*مشترکہ خاندانی نظام*

مولانا اسعد اعظمی، جامعہ سلفیہ بنارس

1 جون, 2020
 ہندوستان کے طول وعرض میں پھیلے ہوئے مسلمانوں کے معاشرتی نظام پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت مشترکہ خاندانی نظام پر نہ صرف عمل پیرا ہے بلکہ اس کو عظمت واحترام کی نظر سے دیکھتی ہے، اسے خیر وبرکت کا ذریعہ سمجھتی ہے اور بسا اوقات اس طرز معاشرت کو اسلام کا مطلوب ومقصود بھی گردانتی ہے۔ اس مشترکہ خاندانی نظام میں بالعموم ایک شخص کی حکمرانی ہوتی ہے۔ ایک ماں باپ کی اولاد پھر اولاد کی اولاد جن کی مجموعی تعداد بسا اوقات پچیس پچاس سے بھی متجاوز ہوتی ہے سب ایک بڑے مکان میں رہتے ہیں اور ایک نظام کے تابع ہوتے ہیں، گھر کے کمانے والے تمام افراد اپنی کمائی لے آکر گھر کے مالک کو دیتے ہیں، سب کا کھانا عموما ایک جگہ بنتا ہے اور بظاہر گھر کے تمام افرادکو مساوی حقوق حاصل ہوتے ہیں۔
 اس کے برعکس دوسرا خاندانی نظام وہ ہے جس میں صرف میاں بیوی اور ان کی غیر شادی شدہ یا نابالغ اولاد ایک ساتھ مستقل گھر میں یا بڑے گھر کی مستقل اور علحدہ یونٹ میں رہتے ہیں، بچوں کے بڑے ہونے اور شادی کے مراحل سے گزرنے کے بعد انہیں ایک مستقل گھر میں منتقل کردیا جاتا ہے اور آمدوخرچ اور دیگر امور کے وہ خود ذمہ دار ہوتے ہیں۔
 اس میں کوئی شک نہیں کہ اجتماعیت اچھی چیز ہے اور اسلام نے اس پر بہت زور دیا ہے، مشترکہ خاندانی نظام اجتماعیت کا مظہر سمجھا جاتا ہے اوریہ اس نظام کا یقینا مفید پہلو ہے، لیکن اس نظام کے بہت سارے مضر پہلو بھی ہیں جو عرصہ دراز سے چھائے ہوئے اس نظام پر نظر ثانی کا تقاضا کرتے ہیں۔ چونکہ یہ نظام نسلاً بعد نسل بلا چوں وچرا رائج ہے اور اسے قبول عام حاصل ہے اس لیے اس کی مضرتوں اور سلبیات پر نظر رکھنے والے یا ان کو جھیلنے والے اس نظام کے خلاف لب کشائی کرنے یا آواز اٹھانے کی اپنے اندر ہمت نہیں پاتے۔ اسلامی اور سماجی مصلحین بھی اس مسئلہ کو چھیڑنے سے عموماً گریز ہی کرتے ہیں۔
 کہا جاتا ہے کہ اس نظام کے پیچھے یہ ذہنیت کارفرماہوتی  ہے کہ جب خاندان کے تمام افراد ایک ساتھ رہیں گے تو اس خاندان کو اپنے ماحول میں تسلط اور بالادستی حاصل ہوگی اور دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ پورے خاندان کی جائداد اکٹھا رہے گی جس سے گھر کی مالی حیثیت مستحکم رہے گی، گھر بٹیں گے تو جائداد تقسیم ہوجائے گی ،جس کے نتیجہ میں خاندان مالی حیثیت سے بھی کمزور ہوجائے گا۔
 لیکن اس موضوع پر سنجیدگی سے غور کیا جائے توکچھ دوسرے پہلو سامنے آتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مستقل مکان اور اس سے ملحق سہولیات کا ہر انسان فطری طور پر طلب گار ہوتا ہے، کیوں کہ پرائیویسی انسان کی فطرت میں داخل ہے، اگر یہ سہولت اسے حاصل نہ ہوتو وہ مسلسل بے چینی کا شکار رہتا ہے۔ جنسی تسکین کا معاملہ بھی ایک طرح سے نفسیات سے ہی جڑا ہوا ہے، ہر شادی شدہ شخص یا جوڑے کے لیے مکان کی الگ یونٹ ہی یہ تسکین فراہم کرسکتی ہے۔ روایتوں پر غور کریں کہ اللہ کے رسول  ﷺ حضرت عائشہ کے ساتھ غسل جنابت ایک برتن کے پانی سے کرتے تھے، حضرت ام سلمہ کے بارے میں بھی اس طرح کی روایتیں آتی ہیں۔ ایسے ہی حالت حیض میں حضرت عائشہ کا کسی برتن سے پانی پینا پھر برتن کی اسی جگہ سے اللہ کے رسول  ﷺ کا پانی پینا جہاں سے حضرت عائشہ پی چکی ہوتیں، اسی کیفیت کے ساتھ دونوں کا گوشت کا ٹکڑا کھانا اور اس جیسے دوسرے واقعات کو سامنے رکھیں اور موجودہ طرز معاشرت کو دیکھیں تو اس قسم کى بے تکلف معاشرت کا دور دور تک امکان بھی نظر نہیں آئے گا۔
 قرآن میں عورت کو مرد کی کھیتی قرار دیا گیا ہے، ایسے ہی دونوں کو ایک دوسرے کا لباس بتلایا گیا ہے، اللہ کے رسول  ﷺ نے تاکید کی ہے کہ جب شوہر اپنی بیوی کو خاص ضرورت کے لیے بلائے تو اس کو اپنا جلتا توا چھوڑ کر آنا چاہیے، کسی اجنبی عورت پر نگاہ پڑ جائے اور اس سے آدمی کے جذبات انگڑائی لینے لگیں تو اسے اپنی شریک حیات کے پاس آکر فوراً اپنی ضرورت پوری کرلینی چاہیے، شوہر کی موجودگی میں اس کی اجازت کے بغیر عورت کو نفلی روزے سے منع کیا گیا ہے، یہ اور اس قسم کے دیگر احکام وہدایات پر عمل مشترک خاندان کے ازدہام میں بے حد مشکل ہے، مکان کی علحدہ یونٹ ہی اس کا حل ہے۔
 نماز باجماعت کی دین میں کیا اہمیت ہے، ان کو ان کے متعین اوقات میں ادا کرنے کی کتنی تاکید ہے، مگر مشترک خاندان کے ازدہام میں مقررہ اوقات میں زوجین کا غسل جنابت کرکے نماز ادا کرنا ایک چیلنج بنا رہتا ہے، اگر شوہر اپنی قوت ارادی سے اس مہم کو سر کر بھی لے جائے تو بیوی کا فطری جذبۂ حیا بہر حال اس راہ میں مانع بنا رہتا ہے، دیور، دیورانی، جیٹھانی ان کے چھوٹے بڑے بچے، ساس اور نندوں کے ازدہام میں سہولت کے باوجود اس کے لیے وقت بے وقت غسل کر لینا مشکل ہے۔ مسلمان معاشرے کے بے شمار افراد ہیں جن کی نمازیں محض مشترکہ خاندان کے نامطلوب نظام کے نتیجے میں نقص اور خلل کا شکار ہیں۔
 معاشرتی اعتبار سے دیکھا جائے تو مشترک خاندان میں ہر فرد اپنی پسند اور اپنی ترجیحات سے دست بردار ہوکر کھانے پینے کے پورے نظام کا بھی پابند ہوتا ہے، اس سے ہٹ کر اپنی کسی پسند پر عمل درآمد اس نظام کے احترام کے منافی ہے، اسی طرح خانگی ذمہ داریوں میں بیوی کے ساتھ شوہر کی شرکت اور اس کی مدد وتعاون میں بھی یہ نظام رکاوٹ بنتا ہے، اللہ کے رسول  ﷺ کے جو معمولات گھر سے متعلق بیان کیے گئے ہیں ان میں گھر کے کام کاج میں لگے رہنا، بکری دوہنا، اپنے کپڑے سلنا، اپنے جوتے گانٹھنا وغیرہ وغیرہ کا تذکرہ ہے، اسلامی معاشرت کے یہ مطلوبہ تقاضے مختصر خاندان اور گھر کی علحدہ یونٹ میں ہی بآسانی پورے کیے جاسکتے ہیں۔
 مالیاتی اعتبار سے اس نظام کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ اس نظام کا مطلوب یہ ہوتا ہے کہ گھر کا ہر کمانے والا اپنی کمائی گھر کے نگراں یا ذمہ دار کے حوالے کردیا کرے، انسان کی یہ فطرت ہے کہ وہ اپنی کمائی اپنے فائدے کے لیے استعمال دیکھنا چاہتا ہے، اس لیے اس نظام پر صد فی صد عمل اس کے لیے بے حد دشوار معلوم ہوتا ہے، چنانچہ وہ کمائی کا ایک حصہ خاندان کے سربراہ کے حوالہ کرتا ہے تو ایک حصہ مختلف چور دروازوں کو استعمال کرکے الگ پس انداز کرتا ہے، چونکہ کمائی میں سب برابر نہیں ہوتے اس لیے ’’دیر یا سویر اس غیر فطری نظام کا شیرازہ جب بکھرتا ہے تو جوئے کی بازی کے مانند کسی کی مٹھی بھری ہوتی ہے اور کسی کی بالکل خالی، اس نظام کا جو جتنا مخلص اور اپنے اہل وعیال کے مفادات سے جتنا ہی لاپرواہ ہوگا انجام کار حسرت وندامت بھی اس کے حصے میں اس کے بقدر وافر آئے گی۔‘‘
 مشترک خاندان کے تمام افراد کے درمیان بظاہر یکساں سلوک ہوتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ شعوری یا لاشعوری طور پر زیادہ کمانے والے کو کم کمانے والے کے مقابل گھر میں زیادہ عزت وتوقیر حاصل ہوتی ہے اور یہ عزت وتوقیر اس کے بیوی بچوں تک کو مشتمل ہوتی ہے، اسی طرح مشترک خاندان کی ناگزیر باہمی آویزش اور کشاکش کے نتیجے میں، یا موہوم معاشی مسائل کا ہوّا کھڑا کرکے بہت سے نونہالوں کو ناخواندہ اور جاہل چھوڑ دیا جاتا ہے اور انہیں قبل از وقت کمائی کی مشین کا پرزہ بنا دیا جاتا ہے۔ دوسری طرف یہ نظام بہت سے افراد کی فرضی کفالت کا ذمہ لے کر انہیں جدوجہد کے میدان میں اترنے سے باز رکھتا ہے، اس طرح گھر کے لوگوں میں سے بہت سوں کو یہ نظام کمزور کردیتا اور انہیں ناکارہ اور نااہل بنانے میں مدد کرتا ہے۔
 مشترک خاندان میں چونکہ کسی شخص کی الگ مالی حیثیت کا تعین نہیں ہوتا اس لیے یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ وسائل کی بربادی ہوتی ہے اور گھر کے سامانوں کے استعمال میں حددرجہ بے احتیاطی برتی جاتی ہے، دس بیس سال تک چلنے والے سامان چند سالوں میں بربادی کا شکار ہوجاتے ہیں۔
 آپسی تعلقات کی خرابی بھی اس نظام کے مستلزمات میں سے ہے، کیونکہ انسان کی فطرت ہے کہ وہ ایک جگہ جن لوگوں کے ساتھ رہتا ہے ان سے طبیعت میں ایک طرح کی بیزاری پیدا ہوجاتی ہے، اس نظام میں سب کی ایک دوسرے کی چھوٹی بڑی غلطیوں اور خامیوں پر نظر رہتی ہے، اس لیے آئے دن جھگڑے، اختلافات اور چشمک کے مناظر سامنے آتے رہتے ہیں، اس بوجھ کے ناقابل برداشت ہوجانے کی صورت میں جب خاندان کا شیرازہ بکھرتا ہے تو اس کا عبرت ناک انجام نگاہوں کے سامنے ہوتا ہے۔ اسی طرح پھیلے ہوئے خاندان میں مردوزن کے درمیان پیدا ہونے والی تلخیوں اور ناگواریوں کو بھی بروقت ختم کرنے کا موقع کم مل پاتا ہے، اس کے ساتھ اگر ایسی ساس ہوں جو اپنے لڑکوں کو بہوؤں کے خلاف اکساتی اور بھڑکاتی رہتی ہیں تو پھر معاملہ مزید خراب ہوجاتا ہے۔
 تربیت کا خسارہ بھی اس نظام کے خساروں میں سے ایک ہے، مشترکہ خاندانی نظام میں کچھ افراد پردیس میں رہتے اور پیسہ کما کر بھیجتے ہیں، وہ اپنے بال بچوں کی براہ راست تربیت نہیں کرپاتے، اسی طرح بڑے گھر میں دیور اور بھاوج کی مخصوص فضا کے علاوہ مکان کی تنگی اور بعض مشترک سہولیات کے ساتھ جنسی بے اعتدالیاں ناگزیر طور پر ظاہر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتیں، بیوی کی تربیت کا خسارہ بھی اس نظام کا لازمہ ہے کیونکہ اس نظام میں بسا اوقات شوہر اپنی بیوی کو بہت سی ان باتوں اور معاملات سے نہیں روک پاتا جنہیں ازروئے دین وہ غلط سمجھتا ہے، بڑوں کا ادب اور خاندانی نظام کا تقدس اس راہ میں حائل رہتا ہے۔ ایک خسارہ چوری چکاری، جھوٹ، غلط بیانی اور دھوکہ دہی وغیرہ جیسے بدترین اخلاقی رذائل کے پھلنے پھولنے اور پروان چڑھنے کا بھی ہے، کیونکہ اس نظام کے تقدس کا تقاضا ہے کہ آدمی تمام افراد خانہ کو شریک کیے بغیر دو پیسے کی چیز بھی تنہا خود کھائے نہ اپنے بال بچوں کو الگ سے کھلائے، نتیجتاً گھر کے مختلف افراد چوری چھپے اپنے بیوی بچوں کے لیے الگ من پسند کھانے کی چیزوں کا انتظام کرتے ہیں، چوری چکاری کا یہ سلسلہ پہننے اوڑھنے اور شادی بیاہ کے علاوہ دوسری ضروریات زندگی کی تکمیل میں بھی سامنے آتا ہے۔
 یہ اور اس قسم کے درجنوں مسائل اس مشترک خاندانی نظام کے پیدا کردہ ہیں جس کو ہم مسلمانوں نے اسلام کا مطلوب نظام تصور کرکے گلے لگا رکھا ہے۔حالانکہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔
*******
(نوٹ: یہ تحریر مولانا سلطان احمد اصلاحی کے رسالہ ’’مشترکہ خاندانی نظام اور اسلام‘‘ کے بعض مباحث کی تلخیص ہے۔تفصیل کے لیے اصل کتاب کی طرف رجوع کریں۔ )

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter