال ہو چکا ہے؛ بلکہ معاملہ یہ ہے کہ دوسرے مذاہب کے مقابلہ میں ہم یقینا بہت پیچھے ہیں۔ لوگ تحریف شدہ مذاہب، ترمیم شدہ دین دھرموں اور صرف احبارورہبان کے ملفوظات ہی نہیں؛ بلکہ اپنے وضع کردہ اصولوں کو بھی دین کا نام دے کر ، اس کی نشر واشاعت میں جس قدر میڈیا کا استعمال کررہے ہیں، ہم اس کا اندازہ بھی نہیں لگا سکتے ہیں۔ جبکہ لوگ نہ صرف دنیوی اموربلکہ اپنے دینی امور میں بھی ایک دوسرےپر سبقت لے جانے کی پوری کوشش میں ہیں۔ مگر ہم اب تک خوابِ خرگوش میں مبتلا ہیں۔ جبکہ ہمارے پاس تمام آسمانی صحیفوں کا سب سے آخری اور عظیم الشان نسخہ، یعنی رب کریم کا قرآن موجود ہے۔ جبکہ ہمارے پاس پیغمبرِ انسانیت پیارے نبی جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات، یعنی احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک مایۂ ناز ذخیرہ موجودہے۔ اس کے علاوہ ائمہ ومحدثین اور علماء ومفسرین کے گراں بہا خزانے بھی موجود ہیں۔ اور ایسا بھی نہیں کہ یہ امت میڈیا کے اخراجات کی متحمل نہیں ہو سکتی ہے۔ بلکہ اس قوم کو نہ صرف قوت ارادی وافر مقدار میں ملی ہے؛ بلکہ قوت تحمل بھی کافی مقدار میں اس کے پاس موجود ہے۔ بس ضرورت ہے بیدار ہونے اور ضروریات وتقاضوں کو اچھی طرح سمجھ کر مناسب قدم اٹھانے کی ضرورت ہے. سچ ہے کہ انسانی زندگی اور معاشرہ کی تشکیل پر اس کے مثبت اور منفی دونوں اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس نازک موڑ پر ار باب فکر وفن اور اصحاب سیم وزر پر، یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ میڈیا کے تمام شعبوں اور شاخوں کو، اور اس کے تمام وسائل کو دنیا میں صحیح دین کی صحیح اشاعت اورانسانیت کی رہبری، امن وسلامتی اور سماج کی ترقی اور ہر اچھے کام کے لیے مسخر کرلیا جائے۔ تاکہ نور وظلمت کے تصادم میں شیشۂ ظلمت وضلالت پاش پاش ہو کر رہ جائے۔ ایک بات ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ میڈیا کا اٹیک،براہِ راست انسان کے ذہن ودماغ پر ہوتا ہے۔ اسی لیے وہ زیادہ مؤثر مانا جاتا ہے۔ اس کے ذریعہ بڑی آسانی سے کسی فکر کو عام کرنے میں بڑی مدد ملتی ہے۔ خواہ معاملہ عقائد وعبادات کا ہو، خواہ اخلاق وعادات کا ہو،یا آپسی لین دین کا معاملہ ہو، ہر شعبہ میں کام کیا جاسکتا ہے. میڈیا کے دور میں اصحاب شر نے شر پھیلانے میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی اور آپ اس کے ذریعہ خیر کے پھیلانے کوئ کسر نہ چھوڑیں
آپ کے اوپر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ آپ اپنی اولاد کو اس آگ سے بچائیں؟ آج کون انسان ہے، جو اولاد کی تربیت کے بارے میں سرگرداں اور پریشان نہیں ہے؟ ان پریشانیوں کا حل یہ نہیں ہے کہ آپ حقائق سے آنکھیں موند لیجئے۔ آنکھیں موند لینے سے حقیقت چھپ نہیں جاتی۔البتہ انسان کا ضمیر اور احساس ضرور ختم ہوجاتا ہے ۔ اسی لیے ان حقائق سے نظریں ملا نے کی کوشش کیجئے۔ ان کو دیکھنے سمجھنے اور ان سے مقابلہ کے لیے تیاری کیجئے۔ عقلمندی کی بات یہ ہے کہ آپ اپنی اولاد کو، نئی نسل، سماج اور دنیا کو ایک نعم البدل ضرور عطا کر سکتے ہیں۔ اگر کہیں سے ایمان کش اور زہریلے پروگرام پیش کیے جاتے ہیں، تو آپ ایمان افروزواقعات مرتب کرکے پیش کریں وبیان سے میڈیا کو بھر دیجئے۔ کہیں اگر حیاسوزی کا کام ہورہا ہے تو اس کے مقابلہ میں آپ عفت وعصمت کی حفاظت کے وہ نادر نمونے دنیا کے سامنے پیش کیجئے کہ دنیا دنگ رہ جائے۔ یقیناً میڈیا کو انسانی زندگی سے دور نہیں کیا جاسکتا ہے۔ مگر میڈیا میں صحیح چیزیں داخل کرکے انسانی زندگی کو پر سکون بنانے کا کام کیا جاسکتاہے. کیونکہ زمانہ کو اس کی آمد کا شدت سے انتظار ہے. آپ میں سے کوئی میڈیا کے کسی بھی شعبے سے جڑا ہوا ہے، تو وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ میڈیا معاشرہ کا آئینہ دار ہوتاہے، اور معاشرہ کا رہبر بھی۔ آج میڈیا کو معاشرہ کی تشکیل میں کلیدی حیثیت حاصل ہے، جو میڈیا کے ذریعہ پیش کی جاتی ہے۔ آج عمداً وسہواً ہر کوئی میڈیا پر منحصر ہے.
آج میڈیا کے دور میں بڑی افراتفری کاعالم ہے۔ رائی کو پربت اور ذرہ کو پہاڑ بنانا میڈیا کا اپنا شوق ہے۔ بہت سارے لوگ من گھڑت واقعات کو بھی پیش کرتے ہیں۔ اس کے پیچھے ان کا مقصد اور انجام جو بھی ہو، دین کی دعوت اور اس کی نشر واشاعت کے لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ کو یمن بھیجا ۔ یعنی انہوں نے وہاں دین کا پیغام پوری ذمہ داری کے ساتھ پہنچایا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مصعب بن عمیر کو اپنا سفیر بنا کر مدینہ منورہ روانہ کیا۔ عہد صحابہ میں بھی اشاعت دین کے لیے صحابہ کا زمین میں پھیل جانا، ایک عظیم کارنامہ تھا، جس سے اسلام پھیلا۔ آج اس پیغام کو عام کرنے کے لیے ہم کو زیادہ اسفار کی ضرورت نہیں ہے۔ بلکہ میڈیا کے صحیح استعمال کی ضرورت ہے۔

میڈیا کے استعمال کی انہیں اپنے پروگرام کی کامیابی اور مشن کی بہبودی ہی نظر آ تی ہے چاہے اس کا اثر ایمان پر پڑے یا اسلام پر، کوئی فرق نہیں پڑتا۔ خواہ اس سے معاشرہ برائی کے دلدل میں پھنس جائے یا نئی نسل برباد ہو جائے اس سے کوئی مطلب نہیں۔ انہیں تو بس خود چمکنے، اپنے میڈیا کو چمکانے اور دنیا کمانے کی فکر دامن گیر رہتی ہے۔ کسی کے کام بگڑ نے سے ان کو کیا مطلب!
دوسری بڑی مصیبت یہ بھی ہے کہ میڈیا زر کثیرکا محتاج ہوتاہے۔ جس قدرہم میڈیا میں کام کرنا چاہتے ہیں، اسی قدر اس میں لاگت آئےگی۔تیسری مصیبت اور پریشانی یہ کہ آج کل میڈیا میں جو پروگرام پیش کیے جاتے ہیں، وہ عموما ً ان لوگوں کے تیار کردہ ہوتے ہیں، جنہیں ایمان واسلام اور عقائد واخلاقیات سے کوئی مطلب نہیں ہوتا۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بجائے فائدہ کے اس میں نقصان زیادہ ہوتاہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ دنیوی پروگرام پیش کرنے والے بھی اخلاقیات کااہتمام نہیں کرتے ہیں۔ بسااوقات اس فن سے نابلد لوگ بھی اس میں حصہ لے لیتے ہیں، جو یقینا ًکافی ضرررساں ہے۔ لہذاہر فن کے ماہرین کوہی اس فن کے پروگرام کو تیار کرنا چاہئے۔
فاسد پرگراموں کاانسداد ضروری آج میڈیا میں جو پرگرام پیش کیے جاتے ہیں، ان کی نگرانی ضروری ہے۔ اس لیے کہ اس میں ضرر اور زہر پوشیدہ ہوتا ہے، جس سے خصوصا ً بچے اور عورتیں نہیں بچ پاتی ہیں۔الیکٹرانک میڈیا(Electronic Media) کی ایک عجیب بات یہ بھی ہے کہ عموماً پروگراموں میں اختلاطِ مرد وزن کو فروغ دیا جا تا ہے۔ بلکہ میاں بیوی کے آپسی تعلقات میں سوائے جماع کے دیگر تمام حرکات کو نشر کرتے ہیں۔ مثلاً بوس وکنار، بغل گیر ہونا، معانقہ وغیرہ وغیرہ۔ ان چیزوں کو بار بار دیکھے جانے سےعموماًکم سنی ہی سے بچوں کے ذہن میں یہ بات بیٹھ جاتی ہے کہ یہ بوس وکنار یامعانقہ وغیرہ ایک عام سی بات ہے۔ اور یہ حرکتیں ان بچوں کی زندگی میں لاشعوری طور پر برباد ہونے اور بچوں کے بگڑنے کا اندیشہ ہے.بلکہ وہ لوگ تو بنی بنائی اسکیم اور منصوبہ بند طریقہ کے تحت یہ سب کچھ کرتے ہیں۔ تاکہ دنیا اباحیت کی آماجگاہ بن جائے۔ اس لیے حسبِ استطاعت مسلمانوں کے لیے اس کی اصلاح اور اس کا نعم البدل پیش کرنا ضروری ہے۔(منقول)
ارشاد ربانی ہے:
"تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لئے پیدا کی گئی ہے کہ تم نیک باتوں کا حکم کرتے ہو اور بری باتوں سے روکتے ہو، اور اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہو ۔”
اللہ کے فضل وکرم سے ہمارے پاس سب سے بڑا طاقتور وموثر میڈیا پنجوقتہ نمازیں ہیں جمعہ کے خطبے ہیں ہم اس کے ذریعہ پیغام دے سکتے ہیں اور ملت میں سماج میں مثبت اور اہم رول ادا کرسکتے ہیں.
مسلم ممالک میں جہاں مسلمانوں کی حکومت قائم ہے، وہاں واجب ہے کہ حکومتی سطح پر میڈیا کا صحیح استعمال کیا جائے، اور غلط دروازوں کو بند کیا جائے۔ اور اسلام کی نشرواشاعت میں میڈیاکا پورا پورا استعمال کیا جائے۔ اِن شاء اللہ اس سے ملک وملت اور قوم ومعاشرہ میں خیر کی راہیں کھلیں گی، اور امن کا ماحول پیدا ہوگا.9892375177
faisalkhan98923@gmail.com

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter