لکم دینکم ولی دین

محمّد ہاشم خان / ممبئی

7 اکتوبر, 2018

تحریر : محمّد ہاشم خان / ممبئی
جب جب محرم کا مہینہ شروع ہوتا ہےصحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو لعن طعن کرنے کا سلسلہ بھی شروع ہوجاتا ہے۔اچھے خاصے روشن خیال شیعہ بھی مسلمان نظرآنے لگتے ہیں۔اگر کسی کو تکلیف ہے تو وہ بلاشبہ مجھے انفرینڈ کرکے جاسکتا ہے کہ میں آل رسولؐ کی عظمت و توقیر کا قائل ضرور ہوں لیکن ان کے نام پر نسل پرستی کو فروغ دینےوالوں کی مدد نہیں کرسکتا۔ بصد معذرت کہ فی زمانہ آل رسولؐ کا ٹیگ نسل پرستی کی تمام حدود کو پار کرچکا ہے۔فی زمانہ یہ تصور راسخ ہوچکا ہے کہ آپ آل رسول ؐ ہیں سو آپ عام انسان نہیں ہیں اور یہ اسلام کے بنیادی اصول کی نفی ہے۔میں اسلام کی رو سے یہ مانتا ہوں کہ ہم تمام لوگ حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں سو نسلی اعتبار سے دلت،چمار،سید ،برہمن،شیخ اور خان پٹھان سب آخر میں ایک ہیں اس لئے تفوق اگر حاصل ہے تو وہ صرف تقویٰ کی بنیاد پر ہے۔اللہ تعالیٰ نےبہت ہی واضح لفظوں میں قرآن میں ارشاد فرمادیا ہے۔ ان اکرمکم عنداللہ اتقاکم۔ اللہ کے نزدیک تم میں زیادہ مکرم وہ شخص ہے جو زیادہ متقی ہے اور متقی ہونا عمل و عبادت سے مشروط ہے خاندانی وراثت و نجابت سے نہیں۔ خیر یہ بات اب واضح ہوگئی کہ میں سید و سادات وغیرہ کااتناہی قائل ہوں جتنا کہ آپؐ نے فرمایا ہے۔دوسری اہم بات یہ کہ اسلام آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مکمل ہوچکا تھا، یعنی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اگر کوئی کتنا ہی قیامت خیز سانحہ کیوں نہ رونما ہوجائے وہ ہمارے بنیادی عقیدے کا حصہ نہیں ہوسکتا اور نہ ہی اس بنیاد پر اسلام کوئی حکم نافذ کرسکتا ہے۔ کربلا کا سانحہ یقیناً ایک بہت ہی دل فگار سانحہ ہے،جتنی بھی اس کی مذمت کی جائے وہ کم ہےلیکن اس کا ہمارے عقیدے سے کوئی تعلق نہیں کیوں کہ ہمارا عقیدہ( اسلام) اس قیامت خیز سانحے کے وقوع پذیر ہونے سے بہت پہلے مکمل ہوچکا تھا جب اللہ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی تھی۔۔الیوم اکملت لکم دینکم۔۔۔ لہٰذا اب کوئی چیز اضافی شامل کی جائے گی تو وہ بدعت کے زمرے میں آجائے گی۔کربلا کا واقعہ ہمارے عقیدے نہیں عمل سے متعلق ہے،اُس وقت دنیا نے دیکھا کہ ہم سے بڑا منافق کوئی نہیں تھا اور آج بھی دنیا دیکھ رہی ہے کہ ہم سے بڑا منافق کوئی نہیں۔لہٰذا کربلا کا غم تو ہے لیکن یہ حق و باطل کا غم نہیں،منافقت اور بزدلی کا غم ہے۔اس معاملے میں میں یزید کے افعال کی بدترین الفاظ میں مذمت کرتا ہوں لیکن اس کے لئے کاتب وحی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شان میں گستاخی کو جائز قرار نہیں دے سکتا(نعوذباللہ)۔حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خلاف ناشائستہ الفاظ استعمال کرنے والے تاریخ کے اس روشن پہلو کے بارے میں کیا کہیں گے جب حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے صلح کی تھی؟ کیا حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے غلط کیا تھا؟ سانحہ کربلا سے بہت پہلے ایک کربلا کو ٹالنے کے لئے حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے امیر معاویہؓ نے صلح کی تھی ۔یہ صلح درست نہیں تھی؟ اگر تاریخ کا یہ روشن پہلو جھوٹ ہے تو پھر آپ کی تاریخ درست کیوں ہے؟
اب آتا ہوں آج کے کربلائی ڈراموں کی طرف۔جیسے ہی محرم الحرام کا مہینہ شروع ہوتا ہے ایک سے ایک پوسٹ نمودار ہونے لگتے ہیں، لوگ کربلا کا غم مناتے ہوئے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور امہات المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے خلاف سب و شتم کی بوچھار شروع کردیتے ہیں۔کچھ واضح لفظوں میں تو کچھ ڈھکے چھپے لفظوں میں اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو بزعم خود ادیب ہوتے ہیں اور محرم کے دس دنوں میں’یا حسین ‘ کا نعرہ لگا کر تجدید ایمان کرلیتے ہیں۔ جب ان حضرات کو اپناایمان پیارا ہے تو مجھے کیوں نہیں۔ اب اگر میں اپنے عقیدے یا نظریئے کا اظہار کرکے ایمان کی تجدید کرتا ہوں تو یہ ادیب کی شان کے منافی کیوں ہوجاتا ہے؟
اگر کوئی چیز مجھے یا میرے مذہبی جذبات کو ہرٹ کررہی ہے تو اس پر سوال پوچھنا اتنا تکلیف دہ کیوں ہے ۔ کیا ادیب صرف ادب کی ہی بات کرسکتا ہے؟ کیا اسے اپنے خارجی عوامل سے لاتعلق رہنا چاہیے۔ جب کربلا کا غم مناتے ہوئے شائستگی کی تمام حدود پار کرنے والوں کے رویے پر میں نے کبھی شکایت نہیں کی تو آپ کو بھی نہیں ہوناچاہئے۔لہٰذامیں اگر کسی سلمان ندوی کے کسی بے ہودہ بیان پر دکھ کا اظہار کروں تو اسے میرا غم سمجھا جائے مسلکی عصبیت کا اظہار نہیں۔
یہ بات درست ہے کہ میں مذہبی امور پر نہ بحث کرتا ہوں اور نہ ہی کوئی پوسٹ لگاتا ہوں لیکن یہ بات درست نہیں کہ میں اپنے بنیادی عقیدے سے دستبردار ہوچکا ہوں.اس بار محرم الحرام شروع ہوتے ہی دیکھا کہ کچھ لوگ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی کتاب خلافت و ملوکیت اور دیگر بیانات کو کوٹ کرنے لگے ہیں اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شان میں گستاخی کرنے لگے ہیں۔ اب میں یہاں صرف ایک ہی بات پوچھنا چاہوں گا کہ پوری دنیا کے مسلمانوں کے سامنے یہ سوال رکھا جائے کہ ایک طرف حضرت امیر معاویہ ہیں اور ایک طرف مودودی ہیں۔اسلامی نقطہ نظر سے دونوں میں کس کو افضلیت حاصل ہے۔مودودی کے مزخرفات کا سوال اسی جواب میں پوشیدہ ہے۔حضوراپنی اوقات دیکھئے اور صحابہ کرام کی عظمت و تقدیس کا معیار۔یہ وہ شخص تھا جو پاکستان کی مخالفت کررہا تھا اور پاکستان بنتے ہی چوروں کی طرح وہاں بھاگ گیا۔یہ موصوف کی عزیمت تھی اور بہتان تراش رہے ہیں امیر معاویہؓ پرجو ایک راسخ العقیدہ صحابی
اورکاتب وحی ہونے کے علاوہ شام کے گورنر بھی تھے اور انہیں کسی اور نے نہیں بلکہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے گورنر بنایا تھا۔ میں کسی بھی ایسے مسلمان کو اسپیس نہیں دے سکتا جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے حوالے سے نازیبا الفاظ استعمال کرتا ہے یا ان کی صداقت و راست بازی پر کلام کرتا ہے۔ اگر یہ اسپیس دیا جانے لگا تو پھر یہ سوچ لیں کہ یہ قرآن ہم تک انہیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی وجہ سے پہنچا ہے اور یہ بھی یاد رہے کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاتبین وحی میں سے ایک تھے۔قرآن کی کتابت اور تدوین یہ صحابہ کرام نے کی ہے ۔آپؐ کے ذریعہ صحابہ تک اور صحابہ کے ذریعہ تابعین و تبع تابعین و قس علیٰ ہذا کے مصداق یہ قرآن ہم تک پہنچا ہے،یہ سارا اسلام ہم تک پہنچا ہے ۔مودودی کے بہانے ایک روشن خیال طبقے نے صحابہ کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کی کوشش کی اور میں نے اس مسئلے کو نظرانداز کرنے کی کوشش کی کہ آپ کچھ بھی کرلیں ہر سال دس دن کے لئے یہ مسئلہ ضرور زندہ ہوگا۔یہ مسئلہ ختم ہی ہورہا تھا کہ آل رسولؐ کا دعویدار ایک ملعون مولانا سامنے آیا اور اس نے ہذیان بکنا شروع کردیا۔ یہ وہی ملعون ہے جو کچھ دن قبل بابری مسجد کو بیچ رہا تھا۔ میری مراد سلمان ندوی سے ہے۔اس نے حضرت امیر معاویہؓ کو باغی قرار دے دیا اور حضرت عثمان غنیؓ کی شہادت کو انقلاب سے تعبیر کیا(نعوذ باللہ من ذالک۔افسوس یہ ہے کہ یہ ملعون اب بھی مسلمان ہے ۔) موصوف کے بیان نے قوت برداشت کی ساری حدیں توڑ دیں۔امیرمعاویہ نے یزید کو جانشین بنا کر’ غلطی‘ کی کہ اس طرح ایک موروثی نظام کی داغ بیل پڑی لیکن حضرت عثمان غنیؓ نے کیا غلطی کی تھی؟
خاندانی موروثی نظام کی داغ بیل ڈالنے میں پہلی کوشش اہل تشیع نے کی تھی اور وہ کامیاب نہیں ہوسکے۔جب انہوں نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیگر صحابہ عظام کے مقابلے میں خلافت یا آپ ؐ کا جانشین ہونے کا زیادہ مستحق سمجھا تھا تو وہ آخر کس بنیاد پر تھا؟ یہی نا کہ آپ نبی ؐ کے داماد ہیں؟ آپؐ کے خاندان سے ہیں؟ اس کے علاوہ اور کوئی بڑی وجہ تھی جس کی بنیاد پر حضرت ابوبکررضی اللہ تعالیٰ کی نفی کی جاتی۔ (نعوذ اباللہ موازنہ مقصود نہیں ہے، بلکہ اس نقطے کی طرف اشارہ مقصود ہے کہ اسلام میں موروثیت کو لانے کی سب سے پہلی کوشش اہل تشیع نے کی تھی جو آج سب سے زیادہ چیخ چلا رہے ہیں۔)
بہر کیف یہ بات میں قطعی پسند نہیں کرتا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو گالیاں دی جائیں اور میں خاموش رہوں. حضرت علی کرم اللہ وجہہ اورحضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے درمیان معاملات پر ہمارا اور اہل اسلام کا راجح موقف "توقف” کا ہے یعنی اللہ کے حوالے ہے. اللہ ہی بہتر سمجھتا ہے کہ کیا بہتر ہے. یہ بات تو کسی صورت قابل برداشت نہیں کہ آل رسولؐ کے نام پر آر ایس ایس پرست ایک مولاناخلیفہ ذوالنورین حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کو انقلاب سے تعبیر کرے اور کاتب وحی کو باغی قرار دے اور یہ بات بھی مجھے پسند نہیں کہ کوئی دوسرا فریق حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نیت پر شک کرے کہ وہ اقتدار کے لالچی تھی. نعوذبااللہ من ذالک. یہ سب صحابی رسول تھے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی تھے جو دین اسلام کی ترویج و تبلیغ میں ہم دین فروشوں سے لاکھ گنا زیادہ آگے تھے. (ہمارا تو کوئی مقابلہ ہی نہیں بنتا.)
آئی ایم سوری میرے دوست. میں اتنا روشن خیال نہیں ہوں کہ صحابہ کرام کے حوالے سے سلمان ندوی کی ہفوات و مزخرفات پر خاموش رہوں. 1400 سال قبل کیا ہوا تھا میں اسے اللہ کے حوالے کرتا ہوں. 1400 سال بعد کیا ہورہا ہے اسے میں اللہ کے حوالے نہیں کرسکتا کہ اس پر مجھ سے باز پرس ہوگی. محمد ہاشم خان سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ میں کون درست تھا لیکن یہ ضرور پوچھا جائے گا کہ تم زندہ تھے اور کچھ لوگ اسلام کے روشن ستاروں کو مسخ کرنے کی کوشش کررہے تھے تو اس وقت تم کیا کررہے تھے.
کربلا کا غم ضرور ہے لیکن اس کے بہانے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو سب و شتم کا نشانے بنانے کی اجازت نہیں دے سکتا۔ میں بہت ہی گناہ گار آدمی ہوں لیکن اتنا روشن خیال نہیں ہوں کہ تاریخ کی مظلومیت کا بہانہ بناکر صحابہ کرام کو گالیاں دی جائیں اور میں خاموش رہوں۔وما توفیقی الا باللہ ومانرید الااصلاح

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter