رمضان المبارک کا آخری عشرہ ہے ، اِن مبارک ایام کا کوئی لمحہ ضائع کئے بغیر ان سے بھر پوراستفادہ کرنا چاہئے ۔

8 جون, 2018

رمضان المبارک کا آخری عشرہ نہایت اہم ہے کیونکہ اسی عشرہ میں وہ رات آتی ہے جس کی عبادت ہزار مہینوں کی عبادت سے بہتر ہے ۔ اِس لیے اِس میں زیادہ سے زیادہ عبادت کرنی چاہئے ۔ زیادہ سے زیادہ اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنا چاہئے ۔ زیادہ سے زیادہ دعاکرنی چاہئے اور اپنے گناہوں پر اللہ تعالی سے بار بار معافی مانگتے ہوئے سچے دل سے توبہ کرنی چاہئے ۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ” جب آخری عشرہ شروع ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات بھر جاگتے اور اپنے گھروالوں کو بھی جگاتے۔ اور کمر بستہ ہو کر خوب عبادت کرتے ۔“ ( البخاری : 2024 ، مسلم : 1174 ) اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا یہ بھی بیان کرتی ہیں کہ ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عبادات میں جتنی محنت آخری عشرے میں کرتے تھے اتنی کبھی نہیں کرتے تھے “ )مسلم : (1157

لہذا ہمیں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس طرزِ عمل[​IMG] کو سامنے رکھتے ہوئے اِس عشرہ میں کمر بستہ ہو کر خوب عبادت کرنی چاہئے ۔ اور اِن مبارک ایام کا کوئی لمحہ ضائع کئے بغیر ان سے بھر پوراستفادہ کرنا چاہئے ۔

اعتکاف :
آخری عشرہ میں کثرتِ عبادت کی سب سے افضل شکل یہ ہے کہ یہ عشرہ اعتکاف میں گذارا جائے ۔ کیونکہ اعتکاف سے مراد یہ ہے کہ انسان دنیاوی کاموں سے بالکل منقطع ہو کرصرف باری تعالی کی طرف متوجہ ہو اور اس کی رضا اور اس کا تقرب حاصل کرنے کیلئے مکمل طور پر یکسو ہوجائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی یہ عشرہ اعتکاف میں گذارتے تھے ۔ جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ

” نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کا آخری عشرہ اعتکاف میں گذارتے تھے یہاں تک کہ اللہ تعالی نے آپ کو فوت کردیا ۔ پھر آپ کے بعد آپ کی بیویاں اعتکاف بیٹھنے لگیں ۔ “( البخاری : 2026 ، مسلم: ( 1172

اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر رمضان میں دس دن اعتکاف بیٹھتے تھے ۔ پھر جب وہ سال آیا جس میں آپ فوت ہوئے تو اُس میں آپ بیس دن اعتکاف بیٹھے“ ۔(البخاری ( 2044:

لہذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اِس سنت مبارکہ پر عمل[​IMG] کرتے ہوئے مسلمان کو آخری عشرہ میں اعتکاف بیٹھنے کا اہتمام کرنا چاہئے ۔ جس میں وہ دنیاوی کاموں سے بالکل بے نیاز ہو کر بس اللہ تعالی کی طرف ہی متوجہ رہے ۔ اُس کے ذکر سے اپنی زبان کو تر رکھے ۔ کثرت سے قرآن مجید کی تلاوت کرے ، نہ صرف تلاوت بلکہ اس میں غور وفکر اور تدبر کرے تاکہ اس سے اسے نصیحت حاصل ہو ۔ اپنے تمام گناہوں پر سچے دل سے توبہ کرے ۔ بار بار اللہ تعالی کے سامنے آنسو بہائے اور دنیا وآخرت کی خیر وبھلائی کا سوال کرے ۔

معتکف دوران[​IMG]ِ اعتکاف مسجد سے باہر دنیاوی کاموں کیلئے تو کیا دینی کاموں کیلئے بھی نہ نکلے ۔ سوائے ان ضروری کاموں کے جن کیلئے اس کا نکلنا نا گزیر ہو ۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :” معتکف کیلئے سنت یہ ہے کہ وہ دوران[​IMG]ِ اعتکاف مریض کی عیادت کیلئے نہ جائے ، جنازہ کیلئے حاضر نہ ہو ، بیوی کو مت چھوئے اور نہ اس سے مباشرت کرے ۔ اور کسی کام کیلئے مت نکلے سوائے اُس کے جس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ ہو ۔ “ (ابو داود 2473:۔ وصححہ الألبانی)

اعتکاف کے دوران[​IMG] فرائض پر مداومت کے ساتھ ساتھ نفلی عبادت بھی کثرت سے کرنی چاہئے ۔اسی طرح وہ شخص جو اعتکاف نہ بیٹھے وہ بھی اِس عشرہ میں کثرت سے نوافل ادا کرے ۔ تاہم اِس سلسلہ میں ایک اہم بات یہ ہے کہ نوافل وہی پڑھے جائیں جو خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہوں ۔ مثلا فرض نمازوں سے پہلے اور ان کے بعد کی سنتیں ، نماز چاشت اور قیام اللیل وغیرہ ۔

حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ” جو مسلمان بندہ ہر دن اللہ تعالی کی رضا کیلئے بارہ رکعات نفل (جو کہ فرض نہیں ) ادا کرے تو اللہ تعالی اس کیلئے جنت میں ایک گھر بنا دیتا ہے ۔ یا اس کیلئے جنت میں ایک گھر بنا دیا جاتا ہے ۔“

یہ حدیث بیان کرکے حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:

یعنی ” میں نے جب سے ان بارہ رکعات کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث سنی ہے تب سے انہیں کبھی نہیں چھوڑا ۔“ (مسلم : 728 )

ان بارہ رکعات کی تفصیل سنن الترمذی میں موجود ہے ۔ چنانچہ حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:” جو شخص دن اور رات میں بارہ رکعات پڑھتا ہے اس کیلئے جنت میں ایک گھر بنا دیا جاتا ہے : ظہر سے پہلے چار اور اس کے بعد دو۔ مغرب کے بعد دو ، عشاءکے بعد دو اور فجر سے پہلے دو رکعا ت ۔“ (الترمذی 415:۔ وصححہ الألبانی )
قیام اللیل:
فرائض سے پہلے اور ان کے بعد کی سنتوں اور اسی طرح نماز چاشت کے علاوہ قیام اللیل کا بھی خصوصی اہتمام کرنا چاہئے ۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا اہتمام فرماتے تھے ۔

حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دوران[​IMG] ہمیں قیام نہیں کرایا یہاں تک کہ صرف سات روزے باقی رہ گئے ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے 23کی را ت کو ہمارے ساتھ قیام کیا اور اتنی لمبی قراءت کی کہ ایک تہائی رات گزرگئی ۔ پھر چوبیسویں رات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام نہیں کرایا۔ پھر پچیسویں رات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام کرایا یہاں تک کہ آدھی رات گزر گئی۔ تو میں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! کاش آج آپ ساری رات ہی ہمیں قیام کراتے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا :” جو شخص امام کے ساتھ قیام کرے یہاں تک کہ امام قیام ختم کردے تو اس کیلئے پوری رات کے قیام کا اجر لکھا جاتا ہے ۔“ پھر چھبیسویں رات گذر گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام نہیں کرایا۔ پھر ستائیسویں رات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام کرایا اور اپنے گھر والوں اور اپنی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کو بھی بلا لیا ۔ اور اتنا لمبا قیام کرایا کہ ہمیں سحری کے فوت ہوجانے کا خطرہ پیدا ہو گیا۔ (ترمذی : 806 حسن صحیح ،ابوداود : 1375، نسائی : 1605 ، ابن ماجہ : 1327۔ وصححہ الألبانی )

واضح رہے کہ قیام اللیل کوئی الگ نماز نہیں ، نمازِ تراویح بھی قیام اللیل ہی ہے ۔ اِس لئے خصوصا آخری عشرہ میں نماز تراویح لمبی پڑھنی چاہئے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے 23، 25 اور 27 کی راتوں میں صحابہ کرام کو لمبی نماز پڑھائی ۔

آخری عشرہ میں قیام ضرور کرنا چاہئے ۔ اور خصوصا رات کے آخری تہائی حصہ میں دعاوں کا اہتمام کرنا چاہئے کیونکہ یہ قبولیت کا وقت ہوتا ہے ۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :”ہمارا رب ‘ جو بابرکت اور بلند وبالا ہے ‘ جب ہر رات کا آخری تہائی حصہ باقی ہوتا ہے تو وہ آسمانِ دنیا کی طرف نازل ہوتا ہے ۔ پھر کہتا ہے : کون ہے جو مجھ سے دعا مانگے تو میں اس کی دعا کوقبول کروں ؟ اور کون ہے جو مجھ سے سوال کرے تو میں اسے عطا کروں ؟ اور کون ہے جو مجھ سے معافی طلب کرے تو میں اسے معاف کردو ں ؟ “ مسلم کی ایک روایت میں ان الفاظ کا اضافہ ہے : ” پھر وہ بدستور اسی طرح رہتا ہے یہاں تک کہ فجرروشن ہو جائے۔ “ (البخاری : 1145، 6321 ، 7494 ، مسلم 758: )

لیلۃ القدر :
رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی اہمیت اِس لیے بھی زیادہ ہے کہ اسی عشرہ میں وہ رات آتی ہے جس کی عبادت ہزار مہینوں کی عبادت سے افضل ہے ۔ اللہ رب العزت ارشاد فرماتے ہیں :

” بے شک ہم نے یہ ( قرآن ) لیلۃالقدر یعنی باعزت اور خیر وبرکت والی رات میں اتارا ۔ اور آپ کو کیا معلوم کہ لیلۃ القدر کیا ہے ! لیلۃالقدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے ۔ اس میں فرشتے اور روح الامین اپنے رب کے حکم سے ہر حکم لے کر نازل ہوتے ہیں ۔ وہ رات سلامتی والی ہوتی ہے طلوعِ فجر تک ۔ “ (سورة القدر)

ان آیات مبارکہ سے معلوم ہوا کہ لیلۃ القدر کی عبادت ہزار مہینوں یعنی تراسی سال چار مہینوں کی عبادت سے افضل ہے ۔ اور یہ یقینی طور پر اللہ تعالی کی بہت بڑی نعمت ہے کہ ایک رات کی عبادت پر اللہ تعالی تراسی سال چار مہینوں کی عبادت کا اجر وثواب دیتا ہے ۔

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ” جو شخص ایمان کے ساتھ اور طلب ِ اجر وثواب کی خاطر لیلۃ القدر کا قیام کرے اس کے سابقہ گناہ معاف کردئیے جاتے ہیں۔ “( البخاری : 2014، مسلم : 760 )

یہ رات کب آتی ہے ؟ اس کے بارے میں متعدد احادیث وارد ہیں :

حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک کے درمیانے عشرہ میں اعتکاف بیٹھتے تھے۔ چنانچہ جب اکیسویں رات آتی تو آپ اور آپ کے ساتھ اعتکاف بیٹھنے والے دیگر لوگ اپنے اپنے گھروں کو چلے جاتے ۔ پھر ایک مرتبہ جب اسی طرح اکیسویں رات آئی تو آپ اعتکاف میں ہی رہے اور آپ نے لوگوں سے خطاب کیا اور انھیں ’ جو کچھ اللہ نے چاہا ‘ احکامات دئیے ۔ پھر آپ نے فرمایا : ” میں یہ درمیانہ عشرہ اعتکاف میں گذارتا تھا ، پھر مجھے یہ مناسب لگا کہ میں یہ آخری عشرہ اعتکاف میں بیٹھوں ۔ لہذا جو شخص میرے ساتھ اعتکاف میں تھا وہ اپنی جائے اعتکاف میں ہی رہے ۔ اور مجھے یہ رات ( لیلۃ القدر ) خواب میں دکھلائی گئی تھی پھر وہ مجھے بھلا دی گئی ۔لہذا اب تم اسے آخری عشرہ میں تلاش کرو اور اس کی طاق راتوں میں اسے پانے کی کوشش کرو ۔اور میں نے اپنے آپ کو ( خواب میں ) دیکھاکہ میں پانی اور مٹی میں سجدہ کر رہا ہوں ۔“ چنانچہ اُس ( اکیسویں ) رات میں تیز بارش ہوئی یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جائے نماز پر بھی چھت سے پانی کے قطرے گرے ۔اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب صبح کے وقت نماز سے فارغ ہوئے تو میری آنکھوں نے دیکھا کہ آپ کی پیشانی پر پانی اور مٹی کے آثار نمایاں تھے ۔ ( البخاری : 2016، مسلم :1176)

اِس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے اِس مبارک رات کی تعیین کر دی گئی تھی لیکن پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بھلا دی گئی ۔ اِس کا سبب ایک اور حدیث میں ذکر کیا گیا ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اِس کے بارے میں آگاہ کرنے کیلئے آئے تو آپ نے دیکھا کہ دو مسلمان آپس میں ( کسی بات پر ) جھگڑا کر رہے ہیں ۔ اسی دوران[​IMG] آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذہن سے اُس رات کی تعیین کا علم بھلا دیا گیا ۔ (البخاری 2023:)

شاید اِس رات کے بھلائے جانے میں حکمت یہ ہو کہ اللہ کے بندے اللہ کا تقرب حاصل کرنے کیلئے اور اس رات کو پانے کیلئے زیادہ سے زیادہ عبادت کریں ۔ واللہ اعلم۔

اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے کچھ لوگوں نے خواب میں دیکھا کہ لیلۃ القدر رمضان کی آخری سات راتوں میں ہے ۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ” میں سمجھتا ہوں کہ تمھارے خواب متفق ہیں اس بات پر کہ یہ رات آخری سات راتوں میں ہے ۔ لہذا تم میں سے جو شخص اِس رات کو پانا چاہے تو وہ اسے آخری سات راتوں میں پانے کی کوشش کرے ۔“(البخاری 2015: ، مسلم 1165:)

یہ دونوں احادیث اور ان کے علاوہ دیگر کئی احادیث اِس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ لیلۃ القدر رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں آتی ہے ۔ تاہم بعض روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ ان طاق راتوں میں سے ستائیسویں رات میں اِس رات کے آنے کا زیادہ امکان ہوتا ہے ۔

حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لیلۃ القدر کے بارے میں فرمایا : ” لیلۃ القدر ستائیسویں رات کو ہوتی ہے۔“( ابو داود 1386: ۔ وصححہ الألبانی)

بہر حال اگر اِس موضوع پر تمام احادیث کو سامنے رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ لیلۃ القدر کو پانے کی کوشش آخری عشرہ کی تمام طاق راتوں میں کرنی چاہئے ، خاص طور پر ستائیسویں رات میں ۔ اور ان راتوں میں یہ دعا کثرت سے پڑھنی چاہئے: ” اے اللہ ! بے شک تو بہت معاف کرنے والا ہے ، تو بہت سخی ہے ، معاف کرنے کو پسند کرتا ہے ۔لہذا مجھے بھی معاف کردے ۔ “

کیونکہ جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ اگر مجھے یہ معلوم ہو جائے کہ یہ لیلة القدر ہے تو میں اُس میں کیا پڑھوں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں یہی دعا پڑھنے کی تلقین فرمائی تھی ۔( الترمذی : 3513 وابن ماجہ : 3850 ۔ وصححہ الألبانی )

 ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ وہ ہم سب کو آخری عشرہ میں زیادہ سے زیادہ عبادت کرنے اور لیلۃ القدر کو پانے کی توفیق دے ۔ آمین

بشکریہ محدث فورم اردو

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter