یہ ہجرتوں کا زمانہ

مولانا مشہود خاں نیپالی

18 فروری, 2024

یہ ہجرتوں کا زمانہ بھی کیا زمانہ ہے
انہیں سے دور ہیں جن کے لئے کمانا ہے

یہ نہیں کہا جا سکتا کہ بیرون ملک جانا برا ہے۔ لیکن کام کی تلاش میں بیرون ملک بھٹکنے کی صورت حال ملک کے لیے کبھی اچھی نہیں ہو سکتی۔ حال ہی میں نیپال میں روزگار کی تلاش میں بیرون ملک جانے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ زیادہ تر نیپالی بیرون ملک جانے پر مجبور ہیں کیونکہ انہیں اپنے ملک میں ملازمتیں نہیں ملتی ہیں۔ ان میں سے کچھ بیرون ملک جانے پر مجبور ہیں کیونکہ وہ اپنے خاندانوں کی کفالت اور ملک میں ملنے والی ملازمتوں سے اپنی روزی روٹی چلانے کے قابل نہیں ہیں۔

اس کی ایک روشن مثال تریبھون بین الاقوامی ہوائی اڈے پر چند گھنٹے بیٹھ کر ان کی چیخ و پکار آہ و بکا کو دیکھنا اور سننا ہے۔ کچھ نیپالی جو اپنے خاندانوں کی اچھی پرورش، خوش و خرم اور اپنی زندگی بنانے کا خواب شاندار مستقبل آنکھوں میں سجا کر ہجرت کر گئے اور وہیں انتقال کر گئے انہیں اپنے ملک کی دو گز زمین بھی میسر نہ ہوئی، کتنا ہے بد نصیب ظفر دفن کے لئے، دو گز زمیں بھی مل نہ سکی کوہ یار میں، بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ لاشوں پر سیاست بھی شروع ہو جاتی ہے۔جن لوگوں نے ہنر سیکھا ہے وہ کچھ کام کر سکتے ہیں۔ لیکن جو لوگ بغیر ہنر کے بیرون ملک گئے ہیں، انہیں نوکری نہ ملنے پر وہ اپنے ملک واپس جانا بھی نہیں چاہتےبلکہ بیرون ملک ہی نوکری کی تلاش میں در بدر ٹھوکریں کھاتے ہیں ، قرض دہندہ کے قرض کے اوپر قرض کے اضافی بوجھ کی وجہ سے، کچھ غلط کام کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ایسی بے شمار مثالیں اور واقعات ہمارے ملک اور معاشرے میں رونما ہو چکے ہیں۔ افسوس لیڈران، ذمےداران، حکمران، سیاسی و سماجی شخصیات ان تلخ حقیقتوں کو کبھی قریب سے دیکھنے کی زحمت بھی نہیں کرتے ۔
تریبھون بین الاقوامی ہوائی اڈے پر پہنچ کر لوگ روتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان مناظر کو دیکھنے کے بعد کلیجہ چھلنی ہو جاتا ہے،در حقیقت پورا ملک ان کے ساتھ رو رہا ہوتا ہے۔ بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ قیادت نہ تو ملک کا درد اور ملک کا رونا سنتی ہے اور نہ ہی دیکھتی ہے۔ اور نہ ہی کبھی روتے ہوئے لوگوں کے آنسوؤں کو پوچھنے کی کوشش کرتی ہے اور نہ ہی ان کے زخموں پر مرہم رکھنے کی پرواہ کرتی ہے۔ جو کچھ بھی ہوتا ہے، آج ہوتا ہے، کل بھلا دیا جائے گا۔ اس لیے حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر کل کے مستقبل کو محفوظ رکھنے کے لئے نہ چاہ کر بھی بیرون ملک جانے پر مجبور ہیں حالانکہ وہ آج اپنے آنسو بہاتے ہیں۔ گھر والے، رشتہ دار، رشتہ، ماں باپ، عزیز و اقارب ،دوست احباب، سب کو رلا کر بیرون ملک جا رہے ہیں اور خود بھی رو رہے ہیں۔ آخر ایسا کیوں ؟ کہ اس ملک کے مستقبل کو اپنے ہی ملک میں اپنا مستقبل محفوظ نظر نہیں آتا۔
لیڈر دو طرح سے بات کرتے ہیں۔ ایک طرف حکومت میں شامل وزراء ملک میں نوکریاں دینے کی بات کر رہے ہیں تو دوسری طرف ہنر مند افرادی قوت کو دوسری جگہوں پر بھیجنے کے لیے لیبر کے معاہدے کر رہے ہیں۔ چند ماہ پہلے کی حکومتی کارروائیاں اس حقیقت کو ظاہر کرتی ہیں کہ ڈاکٹروں، نرسوں اور کارکنوں سے مذاکرات کیے جا رہے ہیں۔آج ملک کا مستقبل رو رہا ہے۔ آئیے اس پس منظر میں نیوز ایجنسی نیپال کی لی گئی کچھ تصاویر دیکھتے ہیں:

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter