ملک نیپال میں کورونا کا سفر اور غیر منظم طریقہ کار

سحر محمود

14 مئی, 2020

گذشتہ چند دنوں سے نیپال میں کورونا وائرس بڑی تیز رفتاری کے ساتھ اپنا سفر طے کر رہا ہے۔ یہ باشندگان نیپال کے لیے بے حد تشویش ناک اور پریشان کن معاملہ ہے۔ حکومتِ نیپال نے یوں تو ابتدا سے ہی اس کی روک تھام اور سد باب کے لیے نیشنل و انٹرنیشنل فلائٹیں بند کروا دی تھیں اور بارڈر پر پہرے بٹھا دیے تھے مگر بعد میں اپنے غیر منظم طریقۂ کار ، عدم استحکام اور بے پروائی و بے ضابطگی کی وجہ سے لوگوں کی نگاہوں میں سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔
ہندوستان کے مختلف شہروں میں پھنسے ہوئے نیپالی ان دنوں سفر کرکے اپنے وطن واپس آ رہے ہیں۔ نیپال حکومت کا فرض بنتا تھا کہ ان کا خیر مقدم کرتے ہوئے انھیں قرنطینہ میں داخل کرتی۔ چیک اپ کے بعد منفی رپورٹ آنے پر انھیں بہ خوشی گھر جانے دیتی اور مثبت والوں کا علاج کراتی۔
مگر ایسا نہ ہوا ۔ بارڈر اس پار لوگ بے یار و مددگار اپنے ملک میں داخلے کا پروانہ تلاش کرتے رہے۔ مگر ادھر سے کوئی جنبش نہیں ہوئی۔ کچھ دن وہاں پڑے رہنے کے بعد جب ان سے کوئی صورت نہ بن پڑی تو گپت راستے سے داخل ہوگئے۔
جن گاؤں والوں کو اپنے یہاں نئے مہمان کی آمد کی خبر ملی انھوں نے ایک ذمے دار ناگرک ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے پولیس محکمے کو اطلاع دے دی پھر وہ قرنطینہ لے جائے گئے۔
اس دوران اگر کسی کورونا مثبت شخص نے جن جن سے ملاقات کی ہوگی انھی بھی بیمار کر دیا ہوگا۔
آخر اس کا ذمے دار کون ہے؟ کیا حکومت کو اس کی فکر نہیں ہونی چاہیے؟
ترائی علاقے کے لیڈران خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ صرف “اسٹے ہوم اسٹے سیف “ کا آرڈر جاری کر دینے سے بیماری سے بچا نہیں جا سکتا ۔ گیہوں کے ساتھ گھن بھی پس جاتا ہے۔ اگر سبھی لوگوں کو اس وبا سے لڑنے کے لیے تیار نہیں کیا گیا تو چند لوگوں کے رول فالو کرنے سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہونے والا ۔ ایک دن سبھی اس کی زد میں آ سکتے ہیں۔
اب بھی سرحد پار سے نیپال آنے والوں کے لیے کوئی منظم لائحہ عمل تیار نہیں کیا گیا ہے۔ اب بھی چھپ چھپاکر آنے والوں کا سلسلہ جاری ہے۔
اور نہ ان کے لیے ایسے قرنطینہ کا بند و بست کیا گیا ہے جہاں انھیں محفوظ رکھتے ہوئے ان کا علاج کیا جا سکے۔
بل کہ وہاں کی صورت حال اور بھی بری ہے۔
بغیر کسی روک ٹوک کے لوگ ایک دوسرے سے مل رہے ہیں ۔ لوگوں کا بیڈ اور بستر قریب قریب لگایا گیا ہے۔ ان کے آپسی میل جول کا کوئی قاعدہ متعین نہیں ہے اور نہ ان کے اپنے ملنے والے احتیاط کر رہے ہیں۔ گھروں سے کھانے پینے کی چیزیں پہنچا رہے ہیں اور بالکل قریب رہ کر لین دین اور گفت و شنید جاری رکھ رہے ہیں۔
قرنطینہ میں داخل اشخاص میں سے کوئی شخص کورونا مثبت ہے تو اس کے ذریعے وہاں موجود دوسرے لوگوں میں بیماری پھیلنے کے چانسیس زیادہ ہیں۔
با وثوق ذرائع سے پتا چلا ہے کہ چیک اپ اور اشیائے خوردنی کے پیسوں میں بھی گھوٹالہ کیا جا رہا ہے۔ اور ان کی دیکھ ریکھ صحیح ڈھنگ سے نہیں ہو رہی ہے۔
اگر ایسا ہی چلتا رہا تو پھر پورا نیپال بھی سیل کر دیا جائے تو سب بے سود ہے۔
کچھ دنوں پہلے کسی کا آٹیکل شائع ہوا تھا جس میں یہ بات پیش کی گئی ہے کہ نیپال میں زلزلے کے سبب ملنے والے بجٹ سے بہت سے این جی اوز اور تنظیموں کا بہت بڑا فائدہ ہوا تھا ۔ کچھ نے تو اتنا جمع کر لیا تھا کہ ابھی تک اس سے کام چلا رہے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ اس بے توجہی اور غفلت کے پیچھے اسی قسم کی سوچ کار فرما ہے ۔ خدا کرے کہ یہ ہمارا یہ اندازہ غلط ثابت ہو اور ہمارے ملک کے ذمے داران اس وبا کے تعلق سے سنجیدہ ہوں اور باہر سے آنے والوں کے لیے کوئی مناسب انتظام کریں تاکہ لوگ اس وبا سے محفوظ رہ سکیں۔

سحر محمود

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter