خون مسلم ارزاں کیوں

18 مارچ, 2019

(زید حبیب….( قلم آزمائی

امریکہ و مغربی دنیا کے بعض انتہاپسند رہنماﺅں اور مخصوص ذرائع ابلاغ کی جانب سے اسلام کیخلاف جاری بے بنیاد پراپیگنڈہ نے اپنا اثر دکھانا شروع کر دیا ہے۔ اگرچہ دنیا بھر میں مسلمانوں اور مسلم عبادت گاہوں پر حملے کوئی نئی بات نہیں لیکن اس پراپیگنڈہ سے متاثر ہو کر اب مسلمانوں پر تشدد کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ گزشتہ دنوں نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں دومساجد پر دہشتگردانہ حملوں میں 9 پاکستانیوںسمیتپچاس نمازی شہید اور درجنوں زخمی ہوگئے تھے۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ مسلمان دہشتگردی کا شکار بھی ہیں اور الٹا انہیں دہشتگرد بھی کہا جاتا ہے۔ کشمیر ہو یا افغانستان ، عراق ہو یا شام ، فلسطین ہو یا میانمر، ہر جگہ مسلمانوں کے خون کے ساتھ ہولی کھیلی گئی لیکن مغربی دنیا اور امریکہ نے ہمیشہ اسلام کو ہی ٹارگٹ کیے رکھا۔ اسلام ایک پر امن مذہب ہے ، اسلام کی آمد سے قبل معاشرہ جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا، معمولی معمولی بات پر لڑائیاں شروع ہو جاتیں جو سینکڑوں سال تک چلتی تھیں۔ لیکن نبی ¿ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اپنے رسول ہونے کا اعلان کیا اور لوگوں کو دین اسلام کی دعوت دی تو وہی لوگ جو ایک دوسرے کی جانوں کے دشمن تھے باہم شیر وشکر ہو گئے۔ نبی کریم نے مسلمانوں کو امن و محبت سے رہنے کا درس دیا۔ یہ سنہری اسلامی تعلیمات کا ہی اعجاز تھا کہ لوگ جوق در جوق دائرہ اسلام میں داخل ہونے لگے۔ اگرچہ چند مواقع پر جنگیں بھی کرنا پڑیں لیکن ان جنگوں میں بھی یہ جنگی اصول طے ہوتے تھے کہ بچوں ، بوڑھوں ، خواتین اور نہتے انسانوں پر وار نہیں کرنا ۔اسلامی تعلیمات کے مطابق تو ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے۔ اب ایسے مذہب کے پیروکاروں کو دہشتگرد قرار دینا سراسر ناانصافی ہے۔ اسلام کی پرامن تعلیمات کی بدولت یہ دین پوری دنیا میں پھیل گیا اور اس کے پیروکاروں کی تعداد کروڑوں میں ہے۔
امریکہ میں نائن الیون واقعہ کے بعد سے تو دنیا بھر میں مسلمانوں کو تواتر سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس واقعہ کے بعدمغربی دنیا میں مسلم مخالف جذبات میں بھی اضافہ ہوا اوراب ان جذبات کا کھلم کھلا اظہار بھی کیا جا رہا ہے۔ نیوزی لینڈ میں ہونیوالے حالیہ سانحہ میں قیمتی جانوں کے نقصان پر اگرچہ مغربی دنیا میں افسوس کا اظہار کیا گیا لیکن اس کا ردعمل اس طرح کا نہیں آیا جیسے توقع کی جارہی تھی ۔ اگر خدانخواستہ یہی واقعہ کسی اسلامی ملک کے چرچ میں ہوتا اور کوئی مسلمان اس میں ملوث ہوتا تو اس وقت عالمی میڈیا میں مسلمانوں اور اسلام کیخلاف ایک منظم پراپیگنڈہ مہم کا آغاز ہوجانا تھا اور پوری مغربی دنیا نے یک زبان ہو کر اس ملک کیخلاف کارروائی کرنا تھی لیکن چونکہ یہ ایک غیر مسلم ملک میں ایک مسجد کے اندر واقعات رونما ہوئے اور مرنے والے مسلمان تھے‘ اس لیے دنیا بڑی حد تک خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔نیوزی لینڈ کی مساجد میں ہونیوالے واقعات دہشتگردی کی واضح مثال ہےں لیکن مغربی دنیا میں اس بات پر بھی بحث چل رہی ہے کہ آیا یہ دہشتگردی کا واقعہ ہے یامحض قتل عام کا ایک واقعہ۔ سوشل میڈیا صارفین کی ایک بڑی تعداد اس بات پر بحث کر رہی ہے کہ جب حملہ آور سفید فام ہو تو اسے دہشت گرد کی بجائے مسلح حملہ آور کیوں کہا جاتا ہے؟ یہ بھی پوچھا جا رہاہے کہ سفید فام حملہ آور ہونے یا مسلمانوں کے مرنے کی صورت میں ایسے واقعات کو دہشت گردی کے بجائے قتل عام کیوں قرار دیا جاتا ہے؟ چند صارفین نے تو میڈیا کی جانب سے اس واقعے کی کوریج پر بھی سوال اٹھایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حملہ آور مسلمان نہیں تھا، اس لیے عالمی میڈیا اس کے لیے دہشت گرد کی بجائے مسلح حملہ آور جیسے الفاظ کا استعمال کر رہا ہے جو کسی منافقت سے کم نہیں۔مغربی دنیا کے یہ دہرے معیار ہی ہیں جن کی وجہ سے بعض نا سمجھ مسلمان انتہاپسندی کی جانب مائل ہو جاتے ہیں اور وہ روش اختیار کرتے ہیں جس کی اسلام قطعاً اجازت نہیں دیتا۔ایسا نظر آ رہا ہے کہ امریکہ، مغربی دنیا اسلاموفوبیا کا شکار ہو رہی ہے اور اسلام کے بڑھتے ہوئے دائرہ¿ اثر سے خوفزدہ ہے۔
خون مسلم اس قدر ارزاں کر دیا گیا ہے کہ درجنوں مسلمانوں کو حالت نماز میں شہید کر دیا جاتا ہے لیکن سلامتی کونسل اپنا کوئی ہنگامی اجلاس بلانے کا اعلان نہیں کرتی ، اقوام متحدہ معمول کے کاموں میں مصروف ہے۔ حد تو یہ ہے کہ مسلم ممالک بھی اس عظیم انسانی المیے کو نظر انداز کر رہے ہیں۔یورپی ممالک میں کہیں کوئی ریلی، احتجاج یا بھوک ہڑتال دیکھنے کو نہیں ملی۔ یہ وہی مسلمان ہیں جن کے متعلق علامہ محمد اقبال نے فرمایا کہ ” یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے ، جنہیں تو نے بخشا ہے ذوق خدائی“ ۔ دراصل جب سے مسلم ممالک نے اپنی خارجہ پالیسی کو عالمی تجارتی منڈی اورکرنسی کے بل بوتے پر تشکیل دینا شروع کیا ہے‘ اس وقت سے کفر والحاد نے ملت اسلامیہ کیخلاف اتحاد کر رکھا ہے۔ اسلام کی تعلیمات نے صدیوں پہلے ببانگ دہل یہ اعلان کر رکھا ہے کہ یہودوہنود اور کفار ایک ملت کی طرح اکٹھے اور متحد ہیں اور وہ اس وقت تک مسلمانوں سے راضی نہیں ہوں گے جب تک خدانخواستہ مسلمان ان کے مذہب کو نہیں اپنا لیتے۔ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق حالات کو تہذیبوں کے تصادم کی طرف دھکیلا جا رہا ہے ۔
غیر مسلم دنیا میں بڑھتے ہوئے مسلم مخالف جذبات کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ نیوزی لینڈ کی مساجد میں حملہ کرنیوالے شخص کی کار میں وہ نغمہ چل رہا تھا جسے بوسنیا جنگ میں سرب قوم پرست ترانے کے طور پر بجاتے تھے۔اس نغمے میں سرب لیڈر رادوان کرادوچ کی شان میں قصیدے گائے جاتے ہیں۔ رادون کرادوچ اب جنگی جرائم کی پاداش میں سزا پا چکے ہیں۔ حملہ آور کی گن ،میگزین اور بلٹ پروف جیکٹ پر مختلف نام اور کچھ واقعات بمعہ تاریخ درج ہیں جن کا پس منظر دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ مغرب میں انتہا پسندی کن حدوں کو چھو رہی ہے۔بندوق کے میگزین پر tours 732 لکھا ہے، وہی جنگ ٹورس جو تاریخ کی دس سب سے زیادہ فیصلہ کن جنگوں میں سے ایک ہے جس میں خلافت بنو امیہ کے عظیم جرنیل عبدالرحمان الغفیقی کی قیادت میں مسلم لشکر فرانس کے شہر ٹورس میں مغربی فوجوں سے ٹکرایا تھا مگر بدقسمتی سے اس میں مسلم فوجوں کو شکست ہوئی تھی۔بندوق پرایک ایسے عیسائی بادشاہ کا نام بھی لکھا تھا، جس نے سلطنت عثمانیہ کےخلاف ”جنگ نکو پولس“ میں صلیبی لشکر کی قیادت کی تھی اور بلغاریہ کو ترکوں سے آزاد کروایا تھا۔ حملہ آور نے اپنا انجام جانتے ہوئے یہ سب باتیں انتہائی باریکی سے لکھی ہیں جو مسلمانوں سے شدید نفرت اور ماضی کی صلیبی جنگوں سے محبت اور ان کے دوبارہ آغاز کا واضح پیغام اورمغرب میں رہنے والے مسلمانوں کیلیے سنگین خطرے کی گھنٹی ہے۔اب وقت آ چکا ہے کہ مسلم دنیا متحد ہو اور آئندہ ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے ٹھوس حکمت عملی اور مناسب عملی اقدامات اٹھائے ۔اس وقت او آئی سی ایک ہنگامی اجلاس طلب کرے اور پوری مسلم امہ کی طرف سے ان شہداءکے ساتھ اظہار یکجہتی کیا جائے۔
(کالم نگارقومی وسیاسی امور پرلکھتے ہیں)

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter