سعودی نظامِ انصاف میں تاریخی تبدیلی کر دی گئی

15 جنوری, 2019

ریاض(15جنوری 2019ء) سعودی اعلیٰ عدالتی کونسل کی جانب سے تمام ججوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ فوجداری مقدمات میں ملزم کو صرف اُسی صورت میں سزا سُنائیں اگر اُس پر جرم کا ارتکاب مکمل طور پر ثابت ہو جائے۔ اگر ذرا سا بھی شک ہو تو ملزم کو اُس کا فائدہ دیتے ہوئے بری کر دیا جائے۔ کسی ملزم کو صرف اسی صورت میں سزا سُنائی جائے گی اگر اُس کے خلاف ٹھوس ثبوت موجود ہوں اگر مہیا کردہ ثبوت ناکافی ہوں تو ملزم کو شک کا فائدہ دے کر بری کر دیا جائے۔ماہرین قوانین نے ان جاری کردہ ہدایات کو فوجداری مقدمات کے ضمن میں اہم تاریخی تبدیلی قرار دیا ہے۔ ایک ماہرِ قانون کا کہناتھا کہ کہ ماضی میں کسی ملزم کے خلاف تھوڑے ثبوتوں کی بناء پر بھی اُسے کڑی سزا دے دی جاتی تھی جو انصاف کے تقاضوں کے خلاف تھا۔

تاہم اب نئی ہدایات کی بدولت مجرم کو کڑی سزا دینے اور جُرم ثابت نہ ہونے پر ملزم کو بری کرنے سے ایک توازن پیدا ہو گیا ہے۔

آئندہ سے جج کمزور شواہد کی بناء پر کسی شخص کو سزا سے نہیں نوازیں گے۔ سعودی ججوں نے بھی اعلیٰ عدالتی کونسل کی اس ہدایت کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے انصاف کے نظام میں بہتری اور مثبت تبدیلی آئے گی۔ اب کسی بے گناہ کو صرف شک کی بناء پر سزا نہیں سُنائی جائے گی۔ کسی کو صرف اسی صورت میں مجرم قرار دیا جائے گا اگر اُس کے خلاف مکمل اور ناقابلِ تردید ثبوت موجود ہوں یا واردات کرنے والا خود اقبالِ جُرم کر لے۔ اب یہ ججوں پر منحصر ہے کہ وہ کتنی فہم و فراست سے بے گناہ کو بری اور قصور وار کو سزا کا فیصلہ سُناتے ہیں۔

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter