مشرقی نیپال فضلیت کی تعلیم سے محروم کیوں؟

تحریر: عظیم الدین مدنی 009779871818837

14 جون, 2020
یہ دور سوشل میڈیا کا ہے جتنی تیزی سے عروج انسان کو نظر آتا ہے اتنے ہی تیزی سے زوال بھی، گویا سوشل میڈیا کے ذریعہ تشہیر ہونے والی چیز میں پیداری بہت کم نظر آتی  چلی جا رہی ہے، بہت سے لوگ جلد بازی میں فیصلہ لیکر قوم کی فلاح و بہود کا ایجنڈا اپنے سر لے لیتے ہیں اور اس کا نتیجہ سوائے صفر کے اور کچھ نہیں ہوتا۔اس لیے سماجی اور ملتی کاج کے لیے آپس میں صلاح و مشورہ اور تجربہ کار لوگوں سے رائے لینا اسلام کا عین مقصد ہے اور جس نے بھی اسے  پس پشت ڈال دیا اسے  منہ کی کھانی پڑی ۔
مجودہ دور کے مشرقی نیپال میں جو تعلیمی بحران یے وہ کسی سے مخفی نہیں ہے جس کے کئی وجوہات ہیں۔
1 اقتصادی مار
2.اساتذہ کے ساتھ ارباب مدارس کی بد سلوکی 
3. تعلیم و تعلم سے کنارہ کشی
ان تینوں نکتوں میں سے پہلا اور دوسرا نکتہ پر غور فکر کرنا بیحد ضروری ہے کیونکہ کسی بھی چیز کو بام عروج پر پہونچانا مادیت کا اہم کردار ہے لیکن ہائے افسوس اس پر بغیر غور و فکر کیے ہوئے سماجی ترقی کو اپنے کندھا پر لینا سوائے وقت پاشی اور زیاں عمر کے کچھ نہیں۔
ایک عالم دین اپنی توانائی کی  نصف عمر  صرف دینی تعلیم حاصل کرنے میں صرف کرتا ہے اور پھر جب وہ کسی ادارے سے جڑتا ہے تو اسے ایک نابالغ بچے کی صف میں کھڑا کر کے اور اسی کے معیار کے مطابق اس کی تنخواہ  طے کرتا ہے پھر نتیجتا اسی وقت سے ایک صاف شفاف مثبت سوچ رکھنے والے شخص کے اندر ایک منفی سوچ سما جاتی ہے اور  اپنے ماتحتی کی ضروریات پوری کرنے خاطر   اپنے  وطن محبوب کو داد مفارقت دینے پر مجبور ہو جاتا ہے اور اپنی بیش بہا عمر کو غیر ممالک میں گواں دیتا ہے اور جب جوانی ڈھل جاتی ہے اور اس میں  سوچنے سمجھنے کی صلاحیت   ناپید ہو جاتی ہے تو گھر واپس آتا ہے اور پھر اپنی زندگی کے باقی ایام بغیر تعمیری قوم کے یوں ہی صرف کر دیتا ہے پھر اسی کا نتیجہ  ہے قوم کی ترقی کرانے اور ملت میں بیداری لانے میں مشکل ہی مشکل  نظر آنے لگتی ہے۔
لیکن کسی بھی صاحب خیر کی توجہ خادم دین  کی تنخواہ کے معیار کی طرف نہیں ہوتی بلکہ بعض کی سوچ یہ ہوتی ہے عالم دین مادی اعتبار سے جتنا کمزور ہو اسے اتنا ہی  استحصال کیا جائے تاکہ پوری مریادہ کو تار تار کر مدرسہ سے لیکر فیملی سمیت ارباب مدرسہ کی خدمت میں اپنی زندگی مامور کر دے تاکہ غلامانہ زندگی گزارنے میں ذرا سا دریغ نہ کرے،  اور خود  یہ صاحب مدارس پارسا اور متقی  کا  لباس  زیب تن کرکے،عیاری اور مکاری    کا چولہ اڑھ کر   اخلاص و للہیت کا بیجا راگ الاپ کر  لچھے دار انداز میں  کلمات کو سجا سجا کر اور عوام الناس کے سامنے گھریالی آنسو بہا کر عالم دین کو نصیحت فر ما ہوتا ہے، اور پھر بچوں کی طرح اسے اخلاص کی عار میں  لالی پاپ دیکھا دیتا ہے۔
حد تو یہ ہے فضیلت میں تدریسی خدمت انجام دینے والے کی پر کشش تنخواہ ایک ہل جوتنے اور سڑک پر کچڑے چننے والے سے بھی کم طے کی جاتی ہے  تو بھلا امت کی تعمیری اور بیداری کام کیسے ممکن ہوگا؟ 
اس لیے مرحلہ عالمیت اور فضیلت میں تدریسی خدمت انجام دینے والوں کی معقول اور معیاری تنخواہ 30000 نیپالی سے اوپر طے کرنے کی ضرورت ہے تاکہ آسانی سے پریوار کا بوجھ سے نپٹ کر یکسوئی کے ساتھ تدریسی خدمت انجام دے سکے۔
مگر جب ہم حالت حاضرہ کے ذمہداران مدرسہ کا جائزہ لیتے ہیں تو بعض ایسے مسوولین کا پتہ چلتا ہے قومی خدمت کے نام پر اپنی پراپرٹی بنانے میں ہر وہ کام کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں جسے سن کر یا دیکھ کر ذرا سا انسانیت کی ہمدردی رکھنے والے دنگ رہ جاتے ہیں۔
ان کی سوچ یہ ہوتی ہے کم سے  کم تنخواہ پر جو بھی مدرس مل جائے اسی کو رکھا جائے پھر وہ معیاری ہو یا نہ ہو ہر گھنٹی دیکر تعلیمی خانہ پوری کی جائے  اور جلدی اور زیادہ سے زیادہ  طلبہ کو سند دیکر مدرسہ کا نام روشن کیا جائے، مستقبل میں چاہے اس کا جو بھی خمیازہ بھگتنا پڑے اسے اس کا کوئی سروکار نہیں ۔ بس اپنی تجارت سرگرم رہنی چاہیے۔
جبکہ قوم و ملت کے مستقبل یہی بچے ہوتے ہیں اور جس قوم میں تعلیمی گراوٹ آجائے تو اس کی آخرت اور دنیا دونوں برباد ہو جاتی ہے، کمال یہ نہیں ہے کہ فضیلت تک کی تعلیم ہو، کمال تو یہ ہے بچے کی تعلیم عمدہ کیسے ہو تاکہ مستقبل میں قوم و ملت کا نقصان نہیں ہو، اس کے لیے ضروری ہے کم ہی بچے رکھیں اور معقول تنخواہ دیکر باصلاحیت اور ذی ہوش مدرس کی بحالی کریں تاکہ کم ہی بچے سے زیادہ سے زیادہ ثمرہ مل سکے اور اس کی مثال ابھی ساؤتھ انڈیا میں ہیں جس کی وجہ سے وہاں کے تعلیمی معیار نیپال اور نیپالی سرحد سے متصل ہندوستان کے عموما ہر مدارس سے اونچا اور اعلی ہے۔
اب آئیے ذرا دوسرے پہلو پر بھی غور و خوض کر لیتے ہیں علماء کرام کی اپنی عزت ہوتی ہے اور اس کی قدر کرنا سیکھے و أنزلوا الناس منازلهم کے تحت ہر وہ خدمت لینے سے گریز کریں جو ان کی شان کے خلاف ہو۔
یہی وجہ ہے بعض طلبہ جنہیں اپنے استاد کے تئیں بیحد محبت و پیار ہوتا ہے اور نظماء مدارس کو انہیں ان کی شان کے خلاف خدمت لیتے ہوئے دیکھتے ہیں تو دینی تعلیم ترک کر دوسری تعلیم یا پھر کوئی دسری فیلڈ اپنانے پر مجبور ہو جاتے ہیں، چنانچہ ارباب مدارس کو ایسی چیزوں سے گریز کرنا نہایت ہی ضروری ہے۔

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter