لیلة القدر کی اہمیت و فضیلت

تحرير:- نصرالدين سلفی

19 مئی, 2020
الحمد للہ وحدہ و الصلوۃ والسلام علی من لا نبی بعدہ اما بعد!
ماہ رمضان کے عشرہ رحمت، وعشرہ مغفرت کے اختتام کے بعد جہنم سے آزادی کے عشرے کا آغاز ہوچکا ہے بلکہ دو راتیں ہم سے وداع بھی لے چکی ہیں، یہ جو آخری عشرہ ہے  اپنے اندر پہلے اور دوسرے عشرے سے زیادہ اجر و ثواب سموئے ہوئے ہے۔ اس عشرے میں مسلمان روزہ داروں کو جہنم سے آزادی کی خوشخبری دی جاتی ہے۔ رمضان المبارک وہ مبارک مہینہ ہےکہ جس میں نفل نمازکا ثواب فرض کے برابر اورفرض کا ثواب سترگنا تک بڑھا دیا جاتا ہے۔ نہ جانے آئندہ سال اس ماہ مبارک کے ایام ہمیں نصیب ہوں یا نہیں، ہمیں ان ایام میں زیادہ سے زیادہ عبادات  اور توبہ واستغفار کرنا چاہیے۔ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو اس ماہ میں زیادہ سے زیادہ نیکیاں سمیٹ کر اللہ ربّ العزت کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے میں کامیاب و کامران ہو رہے ہیں۔ حضرت موسیٰ کلیم اللہ، اللہ ربّ ذوالجلال سے ہم کلام ہوتے ، زمان و مکان اورراز و نیاز کی باتیں ہوتیں ۔
ایک دن حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے خالق سے سوال کیا کہ اس وقت کائنات میں ، میں واحد بندہ ہوں جسے آپ سے بات کرنے کا شرف حاصل ہے۔ بتائیے یہ اعزاز کسی اور کو بھی نصیب ہو گا۔ خالق کائنات نے ارشاد فرمایا، اے موسیٰ ! اس دنیا میں ایک ایسی بھی امت آنے والی ہے جب میرے اور ان بندوں کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں ہو گا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام حیران ہوئے ، باری تعالیٰ ! وہ کیسے،اللہ تعالیٰ نے فرمایا ! یاد رکھ موسیٰ ! تیرے اور میرے درمیان کلام اور ملاقات کی صورت بے شمار پردے حائل ہیں جبکہ آمدہ امت کے ساتھ یہ معاملہ ہرگز نہیں ہو گا۔
اس پر موسیٰ علیہ السلام کی حیرت میں مزیداضافہ ہو گیا، انہوں نے عرض کیا ، کائنات کے مالک ! بتائیے وہ کون خوش نصیب ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا وہ امت محمدی ہو گی، ان میں سے وہ لوگ جو ماہ رمضان کے ایام پا کر صرف میری رضاوخوشنودی کیلئے روزے رکھیں گے اورپھر وقت افطارنڈھال جسم ،خشک زبان اور منہ کی مہک کے ساتھ جو دعا مانگیں گے، میں قبول کروں گا کیونکہ اس لمحے ان کے اور میرے درمیان کوئی پردہ ، کوئی فاصلہ نہ ہو گا‘‘۔ روزے دار کے متعلق اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ روزہ خاص میرے لئے ہے ، اور میں ہی ( جس طرح چاہوں گا ) اس کا اجر و ثواب دوں گا۔ میرا بندہ میری رضا کے واسطے اپنی خواہش نفس اور اپنا کھانا پینا چھوڑ دیتا ہے ( پس میں خود ہی اپنی مرضی کے مطابق اس کی اس قربانی اور نفس کشی کا صلہ دوں گا )
قارئین! اللہ کا سب سے بڑا فضل ہے کہ اللہ نے  اس عشرے میں لیلۃالقدر کو بھی رکھا ہے اور قدر کے معنی علماء کے نزدیک دو ہیں، قدر کے معنی اہمیت کے ہوتے ہیں جیسا کہ عام طور پر لوگ کہتے ہیں کہ اس کی میرے نزدیک بڑی اہمیت ہے، بڑی ویلیو ہے، بڑا مقام ہے، ان کا ہم بہت احترام کرتے ہیں جب وہ کچھ بیان کرتے  ہیں تو ہم ان کو بڑی اہمیت و  قدر سے سماع کرتے ہیں  اور قدر کا ایک معنی ہے یہ بھی ہے، اندازہ لگانا، مقرر کرنا جس سے تقدیر بنا ہے اور لیلہ القدر کے حوالے سے  دونوں معنی بالکل درست ہیں، اللہ کے نزدیک اس رات کی بڑی اہمیت ہے اس لیلۃالقدر میں اللہ نے قرآن مجید کو نازل کیا گویا کہ اس عشرے کی فضیلت دوسرے عشروں سے افضل ہے اور اس رات کی  ایک عبادت کو اللہ تعالی نے ایک ہزار راتوں کی عبادت سے بہتر قرار دیا ہے.  اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ  وسلم نے جس کی بابت ارشاد فرمایا، وَعَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: دَخَلَ رَمَضَانُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ هَذَا الشَّهْرَ قَدْ حَضَرَكُمْ وَفِيهِ لَيْلَةٌ خَيْرٌ مَنْ أَلْفِ شَهْرٍ مَنْ حُرِمَهَا فَقَدْ حُرِمَ الْخَيْرَ كُلَّهُ وَلَا يُحْرَمُ خَيْرَهَا إِلَّا كل محروم» . رَوَاهُ ابْن مَاجَه
روایت ہے حضرت انس ابن مالک سے فرماتے ہیں  جب ماہ رمضان آیا تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ مہینہ تمہارے اوپر سایہ فگن ہے اور یہ رات ہزار راتوں سے بہتر ہے جو  شخص اس رات سے محروم رہا وہ کلی طور پر خیرات ق برکات سے محروم رہا ، ساتھیوں خیر و برکاتہ سے محرومی کیا ہے، یعنی اس رات کو اس نے عبادت نہیں کی، قیام نہیں کیا، اس رات کو اس نے دعائیں نہیں مانگی، اس رات کو اس نے استغفار نہیں کیا،اس رات وہ جاگا نہیں، بیدار نہیں ہوا، اور نہ ہی اپنے اعل وعیال کو جاگنے پر ابھارا یہ سارا کام اگر اس نے نہیں کیا تو  گویا کہ وہ اس رات کے خیر سے محروم رہ گیا. اسی لئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا فقد حرم یعنی وہ تمام طرح کی نیکیوں سے محروم رہا. اس لئےکہا جاتا ہے کہ اس رات کی بڑی اہمیت و فضیلت ہے  اس رات فرشتے حضرت جبرائیل کی معیت میں جوق در جوق قطار در قطار دنیا میں  تشریف لاتے ہیں لیکن جب شب قدر آتی ہے تو ایسے فرشتوں کی تشریف آوری بھی  ہوتی ہے جن کا نزول کبھی کبھار ہوتا ہے بعض روایت کی رو  ان کی تعداد زمین پر کنکروں و پتھروں سے بھی زیادہ ہوتی ہے یہ مومنین کے لئے بھلائ و رحمت کی خوشخبری لے کر آتے ہیں ساتھیوں اس رات کی  اہمیت کا اندازہ قرآن کی اس  آیت سے بھی ہوتا ہے کہ اللہ نے اس رات کو سلامتی والی رات قرار دیا ہے. جیسا کہ اللہ نے سورۃ القدر میں فرمایا ہے,سلام ھی حتی مطلع الفجر, سلام کا معنی سلامتی ہے، بھلائی ہے، جہنم سے دوری ہے جنت کے اند داخلہ ہے اللہ کے رحمتوں کا نزول ہے  اس رات کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ایک سال میں بہت ساری راتیں آتی ہیں اور چلی بھی جاتی ہیں لیکن فضیلت و اہمیت کے اعتبار سے کہیں بھی  اس  بات کا ذکر نہیں ملتا ہے کہ شب قدر سے بہتر کوئ رات ہے اسی لئے اللہ نے قرآن میں اس رات کی قدرو منزلت کے حوالے سے آیت نہیں بلکہ پوری ایک سورۃ نازل فرمائ ہے.
آخری عشرہ کے شب و روز رمضان کے بقیہ دنوں سے زیادہ بابرکت و عظمت والے ہیں ، اس لئے ہمیں قیام لیل اور تہجد کا خاص اہتمام کرنا چاہئے ، سیدہ عائشہ صدیقہ ؓسے روایت ہے ، وہ فرماتی ہیں  :
    رسول اﷲ  اخیر عشرہ میں اتنی کوشش کرتے ( عبادت کرتے ) جتنی کوشش دیگر ایام میں نہیں کرتے تھے ‘‘۔(مسلم)
        سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ  ہی کی ایک دوسری روایت ہے  :
    جب آخری عشرہ داخل ہوتا تو رسول اﷲ  تہبند کس لیتے ، رات کو زندہ کرلیتے اور گھر والوں کو جگادیتے تھے۔ (بخاری، مسلم)
    صحیح روایتوں کے مطابق اسی عشرے میں شب قدر کا امکان ہے جو ایک ہزار ماہ سے افضل ہے ۔
    سیدہ عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ نے فرمایا  :
    رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں شب قدر تلاش کرو ۔(بخاری)
    آخری عشرہ میں ہمیں اعتکاف کرنے کا بھی اہتمام کرنا چاہئے جو ہمارے لیئے  بہت بڑی عبادت ہے ، اعتکاف میں بندہ سراپا عبادت کے اندر ہوتا ہے ، اس کی نیند اور بیداری ، نشست و برخواست اور ہر نقل و حرکت ، عبادت میں شمار کی جاتی ہے ۔ نبی کریم نے اپنی زندگی میں اس کی پابندی کی اور اُمت کو خاص اہتمام کے ساتھ اس کی طرف توجہ دلائی ہے  :
    سیدہ عائشہ صدیقہ ؓسے روایت ہے کہ نبی کریم  رمضان کے آخری عشرہ میں اپنی وفات تک اعتکاف فرماتے رہے ، آپ  کے وصال کے بعد آپ کی ازواج مطہرات بھی ( ہمیشہ رمضان کے آخری عشرہ میں ) اعتکاف فرماتی رہیں۔(بخاری ومسلم)
    اس عشرہ میں ہماری کوشش ہونی چاہئے کہ ہماری زبان سے وہی نکلے جس سے اﷲ خوش ہو ، ہمارے اعضاء و جوارح سے وہی افعال صادر ہوں جو ﷲ کی مرضی ہو ، ہماری زبان بے کار و لا یعنی باتوں سے محفوظ رہے ، یہاں تک کہ اگر کوئی گالی دے ، برا بھلا کہے ، یا اشتعال انگیزی کرے تو بھی وہ اس کی باتوں کا جواب دینے سے گریز کرے اور اپنی زبان سے یہی نکالے کہ میں تو روزے سے ہوں ۔ روزہ صرف کھانے پینے اور جنسی خواہشات سے رکنے کا نام نہیں بلکہ افضل ترین روزہ وہ ہے جس میں لا یعنی باتوں سے بھی رکا جائے اور اسے صرف خیر میں ہی استعمال کیا جائے ۔
دعا ہے کہ اللہ تبارک و تعالی ہمارے اعمال کی اصلاح کرے ہمارے روزے، نماز، زکوٰۃ،صدقہ و خیرات کو شرف قبولیت بخشے، اسلام کا سچا پاسدار و نگہبان بنائے،  غریب و  ناتواں، محتاج  و ضرورتمند سب کے دکھ کا دردمند بنائے۔
🤲آمین

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter