افسانہ: نصیبوں جلی

افسانہ نگار۔ سجاد انعام سہارن لاہور (پاکستان)

13 مارچ, 2024
بیٹا تم میری وجہ سے کیوں اتنا پریشان ہو رہے ہو اور کب تک میرا بوجھ اٹھاتے پھرو گے۔ میں تو اب بوڑھی ہو گئی ہوں اور میری ہڈیوں میں تو اب جان بھی نہیں رہی۔ میں آج ہوں کل نہیں ہوں گی۔ مجھے اسی اولڈ ہوم میں رہنے کی عادت ہو گئی ہے اور اب میں نے اپنی باقی ماندہ زندگی یہیں تو گزارنی ہے۔ نہیں اماں جی میں نے سوچ لیا ہے میں آپ کو اپنے گھر لے کر ہی جاؤں گا۔ میں آپ کی بہت خدمت کروں گا اور کبھی بھی آپ کو شکایت کا موقع نہیں دوں گا۔ میری بیوی بھی آپ کو اپنے پاس رکھنے پر رضامند ہے۔
سہیل کا دوست اس اولڈ ہوم میں بطورِ مینجر کام کرتا تھا اس لئیے وہ اکثر یہاں اسے ملنے آیا کرتا تھا۔ وہ جب بھی یہاں آتا تو اکثر اماں جی سے آمنا سامنا ہو جاتا اور وہ انہیں سب سے الگ تھلگ ایک کونے میں خاموش بیٹھی ہوئی نظر آتیں۔ سہیل انہیں دیکھ کر اکثر محسوس کرتا کہ لازمی اماں جی کو ان کے سگے رشتے داروں نے اس اولڈ ہوم میں بھیج دیا ہے۔ ایک دن سہیل اپنے دوست سے ملنے آیا تو اس سے رہا نہ گیا اور پوچھ ہی لیا کہ اماں جی کے ساتھ کیا معاملہ ہوا ہے کہ یہ اولڈ ہوم میں رہ رہی ہیں۔ سہیل کے دوست نے بتایا کہ ان کے دو بیٹے ہیں اور دونوں شادی شدہ ہیں۔ ان کے بیٹوں اور بہوؤں نے ملی بھگت سے انہیں یہاں بھجوا دیا ہے۔ اسی کرب اور پریشانی کی وجہ سے یہ نہ کسی سے بات چیت کرتی ہیں اور اکثر خاموش ہی رہتی ہیں۔ کچھ ادھر اُدھر کی باتیں کرنے کے بعد سہیل نے واپس جانے کے لئیے اجازت چاہی اور اپنے گھر روانہ ہو گیا۔ ایک ہفتہ ہی گزرا ہو گا کہ سہیل دوبارہ اولڈ ہوم آیا اور اماں جی سے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ سہیل کے دوست نے انہیں اپنے دفتر میں بلوایا۔ جونہی وہ مینجر کے دفتر میں آئیں تو سہیل نے کہا کہ میں آپ کو اپنے گھر لے جانا چاہتا ہوں۔ آپ مجھے اپنا بیٹا ہی سمجھیں میں آپ کو کبھی بھی شکایت کا موقع نہیں دوں گا۔ کافی پس و پیش کے بعد اماں جی سہیل کے ساتھ جانے کے لئیے راضی ہو گئیں۔ سہیل نے چند ضروری کاغذات منگوا کر ان پر اپنے دستخط کئیے اور اماں جی کو ساتھ لے کر اپنے گھر روانہ ہو گیا۔
گھر پہنچ کر سہیل کی بیوی رخسانہ نے اماں جی کا خیر مقدم کرتے ہوئے انہیں باعزت طریقے سے ڈرائنگ روم میں بٹھایا۔ رخسانہ نے اماں جی کو کہا کہ آپ ہاتھ منہ دھو لیں۔ کھانا بالکل تیار ہے۔ سب نے خاموشی کے ساتھ کھانا کھایا۔ بعد ازاں رخسانہ نے اماں جی سے کہا اب آپ آرام کر لیں صبح تفصیل کے ساتھ آپ سے بات چیت کریں گے۔ اماں جی نے دل میں سوچا کہ یہ لوگ کتنے اچھے ہیں اور مجھے کتنی عزت دے رہے ہیں۔ میرا کون سا ان کے ساتھ خون کا رشتہ ہے اور میرے اپنے بیٹے بھی تو ہیں جنہوں نے مجھے گھر سے نکال کر اولڈ ہوم میں بھجوا دیا تھا۔ یہی تانے بانے بنتے ہوئے کب اماں جی کو نیند آئی اور کب صبح ہوئی کچھ پتہ نہیں چلا۔ رخسانہ نے اماں جی کو آواز دے کر کہا کہ اب آپ اٹھ جائیں اور ناشتہ کر لیں کب سے صبح ہو چکی ہے۔ سہیل، رخسانہ، اماں جی اور بچوں نے مل کر ناشتہ کیا۔ اتوار کی چھٹی کی وجہ سے سہیل اور بچے گھر پر ہی تھے۔ ناشتے سے فارغ ہو کر سہیل اور رخسانہ اماں جی کے پاس بیٹھ گئے اور کچھ ادھر اُدھر کی باتوں کے بعد رخسانہ نے اماں جی سے کہا کہ اب آپ اپنے بارے میں کچھ بتائیں کہ کیا حالات ہوئے اور کن وجوہات کے تحت آپ کو اولڈ ہوم میں آنا پڑا۔ رخسانہ نے جونہی یہ سوال کیا تو اماں جی کے صبر کا بندھن ٹوٹ گیا اور آنکھوں سے بے اختیار آنسو نکل آئے۔ کچھ توقف کے بعد اماں جی نے اپنے لب کھولے اور اپنی سابقہ زندگی کے بند دریچوں سے پردے ہٹانے لگیں اور بتایا کہ میرا نام پروین ہے۔ مجھ سے ایک چھوٹا بھائی بھی تھا جو کہ بچپن میں ہی فوت ہو گیا تھا۔ ہم دو ہی بہن بھائی تھے۔ چھوٹے بھائی کی وفات کے بعد اب میں ہی اپنے والدین کی توجہ کا مرکز تھی۔ میں جب بھی کسی چیز کی خواہش کرتی وہ فوراً پوری کر دیتے۔ مجھے ذرا بھی تکلیف پہنچتی تو ان کی راتوں کی نیندیں اڑا جاتیں۔ وقت برق رفتاری کے ساتھ گزر رہا تھا۔ میں نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا تو میرے والدین کو میری شادی کی فکر ستانے لگی۔ کافی دیکھ بھال کے بعد میرے والدین نے میرا رشتہ ایک اچھے گھر میں طے کر دیا اور چھ ماہ کے بعد میری شادی بھی ہو گئی۔ میرے شوہر کا نام اشرف تھا اور وہ ٹرک ڈرائیور تھا۔ وہ صبح سویرے کام پر چلا تھا اور رات کو گھر واپس آتا۔ وہ بہت اچھا انسان تھا اور میرا بہت خیال رکھتا۔ شادی کے دو سال بعد اللہ تعالٰی نے ہمیں بیٹے سے نوازا۔ ہم دونوں میاں بیوی خوشی سے سرشار تھے۔ بیٹے کی آمد سے ہمارا گھر خوشیوں کا گہوارہ بن گیا اور میری مصروفیات میں بھی اضافہ ہو گیا۔ شادی کے چوتھے سال ہمیں اللہ تعالٰی نے دوسرے بیٹے سے نوازا تو میری اور میرے شوہر کی خوشی دیدنی تھی۔ وہ کہتے ہیں نا کہ پھولوں کے ساتھ کانٹے بھی ہوتے ہیں وہی ہمارے ساتھ بھی ہوا۔ ایک دن میرا شوہر اپنے کام کے سلسلہ میں ٹرک پر دوسرے شہر گیا ہوا تھا۔ واپسی پر اس کا ٹرک اوور لوڈنگ کی وجہ سے موڑ کاٹتے ہوئے بے قابو ہو کر گہری کھائی میں گر گیا۔ میرا شوہر موقع پر ہی دم توڑ گیا۔ جونہی یہ منحوس خبر مجھے ملی تو میں فرطِ غم سے بے ہوش ہو گئی۔ میں اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھی۔ کبھی میں خود کو دیکھتی تو کبھی اپنے معصوم بچوں کو۔ ان بچوں کو کیا خبر تھی کہ ان پر کتنی بڑی قیامت گزر گئی ہے۔ ہماری تو دنیا ہی لٹ گئ تھی۔ اب گھر میں کوئی اور کمانے والا بھی نہیں تھا اور مجھے یہی فکر کھائے جا رہی تھی کہ گھر کے اخراجات کیسے پورے ہوں گے۔ میں تو ان پڑھ تھی مگر میں نے ہمت نہ ہاری اور کسی سے کہہ کہلوا کر لوگوں کے گھروں میں صاف ستھرائی کا کام ڈھونڈ لیا۔ میں نے اپنے دونوں بیٹوں کو سکول میں داخل کروا دیا صبح کام پر جاتے ہوئے انہیں سکول چھوڑ دیتی اور واپسی پر لے کر گھر آ جاتی۔ میں جن گھروں میں کام کرتی تھی وہ بہت اچھے لوگ تھے اور میرا بہت خیال رکھتے۔ مجھے جب کبھی کسی چیز کی ضرورت ہوتی وہ فوراً میری مدد کرتے۔ وقت پوری رفتار کے ساتھ رواں دواں تھا۔ میرے بڑے بیٹے سرفراز نے میٹرک کا امتحان پاس کر لیا اور چھوٹا بیٹا نویں جماعت میں پہنچ گیا۔ سرفراز کو کالج میں داخل کروانے کے لئیے میرے پاس فیس کے پیسے نہیں تھے۔ میں نے اپنی ہمسائی سے ادھار پیسے لے کر کالج کی فیس جمع کروا دی اور وہ اب باقاعدگی کے ساتھ کالج جانے لگا۔ میں اپنے روزمرہ کے کاموں میں مصروف رہتی اور شام تک بہت تھک چکی ہوتی۔ گھر آ کر بچوں کے لئیے کھانا تیار کرتی اور انہیں کھلاتی۔ میں محنت و مشقت سے اپنے کام کو جاری رکھے ہوئے تھی۔ میں اب عمر کے اس حصے میں پہنچ گئی تھی کہ مجھے جلد تھکاوٹ محسوس کرنے لگتی۔ آخر وہ وقت بھی آ گیا جب میرے بڑے بیٹے نے ایم اے کا امتحان پاس کر لیا میرے چھوٹے بیٹے نے بھی بی اے کا امتحان پاس کر لیا۔ میری محنت رنگ لے آئی اور میں خود کو ہواؤں میں اڑتا ہوا محسوس کر رہی تھی۔ میرے بیٹے سرفراز کو جلد ہی ایک اچھے ادارے میں ملازمت مل گئی اور وہ اب دفتر بھی جانے لگا تھا۔میں نے لوگوں کے گھروں میں کام کرنا بھی چھوڑ دیا۔ میرے بیٹے سرفراز کو ملازمت کرتے ہوئے آٹھ ماہ ہوگئے تو ایک دن مجھے کہنے لگا کہ میرے دفتر میں سمیرا نامی ایک لڑکی کام کرتی ہے وہ بہت اچھی ہے میں اس کے ساتھ شادی کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا کہ بیٹا میں تو خود تمھارے لئیے اچھے رشتے کی تلاش میں ہوں اور میں بہت اچھے گھر سے تمھارے لئیے من موہنی سی دلہن لے کر آؤں گی۔ سرفراز ضد کرنے لگا کہ میں تو سمیرا سے ہی شادی کروں گا ورنہ کہیں بھی نہیں کروں گا۔ میں نے اپنے بیٹے کی ضد کے آگے ہار مان لی۔ دو ماہ بعد ایک سادہ سی تقریب میں نکاح ہوا اور میں بہو کو اپنے گھر لے آئی۔ شادی کے بعد دو ماہ کا عرصہ خیر وعافیت سے گزر گیا۔ میں کچھ دنوں سے محسوس کر رہی تھی کہ میری بہو سمیرا مجھ سے دور دور رہتی ہے اور زیادہ بات چیت بھی نہیں کرتی۔ دو تین بار میں نے اس سے پوچھا بھی کہ تمھیں کوئی مسئلہ ہے تو مجھے بتاؤ مگر وہ خاموش رہی۔ میں نے بھی زیادہ بات کرنے سے گریز کیا۔ ایک دن میں نے اپنی بہو سمیرا سے کہا کہ تم گھر کے کاموں میں میرا ہاتھ بٹایا کرو میں بوڑھی ہو گئی ہوں اور اب مجھ سے زیادہ کام بھی نہیں ہوتا۔ میرا اتنا کہنے کی دیر تھی وہ یک دم بھڑک اٹھی اور کہنے لگی کہ میں یہاں کام کرنے نہیں آئی میری مرضی میں کام کروں یا نہ کروں۔ میں اپنی آنکھوں میں آنسو لئیے ہوئے اپنے کمرے میں آ گئی۔ شام کو میرا بیٹا سرفراز گھر آیا تو میں نے اس سے سمیرا کی مجھ سے بدتمیزی کا گلہ کیا تو وہ کہنے لگا کہ اماں جی آپ اسے کچھ نہ کہا کریں۔ سرفراز کے منہ سے یہ جواب سنا تو میں آبدیدہ ہو گئی۔ مجھے امید نہیں تھی کہ وہ اس طرح کا جواب دے گا۔ میں کیا کرتی میرا اس دنیا میں ان دو بیٹوں کے سوا کوئی اور تھا بھی تو نہیں۔ میرے چھوٹے بیٹے نزیر نے بھی ایم اے کا امتحان پاس کر لیا۔ اب وہ بھی کوئی بہتر نوکری کی تلاش میں مصروف ہو گیا۔ کافی تگ و دو کے بعد اسے ایک اچھے دفتر میں نوکری مل گئی۔ میں خوش تھی کہ میرے دونوں بیٹوں نے اپنی تعلیم بھی مکمل کر لی ہے اور برسرِ روزگار بھی ہو گئے ہیں۔ سرفراز اور نزیر دونوں بھائی صبح سویرے ہی دفتر چلے جاتے۔ سرفراز تو شام سے پہلے ہی گھر آ جاتا مگر نزیر رات کو کافی دیر سے گھر آتا۔ وہ جب تک گھر نہ آتا میں تب تک اس کے انتظار میں جاگتی رہتی۔ جب وہ گھر آ جاتا تو اسے کھانا دے کر پھر میں آرام سے سوتی۔ دونوں بھائی اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہو گئے۔ سمیرا کا رویہ میرے ساتھ بدستور اچھا نہیں تھا اوہ نہ ہی مجھ سے کوئی خاص بات کرتی۔ میں گھر کے ایک کونے میں تنہا بیٹھی رہتی۔ اگر بہو سے بات کرتی تو مجھے انتہائی ترش اور بدتمیزی سے جواب دیتی۔ میں اپنا سا منہ لے کے بیٹھ جاتی۔ ایک دن میں گھر کے کاموں سے فارغ ہو کر اپنے کمرے میں لیٹی ہوئی تھی کہ میرا چھوٹا بیٹا نزیر میرے کمرے میں داخل ہوا اور اس کے ساتھ عروسی جوڑے میں ملبوس ایک لڑکی بھی تھی۔ میں کبھی اپنے بیٹے کی طرف دیکھتی تو کبھی اس لڑکی کی طرف۔ میں اسی کشمکش میں مبتلا تھی کہ میرے بیٹے نے اس لڑکی کا تعارف کرواتے ہوئے بتایا کہ یہ شگفتہ ہے آپ کی بہو۔ نزیر نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے مزید بتایا کہ ہم نے کورٹ میرج کر لی ہے۔ میں بہت شرمندہ ہوں کہ آپ کو بروقت آگاہ نہ کر سکا کیونکہ حالات ہی کچھ ایسے ہو گئے تھے کہ ہمیں جلدی میں کورٹ میرج کرنی پڑی۔ بہرحال اب یہ آپ کی بہو ہے۔ اتنا بتانے کے بعد نزیر اور شگفتہ اپنے کمرے میں چلے گئے۔ میری زبان گنگ ہو گئی جی چاہ رہا تھا کہ چیخ چیخ کر سب کو بتاؤں کہ میں کتنی بدنصیب ماں ہوں کہ اپنی مرضی اور پسند سے اپنی بہویں بھی نہ لا سکی۔ جب یہ دونوں بھائی چھوٹے چھوٹے ہی تھے کہ میں بیوہ ہو گئی تو میں نے لوگوں کے گھروں میں کام کر کے انہیں پروان چڑھایا، انہیں اچھی تعلیم دلوائی اور اب انہوں نے مجھے یہ صلہ دیا۔ چونکہ میں ماں تھی نہ تو انہیں کچھ کہہ سکتی تھی اور نہ ہی بد دعا دے سکتی تھی۔ میری دونوں بہوؤں کا ایک یہ بھی مسئلہ تھا کہ وہ بہت کم ہی گھر میں کھانا پکاتیں بلکہ میرے بیٹے اپنی بیویوں کے کہنے پر اکثر ہوٹل سے ہی کھانا لے کر آتے خود بھی کھاتے اور مجبوراً مجھے بھی ہوٹل کا ہی پکا ہوا کھانا ملتا۔ ایک رات میں اپنے کمرے میں سوئی ہوئی تھی کہ اچانک میری آنکھ کھل گئی۔ دیکھا تو سرفراز کے کمرے کی لائٹ جل رہی ہے۔ سرفراز اور نزیر آپس میں کچھ باتیں کر رہے تھے اور ان کی بیویاں بھی شریکِ گفتگو تھیں۔ سمیرا اور شگفتہ بھی آپس میں کھسر پھسر کر رہی تھیں۔ میں نے غور سے ان کی باتیں سنیں۔ شگفتہ کہہ رہی تھی کہ میں تو اماں جی سے بہت تنگ آ چکی ہوں وہ ہمارے ہر کام میں دخل اندازی کرتی ہیں اور بلا وجہ ہر بات پر تکرار کرتی رہتی ہیں۔ شگفتہ نے کہا کہ جب سے میں بیاہ کے آئی ہوں وہ بلا وجہ مجھے ڈانٹتی رہتی ہیں اور نہ ہی میرے ساتھ پیار سے بات کرتی ہیں۔ سمیرا نے کہا کہ اب اس کا حل کیا ہے اور اماں جی سے کیسے جان چھوٹے۔ شگفتہ نے کہا کہ میرے ذہن میں ایک تجویز آئی ہے کیوں نہ ہم انہیں اولڈ ہوم بھجوا دیں۔ سمیرا نے کہا کہ یہ کیسے ممکن ہے اور اماں جی کو ہم وہاں رہنے پر کیسے راضی کر سکیں گے۔ شگفتہ نے کہا کہ ہم اماں جی کو کہیں گے ہم آپ کو ایک سرکاری ہوسٹل میں کچھ عرصہ کے لئیے چھوڑ رہے ہیں جہاں اور بھی بہت سے لوگ بطورِ مہمان رہتے ہیں۔ ہم سب بہتر مستقبل کی خاطر بیرونِ ملک جا رہے ہیں اور جونہی ہمیں بہتر روزگار مل گیا اور رہائش کا اچھا انتظام ہو گیا تو ہم فوری طور پر آپ کو اپنے پاس بلا لیں گے مزید ہم گاہے بگاہے ٹیلی فون پر ان کی خیریت بھی دریافت کرتے رہیں گے۔ اماں جی جب بھی ہمیں اپنے پاس بلانے کا کہیں گی تو ہر بار انہیں تسلی دیتے رہیں گے کہ ہم کوشش کر رہے ہیں مگر ابھی تک ہمیں کوئی اچھی نوکری نہیں ملی جونہی ہمیں کوئی اچھی نوکری مل گئی ہم آپ کو فوری طور پر اپنے پاس بلا لیں گے۔ اسی دوران اماں جی بھی اولڈ ہوم میں رہنے کی عادی ہو جائیں گی اور ہم سب بھی بے فکری کے ساتھ اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہو جائیں گے۔ میں نے اپنے دونوں بیٹوں، سمیرا اور شگفتہ کی زبانی ان کے یہ عزائم سنے تو میں دم بخود رہ گئی اور میرے پاؤں تلے سے زمین سرکتی ہوئی محسوس ہوئی۔ میں بوجھل قدموں کے ساتھ چلتی ہوئی اپنی چارپائی پر لیٹ گئی اور بے اختیار میری آنکھوں سے آنسوؤں نکلنے لگے جو کہ باوجود کوشش کے تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ میں خود بھی گھر کے اس ماحول سے تنگ آ چکی تھی۔ میں نے بھی یہی مناسب سمجھا کہ اگر یہ مجھے اولڈ ہوم میں بھیجنا ہی چاہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہے میں بھی اپنے سینے پر پتھر رکھ کر وہاں رہ لوں گی۔ میرا کیا ہے میں اب بوڑھی ہو چکی ہوں آج ہوں کل نہیں ہوں۔ یہی تانے بانے بنتے ہوئے مجھے کب نیند آئی کچھ پتہ نہیں چلا۔ میری چھوٹی بہو نے مجھے ناشتہ لا کر دیا جو کہ میں بمشکل ہی حلق سے اتار سکی۔ ناشتے سے فارغ ہوئی تو میرا بڑا بیٹا سرفراز میرے پاس آیا اور وہی الفاظ دہرائے جو انہیں نے رات کو مشترکہ طور پر فیصلہ کیا تھا۔ وہ کہنے لگا کہ ہم بہتر روزگار کی خاطر بیرون ملک جانا چاہتے ہیں اور ہم آپ کو ایک سرکاری ہوسٹل میں کچھ عرصہ کے لئیے بھیج رہے ہیں۔ ہم مسلسل آپ کے ساتھ رابطے میں رہیں گے۔ آپ نے بالکل بھی وہاں پریشان نہیں ہونا۔ کچھ عرصہ کی بات ہے ہمیں جونہی وہاں اچھی نوکری مل گئی اور رہائش کا بھی خاطر خواہ انتظام ہو گیا تو ہم بلا تاخیر آپ کو اپنے پاس بلا لیں گے۔ میں تو پہلے ہی ان کی ساری باتیں سن چکی تھی مگر میں ان کے سامنے انجان بنی رہی۔ سرفراز نے مجھے کہا کہ اماں جی آپ جلدی سے تیار ہو جائیں میں نے آپ کو وہاں چھوڑ کر ایک دفتر میں جانا ہے تاکہ بیرونِ ملک جانے کے لئیے ضروری کاغذات تیار کروا سکوں۔ میں خاموشی کے ساتھ سرفراز کے ساتھ جانے کے لئیے تیار ہو گئی۔ اس نے مجھے ان کے بقول سرکاری ہوسٹل یعنی اولڈ ہوم میں چھوڑا اور خود وہاں سے خاموشی کے ساتھ چلا گیا۔ میں اولڈ ہوم کے ایک کونے میں بیٹھ کر اتنا روئی کہ میری چادر آنسوؤں سے تر ہو گئی۔ اولڈ ہوم میں رہتے ہوئے مجھے ایک سال گزر گیا۔ چونکہ سہیل کبھی کبھار اولڈ ہوم میں اپنے دوست سے ملنے آیا کرتا تھا اور اس سے کبھی کبھار میرا آمنا سامنا بھی ہو جاتا مزید سہیل نے اولڈ ہوم کی انتظامیہ سے میرے سابقہ حالاتِ زندگی کے بارے میں آگہی حاصل کی اور بعد ازاں ان کی اجازت سے اپنے گھر لے آیا ہے۔ رخسانہ نے پروین سے کہا کہ یہ بھی آپ ہی کا گھر ہے آپ یہاں آرام سے رہیں۔ آپ کو یہاں کسی قسم کی کوئی پریشانی نہیں ہو گی اور نہ ہی آپ خود کو یہاں اجنبی محسوس کریں۔
افسانہ نگار۔ سجاد انعام سہارن لاہور (پاکستان)

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter