زکاۃ الفطر احکام ومسائل

محمد ہارون محمد یعقوب انصاری/ چیف ایڈیٹر:ہفت روزہ صدائے عام اردو نیپال

14 مئی, 2020
haroon ansari

الحمد للہ الذی انزل علی عبدہ الکتاب ولم یجل لہ عوجا قیما لینذر باسا شدیدا من لدنہ ویبشر المؤمنین الذین یعملون الصالحات ان لیم اجرا حسنا ماکثین فیہ ابداً(الکہف۱/۳)واشہد ان لا الہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ،واشہد ان محمدا عبدہ ورسولہ،ﷺ وعلی آلہ واصحابہ اجمعین وسلم تسلیما کثیرا،اما بعد:
صدقہ فطر ہرمسلم پر ادا کرنا واجب ہے،جسے عید کی رات نکالنا ضروری ہوتا ہے اگر کسی نے عید کی نماز کی ادائیگی کے بعد نکالا تو اس کا وہ صدقہ فطر نہیں ہوگا۔
زکاۃ الفطر ایک صاع ہے حضرت ابن عمر ؓ نے فرمایا ((فرض رسول اللہ ﷺ زکاۃ الفطر صاعاً من تمر،أو صاعاً من شعیر، علی العبد والحر،والذکر والأنثی، والصغیر والکبیر من المسلمین، وأمر بہا أن تؤدی قبل خروج الناس الی الصلاۃ))متفق علیہ
ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا! بندے اور آزاد،مرد اور خاتون،چھوٹے اور بڑے تمام لوگوں پرزکاۃ الفطر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو ادا کرنا فرض ہے۔اور اللہ کے رسول ﷺ نے حکم دیا کہ اس کو عید کی نماز کے لئے نکلنے سے قبل ادا کردیا جائے۔
عن ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ قال (کنا نخرج زکاۃ الفطر اذکان فینا رسول اللہ ﷺ صاعاً من طعام،او صاعاً من تمر،او صاعاًمن شعیر،او صاعاً من زبیب،او صاعاً من اقط(متفق علیہ)
حضرت ابو سعید خذری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا!ہم لوگ زکاۃ الفطر اس وقت نکالتے تھے جب رسول اللہ ﷺ ہمارے درمیان ہوتے تھے،اشیاء خوردنی سے ایک صاع کھانے سے ایک صاع کھجور یا اایک صاع جو یا ایک صاع پنیر یا ایک صاع اقط نکالتے تھے(متفق علیہ)
قابل ذکر بات یہ ہے کہ دوسرے ممالک کے لوگوں کے لئے جائز ہے کہ وہ ایک صاع کھانے والی چیزوں کو نکالے جیسے چاول اور اس جیسے اجناس،لیکن مقصد زکاۃ الفطر ایک صاع نکالناہے۔اگر کسی نے زکاۃ الفطر نکالنا چھوڑ دیا تو اس پر گناہ ہوگا، اُس پر واجب ہوگا کہ قضاء کرے۔(فتاویٰ اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء فتوی (۳۳۷۵)جلد ۹ ص ۴۶۴)
سوال:زکاۃ الفطر اُس بچے کی طرف نکالاجائے گا جو ابھی ماں کے پیٹ میں ہے یا نہیں؟
جواب:-
ایسے بچے کی طرف زکاۃ الفطر نکالنا مستحب ہے جیسا کہ عثمان ؓ نے کیا ہے،لیکن اس پر ضروری نہیں،کیونکہ اس کی کوئی دلیل نہیں ہے (فتاویٰ اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء فتوی (۴۷۴۱)جلد ۹ ص۶۶۳)۔
سوال:-
زکاۃ الفطر عید کی نماز کی ادائیگی کے بعد سے اُس دن کے آخر ی وقت تک ہے؟
جواب:-
زکاۃ الفطرکی ادائیگی کا وقت عید کی نماز پڑھنے کے بعد نہیں شروع ہوتا ہے۔بلکہ یہ غروب شمس سے رمضان کے آخری دن تک ہے،جو شوال کی پہلی رات ہے۔اور وہ عید کے نماز کی ادائیگی کے بعد ختم ہوجاتا ہے۔اس لئے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:جس نے نماز سے پہلے ادا کیا اس کا یہ زکاۃ مقبول ہوگا،اور جس شخص نے نماز کی ادائیگی کے بعد ادا کیا اُس کا یہ صدقہ ہوگا۔اور جائز ہے کہ اس کو ایک دو دن پہلے ادا کردیا جائے۔جیساکہ ابن عمر ؓ نے فرمایا کہ ((فرض رسول اللہ ﷺ صدقۃ الفطر من رمضان))اور آخر میں کہا کہ ((وکانوا یعطون قبل ذلک بیوم او یومین))
”ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کہا: کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ رمضان کے صدقۃ الفطر کو فرض کیا ہے،اور مزید یہ وہ لوگ ایک دو دن پہلے زکاۃ الفطر ادا کردیا کرتے تھے۔“جو شخص تاخیر کرے اور وقت پر نہ نکالے ایسے شخص کو توبہ کرنا چاہئے۔(فتاویٰ اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء فتوی (۶۹۸۲)جلد ۹ ص ۳۷۳)
سوال: –
زکاۃ الفطر کے مشروع ہونے کی حکمت کیا ہے؟ اور کیا اس کو فقراء میں تقسیم کیا جانا جائز ہے؟
جواب:-
(فضیلۃ الشیخ د/عبداللہ بن عبدالرحمن الجبرین
تمام تعریف اللہ کے لئے دوردو سلام ہو اللہ رسول ﷺ پر۔
زکاۃ الفطر کے مشروع ہونے کی حکمت یہ ہے کہ وہ روزہ داروں سے رمضان المبارک کے متبر ک ماہ میں عمداً یاسہواً زبان سے نکل جانے والی لغو باتوں اور رفث کی پاکیزگی بحشتا ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ((فرض رسول اللہ ﷺ زکاۃ الفطر طہرۃ للصائم من اللغو والرفث، وطعمۃ للمساکین))(ابوداؤد /ابن مامۃ /دارقطنی/حاکم)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے زکاۃ الفطر کو فرض کیا ہے جو روزہ داروں کو لغو اور رفث سے پاک کرتا ہے۔اور مسکینوں کے لئے کھانا ہے۔
انسان بھول چوک اور غلطیوں کا خزینہ ہوتا ہے ہر حالت میں غلطی کا صد ور ممکن ہے۔اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ مجھ سے غلطی کا صدور نہیں ہوتا تو یہ بات قابل تسلیم نہیں ہے کیونکہ فرشتوں کی ذات ہے جو غلطی نہیں کرتی۔رمضان المبار ک سال کے ۲۱ مہینوں میں سے ایک ایسا ماہ ہے جس کے اجر کو اللہ ر ب العالمین نے اپنے لئے مختص کرلیا ہے،اس لئے چھوٹی چھوٹی غلطیوں کے ازالے کے لئے شریعت نے زکاۃ الفطر کی ادائیگی مسلمانوں کے اوپر فرض کیا ہے جو ہر روزہ دار کو لغو او ر رفث سے پاک کرتا ہے۔جیساکہ اللہ کے رسول ﷺ کی حدیث اوپر گزر چکی ہے۔یہ زکاۃ الفطر مسکینوں کے لئے ہے اس کی ادائیگی ایک دودن قبل کیا جاسکتا ہے تاکہ مساکین بھی ہمارے خوشیوں میں شامل ہوسکیں۔
بعض احادیث کچھ اس طرح سے ہیں ((أغنوہم عن الطواف فی ہذالیوم)اس کی تخریج کی ہے دار قطنی نے اور ابن عدی،ابن سعد نے طبقات ابن سعد کے اندر ذکر کیا ہے)ان کو آج کے دن چکرلگانے سے آزاد کردو“
حدیث مذکورہ کا مفہوم یہ ہوا کہ اُن کو کھانا کھلاؤ اور اُن کے حاجات (ضروریات)کو پورا کرو یہاں تک کہ وہ عید کے دن چکر مارنے سے مستغنی ہوجائیں۔کیونکہ یہ خوشی اور فرحت کا دن ہے۔
پھر اُن لوگوں کی طرف سے بھی زکاۃ الفطر ادا کیا جائے تو جو ابھی بچے ہیں اور غیر مکلف ہیں او ر وہ لوگ جو روزہ دار نہیں (معذور)یا سفر میں ہیں۔ایسے لوگوں کی جانب سے زکاۃ الفطر نکالا جائے گا کیونکہ جب ان لوگوں سے ان کے عذر زائل ہوجائیں گے تو وہ اپنے روزوں کی قضاء کریں گے البتہ بچہ جس پر روزہ فرض نہیں وہ قضاء نہیں کرے گا۔اگر زکاۃ الفطر کو مختلف فقراء کے درمیان تقسیم کردیا جائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔
سوال:-
زکاۃ الفطر کونقدکھانے کے بدلے نکالنا کیسا ہے؟جبکہ نقد کھانے کی اشیاء سے زیادہ لوگوں کو ضرورت ہے؟
جواب:(فضیلۃ الشیخ أ د/ سعود بن عبداللہ الفنیسان
تمام تعریف اللہ کے لئے اور دوردوسلام ہواللہ کے رسول ﷺ پر وبعد:
زکازۃ الفطر کو نقد قیمت میں نکالنا مختلف فیہ مسئلہ ہے اس میں علماء کرام کے دو قول ہیں۔
پہلا قول:-
اس سے منع کیا جائے،یہ رائے تینوں اماموں کی ہے امام مالک،امام شافعی اور امام احمد، اور امام ظاہریہ نے بھی اسی طرح کہا ہے۔اور عبداللہ بن عمر صحیحین کی اس روایت پر استدلال کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:((فرض رسول اللہ زکاۃ الفطر صاعاً من تمر،أو صاعاً من بر، أو صاعاً من شعیر،(اور دوسری روایت میں صاعاً من أقط آیا ہے)علی الصغیر والکبیر من المسلمین))
اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا کہ زکاۃ الفطر ایک صاع کھجور،گیہوں،شعیر ہرمسلمان چھوٹے اور بڑے پر فرض ہے۔
امام حضرات وجہ استدلال پیش کرتے ہیں کہ اگر زکاۃ الفطر قیمت میں نکالنا جائز ہوتا تو اللہ کے رسول ﷺ اس کا تذکرہ ضرور فرماتے۔اور دوسری حدیث جو استدلال میں پیش کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ ((أغنوہم فی ہذالیوم))”اس دن سے ان کو مستغنی کردو“مزید امام حضرات کہتے ہیں کہ فقراء ومساکین کو اس دن(یوم عید)کھانے کے لئے سوال کرنے سے مستغنی کردیا جائے۔تاکہ اِدھر اُدھر بھٹکنے سے پرہیز کریں۔
دوسراقول:-
زکاۃ الفطر قیمت میں نکالنا جائزہے۔امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب کا یہ خیال ہے۔اور اسی کی متابعت سفیان ثوری،حسن بصری اور خلیفہ عمر ابن عبدالعزیز نے کی ہے۔جیسا کہ معاویہ بن ابی سفیان سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ((انی لأوی مدین من سمراء الشام تعدل صاعاً من تمر))اور حسن بصری فرماتے ہیں کہ((لابأس أن تعطی الدراہم فی صدقۃ الفطر))”کوئی حرج نہیں کہ صدقۃ الفطر درہم میں ا دا کیا جائے“
اور عمر بن عبدالعزیز نے بصرہ کے عاملوں کو لکھا: ((أن یاخذ من أہل الدیون من أعطیاتہم من کل انسان نصف درہم))اور ابن منذر نے اپنی کتاب ”الاوسط“ میں رقمطراز ہیں (صحابہ کرام نصف صاع گیہوں نکالنے کی اجازت دیتے تھے۔
خلاصہ کلام:
خلاصہ کلام یہ کہ زکاۃ الفطر نکالتے وقت یہ دیکھا جائے گا کہ جس کو زکاۃ الفطر دیا جارہا ہے وہ کس چیز کا مستحق ہے نقد یا اجناس۔اس کو کس چیز کی حاجت ہے اگر وہ غذائی ضروت مند ہے تو بلاشبہ کھانے کے اجناس سے زکاۃ الفطر ادا کیا جائے اور اگر وہ نقد کا ضرورت مندہے تو نقد تو اس کو نقد دیا جائے۔کیونکہ نقد اس کے لئے نفع بخش ہے۔اور ملک کا بھی خیال کیا جائیگا۔
اللہ کے رسول ﷺ کی یہ حدیث ((أغنوہم فی ہذالیوم))سے اندازہ لگتا ہے کہ فقراء اور مساکین کس چیز سے عیدکے دن خوش اور فرحت محسوس کریں گے۔اگر نقد ان کو دیا جاتا ہے تو عید کے دن نئے کپڑوں کا بھی بند وبست ہوسکتا ہے،بچے بوڑھے جوان سبھی خوشیوں میں شامل ہوسکتے ہیں۔
سوال:-
فضیلۃ الشیخ سلیمان بن ناصر العلوان حفظہ اللہ کی زکاۃ الفطر کے بارے میں تین قول ہے(الف) زکاۃ الفطر کی جگہ مال دینا حرام ہے،اس لئے اللہ کے رسول ﷺ کے قول کی مخالفت ہوگی۔(ب)افضل ہے کہ کھانے کی چیز دی جائے اور نقد کا دینا جائز ہے،لیکن سنت کی مخالفت ہے (ج)افضل ہے کہ فقیر کی حالت اوراس کے ملک اور اس کے رہنے کی جگہ کو دیکھا جائے تو اس کے لئے مال دینا افضل ہوگا۔

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter