قربانی کے احکام و مسائل

عبدالوحيد حفيظ الرياضي

20 جولائی, 2020
قرباني كا جانور عيب دار نہ ہو:
عن  البراء بن عازب رضي الله تعالي عنهما قال : قام فينا رسول الله صلى الله عليه وسلم  فقال : ” أربع لا تجوز في الأضاحي ". فقال : ” العوراء البين عورها، والمريضة البين مرضها، والعرجاء البين  ظلعها ، والكبيرة التي  لا تنقي  ". رواه أحمد والأربعة وصححه الترمذي وابن حبان.
ترجمہ :  حضرت براء بن عازب رضي الله عنه مروی ہیکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان کہڑے تہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چار قسم کے جانور قربانی میں جائز نہی ہے ایک وہ  اندہاجانور جسکا اندہا پن ظاہر ہو اور وہ بیمار جانور جسکی بیماری واضح ہو اور لنگڑا جانور جسکا لنگڑاپن نمایاں اور ظاہر ہو اور وہ جانور جو نہایت ہی بوڑہا ہوگیا ہو جس کی ہڈیوں میں گودا نہ رہا ہو. ( اس حدیث کو امام احمد، ابو داود، نسائی، ترمذی، اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور امام ترمذی ارو ابن حبان نے اسے صحیح قرار دیا ہے)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قربانی کا جانور مذکورہ بالا چار عیوب سے پاک ہو…
ذبح کرنے کے آداب وطریقہ :
ذبح کرتے وقت جانور کوقبلہ رخ لٹایاجائے ، یہ سنت ہے۔ اگر غیرقبلہ پہ ذبح کرلیاگیاہوتوبھی کوئی حرج نہیں ۔قربانی دینے والا خود سے ذبح کرے ، اگر ذبح کرنا اس کے لئے مشکل ہوتو کوئی بھی اس کی جگہ ذبح کردے۔ جب جانور ذبح کرنے لگیں تو چھری کو تیز کرلیں تاکہ جانور کو ذبح کی کم سے کم تکلیف محسوس ہو۔
زمین پر قبلہ رخ جانور لٹاکر تیزچھری اس کی گردن پہ چلاتے ہوئے بولیں بسم اللہ واللہ اکبر ۔ اتنا دعابھی کافی ہے اور نیت کا تعلق دل سے ہے ۔ یہ دعا بھی کرسکتے ہیں :
"بِاسْمِ اللهِ وَاللهُ أَكْبَرْ أَللهُمَّ هذا مِنْكَ وَلَكَ اَللھُم َّھذَا عَنِّيْ وَ عْن أهْلِ بَيْتِيْ "
مندرجہ ذیل دعا بهی پڑھنا سنت سے ثابت ہے .
"إنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَالسَّمَاْوَاتِ وَاْلأَرْضِ حَنِيْفًا وَمَاْأَنَاْمِنَ الْمُشْرِكِيْنَ، إِنَّ صَلاْتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَاْيَ وَمَمَاتِيْ لِلّهِ رَبِّ اْلعَاْلَمِيْنَ، لَاْشَرِيْكَ لَه’وَبِذالِكَ أُمِرْتُ وَأَنَاْ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ، بِاسْمِ اللهِ وَاللهُ أَكْبَرْ أَللهُمَّ هَذا مِنْكَ وَلَكَ أَللهُمَّ تَقَبَّلْ مِنِّيْ ( وَمِنْ أَهْلِ بَيْتِيْ)”
* اس حدیث کو شیخ البانی نے مشکوہ کی تخریج میں صحیح قرار دیا ہے اور شعیب ارناؤط نے اس کی تحسین کی ہے۔
ذبح کرنے میں چند باتیں ملحوظ رہے ۔ ذبح کرنے والا عاقل وبالغ مسلمان ہو،کسی خون بہانے والے آلہ سے ذبح کیا جائے،ذبح میں گلہ یعنی سانس کی نلی اور کھانے کی رگیں کاٹنی ہیں اور ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لینا ہے ۔ بے نمازی کی قربانی اور اس کے ذبیحہ بابت جواز وعدم جوازسے متعلق علماء میں اختلاف ہے ۔ میں یہاں اتنا ضرور کہوں گا کہ ترک نماز بالاتفاق کفر ہے ۔ قربانی دینے والا یا ذبح کرنےوالا اپنے اس عمل سے پہلے توبہ کرے اور آئندہ پابندی نماز کا عہد کرے ۔ عورت اپنی قربانی اپنے ہاتھوں سے کرسکتی ہے اور قربانی دن کی طرح رات میں بھی کی جاسکتی ہے ۔
گوشت کی تقسیم:
قربانی کا گوشت تین حصوں میں تقسیم کرنا ضروری نہیں ہے بلکہ مستحب ہے کیونکہ قربانی کی اصل کهانا اور کهلانا ہے ، بچے ہوئے گوشت کو ذخیرہ کرنے میں بهی کوئی حرج نہیں۔ غیر مسلم کو قربانی کا گوشت دیا جاسکتا ہے، اس سلسلے میں جید علماء کے فتاوے ہیں۔
قرض لیکریا جو مقروض ہواس کا قربانی دینا :
جسے قربانی کی وسعت و طاقت ہو وہی قربانی کرے اور جو قربانی کی طاقت نہیں رکھتا اسے رخصت ہے اس لئے قربانی کی خاطر قرض لینے کی ضرورت نہیں ہے ۔ جو ہمیشہ سے قربانی دیتے آرہے اچانک غریب ہوجائے یا قرضے میں ڈوب جائے اسے مایوس نہیں ہونا چاہئے اور قرض کے بوجھ سے قربانی نہیں کرناچاہئے بلکہ فراخی ووسعت کے لئے اللہ سے دعا کرنا چاہئے ۔ اگر کوئی معمولی طور پرمقروض ہو،قرض چکانے اور قربانی دینے کی طاقت رکھتا ہو اسے قربانی دینا چاہئے ،اسی طرح اچانک عیدالاضحی کے موقع سے کسی کا ہاتھ خالی ہوجائے اور کہیں سے پیسے کی آمد کی آس ہواور ایسے شخص کو بآسانی قرض مل جائے تو قربانی دینا چاہئے کیونکہ اس کے پاس پیسہ ہے مگر ہاتھ میں موجود نہیں ہے ۔
حاجی کی طرف سے قربانی:
حاجیوں کے اوپر عیدالاضحی کی قربانی ضروری نہیں ہے ،ان کے لئے حج کی قربانی ہی کافی ہے لیکن عیدالاضحی کی قربانی دینا چاہئے تو دے سکتا ہے ۔ یا ایک صورت یہ ہوسکتی ہے کہ حاجی اپنے پیچھے گھروالوں کے لئے اتنا پیسہ چھوڑجائے تاکہ وہ لوگ قربانی دے سکیں ۔
نبی ﷺ کی طرف سے قربانی :
نبی کریم ﷺ کی طرف سے قربانی دینے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا ہے ، صحابہ کرام سے زیادہ نبی ﷺ سے کوئی محبت نہیں کرسکتا مگر ان میں سے کسی سے بھی نبی ﷺ کے نام سے قربانی کرنا ثابت نہیں ہے ۔ جولوگ نبی ﷺ کے نام سے قربانی کرنے کا جواز پیش کرتے ہیں ان کا استدلال ان روایات سے ہے جن میں نبی ﷺ نے اپنی جانب اور امت کی جانب سے قربانی کی ہے ۔
ثم أخذها ، وأخذ الكبشَ فأضجَعَه . ثم ذبحَه . ثم قال ( باسمِ اللهِ . اللهم ! تقبل من محمدٍ وآلِ محمدٍ . ومن أُمَّةِ محمدٍ ) ثم ضحَّى به (صحيح مسلم:1967)
ترجمہ : اور آپﷺنے مینڈھا پکڑا اور اس کو لٹایا پھر اس کو ذبح کیا پھر فرمایا اللہ کے نام کے ساتھ اے اللہ قبول فرما محمدﷺ کی طرف سے اور آل محمدﷺ کی طرف سے اور امۃ محمدیہﷺ کی طرف سے پھر قربانی کی .
یہ روایت مسلم شریف کی ہے ، اس سے یوں استدلال کیا جاتا ہے کہ امت محمد میں زندہ مردہ دونوں شامل ہیں لہذا نبی ﷺ کی طرف سے بھی قربانی کر سکتے ہیں ۔ حالانکہ یہ استدلال درست نہیں ہے کیونکہ یہاں امت محمد سے مراد زندہ لوگ ہیں ، اس بات کی تائید ان روایات سے ہوتی ہے جن میں ’’عمن لم یضح من امتی‘‘ کے الفاظ وارد ہیں گویا آپ ﷺ نے اپنی امت کے ان اشخاص کیطرف سے قربانی کی جو قربانی نہ کر سکے تھے۔
اگر امت محمد میں فوت شدگان کو بھی شامل کر لیا جائے تب بھی نبی ﷺ کی طرف سے قربانی نہیں ثابت ہوتی زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ زندہ کی طرف سے قربانی کرتے ہوئے میت کا نام لیے بغیر ایسے عام کلمات استعمال کئے جاسکتے ہیں ۔
نبی ﷺ کی طرف سے قربانی کرنے کی ایک اور روایت ہے جوحضرت علی رضی اللہ عنہ سے ہے ۔
عَن عليٍّ : أنَّهُ كانَ يُضحِّي بِكَبشينِ أحدُهُما عَنِ النَّبيِّ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ ، والآخرُ عن نفسِهِ ، فقيلَ لَهُ : فقالَ : أمرَني بِهِ – يَعني النَّبيَّ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ – فلا أدعُهُ أبَدًا(ضعيف الترمذي:1495)
ترجمہ: علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ دو مینڈھے کی قربانی کرتے تھے ایک نبی ﷺ کیطرف اور دوسرا اپنی طرف سے اس بابت ان سے کلام کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ آپ یعنی نبی ﷺ نے مجھے اس کا حکم کیا ہے میں اسے ترک نہیں کر سکتا۔
یہ روایت ثابت نہیں ہے ، اس کی سند میں شریک بن عبداللہ بن شریک کثیر الخطاء ہونے کی وجہ سے ضعیف اور اس کا شیخ ابوالحسناء حسن کوفی مجہول ہے ۔
اسی لئے شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے ، اس سے بھی دلیل نہیں پکڑی جاسکتی ۔
گویا نبی ﷺ کی طرف سے قربانی کرنا سنت سے ثابت نہیں ، کسی کے لئے جائز نہیں ہے کہ نبی ﷺ کے نام سے عیدالاضحی پہ قربانی کرے ۔
میت کی طرف سے قربانی :
میت کی طرف سے قربانی دینے کے لئے وہی ثبوت پیش کئے جاتے ہیں جو نبی ﷺ کی طرف سے قربانی دینے کے لئے پیش کئے جاتے ہیں اور نبی ﷺ کی طرف سے قربانی دینے کا حکم اوپر معلوم ہوگیا ۔ ہاں کوئی اپنی قربانی میں میت کو شریک کرلے تو اس صورت کو علماء نے جائز کہا ہے ۔ اس سلسلے میں میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ جو لوگ میت کی طرف سے قربانی دینا چاہتے ہیں وہ قربانی کا پیسہ میت کی طرف سے صدقہ کردیں ، یہ ایسی صورت ہے جس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے اور اس کی دلیل موجود ہے ۔ میت نے اگر قربانی کرنے کی وصیت کی ہو تو پھراس کا نفاذ ضروری ہے ۔ازقلم/ عبدالوحيد حفيظ الرياضي
جامعة الملك سعود رياض – سعودي عرب – 

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter