انتظار حسین کے افسانوں میں” فلسطین “ کا موضوع

مقالہ نگار/ یاسمین ایم فل سکالر یونیورسٹی آف اوکاڑہ

27 مارچ, 2023

انتظار حسین اکیس دسمبر 1923 ء ہندوستان میں ضلع بلند شہر کے گاؤں ڈیانی میں پیدا ہوئے انتظار حسین افسانہ نگار، تنقید نگار اور اعلیٰ پائے کے کالم نویس تھے انھوں نے ابتدائی تعلیم گھر پر ہی حاصل کی ابتدائی تعلیم کا آغاز ان کے والد منظر علی کے مذہبی رجحان اور زمانے کے تقاضوں کے درمیان کشمکش کا ایک سبب بن گیا ان کے والد چاہتے تھے کہ وہ روایتی مذہبی تعلیم حاصل کریں وہ سکول جانے کے سخت خلاف تھے ان کی بڑی بہن نے اسرار کر کے ان کو سکول میں داخل کروایا اور باقاعدہ تعلیم کے سلسلے کا آغاز کروایا ۔انتظار حسین 1922ء میں آرٹس کے مضامین کے ساتھ انٹرمیڈیٹ اور 1924ء بی ۔اے کی سند حاصل کی ابتدائی اور ثانوی تعلیم حاصل کرنے کے بعد انتظار حسین نے میرٹھ کالج سے اردو میں ایم ۔اے کیا ۔تقسیم ہند کے بعد ہندوستان ہجرت کر کے پاکستان کے شہر لاہور میں آ بسے ۔یہی وہ زمانہ تھا جب ان کے تخلیقی سفر کا آغاز ہوا آپ نے تراجم بھی کیے اس طرح رومی فکشن سے ان کی واقفیت بڑھی اور چیخوف اور ترکنی سے بہت متاثر ہوئے آپ نے صحافت سے بھی اپنا تعلق رکھا اور چند اہم جرائد اور اخبارات کی ادارت بھی کی مثلاً روزنامہ مشرق لاہور اور ہفتہ وار نظام لاہور وغیرہ ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں انھیں مختلف اعزازات سے نوازا گیا

2007ء میں صدرِ پاکستان کے ذریعے انتظار حسین نے پاکستانی سول ایوارڈ ستارہ امتیاز حاصل کیا

۔2013ء میں فرانس ڈبلیو پرچٹ نے اپنے اردو ناول بستی کا انگریزی ترجمہ کرنے کے بعد انھیں بین الاقوامی انعام کے لیے شارٹ لسٹ کیا گیا تھا ۔

انھیں لاہور ادبی میلے میں” زندگی بھر کا کارنامہ “ایوارڈ ملا ۔

نیوز ویک پاکستان نے انھیں 2014ء میں” پاکستان کا سب سے زیادہ کار آمد زندگی گزار مصنف “ کہا گیا ۔

اسی سال ستمبر میں انھیں فرانسیسی حکومت نے آرڈر ڈیز آرٹس اور ڈیز لیٹرس کا افسر بنا دیا تھا انڈین ایکسپریس نے منٹو کے بعد انھیں” دنیا کا سب سے مشہور پاکستانی مصنف “ قرار دیا ۔

2016ء میں پاکستان اکیڈمی آف لیٹرز نے انعام حسین ایوارڈ کا اعلان کیا تھا جو ہر سال ایک ادبی شخصیت کو دیا جائے گا ۔۔

انھیں حکومت پاکستان کی طرف سے اعلیٰ ترین سول ایوارڈ پرائڈ آف پرفارمنس عطاء کیا گیا ۔۔

ان کے ادبی کارنامے اردو ادب میں ہمیشہ زندہ جاوید رہیں گے کیونکہ ان کی تحریریں ہمیں ماضی کی بازیافت کی یاد دلاتی ہے ان کی ادبی زندگی کا آغاز افسانہ نگاری سے ہوا ان کے افسانوی مجموعوں میں:

  • گلی کوچے ١٩٥٣ ء
  • کنکری ١٩٥٥ء
  • آخری آدمی ١٩٦٧ء
  • شہر افسوس ١٩٧٣ء
  • کچھوے ١٩٨١ء
  • خیمے سے دور ١٩٨٤ء
  • خالی پنجرہ ١٩٩٣ء

شامل ہیں۔

نھوں نے اپنی ادبی زندگی کی ابتداء شاعری سے کی ن۔م راشد کی” ماوراء “ سے گہرا اثر قبول کیا اور اس انداز میں آزاد نظمیں لکھنے کا آغاز کیا ۔انھوں نے” فیوما کی دکان “ کے عنوان سے پہلا افسانہ لکھا جو دسمبر ١٩٢٨ء کے” ادب لطیف “ لاہور سے شائع ہوا انتظار حسین کے تخلیقی سفر کا آغاز تقسیم ہند کے فوراً بعد ہوتا ہے روحانی اور اخلاقی زوال ان کے بیشتر افسانوں کا موضوع ہے انھوں نے بنی اسرائیل کے الہامی اسلوب کا اثر لیا اور قرآن شریف اور عہد نامہ قدیم کے طرز پر پورا افسانہ لکھا استعارے اور علامت بھی الہامی کتب سے لی ہے ۔میرٹھ کالج سے جب تقسیم ہوئی ان کو پاکستان آنا پڑا اس لیے انھوں نے علامتی افسانے لکھے اور ہجرت کا دکھ انھیں ہمیشہ رہا اردو افسانے کا رشتہ بہ یک وقت حکایات داستان مذہبی روایات قدیم اساطیر اور دیو مالا سے ملا دیا ان کا کہنا ہے کہ ناول اور افسانے کا مغربی ہئیتوں کی بے نسبت داستانی انداز ہمارے اجتماعی لا شعور اور مزاج کا کہیں زیادہ ساتھ دیتا ہے داستانوں کی فضاء کو انھوں نے نئے احساس اور نئی آگاہی کے ساتھ کچھ اس طرح برتا ہے کہ افسانے میں نیا فلسفیانہ انداز اور ایک نئی اساطیری، داستانی، جہت سامنے آتی ہے ۔

انتظار حسین کا افسانہ” شرم الحرم “ اخبار کے دفتر میں چند آدمیوں کی گفتگو سے شروع ہوتا ہے شرم الحرام کے مرکزی کردار کی جب نیند ہے وہ آنکھیں بند کرتا ہے تو اسے یوں لگتا ہے وہ بیت المقدس میں ہے اور لڑ رہا ہے ہماری قوم جو گذشتہ نصف صدی سے بیت المقدس میں ہے اور لڑ رہی ہے اقبال اس کے مجاہد اول وہ آزادی فلسطین کی محاذ پر عربوں سے بھی پہلے پہنچے اقبال نے اس جنگ کو اپنی قومی آزادی جنگ کا اٹوٹ حصہ سمجھا ان کے نزدیک فلسطین کی آزادی اتنی اہمیت رکھتی تھی کہ دسمبر ١٩٣١ء میں وہ عالم اسلام کے نمائندوں کی کانفرنس میں شرکت کی خاطر لندن گئے اور ہندی مسلمانوں کی مذاکرات کو ادھورا چھوڑ کر بیت المقدس جا پہنچے تھے ۔

افسانے کا موضوع بیت المقدس میں اسرائیلی نا جائز قبضہ سے شروع ہوتا ہے یہ افسانہ دو دوستوں کے درمیان بات چیت سے شروع ہوتا ہے جوکہ مصطفیٰ فائق اور امین کے گرد گھومتا ہے جو اخبار کے دفتر میں بیٹھے خبروں سے متعلق گفتگو کر رہے ہیں انھیں اچانک خبر ملتی ہے کہ یروشلم پر حملہ ہو گیا ہے اور جنگ ہو رہی ہے جنگ سے متعلق اہم متضاد خبریں آ رہی ہیں جو عموماً جنگ کے دوران ہوتی ہیں متضاد خبروں پر بات کرتے کرتے دونوں میں تکرار شروع ہو جاتی ہے فائق امین کو طعنہ دیتا ہے کہ یروشلم کی رسوائی کا ذمہ دار عرب ہے امین جواب میں کہتا ہے کہ رسوائی کا ذمہ دار صرف عربوں کی ہی نہیں بلکہ پورے عالم اسلام کی ہے اسی بات چیت سے افسانے کا آغاز ہوتا ہے آگے چل کر افسانے میں تین کردار اور داخل ہوتے ہیں سفید، ریش، اعرابی، اور ایک خونی سفیدی والا سپاہی ایک سرخ پٹخے والا آدمی داخل ہوتے ہی اور وہ علامتی طور پر اس سے پوچھتے ہیں کہ کیا ہم زندہ ہیں اور ایک دوسرے سے زندہ ہونے کی گواہی طلب کرتے ہیں اتنے میں امین آتا ہے اور کہتا ہے کہ : لوگ کہتے ہیں کہ مویش دیان اصل میں موسیٰ دجال ہے اسی مسئلے پر پھر دونوں میں تکرار شروع ہو جاتی ہے اب افسانے میں ایک اور موڑ آتا ہے دو اونٹنی سوار وہاں پر آتے ہیں ان میں سے ایک شرم الحرم کا نعرہ لگاتا ہے اور دوسرا شرم العرب کا پہلا سوال سامنے آ کر حکایت بیان کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ایک شخص قبلہ یروشلم کے دروازوں سے ظاہر ہوگا اور اس کی ایک آنکھ خراب ہوگی اور اس کے ہاتھ میں کپڑا ہوگا اور بیت المقدس کی حرمت کو پا مال کرے اور اونچے گدھے پر سوار کرے گا اور حرم کے دروازے تک جا پہنچے گا اور تمام لوگ اس کی روایت سن کر شرم الحرم شرم الحرم کی پکار شروع کر دیتے ہیں اور مزید بیان کرتا ہے کہ شام سے ایک دلیر مرد اٹھے گا اور دور تک اس کا پیچھا کرے گا تمام لوگ خوش ہو کر اس کو پکارنے لگ جاتے ہیں اچانک خونی وردی والا سپاہی آگے آتا ہے اور کہتا ہے کہ میں زندہ نہیں ہوں بلکہ مر چکا ہوں میرا ضمیر مر چکا ہے میں نے بیت المقدس کو ڈھے جانے کی منادی بھی کی ہے میں نے عرب نے جوانوں کو سڑک پر تڑپتے ان کی لاشوں کو بکھرے ہوئے دیکھا ہے اقتباس ملاحظہ ہو :

” میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ آدمی ایسے ہو گئے تھے جیسے پھیلے ہوئے ٹھنڈے ہو جانے والے پتنگے ہوتے ہیں جو ان لکڑیوں کی مانند کاٹے گئے بچے مٹی کے بنے پتلے کوزوں کی مثال توڑے گئے اور میں نے دیکھا کہ بیت المقدس کی کنواریوں نے بال کھولے ہیں اور سروں کو زمین تک جھکاتی ہیں تب میں نے درد سے پکارا کہ اے بیت المقدس! کی بستی تیری کنواریاں رسوا ہوئیں تو کہاں ہے اور میں نے دیکھا کہ مقدس دروازہ گرا پڑا ہے “

اس اقتباس میں جنگ کا سماں لاشوں کا بکھرنا عرب کی نوجوان لڑکیوں کے پھٹے ہوئے اور بکھرے ہوئے بال دیکھے تب میں ے اپنی آنکھیں بند کر لی اور میں مر گیا ۔اور آخر میں کہتا ہے شرم العرب، شرم العجم اور شرم الحرام نے انتظار حسین نے اپنے اندر کا درد اپنے افسانے میں بیان کرتے ہیں کانا دجال کے کردار بیت المقدس کے سکوت کی سناؤنی سن کر فریاد کرتے ہیں کانا دجال کا اقتباس ملاحظہ ہو :

” آنحضور دریاؤں پہاڑوں صحراؤں سے گزرتے چلے گئے مسجد اقصٰی میں جا کر قیام کیا جبرائیل نے عرض کیا کہ یا حضرت تشریف لے چلیے آپ نے پوچھا کہاں بولے کہ یا حضرت زمین کا سفر تمام ہوا یہ منزل آخری تھی اب عالم بالا کا سفر درپیش ہے تب حضور بلند ہوتے چلے گئے پہلا آسمان دوسرا آسمان تیسرا آسمان چوتھا حضرت عیسٰی نے مصافحہ کیا پھر اور بلند ہو گئے اور آخری عرش معلیٰ کے قریب جا پہنچے اور قوسین…………… اور پھر مسجد اقصٰی تک جا پہنچے ۔۔

 

 

اس مقام نظر سے دیکھیں تو مسجد اقصٰی کا چھن جانا فقط تاریخی مقام سے محرومی نہیں بلکہ اس روحانی سیڑھی کا گر جانا ہے جو ہماری زمین کو ہمارے آسمان سے ملاتی تھی جن قوموں کے پاؤں تلے دھڑکتی ہوئی زمین کا سر تنے ہوئے آسمان سے رابطہ کٹ جائے وہ زوال کرتے کرتے بالآخر وہ نیچے آ گرتی ہے ہمارے ساتھ بیت المقدس کا معاملہ یہی واردات ہے ۔۔

شرم الحرم موضوع بیت المقدس پر اسرائیل کا ناجائز قبضہ تھا اس حوالے سے دیکھا تو انتظار حسین صرف اپنے اندر کے دکھ کو ہی بیان نہیں کرتے بلکہ خارجیت کو بھی اپنے افسانوں میں لے آتے ہیں اس کے علاوہ بین الاقوامی مسائل کو بھی نظر انداز نہیں کیا وہ بین الاقوامی مسائل کو بھی اور بین الاقوامی حالات و واقعات کو بڑی گہرائی سے دیکھتے ہیں چونکہ افسانے کا زندگی سے بہت گہرا تعلق ہے اس لیے ایک افسانہ دنیا میں ہونے والے اہم واقعات اور حالات سے بے خبر نہیں رہ سکتا وہ بین الاقوامی مسائل کو کسی نہ کسی طور پر افسانے کا حصہ بنا لیتا ہے وہ اجتماعی دکھ کو انفرادی دکھ کے سانچے میں پیش کرنے کا ہنر جانتے ہیں بعض اوقات انفرادی دکھ ہو اجتماعیت میں دیکھنے کی سعی کرتا ہے۔۔

اسرائیل نے ١٩٤٧ء میں ہونے والی چھ روزہ جنگ کے بعد سے مشرقی بیت المقدس پر قبضہ حاصل کر لیا تھا اقبال نے ضربِ کلیم میں شامل ایک نظم” شام و فلسطین “انہوں نے یہودیوں کے دعوے کی کاٹ کی فیض نے بھی فلسطینی مجاہدوں کے لیے ایک ترانہ لکھا جو ان کی نظم” ہم دیکھیں گے “کی طرز پر ہے احمد ندیم قاسمی کا مشہور شعر ہے

ایک بار اور بھی بطحا سے فلسطین میں آ

راستہ   دیکھتی  ہے  مسجدِ  اقصٰی   تیرا

 

سب سے پہلے ١٩٢٩ء میں فلسطین کے حق میں آواز اٹھائی گئی قرآن پاک کے پارہ نمبر تیس میں سورۃ القارعہ میں” جس دن آدمی ہوں گے جیسے پہ پھیلے پتنگے اور پہاڑ ہوں گے جیسے دھن کی اون “۔ انتظار حسین نے اپنے افسانے میں اس آیت کو بیان کیا کیونکہ انھیں اس وقت یہی منظر نظر آتا ہے ان کے افسانوں میں جو کہانی بیان ہوتی ہے وہ صدیوں کا سفر کرتی ہوئی انسانی ذہن اور اجتماعی لا شعور کے رشتے کو جوڑتی ہے یہ ذہنی سفر بھی ہے اور زمین میں تخیل کی کارفرمائی بھی نظر آتی ہے وہ تخیل جس نے ان کے افسانے کو صدیوں کی تاریخی سفر کا ترجمان بنا دیا ہے انھوں نے بلاشبہ ذاتی تجربات کو علامتیں بنا دیا ہے ان کے پلاٹ کے حوالے سے بات کی جائے تو ان کے پلاٹ سادہ آسان اور رواں ہیں واقعات کی منطقی ترتیب کو پلاٹ کہتے ہیں پلاٹ کے تین حصے ہوتے ہیں آغاز، وسط، انجام، اس میں کسی ایک پہلو کی عکاسی ہوتی ہے ان کے افسانے کا پلاٹ پیچیدہ نہیں ہے وہ بہت سادہ الفاظ میں اپنا مدعا آپ بیان کرتے ہیں وہ کہانی کے آغاز سے لے کر انجام تک کے سفر کو آپس میں جوڑے رکھتے ہیں گوپی چند نارنگ لکھتے ہیں کہ :

” انتظار حسین کا یہ معمولی کارنامہ نہیں ہے کہ انھوں نے افسانے کی مغربی ہیئت کو چھوا تو نہیں بلکہ کتھا کہانی اور داتان و حکایت کے جو مقامی سانچے مشرقی مزاج عامہ اور افتاد زمین صدیوں کے عمل کا نتیجہ تھے اور مغربی اثرات کی پورش نے جنھیں رد کر دیا تھا انتظار حسین نے ان کی دانش و حکمت کے جوہر کو گرفت میں لے آیا اور ان کی مدد سے مروج سانچوں کی تقلید کر کے افسانے کو ایک نئی شکل اور نیا ذائقہ دیا

(اردو افسانہ روایت اور مسائل مرتب گوپی چند نارنگ ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی ۔)“

انھوں نے شرم الحرم اور کانا دجال میں جو پلاٹ کی ترتیب دی وہ قابل تحسین ہے وہ شروع مرکزی کردار کے اٹھنے سے کرتے ہیں اور اس کا اختتامیہ چونکا دینے والا ہے ان کے افسانے کے واقعات کی ترتیب میں جھول محسوس نہیں ہوتا وہ خوبصورتی سے اپنا مدعا بیان کرتے ہیں ۔

ان کے اگر کردار نگاری کے حوالے سے بات کی جائے تو ان کی مثال بھی اور افسانے نگار کے ہاں نہیں ملتی کسی بھی شخصیت کے کچھ پہلوؤں کو اس طرح نمایاں کرنا کہ اس کی خوبیاں اور خامیاں سامنے آ جائیں کردار نگاری ہے انھوں نے اپنے  کرداروں کے ذریعے ہی جو برائیاں انسان اور معاشرے میں رونما ہو رہی تھیں وہ تمام برائیاں ان کے افسانوں کا اگر مطالعہ کیا جائے تو عیاں ہوتی ہیں انھوں نے اس کا ازالہ ان ہی کہانیوں کے ذریعے کرنا چاہا تاکہ دنیا اور انسانیت باقی رہے ان کے افسانوں کے  کردار ماضی اور حال کے درمیان کڑی کی طرح محسوس ہوتے ہیں مگر یہی کردار اپنے دھیمے سروں میں حال اور ماضی سے ملا دیتے ہیں وہ خود لکھتے ہیں کہ مجھے ماضی اور حال میں اتنی تقسیم نظر نہیں آتی میں تو ایک زمانے میں زندہ ہوں معلوم نہیں اس میں ماضی کتنا ہے اور حال کتنا یہاں ایک بات مجھے اس کی یاد آتی ہے جو اس میں پرندوں کے حوالے سے کی ہوئی ہے کہ جن پرندوں کی آوازیں میرے حافظے میں سہمی ہوئی ہے اور میرے تصور میں سمائی ہوئی ہے کہیں بہت دور ماضی سے بول رہے ہیں ان کا بنیادی کردار جب آنکھ کھولتا ہے وہ لڑ رہا اس کا یہ بنیادی کردار ہماری قوم کا ضمیر ہے فائق اور امین میں جو تضاد پایا جاتا ہے وہ انتظار حسین کے اندر ہونے والے دکھ اور طبقاتی کشمکش ہے جو وہ یہاں کرنا چاہ رہے ہیں ان کی ہونے والی متضاد گفتگو ہی اس افسانے کا سرمایہ ہے اس کے ساتھ خونی سفیدی والا سپاہی سفید ریش اعرابی اور ایک سرخ پٹخے والا آدمی ان میں جو تکرار ہوتی ہے اس تکرار سے افسانے کا وجود بنتا ہے یہ تمام کردار علامتی ہیں اور ہمارے معاشرے کی عکاسی کرتے ہیں ایک یہ معاشرے میں رہنے والے افراد کس طرح اپنے الگ الگ رجحانات لیے پھرتے ہیں اس طبقے میں رہنے والے لوگ کس طرح طبقاتی کشمکش میں مبتلا ہیں انھوں نے داستانوی فضا اس کی کردار نگاری اور اسلوب کا اپنے عصری تقاضوں کے تحت برتا ہے انتظار حسین نے کردار نگاری کی بجائے

عام طور پر اسی کہانی کو واقعات اور کرداروں کی ذہنی سطح پر بدلتی کیفیات کے آگے بڑھاتے ہیں اس سلسلے میں ان کے مشاہدے کی باریکی اور جذبات نگاری ان کے کام آتی ہے انتظار حسین کرداروں کا تذکرہ کرتے ہیں ان کی نظر ان کے کردار پر نہایت باریکی پڑتی ہے وہ ان کا حلیہ بھی اکثر تفصیلاً بیان کرتے ہیں مکالمہ نگاری میں بھی انھوں نے بڑی فنی مہارت استعمال کی ہے ان مکالموں کی خصوصیات یہ ہیں کہ ان میں پیوند نہیں بہت سہل آپس میں ملے جلے ہیں اور یہی ان کا فن ہے اقتباس ملاحظہ ہو :

یار لوگ کہتے ہیں کہ موسیٰ دہان اصل موسے دجال ہے وہ ہنس پڑا

” اس میں کہنے کی کیا بات ہے “

” کچھ نہیں اچھا بتاؤ شرم الشنج کی اور کوئی خبر آئی “

شرم الحرم کی خیر امین کی آواز سے گرمی رخصت ہو گئی تھی

اب کیا آئے گی۔۔۔۔ آ چکی

اس اقتباس کو دیکھ کر یہ نہیں لگتا کہ یہ کہلوائے گئے ہیں نا مانوسیت اور اجنبیت محسوس نہیں ہوتی انھوں نے کرداروں کے مطابق مکالمے کیے اور اگر کرداروں کے درمیان تکرار ہے تو وہ بھی محض تکرار نہیں رہتی بلکہ اس کے ذریعے کلام متنوع خوبیوں کا حامل نظر آتا ہے ۔

شمیم حنفی لکھتے ہیں :

” ترقی پسندوں نے ایک با ضابطہ بند اقلیم سے رشتہ وفا استوار کرنے پر زور دیا تھا نئے ادیبوں نے اپنی قوت ایجاد اور نئی تکنیکوں میں زعم میں افسانے کو جس حال تک پہنچایا وہ سب ہمارے سامنے ہے ایک  چہرے میں اتنے چہرے کہ کثرت نظارہ سے انتظار حسین کے بہت سے نقاد پریشان ہو گئے”

(ہم عصروں کے  شمیم حنفی انجمن ترقی اردو ہند دہلی ٢٠٠٠ء، ص، ٢٣)

انہوں نے روایتی اسلوب کو بلا ارادہ  تکنیک کے طور پر برتا ہے انہوں نے اپنی کہانیوں میں اسی دھرتی کو بھی نہیں

انہوں نے کہانیوں کی عظیم روایت سے بھی استفادہ کیا ور پوری دنیا میں پھیلی ہوتی ہے یہ روایت قصوں کہانیوں روایتوں اور  داستانوں کی ہے تو عرب و عجم میں سہمے ہوئی ہے چنانچہ اس میں کتھا کہانی اور مضمون کا قدیم ہندی امتزاج بھی شامل ہے انھوں نے اپنے مخصوص اسلوب کے باعث مختلف مقامات پر ان میں سے  ایک ہی لینڈ سکیپ میں سمجھنے کی کوشش بھی کی ہے اس کوشش کے پیچھے ایک گہری نفسیاتی ضرورت  اور ایک ہمہ گیر تجربہ موجود ہوتا ہے ۔ یہ ان کا انفرادی تجربہ بھی ہے  اور اجتماعی سطح پر بھی موجود ہے جو کبھی تو مکہ سے مدینہ کبھی کر بلا کی طرف ہجرت ہے۔ اور کبھی یہ ہجرت  ہندوستانی کی تاریخ میں مسلمانوں کی ہجرت ہے ۔

رام لال کہتے ہیں :

 

” انتظار حسین کی کہانیاں تہذیبی بازیافت کی علامتی کہانیاں ہیں اگرچہ ان کی تمام افسانہ نگاری مختلف قسم کے تجربات اورسیاسی و نظریاتی بیانات سے بھی جڑی ہوئی ہے جسے ملک کی تقسیم سے الگ کر کے دیکھنا بھی مشکل ہو جاتا ہے

(رام لال، اردو افسانے کی نئی تخلیقی فضاء ص، ٤٦)

ان کے تمام افسانوں میں ایک درد ہے ۔ مسلمانوں کی عظمت کا پر شکوہ دور انہدام پذیر ہوا تھا انہوں نے سرحد پار کی گلی کوچوں ، بازاروں پرانے راستوں کو مکے مدینے کی گلیوں بغداد کے بازاروں میں تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔ وه بستی جہاں خلافت تھی تو کبھی قوموں کی سرتاج اور شعروں کی ملکہ بھی اس کا سہاگ لٹ گیا وہ تابع دار بن گئی وہ تاریخ اور ثقافت کو ایک خاص تصور کے اندر دیکھتا ہے اور اس سے انتظار حسین کا اسلوب جگمگاتا ہے ان کے اسلوب ایسی سادگی اور تازگی ہے جسکی کوئی نظیر نہیں ان کے فن آج کے انسان کے کھوئے ہوئے یقین کی تلاش کا فن اس لیے ہے کہ مستقبل کا انسان اپنی آگہی حاصل کر سکے  اور اپنی ذات کو برقرار رکھ سکے ان کا فن خاصا تہہ دار اور پر پیچ ہے جہاں انکی سادگی فریب نظر کا سامان فراہم کرتی ہے وہیں اس کی ہوشیاری اور براری سوچنے پر مجبور کرتی ہے ان کا ذہن ایک متحرک ذہن ہے اس کا خیال سفر جاری ہے۔

ممتاز وارث علوی لکھتے ہیں کہ :

انتظار حسین کے افسانوں میں اسلوب کا یہ مادہ ملتا ہے یعنی خوب صورت نظموں کی مانند ان کے افسانوں کی اسلوب کی سحر انگیزی پر اسرار پہاڑ کے بلاوے کی طرح ہمیں اپنی طرف کھینچتی ہے یہ کشش کہانی کردار واقعات یا دوسرے ارضی مواد کے سبب نہیں ہوتی جیسا کہ بیدی، منٹو، یا موپساں کے افسانے میں ہوتا ہے لیکن آپ انتظار حسین کی زبان و بیان کی جادو گری کا راز پانے کی کوشش کیجیے تو دیکھیں گے کہ ان کے اسلوب کی پوری سحر کاری کی ایک ایسے مواد کی رانیدہ جو انسان کے ارضی اخلاقی اور روحانی تجربات سے تشکیل پاتا ہے ان کا اسلوب غنائی شاعری کی اسلوب کی مانند ہم پر وجد کی کیفیت طاری کرتا ہے اور زیبی نثر کی معراج ہے

ان کا اسلوب رولتی نہیں تھا ان کی تحریروں میں ہمیں استعارات کے استعمال کی مہارت بیان کی چاشنی اور زندگی کی حقیقتوں کو کھل کر بیان کر اور بے ساختہ پن قارئین کو ان کی تحریروں کے سحر میں گرفتار کر دیتا ہے ان کے ہاں ماضی پرستی ماضی پر نوحہ خوانی اور روایت میں پناہ کی تلاش بہت نمایاں ہے وہ علامتی اور استعاراتی اسلوب کے نت نئے ڈھنگ سے استعمال کرنے والے افسانہ نگار ہیں لیکن اپنی تمام تر ماضی پرستی اور مستقبل سے فرار اور انکار کے باوجود ان کی تحریروں میں ایک عجیب طرز کا سوز اور حسن ہے ان کے افسانوں میں تاریخی و تہذیبی پس منظر چھپا رہتا ہے وہ ماضی اور حال کے رشتے کو بڑی خوب صورتی سے بہم پیوست کرتے ہیں اور گزرے ہوئے واقعات کی روشنی میں موجودہ صورت احوال کی ترتیب قائم کرتے ہیں ۔

خیال اور اسلوب دونوں اعتبار سے وہ تنوع پسند ہے ان کے موضوعات کی کثرت سے تو ان موضوعات کو مختلف النوع طرزِ اظہار میں پیش کرنے کے مختلف سلیقے بھی ہیں اپنی کہانی میں انھوں نے تجربہ خیزی اور حیرت افزائی سے تجسس پیدا کیا ہے اور یوں وہ قاری کی سوچ اور فکر کو پورے طور پر گرفت میں لے کر کہانی کے انجام اور نتیجے کے لیے بے قرار کر دیتے ہیں اس طرح وہ کہانی کا تاثر بھرپور طریقے سے قاری کے ذہن میں اتار دیتے ہیں ان کی کہانیوں میں جو منظر نامے پیش کیے گئے ہیں ان کی تفصیل اپنی پوری جذئیات کے ساتھ بھی ہے وہ چھوٹے چھوٹے واقعات اور کرداروں کی معمولی حرکات و سکنات بھی افسانہ نگاری کی نظر میں ہوتے ہیں اور ان کا قلم نہایت مضبوط طریقے سے انھیں بیان کرتا ہے جب وہ جنگ کا منظر پیش کرتا ہے تو ان کی لاشوں کا بکھرنا عرب کی عورتوں کا بال کھولنا اور سروں کو چھپانا ان تمام چیوں کو وہ نہایت کامیابی سے بیان کرتا ہے ان کا یہ انداز ہمیں پوری طرح اپنی گرفت میں لیے رہتا ہے اور کہانی میں اس کی دلچسپی اور تجسس ہر لحظہ بڑھتا چلا جاتا ہے ۔

اگر ان کی تکنیک کے حوالے سے بات کی جائے تو وہ اپنی تکنیک میں بہت کامیاب نظر آتے ہیں انھوں نے شعور کی رو فلیش بیک کی تکنیک آزاد تلازمہ خیال کی تکنیک خود کلامی وغیرہ انھوں نے ان تمام تکنیکوں کو بروئے کار لایا ۔

کسی بھی خیال واقعات کو موضوع الفاظ اور جملوں میں پرو کر ان واقعات کو سلسلہ وار پیش کرنا بیانیہ ہے اس میں تسلسل اور روانی کے ساتھ موضوع اور مناسب فکر و خیال کی پیشکش بڑی اہمیت رکھتی ہے بیانیہ صحیح معنوں میں کئی واقعات کی ایک داستان ہوتی ہے جو یکے بعد دیگرے علی الترتیب بیان ہوتی ہے تکنیک کو تنوع ممتاز شیریں ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی ٢٠١١ء، ص، ٧٤

انھوں نے اپنے افسانوں میں اس تکنیک کو خوبصورتی سے بیان کیا ہے اگر فائق اور امین میں تکرار ہوتی ہے تو وہ پہلے تو تکرار کی حد تک مختص نہیں اگر سفید ریش اعرابی اور دونوں اونٹ سواروں کا واقعہ ہے تو وہ بھی اپنی جگہ مکمل ہے ان میں سنجیدگی نہیں ہے

ان کے ہاں ہمیں شعور کی رو ملتی ہے اگر تلازمہ خیال کی بات کی جائے تو یہ اصطلاح لاک کے فلسفے سے مستعار ہے لاک نے اس بات پر اصرار کیا ہے کہ کوئی خیال یا کوئی تصور پہلے آپ نے اکہرا نہیں ہوتا بلکہ ایک خیال سے دوسرے خیال اور دوسرے سے تیسرا خیال روشن ہو جاتا ہے اگرچہ ان خیالات میں بے ربطی ہوتی ہے لیکن غور سے دیکھنے پہ ایک تسلسل نظر آتی ہے چونکہ ایک خیال کا کوئی حصہ دوسرے خیال کی طرف انسانی ذہن کو لے کر جاتا ہے اس طرح یہ سلسلہ چلتا جاتا ہے شرم الحرم اور کانا دجال نے اگر دیکھا جائے تو انھوں اس اصطلاح کو کامیابی سے برتا ہے

جب انسانی ذہن حال کے حالات و واقعات سے ماضی کے خیالات کی طرف پلٹ جاتا ہے تو اس کو فلیش بیک کہتے ہیں اردو افسانوی میں اس تکنیک کو بروئے کار لانے کی وجہ وقت کی سرحد کو توڑنا تھا اس طرح اس تکنیک سے ایک کردار بہ یک وقت ماضی اور حال میں سفر کرتا ہوا نظر آتا ہے اور اگر کردار حال سے مستقبل کی طرف سفر کرتا ہوا نظر آئے تو اس کو فلیش فارورڈ کہتے ہیں ان تکنیکوں کی مدد سے افسانہ نگار حال کے واقعات کو کرداروں کے ذریعے ماضی کی یادوں سے وابستہ کرتا ہے یا پھر افسانہ نگار آنے والے مستقبل کے واقعات کی طرف اشارہ یا پیش گوئی کرتا ہے اس طرح ماضی، حال اور مستقبل کے واقعات میں ربط اور تعلق قائم کر کے زبان و مکان کی پابندیوں سے آزادی حاصل کی جاتی ہے انھوں نے اپنے افسانوں میں اس تکنیک کا استعمال اپنے ماضی کے واقعات کو یاد کرنے کے لیے کیا ہے کانا دجال میں مسجد اقصٰی تک کا سفر سورۃ القارعہ کا بیان ان کی طرف اشاروں کا یہی بیان ہے انھوں نے اس تکنیک کو خوبصورتی سے اپنے افسانوں میں استعمال کیا ہے ۔۔

ان تکنیکوں کا جائزہ لینے کے بعد یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ انھوں نے ہر نئی تکنیک کو اپنے افسانوں میں کامیابی کے ساتھ پیش کیا ہے انتظار حسین کے اسلوب کی خوبی یہ ہے کہ وہ جس عہد اور جس زمانے کے واقعات کو بیان کرتے ہیں ان کو اسی ماحول اور اسی طرز تحریر میں پیش کرتے ہیں وہ اپنے قوت بیان سے اس عمل کو جتنی خوش اسلوبی سے انجام دیتے ہیں زبان و بیان کا انداز بالکل فطری معلوم ہوتا ۔

مختصراً ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ انتظار حسین ایک ایسے ادیب ہیں جنھوں نے ادب کی جس صنف پر بھی قلم اٹھایا اس پر اپنی شخصیت کے گہرے نقوش ثبت کیے اور اپنی تخلیقی مہارت اور فنی انفرادیت سے اسے فنی سمت اور رفتار عطاء کی ہے

 

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter