سمندر سے ملے پیاسے کو شبنم

عبید اللہ عبدالرحیم فیضی

9 مئی, 2020
سمندر سے ملے پیاسے کو شبنم
بخیلی ہے یہ رزاقی  نہیں ہے
ہمارے معزز و محترم اساتذہ کرام، علماء کرام، وہونہار دینی مدارس کے متخرجین۔ 
آج ہم سب کا مقصد اپنے بچوں کے مستقبل، اور موجودہ چیلنجز سے نمٹنے اور اس سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت پیدا کرنا ہے، اس سے کنارہ کشی نہیں مسائل سے نبرد آزما ہوکر اس مسئلے کا سد باب ہے ، مسائل کو چھوڑ کر اگر ہم آگے بڑھنے کی کوسشش کریں گے تو گویا ہم اپنے آپ کو اور اپنے آنے والی نسل کے لئے خیر خواہ نہیں اور یہ کسی ایک فرد کا کام نہیں ہے بلکہ اس کے لئے مستقل کمیٹی کو تشکیل دیکر اس پر ماہرین تعلیم کو ذمہ داری سونپنا ہے، جو پوری ذمہ داری کیساتھ ہر پہلو کو مد نظر رکھتے ہوئے اس پر کام کریں اور در اصل پوچہا جاۓ تو یہ کام جمعیت اور جماعت کا ہے، جس کے پاس وسیع ذرائع ہوتے ہیں وہ ملک کے ہر حصے سے اپنے قابل اور ہونہار افراد کو یکجا کرکے نتیجہ ڈہونڈہیں، اور اپنے تعلیمی چیلنجز کو حل کریں، اور مستقل اس کمیٹی کا یہی کام ہو، جہاں جیسی ضروت ہو دورہ کریں وہاں سے کار آمد تجربے کو اپنے بچوں کے مستقبل کا حصہ بنائیں۔
، بلا شبہہ ایک آدمی ہر فیلڈ اور ہر مجال پر دسترس نہیں رکھ سکتا نہ ہی کسی بڑے سے بڑے علماء کرام ، ڈاکٹرس کو ہوتا ہے، اللہ تعالی نے بہتوں کے اندر علم تو دیا ہے مگر وہ  مواقع و ذرائع سے محروم ہیں  بہت سارے افراد اپنے کم ہمتی اور محدود وسائل سے ہی اپنی صلاحیت کہو دیتے ہیں بہت ساری ایسی وجوہات ہوتی ہیں جس کو وہ  بروئے کار لانے سے قاصر ہیں، اللہ نے سب کے اندر خامی و خوبی دے رکھی ہے، ایک ادنی شخص کے اندر شاید جو بلند ہمتی ہو وہ ایک بہت بڑے اسکالر کے پاس نہ ہو، ہمیں انہیں سب کو اکٹھا کرکے نتیجہ نکالنا چاہئیے کہ کون کیا کر سکتا ہے اور کن کے کس صلاحیت کو کہاں استعمال کر سکتے ہیں، میرے سامنے ایک نہیں ہزاروں مثالیں ہیں کہ ایک اچہا مقرر شاید علم نحو پر دسترس نہ رکہتا ہو ایک اچہا مدرس ایک اچہا مقرر ہو اس کے بہی امکانات بہت کم ہیں، مگر سب کے صلاحیت کو یکجا کرکے حسب ضرورت استعمال کرنا بیحد ضروری ہے۔ 
ہمیں آج  ٹھنڈے دل سے سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہم قوم کے مسائل کو کیسے حل کریں، ہمیں خود نمائی، ذاتی مفاد پرستی سے اٹھ کر قومی تشخص کیلئے کام کرنا ہوگا، ہمیں مسائل کا صد باب کرنا ہوگا۔
ہمارے پاس بڑے جامعات ہیں مگر وہ جامعہ نہیں ہیں، نہ انکی فکر میں ہی جامعیت ہے،  مگر یہ ضرور کہونگا کہ ہمارے اندر مفاد پرستی، مادہ پرستی، خود نمائی اتنا گہر کرچکی ہے کہ ہم اپنے کو ہر چیز کا متحمل سمجہتے ہیں، اور جب میدان کار زار میں پہونچتے ہیں تو بغیر محاذ آرائی کئے خود کو ذلیل اور ساتھ ساتھ قوم کو بہی مورد الزام کا  سہرا باندھ کر پویلین سے لوٹ آتے ہیں، یہ صرف خود پسندی اور غیر سنجیدہ سوچ کی دین ہے۔ 
ابہی 
 ایک قابل با صلاحیت مدرس سے بات ہو رہی تہی، انہوں نے اپنے یہاں کے طرز تعلیم پر روشنی ڈالی کہ ہم ایک ہی کلاس کے بچوں کو 3 گریڈ میں بانٹتے ہیں ممتاز جید جدا ، مقبول پہر ان کے کیلئے اس انداز میں محنت کرتے ہیں کہ کم سے کم مقبول لڑکا اگر ممتاز نہ ہوسکے تو سال مکمل ہوتے ہوتے وہ جید جدہ تک پہونچ جائے، اور ہر کتاب کے استاذ سے بحیثیت مشرف ہر ہر لڑکے کے سابقہ پیش رفت کے باریمیں ہر ماہ کے آخر میں اس کے پروگرس پر بحث کرتے ہیں اور کمزوری کے حل کیلئے خطہ تیار کرتے اور مدرس کو اسکا ذمہ دار بناتے ہیں تاکہ اس بچے کے مستقبل کو سنوارا جاسکے۔ 
 ہم ہرگز یہ نہیں کہتے کہ مدرسہ انجینئر پیدا کرے ڈاکٹر پیدا کرے، مگر ہم یہ ضرور کہتے ہیں، کہ مدرسے کی بچے میں جب وہ مدرسے فارغ ہوکر نکلے تو کم سے کم 50% لڑکے ایسے ہوں، جو عربی ، و انگلش میں اپنا صحیح تعارف مدرسے کا تعارف مدرسے کے عزائم و مقاصد پر اپنی بات خوش اسلوبی سے رکھ سکے۔ 
علوم دینیہ کے فوائد اس سے انسانی زندگی پر پڑنے والے مثبت اثرات کو بیان کرسکے۔
‌ تعلیم میں اتنی وسعت چاہیے کہ مدرسے کے بچے کیلئے کیا کیا امکانیات پیدا ہو سکتے ہیں۔ 
‌اس کو مستقبل میں کیا کرنا ہے، کیسے کرنا، اس کا راستہ کہاں سے گزرتا ہے اسے کن کن چیزوں پر خاص توجہ اور درکار ہے ضرور واضح کرنا چاہیے۔
‌ اس کے مستقبل کے مقاصد کو ثانویہ تک واضح ہو جانا چاہیے، اس کے والدین کو بہی سال کے آخر میں بچے کی صلاحیت، اور مستقبل کے عزائم سے روشناس کرانا چاہئے، تاکہ بچے کے بغیر وقت کے ضائع ہوۓ وہ صحیح راستے پر اپنے کو ڈال سکے، 
‌ آج دنیا کی بہت ساری معلومات کم وقت میں حاصل کی جاسکتی ہیں۔ 
‌شرط یہ ہیکہ آپ اسکا لنک جانیں، اپنے سابق متخرجین سے رابطے میں رہیں، اس نے اس مقصد کو کیسے حاصل کیا ہے اس کو تحریری و تقریری دونوں واضح کریں۔ 
‌ جو متخرجین باہر سے آئیں انکو دعوت دیں کہ آپ زندگی کی دشواریوں کو اور اس کے حصول کے چیلنجز کو بچوں کے سامنے واضح کریں بچوں میں سوال و جواب کا موقع فراہم کریں۔ 
‌ آج دنیاں میں HR Consulting آفسیں ہیں جو فیس تو لیتی ہیں مگر آپ کو juge کرکے رہنمائی فراہم کرتی ہیں اس مجال میں بہی بچوں کو لیجائیں تاکہ مستقبل میں اپنے قوم کے بچوں کو رہنمائی مل سکے۔ 
‌ حکومتوں میں انکے مواقع کہاں ہیں وہ وہاں کیا کرکے جاسکتے اس کی بہی وضاحت ہونی چاہیے، سفارات میں انکے پاس کس کس کام کے مواقع ہیں، فن صحافت میں وہ کون کون سا کام کر سکتے  واضح کریں۔ 
‌ یہ سب مدرسے کے بچے کر سکتے ہیں صرف اور صرف وقت سے انکی رہنمائی ہونی چاہیے۔ 
‌ہم یہ کہ کر اپنا دامن نہ جہاڑیں کہ ہمیں جتنا مدرسہ دیتا ہے اتنا ہم کر رہے ہیں، یہ خود غرضی اور کہیں نہ کہیں دہوکا ہے، اگر آپ کے پاس صلاحیت اللہ نے دیا ہے تو اسکو انتظامیہ پر اور بچوں کو واضح کریں تب انتظامیہ آپ کے باریمیں غور کریگی کہ اس شخص کی صلاحیت کو کیسے استعمال میں لائیں، صلاحیت کو بہی منوانے پڑتی ہے۔
‌ عربی میں شغف رکھنے والے بچوں کو بہی واضح کریں کہ آپ مدرس بننا چاہتے ہیں تو کس فن کے، علوم شرعیہ، یا فن ادب کے۔ جسکی دلچسپی جس میں اس باریمیں بہی اس کو ثانویہ تک بتا دینی چاہیے، تاکہ اس چیز میں وہ محنت کرسکے۔
عربی ابتدائی کے تین سالوں میں جتنے اچہے استاذ ہوں انکو کتابیں دینی چاہئے، وہ بہی تحدید کیساتھ کہ کون کس فن کا کتنا جانکار ہے اور وہ کتنا نتیجہ دے سکتا ہے، یہ تین سال پوری تعلیم کی ریڈہ کی ہڈی ہے اگر ان سالوں میں لڑکا کمزور ہوگیا، تو کتنی بہی محنت کرلے اس کمزوری کا مداوا نا ممکن ہے، جیسے ہم تقریروں میں کہتے ہیں کہ، اللہ کے رسول صل اللہ علیہ وسلم رمضان کی آمد سے پہلے کمر پستہ ہو جاتے تہے، اسی طرح استاذ اور بچوں سب کو مستعد اور پوری نگہداشت کیساتھ ایک ایک جملے کی وضاحت کرتے ہوئے اور انکو ذہن نشین کراتے ہوئے آگے بڑھنا چاہیے، بار بار میں کہتا ہوں کہ جس مدرس نے ان بچوں کو اپنا بچہ سمجہا اس کے بچوں کو اللہ ضائع نہیں کریگا انشاءاللہ چاہے جہاں وہ بچہ رہے۔ 
‌ آخر میں دعاء ہے رب العزت سے کہ ہمارے قوم میں فکری صلاحیت کو سمجہنے کی، علمی صلاحیت کو استعمال کرنے کی، اور اپنے اندر اصلاح کی، نیک نیتی کی توفیق بخشے۔ آمین۔ 
عبید اللہ عبدالرحیم فیضی۔
سابق نمائندہ راشٹریہ سہارا لکنئو۔

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter