یوسف ظفر کی شاعری کی فکری جہات

مقالہ نگار :آمنہ نایاب شعبہ اردو بہاوالدین زکریا یونیورسٹی ملتان

3 جنوری, 2024

اردو ادب میں شاعری بنیادی سنف سخن کا درجہ رکھتی ہے دیگر قدیم اصناف کی طرح شاعری بھی فارسی ادب سے اردو میں منتقل ہوئی اس حوالے سے اگر تاریخی حقائق کا مطالعہ کیا جائے تو ابتدائی طور پر ایران نے عرب اثرات کو قبول کیا جس کے سبب دو نئی اصناف "غزل اور مثنوی” ایجاد ہوئیں جو عرب شاعری میں موجود نہ تھیں۔

ابتدائی ادوار میں غزل کو "سخن بازنانِ گفتن” کہا گیا یعنی عورتوں سے گفتگو کرنا یا عورتوں سے متعلق باتیں کرنا جبکہ بعد ازاں غزل کے معنی میں وسعت پیدا ہوئی اور اس کے موضوعات و عنوانات میں بھی تنوع پیدا ہونے لگا عشق و مستی ، محبت و الفت ، محبوب کی بے رخی سے ہوتے ہوئے غزل نے انسانی زندگی کے کم و بیش تمام پہلوؤں کا احاطہ کرنا شروع کر دیا ۔

پروفیسر فراق گورکھپوری رقم طراز ہے ۔

(A series of climaxes)” غزل انتہاؤں کا ایک سلسلہ ہے

یعنی حیات و کائنات کے وہ مرکزی حقائق جو انسانی زندگی

کو زیادہ متاثر کرتے ہیں تاثرات کی انہی انتہاؤں یا منتہاؤں کا

مترنم خیالات اور محسوسات بن جانا اور مناسب ترین یا موضوع

ترین الفاظ و بیان میں ان کا صورت پکڑ لینا اسی کا نام غزل ہے۔”1

یوں تو اردو شاعری میں غزل کے علاوہ بھی بہت سی اصناف موجود ہیں مگر ان اصناف کی موجودگی میں اردو غزل نے جو مقام و مرتبہ پایا ہے وہ دیگر اصناف کے حصے میں نہ آیا اردو ادب کی تاریخ میں ایسے بہت سے نام پائے جاتے ہیں جنہوں نے نظم کی ترقی اور ترویج کے دور میں بھی غزل میں تبع آزمائی کی اور ثابت کیا کہ اردو غزل ایک زندہ سنفِ سخن ہے جسے کسی دوسری صنف کے سبب زوال نہیں آ سکتا ۔

اگر اردو غزل کی موضوعاتی وسعت پر بات کی جائے تو یہ غم جاناں سے ہوتی ہوئی غم دوراں تک پہنچتی ہے اور بطور فن اپنی الگ پہچان بناتی ہے۔

اقبال نے غزل کے مضامین میں ایسی وسعت پیدا کی جو قوم کو بیدار کرنے کا کام کرنے لگی جبکہ نئے اسالیب،  نئی وسعتوں اور فلسفیانہ افکار کو اظہار کا ذریعہ یوں بنایا کہ سیاسی و سماجی اور معاشرتی شعور پیدا ہوا ۔

اردو غزل کے سفر میں اقبال کے بعد فراغ گورکپوری، حسرت موہانی ،فیض احمد فیض، منیر نیازی، قتیل شفائی، حبیب جالب، احمد فراز، محسن نقوی، ناصر کاظمی، کشور ناہید، جون ایلیا ، مجید امجد ،عبدالحمید عدم ،ثروت حسین ، فہمیدہ ریاض اور ساغر صدیقی جیسے شعرا نے خوبصورت اضافے کیے۔

اسی فہرست میں ایک اور معتبر نام یوسف ظفر کا ہے جنہوں نے معاملات زندگی کو شعری پیرائے میں مقید کرنے کے لیے غزل کا سہارا لیا مگر یوسف ظفر نے غزل کی نسبت نظم کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھا ان کی شاعری کو زیر غور لانے سے پہلے اردو نظم کا تذکرہ ضروری ہے ۔

اردو شاعری میں غزل کو تمام اصناف شاعری پر غلبہ حاصل رہا ہے مگر تاریخ گواہ ہے کہ غزل کی مقبولیت کے دور میں بھی کئی اہم نظم گو شاعر مل جاتے ہیں اگر شمالی ہندوستان کی بات کی جائے تو نظیر اکبر ابادی جبکہ دکن میں ہمیں محمد قلی کتب شاہ فائز اور شاہ حاتم جیسے نظم کے اعلی پائے کے شعراء ملتے ہیں ۔

مرزا اسد اللہ غالب وہ ابتدائی شاعر ہیں جنہوں نے نظم کی ضرورت کی طرف اشارہ کیا۔

”بقدر شوق نہیں ظرف تنگنائے غزل

کچھ اور چاہیے وسعت میرے بیاں کے لیے”___ مرزا غالب

جوش ملی ابادی نظم میں طبع آزمائی کیا کرتے تھے اور ان کا ایک قول ”غزل نیم وحشی صنف سخن ہے” اردو ادب میں خاص درجہ رکھتا ہے۔

اردو جدید نظم گوئی کی پہلی باقاعدہ شعوری کاوش ہمیں انجمن پنجاب کی صورت میں نظر آتی ہے اس انجمن کے تحت مختلف مشاعرے کروائے جاتے اور شعراء مختلف انواع و اقسام کے موضوعات پر نظمیں پڑھا کرتے ہیں۔

یوسف ظفر نے اپنے تخلیقی سفر میں غزل کی نسبت نظم کو زیادہ استعمال کیا انہوں نے اپنے مشاہدے ، تجربے ، سوچ اور فنی سوجھ بوجھ کو نظم میں زیادہ برتا ہے وہ نظم کے میدان میں رخشی فن کی باگوں پر دسترس رکھتے وہ اپنے اشعار میں فنی اظہار کے لیے خاص رویہ رکھتے جو عموماً توضیحی عنصر کے اضافے کا باعث بنتا جسے ان کی مخصوص رومانی اور جذباتی مزاج کی سرپرستی بھی حاصل رہتی ہے ۔

یوسف ظفر کا شمار ان شعرا میں ہوتا ہے جو زندگی کے نشیب و فراز سے اثر قبول کرتے ہیں اور یہی نہیں بلکہ اس اثر کو اپنے احساسات و جذبات میں ڈھال کر شعر کے کالب میں ڈالتے ہیں ان کی شاعری میں زندگی کی پرکیف واردات ، یگانگت اور محبت کے مراحل ہجر وصال کی تہمیدوں کے علاوہ رنج والم کے ادوار اور کڑوی کسیلی صداقتوں سے کشید ہوتی ہوئی نظر آتی ہے اس حوالے سے یوسف ظفر کی شاعری ان کے مخصوص انداز بیاں کی امین ہے جس نے انہیں دیگر شعراء سے ممتاز مرتبہ دیا اور اردو شاعری میں ایک اہم اضافہ تصور ہوئے

اردو شاعری میں یوسف ظفر کو خاص مقام و مرتبہ حاصل ہے وہ حساس طبیعت کے حامل تھے اور ارد گرد کے حالات سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے انہوں نے تقسیم کو آنکھوں سے دیکھا جس کا اثر ان کی شاعری میں در آیا جس کو واضح اظہار ان کی شاعری میں ملتا ہے انہوں نے اپنی شاعری کو محض محبت کی داستانوں تک محدود نہیں رکھا بلکہ وہ زندگی کے تمام تلخ تجربات کا بھی احاطہ کرتے ہیں اور ہر بار نئے موضوعات کو اشعار میں ڈالتے ہیں جس سے ان کی شاعری میں زندگی کے مختلف عناصر کی عکاسی ہوتی ہے ۔

یوسف ظفر نے اپنے اشعار میں اپنے دور کے فرد اور ماحول کے تصادم سے جنم لینے والی کیفیات کو سمو دیا ہے ان کی نظموں میں غم جاناں کی نسبت غم دوراں زیادہ ہے وہ اس عہد اور ماحول کا درد و غم پورے شعور سے نمایاں کرتے ہیں۔

یوں تو ظفر نے اپنے ماحول اور اس سے پیدا ہونے والے تضادات کو ایک حساس انسان کی طرح محسوس کیا اور بحیثیت شاعر اس کیفیت کو داخلیت کے سمندر میں غوطہ زنی کر کے ایک سیپ کی مانند باہر لا کر قاری کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کی ہے ان کی شاعری میں ابدی دنیا کا تاثر ابھرتا ہے ان کے اشعار میں قنوطیت اور ناامیدی کے آثار کم نظر اتے ہیں جبکہ امید کی کرن ان کی اکثر نظموں میں جھلکتی ہوئی نظر آتی ہے۔

یوسف ظفر اردو شاعری کے اس دور سے تعلق رکھتے ہیں جب بڑے بڑے شعری نام اس عہد میں تبع آزمائی کر رہے تھے ایسے وقت میں نام بنانا انتہائی مشکل مرحلہ تھا جس میں وہ کامیاب ٹھہرے۔

یوسف ظفر کی شاعری کے چند اہم موضوعات پر تفصیل طلب بحث مقصود ہے ملاحظہ کریں

ذات باری تعالی کی تعریف و توصیف :1

بحیثیت مسلمان کسی بھی کام کی شروعات سے پہلے پاک پروردگار کا بابرکت نام لینا ہر مسلمان کے لیے فرض کا درجہ رکھتا ہے اس مالک و خالق کا نام جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے اور جس کی دسترس میں تمام کائنات ہے وہ قادر مطلق ہے سب سے بڑا اور تعریف کے قابل ہے ۔

جہاں تک یوسف ظفر کی شخصیت کا تعلق ہے تو ہر مسلمان کی طرح ان کی پرورش بھی ایک ایسے ماحول میں ہوئی جہاں خدا سے محبت ایک فطری تصور کی حیثیت رکھتی ہے ان کی شخصیت میں مذہبی رنگ نمایاں ہے ظاہری شخصیت کے علاوہ بھی وہ دین اور دنیا کو ساتھ لے کر چلتے ہیں۔

یوں تو ہر انسان کی زندگی میں اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں مگر جن کے دلوں میں خدا کی محبت موجود ہوتی ہے وہ کبھی نا امید نہیں ہوتے اور نہ ہی ان کے قلم خدا کی حمد و ثنا سے غافل ہوتے ہیں یوسف ظفر کی شاعری کا مطالعہ کیا جائے تو ہر مجموعے میں حمد شامل ملے گی انہوں نے خدا سے محبت و عقیدت کو اشعار کی صورت میں ڈالا ہے ان کی حمدیہ نظم دراصل ان کے خدا پر یقین کامل کی گواہی ہیں وہ رب کائنات کی نعمتوں کا تذکرہ کرتے ہیں اور اس کی یکتائی کو بیان کرنے کا سہرا اپنے سر لیتے ہیں

یوسف ظفر نے اپنے شعری مجموعے "صدا بہ صحرا” میں "یا خدا” کے عنوان کے تحت ایک حمدیہ نظم شامل کیا ہے جس کے چند اشعار ملاحظہ کریں جس میں وہ رب ذوالجلال کی کبریائی بیان کرتے ہیں ۔

”تو خالق عرش و فرش و کرسی

تو روح  بقا و اصل تخلیق

ہم عرض و سما میں تیرے بندے

ہم تیرا جواز تیری تصدیق

ہم تجھ سے اگر پھریں تو زندیق”  2

ابتدائی شعر میں شاعر خدا کی عظمت و بلندی بیان کرتے ہوئے اس ذات واحد کو عرش و فرش و تخلیق کا اصل موجب قرار دیتا ہے جبکہ دوسرے شعر میں وہ خدا سے روگردانی کو کفر قرار دیتے ہیں ۔

یوسف ظفر نے اپنے شعری مجموعے "عشق پیچاں”  میں خدا کی عظمت کو یوں بیان کیا ہے ۔

”اے خالق بے عدیل و یکتا

میں عرصِ عبودیت کروں کیا

صدیوں کی زباں ہے گنگ یا رب

دنیا ہے ازل سے مہر بر لب

وا ماندہ ہے شہپر تخیل

کیسے ہے ہر ایک جزو میں کل

سجدے میں قیاس کی جبیں ہیں

کیا جانیے کیا ہے کیا نہیں ہے

تجھ بن کوئی رنگ و بو نہیں ہے

ہر چیز ہے تجھ سے تو نہیں ہے

تاروں کا سکو تو نور تجھ سے

میں تجھ سے میرا شعور تجھ سے

ہر پیکر ہست و بود تجھ سے

ہر حادثہ وجود تجھ سے ۔۔۔۔۔” 3

مندرجہ بالا اشعار میں بھی یوسف ظفر نے اس قادر مطلق کی بڑائی بیان کی ہے شاعر حضرات اکثر اوقات زمانے کے نامساعد حالات اور کجروی کے سبب حالات کی ناسازی کا گلا خدا سے اشعار کی صورت میں کرتے ہیں مگر کہیں کہیں وہ اس حد سے تجاوز کر جاتے ہیں جو شوخی و دل لگی سے آگے کا قدم ہے جس کے سبب انہیں مذہبی حلقوں میں خاص طور پر آڑے ہاتھوں لیا جاتا ہے مگر یوسف ظفر کی شاعری میں ایسی صورتحال نہیں دیکھنے کو ملتی بلکہ وہ جہاں کہیں زمانے کی مشکلات کا گلا کرتے ہیں ان کے ایمان کی مضبوطی ان کے الفاظ کو ڈگمگانے نہیں دیتی بلکہ ان کے گلے شکوے بھی دعا کا تاثر دیتے ہیں اسی فکر سے مزین ان کی ایک اور نظم کے اشعار ملاحظہ کریں۔

”اے خدا

آگیا میں تیرے در پر اگیا

میں تیری دل دوست تنہائی کا یکتائی کا عالم پا گیا

یہ تیری صبح کی خوشبو یہ تیری شاموں کے رنگ

یہ جہانوں کی مسلسل گردشوں کا جل ترنگ

اور تو ان سب میں ان سب میں جدا ۔۔۔۔۔

کوئی اپنی قید ہست و بود سے نکلے تو پھر پائے تجھے

اپنی مٹی کے کھلونے ڈھا کے بہلائے تجھے ۔۔۔۔۔”4

اردو شاعری میں ایسی خوبصورت حمدیہ اشعار کی مثال بہت کم ملتی ہے مندرجہ بالا اشعار میں بھی شاعر خدا کی تخلیقات کا خوبصورتی سے اظہار کرتے ہیں اور اس ذات واحد کی بارگاہ میں اپنی حاضری بجا لاتے ہیں ۔

یوسف ظفر کی شاعری میں چند اشعار ایسے بھی ہیں جن سے وہ عقیدہ وحدت الوجود کے پیروکار معلوم ہوتے ہیں ، عقیدہ وحدت الوجود دراصل بنیادی طور پر صوفیاء نے عام کیا کہ ساری مخلوق خدا کا کنبہ ہے تو پھر قومیت رنگ و نسل اور مذہب کی تفریق کیا معنی رکھتی ہے ؟

یہ ایک پیچیدہ معاملہ ہے اور مذاب کے رہنماؤں میں اختلاف ہے دراصل وحدت الوجود پر اصل یقین لاشعوری طور پر بھی پیدا ہو سکتا ہے انسان کی زندگی اسے کبھی کبھا ایسے موڑ پر لے آتی ہے کہ وہ تشویش میں پڑ جاتا ہے یوسف ظفر اپنے اشعار میں مایوس اور مصیبتوں کا مارا ہوا ظاہر ہوتا ہے جو بعض اوقات کائنات کے مروج تصورات کو نشانہ بنانے لگتا ہے مگر اس کے پاس شعوری یا لاشعوری طور پر خدا کے متعلق وحدت الوجود کا نظریہ شروع سے ہی پیدا ہو گیا تھا یہ غلط فہمی بھی ہو سکتی ہے اور شاید اسی سبب ان کا روحانیت کی طرف جھکاؤ پر اعتراض بھی ہوتا ہے۔

یوسف ظفر کی پہلی شعری تصنیف ”زہر خند” میں بھی کچھ ایسے ثبوت ملتے ہیں جہاں وہ خدا کو ہر شے میں محسوس کرتے ہیں اور پھر اس سے گلے شکوے بھی کرتے ہیں ۔

وضاحت کے لیے اشعار ملاحظہ کریں۔

”ایک ہی ساز کے  سب نغمے ہیں یہ رنگ تمام

ہاں یہ ہے بات کوئی گہرا کوئی ہلکا ہے

سرسراتی ہوئی پتوں میں ہوا چلتی ہے

اور ایک رنگ سے سو رنگ چھلک جاتے ہیں

تیرا جلوہ ہے کہ دھوکہ ہے میری آنکھوں کا

ایک ہی رنگ میں سو رنگ لیے بیٹھا ہوں

نور و ظلمت میں نظر آتے ہیں یک رنگ مجھے

سامنے تو ہے کہ انکھوں کو سیے بیٹھا ہوں ” 5

ایک اور مثال ملاحظہ کریں۔

”آنکھ سنتی ہے، زبان تکتی ہے،لب سونگھتے ہیں

اور ہر بات میں محسوس یہی ہوتا ہے

کوئی تارا ہو کوئی چاند ہو کوئی دنیا

ہر جگہ ایک ہی خوشبو ہے نہ جانے کس کی

تیری خوشبو تو نہیں۔۔۔ تیری ہی خوش بو تو نہیں ” 6

یہ مشاہدہ ، ادراک ،انکھوں کا سننا، زباں کا دیکھنا اور ہونٹوں کا سونگھنا شاعر کے لیے واقعی سوال اٹھانا بنتا ہے جسے دور بہت دور کہیں فلک کی بھی مہک آ جاتی ہے یوسف ظفر اسی کی جستجو میں لگا ہوا دکھائی دیتا ہے ۔

اردو شاعری میں حمدیہ شاعری کو کلام کا حصہ بنانے کا عمل یوں تو شاعری کے ابتدائی ادوار سے ہی جاری ہے مگر اسے اتنی مقبولیت نہ حاصل ہو سکی ابتدائی طور پر جب مثنوی کو دوام حاصل تھا تو اس کا آغاز حمدیہ کلام سے کیا جاتا ایسے ہی قصیدے کے صنف میں بھی حمدیہ کلام دیکھنے کو ملتا اس روایت کو کمی بیش تمام شعراء نے قبول کیا ۔

یوسف ظفر بھی اپنے پیش رو شعراء کی روایت کو لے کر چلتے ہیں اور اپنے مجموعوں میں حمدیہ اشعار کا استعمال کرتے ہیں ان کے اشعار میں عقیدت و الفت عیاں ہوتی ہے جسے وہ شعری غالب میں ڈالنے کا ہنر رکھتے ہیں ۔

2: توصیف رحمت اللعالمینؐ

رحمت اللعالمین کے ذکر کے بغیر نہ تو تعریف باری تعالی مکمل ہوتی ہے اور نہ ہی انسان کا ایمان کامل تصور کیا جاتا ہے کیونکہ خدا نے خود اپنے محبوب پر درود و سلام بھیجے اور اپنے فرشتوں و انسانوں کو بھی یہی حکم دیا جس کے سبب انسان اس امر سے گریزاں نہیں ہو سکتا، انسان پر یہ لازم ہے کہ وہ وجہ تخلیق کائنات نبی اخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر درود و سلام بھیجے اور اس ذات اقدس کے ذکر سے اپنے دلوں کو منور کرے ۔

سورۃ الاحزاب میں رب کائنات فرماتے ہیں ۔

”ترجمہ بے شک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں

اس (نبیؐ) پر اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود بھیجو۔ "7

یوسف ظفر نے اپنے کلام میں جہاں حمدیہ کلام شامل کیا وہیں حضور اقدس کی شان میں بھی بہت سی نظمیں لکھیں اور انہیں اپنے مجموعوں میں جگہ دی ۔

اردو شاعری میں نعت گوئی کو خاص مقام و مرتبہ حاصل ہے اخبارات و رسائل میں تواتر کے ساتھ نعتیہ کلام اور نعتیہ مضامین کے اشاعت جاری ہے۔ موقعے موقعے سے بڑے اہتمام کے ساتھ نعتلیہ محفلیں سجائی جاتی ہیں ہر سال کم و بیش 10 20 نعتیہ مجموعے زیر طباعت سے آراستہ ہو کر شائع ہوا کرتے ہیں نعتیہ ادب کے جہت میں یہ پیشرفت یقینا رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بے انتہا عقیدت و محبت کا بین ثبوت ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی تمام انبیاء میں اعلی و ارفع ہے اور منفرد و محترم بھی کیونکہ آپ خدا کے محبوب نبی ہیں حور و ملائک بھی اٹھوں پہر درود و سلام کا نظرانہ بھیجتے ہیں ۔درود و سلام کے نظرانے کا یہ سلسلہ ازل سے جاری و ساری ہے اور ابد تک جاری رہے گا ۔

یوسف ظفر کے کلام میں نعتوں کا ذخیرہ حمدیہ کلام کی نسبت زیادہ ہے انہوں نے اپنے تمام مجموعوں میں نعتیہ نظموں کا اہتمام کیا ہے ۔

یوسف ظفر نے اپنے شعری مجموعے "عشق پیچاں” کی ابتدا میں آٹھ نعتوں کو مسلسل شامل کر کے اپنی عقیدت کا اظہار کیا جبکہ "حریم وطن” کے عنوان سے شائع شدہ مجموعے میں بھی انہوں نے چار نعتیہ نظموں کا انتخاب شامل کیا ہے۔ ان کی دیگر نظموں ، غزلوں میں بھی اکثر اشعار ایسے ملتے ہیں جہاں وہ نبی اخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی شان میں عقیدت کے پھول بکھیرتے ہوئے نظر اتے ہیں ۔

”تو حبیب ہے رب کریم ہے

تیرا نور سب سے قدیم ہے

کہ احد کے اور تیرے درمیاں

توں ہے ایک پردہ میم ہے

تیری عظمتوں کی ہے ترجماں تو فقط اذان بلال ہی۔۔۔۔

تیرا نام احمد مجتبیٰ

تیری ذات خاتم الانبیاء

تو جواز روزالست ہے

تو رسول و رحمت دوسرا

میں غریب وہ عاجز و بے نوا کہ میرا ہے دست سوال ہی ۔۔۔۔۔ ”  8

مندرجہ بالا اشعار اس عظیم ہستی کی محبت سے مشک بار ہے جہاں شاعر نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کو خوبصورت پیرائے میں پرویا ہے ان اشعار میں یوسف ظفر کے عقیدت عیاں ہوتی ہے جہاں ان کا قلم نبی اخر الزماں کی محبت و عقیدت کے جذبات سے لبریز نظر اتا ہے ان کے ہاں الفاظ تاثیر میں گندھے ہوئے نظر آتے ہیں اور وہ اُن خیر البشر کے واقفِ کُل ہونے پر مہر ثبت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔

"حریم وطن” میں یوسف ظفر نے پے در پے نعتوں کو شامل کیا ہے جبکہ وہ مختلف عنوانات "رحمت اللعالمین” "معراج النبی” "حضور رسالت” "حیات جوداں”  اور "اے صاحب لولاکؐ” جیسے عنوانات کا انتخاب کر کے اپنی عقیدت کا ثبوت پیش کرتے ہیں ۔

”حریم وطن ” کی طرح یوسف ظفر نے اپنے شعری مجموعے "عشق پیچاں” میں بھی نعتوں کو "نعت” "بارگاہ رحمت اللعالمین میں” جیسے عنوانات کے تحت شامل کیا ہے ۔

”تو روح ازل، نور ابد، جان دو عالم

جلوہ ہے تیرا یوسف جاناں دو عالم

تو حامد و محمود ہے، تو شاہد و مشہود

قائم تیرے جلوے پہ ہے ایوان دو عالم

ایک نور تیرا صبح ازل دیکھ لیا تھا

اب تک ہے مگر چاک و گریباں دو عالم

یہ نام تیرا صل علیٰ آب بقا ہے

کیا شے ہے دو عالم ،سر و سامان دو عالم ۔۔۔۔”9

مندرجہ بالا شاعر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ شاعر نے کس خوبصورتی سے مدحت سید الورایٰ کرتے ہوئے ورق ورق پر عقیدت کے پھول مہکائے ہیں یوسف ظفر کے قلم نے اس پاکیزہ صنف شاعری میں نئے اسلوب کو متعارف کروایا ہے ۔

یوں تو یوسف ظفر نے اپنے مجموعوں میں مختلف عنوانات کے تحت نعتوں کو شامل کیا ہے جس کی وضاحت اوپر کی جا چکی ہے مگر ان کی دیگر نظموں اور غزلوں میں بھی ایسے اشعار پائے جاتے ہیں جہاں وہ حضور اقدس کی شان بیان کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ایک غزل کا شعر ملاحظہ کریں ۔

”اے شاہِ امم ایک نظر اپنے ظفر پر

سرکار کا دیوانہ بھی ہے اور گدا بھی "10

اردو ادب کے بیشتر شعراء نے اس نیکی مجسم ،دانائے سبل، ختم الرسل کی تعریف و توصیف بیان کر کے اپنی شخصیت کا وقار بڑھایا ہے، یوسف ظفر نے بھی اس محبت سے زندگی کی روشنی حاصل کی ہے ان کے اشعار اس بات کے غماز ہیں کہ یہ محبت و عقیدت ان کے لیے اثاثہ کا درجہ رکھتی ہے ۔

یوسف ظفر سرچشمہ رشد و ہدایت سے اظہار عشق کے لیے الفاظ کو نہایت خوبصورتی اور ادبی قرینے سے ڈھالتے ہیں اور بارگاہ رسالت ماب میں ہدیہ پیش کرتے ہیں ۔

3: منقبت و مناجات

منقبت عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی توصیف، صفت و ثنا ،خارزانی فضیلت و برتری ،تعریف اور ہنر یا بڑائی کے لیے جاتے ہیں شعری اصطلاح میں منقبت دراصل ایسی نظم کو کہا جاتا ہے جس میں صحابہ کرامؓ ، اولیاء کرام اور بزرگان دین کے اوصاف کا پرچار کیا جاتا ہے ۔

قدیم اردو شاعری میں جہاں خدا کی حمد و ثنا کو ضروری جانا گیا وہیں رسول کی تعریف بھی نعت کی صورت میں کی جاتی رہی جبکہ صحابہ کرام و بزرگان دین کی سیرت و عظمت بیان کرنے کی روایت بھی پائی جاتی ہے ۔سلطان قلی کتب شاہ سے لے کر سودا و میر جیسے بڑے شعرا نے بھی اپنے کلام میں منقبت کو جگہ دی جبکہ نظیر اکبر ابادی ، میر انیس ، مرزا دبیر، مرزا غالب ،امیر مینائی ، محسن کاکوری جیسے بڑے ناموں نے بھی اس صنفِ سخن میں تبع آزمائی کی ۔

یوسف ظفر کے شعری مجموعوں میں بھی منقبت کا انتخاب موجود ہے جو ان کی مذہبی وابستگی کے ساتھ ساتھ ان ہستیوں کے ساتھ ان کی روحانی وابستگی کا بھی اظہار کرتی ہے ۔

”عشق پیجاں”میں یوسف ظفر نے "مولائے کائنات” کے عنوان سے حضرت علیؓ کی منقبت لکھی جبکہ "منقبت” کے عنوان کے تحت بھی انہوں نے شیر خداؓ کی شان بیان کی۔

”شاہ کربلا” کے عنوان کے تحت وہ حضرت امام حسینؓ کی منقبت بیان کرتے ہیں اشعار ملاحظہ کریں ۔

”لون و مکاں کو جس کی طہارت پہ ناز تھا

جو ذات تھی نگینِ سرتاج انبیاء

روح الامیں کی روح ،دل و دیدہ بقا ۔۔۔۔

وہ شاہ جس کی ذات سے عقبیٰ کا بندوبست

ارض و سما کی نسبتِ عالی کا سرپرست

نکلا وہ وفا میں وہ خود دار سر بدست

سر جس سے سرفرازی چرخ بریں ہے پست

سر جو نبی کے دین کا سرمایہ بن گیا

دست قضا سے عرش کا ہمسایہ بن گیا "11

مندرجہ بالا اشعار میں یوسف ظفر کمال خوبصورتی سے حضرت امام حسینؓ کی عظمت بیان کر کے نواسئہ رسول کے لیے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں ۔

حضرت علی کی منقبت سے چند اشعار ملاحظہ کریں ۔

”جس کے ہیں مولا محمدؐ اس کے ہیں مولا علیؓ

ہر زماں درد زباں ہے یا محمدؐ یا علیؓ

دیکھ حسن مصطفی انوار الا اللہ میں

دیکھ نور مصطفی جلوہ مولا علی

قبلہ سد کو صفا میں کعبہ اہل وفا

درد ارباب طریقت لا فتی الاعلیؓ۔۔۔۔”12

ان اشعار کےمطالعے سے  یوسف ظفر کی اہل بیت سے عقیدت و خلوص کے جذبے کی وضاحت ہو جاتی ہے انہوں نے نہایت خوبصورت الفاظ کا استعمال کر کے اس صنف سخن میں بھی اپنا حصہ ڈال دیا ہے ۔

یوں تو یوسف ظفر نے باقاعدہ عنوانات کے تحت منقبت کو اپنی مجموعوں کا حصہ بنایا مگر ان کی دیگر نظموں اور غزلوں میں بھی ہمیں ایسے اشعار مل جاتے ہیں جہاں وہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ کی شان بیان کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ،ایک شعر ملاحظہ کریں ۔

”کسی سحر کو ملا پر تو جمال رسول ؐ

اسے نصیب ہوئی دولت اذان بلالؓ

خوشا یہ صدقِ ابوبکرؓ و عدل و فاروقیؓ

خوشا و سخاوت عثمانؓ علیؓ کا استقلال "13

مندرجہ بالا اشعار میں شاعر نے چاروں خلفائے راشدین کا تذکرہ نہایت خلوص و عقیدت سے کیا ہے ۔

منقبت کے علاوہ یوسف ظفر کے مجموعوں میں مناجات کا انتخاب بھی موجود ہے ان کی شاعری میں مناجات کے حوالے سے بات کرنے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ مناجات دراصل کس شعری صنف کو کہا جاتا ہے ۔

مناجات دراصل ایسی صنف شاعری ہے جس میں شاعر خدائے رب ذوالجلال کی بارگاہ میں دعا کرتا ہے ، اگر تاریخی حوالے سے بات کی جائے تو مولانا الطاف حسین حالی کی "مناجات بیوہ” اس کی بہترین مثال ہے ۔

یوسف ظفر کی شاعری میں بھی ایسے نمونے ملتے ہیں جب وہ خدا کے سامنے دعایا انداز میں اشعار کہتے ہیں جبکہ اس کے علاوہ بھی انہوں نے اپنے مجموعے "حریم وطن” میں "مناجات” کے عنوان سے نظم شامل کی ہے اشعار ملاحظہ کریں ۔

”کہاں سے لاؤں زباں میں وہ قدرت اظہار

جو تیری شان کے شایاں ہو حسن جانانہ

کہاں سمائے گا میرے بیاں میں تیرا کرم

کہ میرا کاسئہ الفاظ ہے گدایانہ۔۔۔۔

تجھے پکاروں تو کیسے تجھے کہوں بھی تو کیا

کہ تو حدود تعین میں آ نہیں سکتا

تیرے فراق سے ہے میری زندگی، یعنی

میں تیرے وصل کی جنت کو پا نہیں سکتا ۔۔۔۔”14

مندرجہ والا اشعار میں شاعر کس عاجزی اور خلوص عقیدت کا اظہار کرتے ہیں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے ۔

4: مذہبی رجحان

یوسف ظفر پر ملحد کا لیبل لگانا ان کے ساتھ ظلم ہے انہوں نے اپنا سفر "زہر خند”  سے شروع کیا مگر معلوم نہیں کہاں کہاں سے گزرے مگر آخر کار انہوں نے روحانیت میں پناہ لی” زہر خند” ایک ایسے متجسس انسان کی شاعری ہے جو مولانا، جوتشی، پنڈت یا پادری وغیرہ کی دلیلوں سے مطمئن نہیں ہوتا وہ ہر شے پر سول اٹھاتا ہے اس لیے نہیں کہ وہ مذہب سے بیزار ہو گیا ہے بلکہ اس وجہ سے کہ اسے حقیقت کی تلاش ہے، وہ اپنی اس جنونیت میں بہت آگے بھی نکل جاتا ہے وہ پتھر کے بنے بت کو سوئیکار کرنے کا انکار کرتا ہے تو کبھی شکوے بھرے لہجے میں کہہ دیتا ہے کہ اب ہو بھی کیا سکتا ہے، یہی کچھ قسمت ہے تو اسے تسلیم کرنا پڑے گا ،تو کبھی دعوی کرتا ہے کہ

ہاں! یہی لوگ جو سودائی سمجھتے ہیں مجھے ”

اپنی سجدوں سے میرے قلب کو گرمائیں گے

اور میں تیری طرف دیکھوں گا خاموشی سے

اے تراشے ہوئے پتھر کے سیہ فارم رقیب "15

ایسی جرات یوسف ظفر جیسا شاعر ہی کر سکتا ہے وہ خدا کو صرف عبادت کا خدا نہیں سمجھتا بلکہ وہ اس تک رسائی چاہتا ہے وہ روایتی دین دار نہیں ہے ایسی ہی فکر کا پرچار وہ اپنے شعری مجموعے "صدا بہ صحرا” کی نظم "آئینہ” میں بھی کرتے ہیں ۔

”لرزتے ہوئے دل دھڑکتے ہیں، لوٹ کر بے کسوں کے لہو کی کمائی

لرزتے ہوئے دل سکوں چاہتے ہیں، خدا سے جو سنتا نہیں بے کسوں کی ۔۔۔۔

سکوں، جس کو ہم نے جہالت کے ہاتھوں عقیدوں کی چکی میں پیسا ہوا ہے

خدا سے ،خداؤں سے کیوں مانگتے ہیں ،خدا سے خداؤں سے کیوں چاہتے ہیں "16

مندرجہ والا اشعار میں انقلابی رنگ پایا جاتا ہے اور ایک غائبانہ کیفیت کی عکاسی ہوتی ہے جس میں شاعر کی معاشرے پر گہری نظر کی بھی عکاسی ہوتی ہے اور ان عقائد کا بھی پردہ فاش ہوتا ہے جو درحقیقت جہالت نے مسلمانوں پر تھوپ دیے ہیں جن میں نہ تو مذہب کی فکر ہے اور نہ معاشرے کی ۔

یوسف ظفر نے اپنی شاعری میں جہاں اس فکر کے پیش نظر اشعار لکھے ہیں وہیں ان کے ہاں خدا کی عظمت و کبریائی بھی بیان کی جاتی رہی ہے انہوں نے حمد و ثنا ، نعت کو بھی اپنے مجموعوں کا حصہ بنایا جس پر پہلے ہی تفصیل طلب بات کی جا چکی ہے، انہوں نے صحابہ و اہل بیت کی شان میں منقبت بھی لکھیں۔  اس تمام صورتحال سے ایک بات واضح ہو جاتی ہے کہ وہ مذہبی نقطہ نظر سے ملحد نہ تھے بلکہ وہ خدا کے ماننے والے ،خدا کے پیارے نبی کو ماننے والے اور صحابہ و اہل بیت کی عظمت کا بھی منہ بولتا ثبوت تھے ، وہ صرف غیر شرعی عقائد کے خلاف تھے اور دنیا میں مذہب کے نام سے جو معاملات بگاڑے جاتے ہیں اس کے خلاف تھے، وہ مذہب کو عام انسان کی نسبت مختلف انداز فکر سے اپناتے تھے ۔

یوسف ظفر کے ہاں خدا کی پیدا کردہ تخلیقات اور وجود باری کا اثبات پایا جاتا ہے ان کی اکثر نظموں میں ایسے اشعار ملتے ہیں جہاں وہ خدا کی یکتائی کا ثبوت پیش کرتے اور اس کی بنائی گئی تخلیقات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔

”عید قربان” "جامع مسجد واہ”  "مری کا بلاوا” "تخلیق” جیسی نظموں میں یوسف ظفر بحیثیت مسلمان نمودار ہوتے ہیں اور مذہبی فریضوں کی وضاحت کے ساتھ ساتھ خدا کی خوبصورت تخلیقات کو بھی موضوع گفتگو بناتے ہیں ۔

”نثار دولت دنیا و جان و جاہ نثار

کہ دین احمدؐ مرسل کی ہے بنا ایثار

سرشت جس کی ہے مرہوں صبر اسماعیلؑ

وہ قوم آج ہے دنیا میں عید کی حقدار ۔۔۔۔

خدا سے اور محمد سے سرخرو ہے وہی

یہ سوچ مرد مسلماں کہ آج تو ہے وہی ۔۔۔۔” 17

ان اشعار کے مطالعے کے بعد اگر کوئی شخص یوسف ظفر کو ملحد قرار دے تو یہ اس کی خام خیالی کے سوا کچھ تصور نہ کیا جائے گا ۔

”عشق پیچاں”  میں شامل نظم "فن_ فنکار” میں شاعر نے کائنات کی خوبصورتی کو قلم بند کیا ہے اشعار ملاحظہ کریں ۔

”یہ کائنات اس قدر حسیں__ کے بس

کہو اگر تو یہ کہو کہ ہائے کس قدر حسیں

زبان ساتھ دے تو میں بیاں کروں

وجود ساتھ دے تو میں

ہمالیر کے برف زار سے چلوں۔۔۔۔”18

مندرجہ بالا تمام اشعار و اقتباسات کے مطالعے سے یوسف ظفر کی مذہبی فکر کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔

دنیا کی بے ثباتی 5:

دنیا کی زندگی توقعات کے مقابلے میں بہت تنگ ہے یہ آزمائش گاہ کتنوں کو توڑ کر رکھ دیتی ہے، یوسف ظفر نے بھی اپنی زندگی میں ایسے بہت سے نامساعد حالات کا سامنا کیا اپنوں کی موت، احساس ذمہ داری اور بے روزگاری نے ان میں ایک ایسے شاعر کو جنم دیا جو کھلی آنکھوں سے اپنی موت دیکھتا ہے جسے دن سے رات تک وحشت ہوتی ہے اور دوش و فردا کی حقیقتیں اس کے خوابوں کو چکنا چور کر دیتی ہیں وہ اعتراف کرتا ہے کہ تکمیل تمنا کی خاطر خون تمنا کر چکا ہوں۔ یہ راستے بظاہر تو پرکشش نظر آتے ہیں مگر قدم قدم پر رکاوٹیں کھڑی ہیں ۔

”ایک آرام کی خاطر میں نے

کس قدر جھیلے ہیں آلام ،نہ پوچھ

ایک راحت کے تصور کی کشش

شب کے اجڑے ہوئے ویرانوں میں

مجھ کو ہم راہ لیے جاتی رہی

اور میں چلتا رہا، چلتا رہا ۔۔۔۔ "19

آپ کا دل اجڑا ہوا ،گھر مکان کی حد تک اور آس پاس بھیڑیے نما انسان ہیں تو کس تصور کو سامنے لا کر دنیا کا نوحہ بیان کرنے سے بچ سکتے ہیں! یہ ممکن ہی نہیں ۔

دنیا کی بے ثباتی ایک ایسا موضوع ہے جسے ہر عہد کے لکھنے والوں نے اپنی توجہ کا مرکز بنایا یہ کائنات کا ایک ایسا سچ ہے جس سے کبھی روگردانی نہیں کی جا سکتی کیونکہ ہر گزرتا ہوا لمحہ دراصل دنیا کی بے ثباتی کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔

ہمارے ارد گرد موجود ہر زندگی اپنی تمام تر رعنائیوں کے باوجود بھی فنا کی طرف گامزن ہیں ۔

یوسف ظفر کے اشعار میں بھی دنیا کی بے ثباتی کے احساس کو تازہ کیا گیا ہے ان کے اشعار میں اس ناپائیدار کائنات کی اور ناپائیدار حیات کی حقیقتیں کھلتی ہیں اور وہ برملا پکار اٹھتے ہیں کہ

”مطمئن کون ہے یہ ساحل نومیدی ہے

یہ حوادث کے خطر، آتی ہوئی موت کا غم "20

یوسف ظفر نے اس شعر میں زندگی کی سب سے تلخ حقیقت کا پردہ فاش کیا اور اشارہ کیا ہے کہ یہ سب نقش عارضی ہیں کسی کو بھی دوام نہیں حاصل ۔

”جنازوں پہ روتے ہوئے ہم نشینو! اٹھو مسکراؤ

یہ مٹی ہے بوسیدہ بے کار مٹی، ٹھکانے لگاؤ ۔۔۔۔

مگر موت کیا ہے ؟فنا کی حقیقت ہے کیا؟ کچھ نہیں، کچھ نہیں

یہ ہنگامہ کیسا ہے، یہ مجلس غم بپا !کچھ نہیں، کچھ نہیں

لحد کیا ہے، مدفن کی گونگی فضا! کچھ نہیں ،کچھ نہیں”21

مندرجہ بالا اشعار یوسف ظفر کے شعری مجموعے "صدا بصحرا” کی نظم "بقا” سے لیے گئے ہیں یہ مکمل نظم انسان کے اس دنیا میں عارضی قیام پر مبنی ہے جس میں وہ واضح الفاظ میں بیان کرتے ہیں کہ یہ دنیا فانی ہے جو انسان بھی یہاں آتا ہے اس نے اپنے وقت مقررہ پر جانا ہے اور کسی کے آنے یا جانے سے دنیا کے نظام میں کوئی بھی فرق نہیں پڑتا  ۔

یوسف ظفر اپنے اشعار میں واضح کرتے ہیں کہ انسان عدم کا راہی ہے اور یہ عالم آب و گل مختصر ہے جسے عنقریب طے ہو جانا ہے اور انسان نے موت کا مزہ چکھنا ہے کیونکہ موت کے نزدیک انسانوں میں کوئی فرق نہیں ہے، اجل کسی کو بھی موقع نہیں دیتی بلکہ تمام رشتے ناتے معدوم کر دیتی ہے ۔

ایک اور نظم” ذات اور روائت” کے اشعار ملاحظہ کریں جس میں ظفر صاحب اپنی ذات کو مثال بنا کر کائنات کے تمام انسانوں کی زندگی کو احاطہ میں لانے کی کوشش کرتے ہیں ۔

”ایک دن میرے جسم کا سایہ تھک کر پتھر بن جائے گا

میرا جسم بھی پتھر ہوگا

دونوں پتھر قبر میں ہوں گے

لیکن باہر بند دریچوں کا یہ سایہ

کتبہ بن کر پہرا دے گا

چلتے وقت کو ٹھہرا دے گا "22

مندرجہ والا اشعار میں جہاں ایک طرف شاعر نے دنیا کی بےثباتی کو موضوع بنایا ہے وہیں دوسری طرف شاعر کی نفسیاتی کیفیت کا بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے جہاں وہ اس فانی دنیا سے چلے جانے کو زیر غور لاتے ہیں وہیں دوسری طرف اس کیفیت کو بھی قلمبند کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو اس کے ساتھ وقوع پذیر ہوئی ہوتی ہے وہ اس احساس کو بیان کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں دکھاتے کہ ایک دن دنیا سے تعلق ختم ہو جانا ہے اور نقش تمنا مٹ جائے گا زندگی کا شعلہ بجھ جانے سے ہی انسان خاک اوڑھ کر سو سکتا ہے۔

ایک اور نظم سے اشعار ملاحظہ کریں ۔

”وہ لوگ جو رو رہے ہیں مجھ کو

کہ میں نے خود موت کو پکارا ہے تیری خاطر ۔۔۔۔

انہیں خبر کیا کہ لحظہ لحظہ انہیں یوں ہی موت آرہی ہے

انہیں خبر کیا کہ زندگی کیا ہے میں سمجھتا ہوں زندگی کو

کہ آج کی شب یہ زندگی ،میری زندگی ہے

یہ زندگی ہے میری جسے میں نے آج کی شب

تیرے مسرت کدے ملا کر ۔۔۔”23

زندگی خدا کی نعمت کے ساتھ ساتھ اس کی امانت بھی ہے کیونکہ اس نے انسان کو زندگی بخشی تو امانت ایک نہ ایک دن لوٹانی بھی ہے مسلمان ہونے کے ناطے یہ تمام مسلمانوں کا عقیدہ ہے اور حقیقت بھی ۔

یوں تو یہ حقیقت ہے کہ انسان کے لیے احساس فنا کسی المیے سے کم نہیں مگر یوسف ظفر نے اپنی شاعری میں فنا پذیری کو قنوطی انداز میں پیش کیا ہے ۔

”وہ آرزوئیں کہ جن کو شکست لازم ہے

اجل نصیب ہوں’ آخر تو موت آئے گی "24

یوسف ظفر نے بتایا ہے کہ انسان کی زندگی چار دنوں کا میلہ ہے اور کیا خبر کہ کب فرشتہ اجل انسان کی روح اچک کر اسے قصہ ماضی بنا دے یہ ایک ایسا خوف ہے جو انسانی زندگی کی تمام خوشیوں کو غارت کر دیتا ہے انسان نہیں جانتا کہ دور افق میں غروب ہونے والا سورج وہ دوبارہ دیکھ پائے گا یا نہیں، کون سا حرف اس کا اخری حرف ہوگا اور کب اس کے لب تابہ قیامت سی دیے جائیں گے ۔

ہر زی روح فنا ہونے کے خوف سے سہم جاتی ہے، موت پر مسلمان کا کامل یقین ہے مگر اس سب کے باوجود بھی ہم اس سے فرار چاہتے ہیں حالانکہ یہ انسانی دسترس سے بہت پرے کی بات ہے۔

یوسف ظفر نے کائنات کی بے ثباتی کے اس درد و کرب کو الفاظ کا پیرہن دیا ہے ۔

رات اور موت کا تصور     6:

رات یوسف ظفر کی شاعری کا اہم ترین موضوع ہے یہ ایک علامتی تصور ہے جو بھیس بدل بدل کر پوری شاعری پر چھا جاتا ہے رات نیم مردہ ضرور کرتی ہے مگر بیدار رہنے والوں کو تو اس کا سامنا ہی نہیں ہوتا پھر خدا جانے یوسف ظفر رات کے بارے میں کیا جانتے ہیں ؟

اسی طرح ان کے لیے دوسری حقیقت موت کی ظاہر ہوتی ہے ۔اب شاعر راتوں سے موت کو قریب کرتا ہے اور رات سے جڑی ہر چیز سے اس کو موت کی طرح ڈر لگتا ہے وہ روشنی کے ہم آغوش رہ کر اچھا محسوس کرتا ہے لیکن تجسس پھر اسے مجبور کرتا ہے کہ وہ رات کے دھت اندھیرے کا سامنا کرے ۔

ڈاکٹر وزیر اغا رقم طراز ہیں کہ

”اس کے ہاں موت ،تاریکی اور سناٹے کا روپ دھار کر برامد ہوتی ہے۔

اس کے ہاں موت ایک طرف تو تاریکی ،سائے ،دھواں اور کہرے کی

صورت میں اور دوسری طرف گرد، دیوار ،زنجیر اور سردی کے روپ

میں ابھری ہے اور یوسف ظفر نے اس کی نفی کرنے کے لیے روشنی اور

تحرک کے جملہ مظاہر سے کام لیا ہے۔ "25

یوسف ظفر نے اس کیفیت کا ڈٹ کر سامنا کیا مگر ایسے سپاہی کو اس جنگ میں آخر کار انجام کو پہنچنا ہی ہوتا ہے، رات ان کے لیے ایک وحشت ناک تجربہ ہے اور ہر گھڑی پھیلتا چلا جا رہا ہے ۔

”زندگی کے بے کراں مرگھٹ میں دیکھ

میری راتوں کی کئی لاشوں کے ڈھیر

راکھ بن کر اڑ رہے ہیں ہر طرف "26

”مفلسی سینہ تاریک سے پیدا کر

رات بن جائے گی، افلاک پہ چھا جائے گی "27

”شب کا یہ رنگ سیہ چھوٹ سکے گا، کہ نہیں

سحر خاموش کبھی ٹوٹ سکے گا کہ نہیں ؟”28

پھر اس کیفیت میں شاعر کو موت کا خوف پیدا ہونے لگتا ہے اور آخر کار وہ یہ گمان یا یقین کر لیتا ہے کہ موت کسی راز کا نام ہے ۔

”مان لوں ؟خیر یہی بات ہے تو پھر

بہت اک اور حقیقت کا پتا دیتی ہے”29

یوسف ظفر تاریکی کو فنا کر کے متحرک کائنات کا دیدار کرنا چاہتے ہیں انہیں یہ گوارا نہیں ہوتا کہ اصل اندھیرا ہے جس میں روشنی کا انتظام کیا جاتا ہے ۔

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter