تبصرہ کتاب :  دروازہ

تبصرہ نگار   :  شفیق نیر

16 مئی, 2023

نام کتاب           :           دروازہ

شاعر                  :           احمد ساقی

ناشر                   :           مکتبہ قدوسیہ، لاہور

صفحات               :           192

سنِ طباعت          :           جون 2018

تبصرہ نگار             :           شفیق نیر

اردو شاعری کا کینوس انتہائی وسعت کا حامل ہے۔ ہر عہد اپنی شاعری اپنے ساتھ لے کر آتا ہے ۔شاعری لطیف جذبوں کی عکاس ہونے کے ساتھ زندگی کی ترجمان بھی ہواکرتی ہے ۔اس میں لطافت بھی ہے اور خوبصورتی بھی ۔اردو شاعری میں غزل  فکری وفنی معنویت کے حوالے سے خاص اہمیت رکھتی ہے ۔کلاسیکل اور جدید شعرا نے اسے دوام بخشا ۔

سر زمینِ اوکاڑا کے شعری منظر نامے میں ظفر اقبال ،اسلم کولسری  ،ناصر شہزاد اورآنجہانی اقبال صلاح الدین جیسے معتبر نام موجود ہیں جنہوں نے اس خطے کی ادبی فضا  کو معطر کرنے میں اہم کردار ادا کیا،احمد ساقی  کا تعلق بھی اسی قبیل سے ہے ۔

پیشِ نظر کتاب احمد ساقی کا دوسرا مجموعہ کلام ہے  ۔ان کا اولین شعری مجموعہ کھنکتی خاک 2014میں شائع ہوا ۔اوکاڑہ کے ادبی افق پر دمکتے ستاروں میں احمد ساقی نے اپنے منفرد اُ سلوب کی بدولت   نمایاں مقام حاصل کیا ۔

اُردو شعرا کے مجموعہ ہائے کلام کا جائزہ لیا جائے تو انہوں نے حمدیہ اشعار سے ابتداء کی اس کا مطلب یہ ہوا کہ اردو میں حمد کی تاریخ  شاعری کے ساتھ شروع ہوئی۔نہ صرف مسلمان بلکہ غیر مسلم شعراء نے بھی اس روایت کی پاسداری کی ۔ احمد ساقی نے بھی اپنے اس مجموعے کا آغاز حمد باری تعالی سے کیا لیکن یہ بنیادی طور پر مجموعہء غزلیات ہے۔

بہار لطف نظارے جھلک جھلک اُ س کی

جہانِ رنگ میں ساری دھنک دھنک اُس کی

بدن کی کارہ گری کے نشیب و فراز

خرامِ ناز کی ساری لہک لہک اُس کی

ہر ایک سانس اسی کی نگاہداشت میں ہے

ہر اک وجود میں خنداں پلک جھپک اُس کی

کتاب کے آغاز میں شاعر نے “پیش خیمہ” کے تحت اپنی مختصر تحریر دی ہے وہ کہتے ہیں۔

’’ہر شاعر کا پہلا عشق غزل کی صورت میں سامنے آتا ہے اصحاب ِ نقد و نظر کے ہاں اچھے شعر کی خصوصیات کے بارے میں اختلاف موجود ہے بعض لفظی بندش اور بعض مضمون کو اہمیت دیتے ہیں‘‘

احمد ساقی کی غزل معاصر منظر نامے میں اپنی فکری و فنی معنویت کے حوالے سے اہمیت کی حامل ہے۔ دروازہ میں شامل غزلوں میں تازگی اور شادابی کے عناصر بدرجہ اتم موجود ہیں۔ یوں تو انہوں نے حمد ونعت میں بھی جذبات کا اظہار کیا مگر ان کی شناخت اور پہچان کا بنیادی حوالہ غزل ہے۔

 

 

کلاسیکل روایت کے امین احمد ساقی نے قدیم لفظیات کو نیا زوایہ عطا کیا ہجر و وصال کے موضوعات ایک الگ رنگ لیے ہوئے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ یادوں سے پیچھا چھڑانا ناممکن ہے چاہے اُن میں کرختگی ہو یا شائستگی ۔بھولی بسری یادیں پیرِ تسمہ پا کی مانند ذہن کو جکڑ لیتی ہیں۔

جب بھی آثار قدیمہ پر نظر پڑتی ہیں

مجھ کو اپنے ہی در و دیوار نظر آتے ہیں

مجھ پہ چڑھ کر تو ستاروں کو نہیں چھو سکتا

گو قد آور  ہوں مگر اتنا قدآور نہیں میں

اسی لیے تو کڑی دھوپ میں سکوں سے ہوں

تمہاری یاد کی چادر جو سر پہ تانی ہے

اس کی یادوں کی نمائش ہی لگی رہتی ہے

کاش ایک بار میرے پاس وہ آ کر دیکھے

ان کے فکر و نظر، جذبہء تخیل اور لفظ و معنی کے درمیان ایک ربط اور تسلسل پایا جاتا ہے ۔غزل میں مضامین کا تنوع اور معنوی  وسعت پائی جاتی ہے۔بقول آلڈس ہکسلے

“بہترین ادب وہ ہے جو ہمیں پریشانی میں مبتلا کر دے”

پریشانی سے مرادتدبر اور تفکر ہے۔ تدبر و تفکر کے بغیر سوچ کے در وا نہیں ہوتے اور اگر یہ در مقفل رہیں تو انسان اندھیروں میں بھٹکتا رہے۔قرآن مجید کا بنیادی موضوع انسان ہے جو نہ صرف انسانوں کو کائنات پر غور و فکر کی دعوت دیتا ہے بلکہ  اس بات کی طرف بھی راغب کرتا ہے وہ اپنے گرد و پیش ہونے والے تمام واقعات و حوادث کو سرسری نگاہ سے دیکھنے کی بجائے اللہ تعالی کے عطا کردہ شعور اور قوتِ مشاہدہ کو بروئے کار لا کر ان سے فکری  غذا حاصل کرے احمد ساقی کا یہ مجموعہ تفکر و تدبر کے مضامین سے مزین ہے ۔

جسے طلب ہو رہ ِمستقیم کی احمد

ہر اک ذرہ اُسے  رہنمائی دیتا ہے

یہ شعر معنوی اعتبار سے قرآن و سنت کے مجموعی مطالعہ کا عکاس ہے۔احمدساقی کی شاعری زیادہ تر آفاقی مقاصد اپنے اندرسموئے ہوئے ہے۔ قرآن و سنت سے استدلال کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہدایت کے لیے طلبِ ہدایت ضروری ہے۔یہ پہلی اور آخری شرط ہے۔جب انسان ہدایت کا طالب ہوتا ہے تو کائنات میں پھیلی ہوئی نشانیاں اسے خالق حقیقی اور ہدایت کا پتہ دیتی ہیں۔

یہ جہاں دعوتِ نظارہ زیبائش ہے

تو نے مجھ کو نہ سنبھالا تو بھٹک جاؤں گا

مغفرت پیاس بن کے آجائے

گر خطاکار پانی پانی ہو

جہاں پہ آخری مجھ کو قیام کرنا ہے

وہ گھر بھی حسن عمل سے سنوارنا ہے مجھے

مشہورمقولہ ہے کہ دنیا آخرت کی کھتی ہے۔ شریعت محمدی کا تصوربھی یہی ہے جس طرح کے اعمال بھیجو گے آخرت میں اسی طرح کے انجام سے دوچار ہوگے۔ اس لیے احادیث کی روشنی میں درج بالاشعر بلیغ ہے کہ اچھے اعمال سے آخرت کوسنوارو۔

ہم نے طبقوں میں خود انسان کو تقسیم کیا

دست ِ قدرت کی یہ تحریر نہیں ہو سکتی

اس شعر میں کس خوبصورتی کے ساتھ انسانی طبقاتی تقسیم کی مذمت کی گئی ہے۔بعض الہامی مذاہب  میں بھی آج تغیروتبدل کے بعدکچھ مخصوص طبقات کے لیے عُلویت کےتصورات پائے  جاتے ہیں۔خود بعض مسلمانوں کے نزدیک اسلام میں بھی طبقاتی عُلویت موجو د ہے اور وہ اُسے خداوند کی تقسیم بناکرپیش کرتے ہیں۔

اس مجموعے میں موجود اشعار یہاں عشق کے دریا میں اُترنے کے خوبصورت مناظر پیش کرتی ہیں وہیں زیرِ  لب  حرفِ شکایت ،  خواہشِ وصل ، اور محبوب سے ہم کلام ہوتے دکھائی دیتے ہیں ۔

تمہاری یاد کے گلشن سے پھول چُن چُن کر

خزاں نژاد رُتوں  کو بہار کرتے رہے

ستمگری کے تماشے نئے تماشے نہیں

یہ سلسلے تو زمیں پہ ازل سے جاری ہیں

فراقِ  یار میں گن گن کے دن گزارے ہیں

شبِ  وصال  ترا انتظار کرتے رہے

عشق کے سارے تقاضوں کی خبر ہے مجھ کو

ترے دربار پہ بے نام و نسب آیا ہوں

تمام سلطنتِ  دل تجھے ہبہ کر دی

نواحِ دل کا علاقہ بھی تیرے نام کیا

گدائے عشق ہوں، انکار آپ کا حق ہے

مگر سلیقے قرینے سے ٹالیے  مجھ کو

غم فطری جذبہ ہے جو کم و بیش ہر شاعر کے شعری شعور کا حصّہ ہے۔ حزن و ملال سے مزین اشعار تا دیر زندہ رہتےہیں۔ وہ غمِ جاناں ہویا غم دوراں ،اس کا تعلق داخل سے ہو یا خارج سے۔ تخلیق کار اپنے سماج کا نمائندہ ہوتا ہے ۔اس لیے سماجی مسائل کا احساس اس کی حساسیت پر ایسے چوٹ کرتا ہے کہ ماحول سے وابستگی الفاظ کا لبادہ اوڑھے رقصاں دکھائی دیتی ہے۔

بقول ڈاکٹر وزیر آغا:

“غزل  میں اپنے ماحول کو سمونےکا رجحان ہمیشہ موجود رہا ہے “

احمد ساقی کی غزل کو اگر اس تناظر میں دیکھا جائے تو ان کی غزل اس تول پر پُورا اُترتی  ہے۔

لوگ ایسے ہی کسی کو نہیں عزت دیتے

پیار کرتا ہوں تو لوگوں میں بڑا رہتا ہے

جس اذیت سے اُٹھائے ہیں جنازے ہم نے

اس سے بہتر تھا کہ ہم لوگ بھی مارے جاتے

مصالحت تو ہوئی پر منافقت کے عوض

قریب ہو تو گئے فاصلے وہیں پر ہیں

ایک لقمہءحیات پر بہنے لگا لہو

انسان اپنے عہد کے سفاک ہو گئے

لوگ مل کر بھی یہاں ملتے نہیں ہیں

قربتوں میں بھی فاصلہ رکھا ہوا ہے

احمدساقی کی غزل ماحول کی عکاسی کے ساتھ ساتھ ماضی کی صالح روایات کی امین بھی دکھائی دیتی ہے۔وہ حال  سے ہی باخبر  نہیں  بلکہ مستقبل پربھی مفکرانہ  نگاہ  رکھتے ہیں ۔زندگی کی برہنہ حقیقتیں ان کے سامنے ہیں مگر نا سازگار ماحول میں بھی امید کے چراغ کی لو مدھم  نہیں ہونے دیتے ۔احمد ساقی کے خیالات کی شفافیت اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کے وجدان میں یقین کا اجالا ہے۔

کٹتی نہیں ہے زندگی  اُمید کے بغیر

خوابوں  کے واسطے کوئی رستہ بحال کر

میں اس امید پر اشعار کہتا جا رہا ہوں

میرے جذبوں کا آخر ترجماں کوئی تو ہوگا

چرا غِ شوق ابھی مت بجھائیے احمد

ابھی تو سلسلہء کائنات جاری ہے

کائنات کی وسعتوں میں اپنے وجود کی تلاش اور پروردگارِ  عالم سے بامعنی تعلق کی یافت کا عمل ان کے طرزِ  احساس اور افکار و  نظریات میں ہم آہنگی پیدا کرتا ہے ۔کہیں وہ اشیا اور مظاہر کے پس پردہ کارفرما باطنی ربط کی جستجو کرتے دکھائی دیتے ہیں اور کہیں وہ  اپنی کیفیات بارگاہ ایزدی میں پیش کرتے نظر  آتے  ہیں ۔

زور دیتا ہو ں ہمہ وقت شکایات پہ میں

دھیان دیتا ہی نہیں تیری عنایات پہ میں

میں گرد گرد ہوا ہوں غبارِ عصیاں سے

فقط وہ تُو ہے کہ جس نے نکھارنا ہے مجھے

میرے لئےتو اتنا ہی کافی ہے اے خدا

قسمت میں میری لقمہء رزق حلال ہو

ہر لمحہ مری سانس نے محسوس کیا ہے

دھڑکن کی طرح کوئی مرے دل کے قریں ہے

مجھ کو انعام کے کفران سے ڈر لگتا ہے

جس قدر میری ضرورت ہے غذا اتنی ہو

میں کسی اور کا محتاج نہ ہونے پاؤں

زیست  مجھ کو عطا میرے خدا اتنی ہو

موت ایک اٹل حقیقت ہے۔ جو انسانی زندگی میں اپنی عالمگیر اہمیت کے سبب سدا تخلیق کاروں کی توجہ کا مرکز رہی ہے۔ کم و بیش ہر شاعر نے موت کے موضوع پراظہار خیال کیا ہے۔ موت سے کس کو رستگاری ہے کہ مصداق کسی ذی رُوح کو مفر نہیں ۔اس فانی دُنیا میں خود کو سب سے اعلی ،بااختیار تصور کرنے والے اوردنیا کی بے ثباتی کو نظر انداز کرنے والے یہ جان لیں کہ ان کا قیام یہاں ابدی نہیں ۔

مانا ترا رُسوخ ہے دُنیا کے سامنے

لیکن قضا کے سامنے تو معتبر نہیں

موت کی سرحدایسی سرحد ہے احمد

کبھی نہ لوٹے اب تک جو اُس پار گئے

بچھڑے ہوؤں کا غم بھی ان کی شاعری میں نمایاں ہے

ایک ایک کر کے اٹھتے جاتے ہیں

یار سارے جہانِ  فانی سے

بجھتی آنکھوں نے لجاجت سے اجل سے پُوچھا

مہرباں تھوڑی سی تاخیر نہیں ہو سکتی

عدم وجود کی کنڈلی میں آدمی ہے مقیم

نہیں ہے اور کوئی جائے مفر سمجھتا نہیں

علاوہ ازیں انہوں نے ضمنی طور پر بھی کئی دیگر موضوعات پر طبع آزمائی کی ہے۔

“میں” کی دیوار کو گرا احمد

یہ بھی کار محال ہونے دے

فقط اس واسطےدر در پہ محبت بانٹی

میں محبّت کو سمجھتا ہوں پیامِ  فطرت

علم و دانش میں فرق اتنا ہے

علم آساں ہے آگہی مشکل

پیش ہونا ہے آج ا پنے حضور

تہ دل سے مجھے دعا دیجئے

اب ایسی زندگی کو کس طرح سراہیں ہم

کسی کے کام جو آتا وہ کام ہو نہ سکا

حصولِ  رزق میں عجلت ہے کو احمد

ملے گا موت سے پہلے تجھے مقدر کا

ایک میزان ہمہ وقت تھا  مصروفِ عمل

سارے اعمال مرے تول رہا تھا مجھ میں

یہ غلامی تو مری ذات کے اندر ہے میاں

اس کا باعث کوئی زنجیر نہیں ہو سکتی

خوش لباسی سے مرا خوف عیاں ہوتا ہے

اپنے اندر کبھی جھاڑو نہیں پھیرا میں نے

میری گہرائی کا اندازہ تجھے کیسے ہو

میں وہ قلزم ہوں جس میں ہوئے یکجا دریا

میرے اشعار میں اک داستاں ہے

وقت کا سفر نامہ لکھا ہے

ان کو بقا کی فکر نے مجبور کر دیا

ورنہ تو اس طرح سے شجر، سوچتے نہ تھے

برف سےبھالو بنائے جارہے ہیں دھوپ میں

نوعِ انساں کی نئی تشکیل ہونے لگ گئی

ساون جیسے بھیگے بھیگے موسم نے

دل کے جنگل میں اک آگ لگا دی ہے

ہم نے بدلتے وقت کی آواز کب سنی

ہم فیصلوں پہ بارِ دیگر سوچتے نہ تھے

فنی اعتبار سے بھی احمدساقی کی شاعری انفرادیت کی حامل ہے۔علمِ  بیان و بدیع کے سارے قرینے اور رویے ان کی غزل میں دکھائی دیتے ہیں۔ انہوں نے فنی رویوں  کو بہت عمدگی سے اپنی غزل میں اپنایا ہے۔ وہ تشبیہ و استعارہ کی جمالیاتی معنویت سے بھی غافل نہیں رہتے ان کے ہاں علامت نگاری کا رنگ جذبے کی سچائی اور تخیل کی گہرائی سے سے نکھرتا ہے ۔

جو دھول بن کے مسافت میں دب گئے احمد

میں مثلِ  آئینہ وہ ماہ و سال دیکھتا ہوں

خدا کرے کہ میں اس دُھوپ  سے نکل آوں

ادھر چلوں جہاں  ابرِرواں کا غلبہ ہے

اڑا رہا تھا خیالات کے پرندوں کو

اتر رہے تھے کچھ اشعار گنگناتے ہوئے

ایک بت  مرے سینے میں دھڑکتا ہوا بت

ان کو بقا کی فکر نے مجبور کر دیا

ورنہ تو اس طرح سے شجر، سوچتے نہ تھے

خوف کا مارا ہُوا ڈول رہا ہے مجھ میں

مغفرت پیاس بن کے آجائے

گر خطاکار پانی پانی ہو

اس شعر میں مغفرت کو پیاس سے تشبیہ دی ہے اور خطاکار کی حالتِ شرمندگی کے ساتھ مشروط کیا ہے۔ پانی پانی ہونا شرمندہ اور نادم ہونے کے لیے عام محاورہ استعمال ہوتا ہے مگر اس محاورہ کو خطاکار کی صفت بنانا اور شعر میں کھپادینا یہ احمد ساقی کا کمال ہے۔ اس پر مستزاد مغفرت میں طلب اور شدت کامعنی دینے کے لیے پیاس سے تشبیہ دی ہے۔احمد ساقی کی شاعری میں تجسیم نگاری ،حُسن تعلیل اور تلمیحات کا رجحان بہت نمایاں ہے ۔انہوں نے اپنی شاعری میں انسانی کیفیات و احساسات کو پیش کرنے کے لئے کہیں تلمیحات کا سہارا لیا اور کہیں حُسنِ تعلیل اور تجسیم کا انداز اپنایا۔

درد کا انتقال ہونے دے

راستے کو بحال ہونے دے

آنکھ کی دہلیز سے خوابوں کی میت اُٹھ گئی

جب میرا خاکی بدن مجھ سے جدا ہونے لگا

سر پٹختے ہوئے دریا کو جو دیکھا تو لگا

کوئی آسیب ہے یا کوئی بلا  پانی میں

ہجر کی لہر سے جب میرا کنارہ ٹوٹا

دہلیز پہ آ کر بڑا رویا  دریا

مست موجوں نے لیں اٹھ کے بلائیں توبہ

دیکھ کر گیلا بدن جوش میں آیا دریا

فلک کی آنکھ میں لالی ہے کس لیے

ابھی لہو تو اچھالا نہیں گیا

انگلیاں بولتی ہیں ہاتھ کبھی ناچتے ہیں

میں تو چپ چاپ انگوٹھی میں جڑا رہتا ہوں

تلمیحات کااستعمال شعر میں معنوی وسعت پیدا کرتا ہے وہیں اشعار کے  حُسن کو بھی دوبالا کرتا ہے ۔انہوں نے ماضی کے قصوں کو اشعار کا جامہ ہی نہیں پہنایا بلکہ انسانوں کے مختلف زاویوں اور رویوں کی پردہ کشائی کی ہے۔

اک نام ہے ہابیل اور اک نام ہے قابیل

بس دو ہی قبیلے ہوئے آدم کے نسب کے

وہ کیا جانیں خواب تو پورا ہونا ہی تھا

اپنی طرف سے یوسف کو جو مار گئے

تم ایڑیاں رگڑو بھلے ماتھے کو گھساؤ

اس جا پہ کوئی چشمہ ابلنے کا نہیں ہے

ندرت خیال کے نمونے بھی شاعری میں جا بجا نظر آتے ہیں وہ خیال کو اس طرح متاثر کن انداز میں پیش کرتے ہیں کہ سامعین کے دل میں آہ یا واہ کے الفاظ بے ساختہ ادا ہوجاتے ہیں۔

بس ایک ڈور کی گتّھی ہے زندگی میری

میں اس کو کھولتا ہوں یہ الجھتی جاتی ہے

صدا جو گونجتی ہے گنبد خاکی کے اندر

دل بیتاب میں محو اذاں کوئی تو ہوگا

جو دھول بن کے مسافت میں دب گئے احمد

میں مثلِ  آئینہ وہ ماہ و سال دیکھتا ہوں

احمد ساقی نے  اردو شاعری میں ایسی دنیا متعارف کروائی جو اردو شاعری کے منظر نامے میں  یکسر نئی اور منفرد ہے۔ ان کے شعری مجموعے میں موضوعاتی تنوع اس قدرہےکہ اس پر مزید بات کی جاسکتی ہے۔ ان کا یہ مجموعہ نہ صرف قلمکاروں کی موجودہ نسل کے لیے مینار نورثابت ہوگا بلکہ آنے والی نسلیں بھی اس سے استفادہ کریں گی۔

 

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter