طاؤس چمن کی مینا کا ثقافتی مطالعہ

احمد فاروق بی ایس اردو/ یونیورسٹی آف اوکاڑہ

18 جنوری, 2023

ثقافت میں انسان کا رہن سہن اور رسوم و رواج شامل ہیں ۔ ثقافت کے معنوں میں استعمال ہونے والا دوسر الفظ تہذیب ہے ۔تہذیب بذات خود ایک عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مادہ مہذب ہے۔ معنوی اعتبار سے درخت کاٹنا، تراشنا اور اصلاح کرنا ہے ۔ ثقافت کے حوالے سے ڈاکٹر سید عبداللہ لکھتے ہیں:

یہ کلچر کا سب سے معروف و متبادل ہے ۔ عربی کا یہ لفظ ث ق ف مادے سے ہے۔ اس کے لغوی معنی ہیں ۔ پالینا سیدھا کرنا وغیرہ۔ [1]

تہذیب اور ثقافت دونوں میں معنوی اعتبار سے مماثلت پائی جاتی ہے لہذان دونوں الفاظ کو ایک ہی سانچے میں ڈھال کر پیش کرنے کی مثالیں بھی ملتی ہیں ۔ تہذیب اور ثقافت کے درمیان گرہ کا کام کرنے والا لفظ ” کلچر ہے۔ کلچر انگریزی زبان کا لفظ ہے جس کے لفظی معانی کسی گروہ کے عادات و اخلاق اور عقائد ہیں کلچر سے مراد کسی علاقے میں رہنے والے لوگوں کی تہذیب بھی ہوتی ہے۔ کسی بھی فن پارے کا کلچر کے لحاظ سے مطالعہ اس فن پارے میں موجود عہد کا بیان، اس عہد میں رہنے والے لوگوں کی تہذیبی بازگشت ہوگی ۔ یہی ادب کا ثقافتی مطالعہ ہوگا ۔ ڈاکٹر جمیل جالبی نے اپنی کتاب کلچر کا مسئلہ“ میں لکھتے ہیں:

میں نے لفظ ثقافت اور تہذیب کو یکجا کر کے ان کے لیے لفظ کلچر استعمال کیا ہے۔ جس میں تہذیب اور ثقافت دونوں کے مفاہیم شامل ہیں ۔ اس کے معافی یہ ہوئے کہ کلچر ایک ایسا لفظ ہے جو ساری سرگرمیوں کو خواہ وہ پہنی ہوں یا مساوی ، خارجی ہوں یا داخلی احاطہ کر لیتا ہے ۔ [۲]

نیر مسعود ۱۶ نومبر ۱۹۳۶ء کولکھنو میں مشہو را ردو ناقد و محقق سید مسعود حسن رضوی کے گھر پیدا ہوئے ۔ آپ کی تعلیم وتربیت میں ان کے والد کا مرکزی کردار رہا۔ آپ نے ابتدائی تعلیم لکھنو سے حاصل کی لکھنو یونیورسٹی سے ۱۹۷۱ء میں فارسی میں ایم اے کا امتحان پاس کیا اور الہ آبا دیونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔ آپ کو اردو اور فاری زبانوں پر دسترس تھی۔ اردو ادب میں آپ بطورا افسانہ نگار، مترجم اور محقق جانے جاتے ہیں ۔ ۲۴ جولائی ۲۰۱۷ء کوطویل علالت کے بعد آپ اس دنیائے فانی سے چل بسے اور آپ حیدر گنج میں مدفن ہیں۔ آپ کی تصانیف میں تحقیقی کتب ، مر تبہ کتب، سوانحی کتب اور افسانوی مجموعے شامل ہیں۔ تحقیقی کتب میں "رجب علی بیگ سرور حیات اور کارنا ہے ، تعبیر غالب” ، "مرثیہ خوانی کافن” اور”منتخب مضامین“ شامل ہیں۔ تحقیق کے ساتھ ساتھ آپ نے تدوین کے عمل میں بھی طبع آزمائی کی۔ آپ کی مرتب کردہ کتب میں ”سخن اشرف“ ، ”دیوان واجد علی شاہ“ ، ”انتخاب بستان حکمت“ اور ”بزم انیس“ شامل ہیں ۔ آپ ادب میں ایک سوانح نگار کی حیثیت سے بھی جانے جاتے ہیں۔ آپ کی تحریر کردہ سوانحی کتب میں ”میر انیس لگا نہ احوال و آثار” ، "شفا الدولہ کی سرگزشت” ، "دولہا صاحب عروج پر“ ، ”ادبستان“ اور” شخصی خاکے“ شامل ہیں ۔ آپ کی ادبی حیثیت میں افسانہ نگاری کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ آپ کے افسانوی مجموعوں میں پہلا مجموعہ "سیمیا ، دوسرا ”عطر کافور“ ، تیسرا ” طاؤس چمن کی مینا ” اور چوتھا اور آخری مجموعہ ” گنجفہ” ہے۔ آپ کو ادبی خدمات کے صلے میں 1959ء میں پدم سری اعزاز برائے تعلیم و ادب، ۲۰۰۱ ء میں سائینہ اکیڈمی کی طرف سے اردو ادب اعزاز اور ۲۰۰۷ء میں سرسوتی سمان سے نوازا گیا ۔

افسانہ طاؤس چمن کی مینا میں واجد علی شاہ کے دور حکومت میں اودھ کے علاقے کی تہذیب و ثقافت کو بیان کیا گیا ہے۔ اس شاہانہ تہذیب کی نگہداشت و حکمرانوں اور عوام الناس کی طرز گفتگو کے بیان کے ساتھ حکمرانوں کی اعلی ظرفی، ان کی لطیف طبعی اور روزمرہ کی معاملات زندگی کی عکاسی بھی کی گئی ہے۔ اس تہذیب کے نقطہ عروج سے زوال تک کا سفر بھی بیان کیا گیا ہے۔ افسانے کا مرکزی کردار کالے خاں اولاد کے ہاتھوں مجبور ہو کر سلطان عالم کے ایجادی قفس میں رکھی گئی پہاڑی میناؤں میں سے ایک مینا چرا لیتا ہے۔ چوری کا راز فاش ہونے پر اسے پکڑ لیا جاتا ہے لیکن سلطان عالم اسے معاف کر دیتے ہیں اور مینا بھی اس کی بیٹی کو بطور تحفہ دے دی جاتی ہے۔ اس عہد میں وزیر اعظم  انگریز ہیلیکن کی خواہشِ تکمیل کے لیے سازش کر کے کالے خاں کو جیل بھجوا دیتا ہے ۔ جب اسے جیل سے رہائی ملتی ہے تو اسے لکھنو کا سارا نقشہ بدلا ہوا دیکھنے کو ملتا ہے۔ سلطان عالم کو کلکتہ میں نظر بند کر دیا جاتا ہے اور اودھ کی سلطنت پر انگریزوں کا قبضہ ہو جاتا ہے۔

”۔۔۔ کچھ دور تو میں اپنی دھن میں نکلا چلا گیا، پھر مجھے سب کچھ بدلابدلا معلوم ہونے لگا۔ شہر عجیب مرونی سی چھائی ہوئی تھی ۔ چوڑے راستوں پر گوروں کے فوجی دستے گشت کر رہے تھے اور میں جس گلی میں مڑتا اس دہانے پر انگریزی فوج کے دوتین سپاہی جمے ہوئے نظر آتے تھے۔ گلیوں کے اندر لوگ ٹولیاں بنائے چپکے چپکے آپس میں باتیں کررہےتھے مجھے گھر پہنچنے کی جلدی تھی اس لیے کہیں رکا نہیں لیکن ہر طرف ایک ہی گفتگو تھی، رکے بغیر بھی مجھے معلوم ہو گیا کہ اودھ کی بادشاہی ختم ہو گئی، سلطان عالم کو تخت سے اتار دیا گیا ہے۔ وہ لکھنؤ چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔ اودھ کی سلطنت انگرویزوں کے ہاتھ میں آگئی ہےاور اس خوشی میں انھوں نے بہت سے قیدیوں کو آزاد کر دیا ہے۔۔۔ “[۳]

اس افسانے میں جن ثقافتی پہلوؤں کو بیان کیا گیا ہے، اس میں امام باڑے کا ذکر اولین درجہ رکھتا ہے ۔ امام باڑے کا تعلق مرثیہ کی روایت سے ہے۔ یعنی جہاں کربلا والوں کا ذکر ہوتا ہے ، ان کی شہادت کا ذکر ہوتا ہے اس مخصوص جگہ کو امام باڑہ کہتے ہیں۔ امام باڑہ کسی بھی تہذیب کا بیانیہ ہوتا ہے۔ ہندوستان میں لکھنو کی تہذیب ایسی تھی کہ جہاں پر امام باڑوں کے رواج تھے۔ لوگ مریے پڑھتے تھے، ماتم داری اور زنجیر زنی کرتے تھے۔ نیر مسعود نے افسانے میں مرکزی کردار کے ذریعے حسین آباد کے امام باڑے کا ذکر کیا ہے اوریہ ان کا ثقافتی بیا نیہ ہے ۔ اس حوالے سے مثال ملا حظہ ہے :

”۔۔۔اور یہ اس دن شروع ہوا تھا جب میری بیوی گیارہ مہینے کی فلک آرا کو چھوڑ کر مرگئی تھی۔ اس سے پہلے میں وقف حسین آبا دمبارک میں نوکر تھا۔ امام باڑے کی روشنیوں کا انتظام میرے ذمے تھا۔ تنخواہ کم تھی لیکن گزر رہو جاتی تھی ۔۔۔ “[۴]

گھروں میں پرندے پالنا، ان کی پرورش کرنا اور کو بیچ کر روزگار کا وسیلہ بنانا اس عہد کی ثقافت میں شامل تھا۔ لکھنو میں لوگ گھروں میں پرندے پالتے تھے۔ متوسط طبقے کے لوگ ان پرندوں کو پال پوس کر انہیں بازار میں فروخت کرتے تھے اور اپنی روزی روٹی کا گزارا کرتے تھے۔ یہی پرندے رکھنے کا شوق بادشاہوں کے ہاں بھی تھا۔ نیر مسعود نے بیان کردہ اس ثقافتی پہلو کوبھی اجاگر کیا ہے۔ اس حوالے سے مثال ملا حظہ ہے:

”۔۔۔گھر صرف رات کو جا تا تھا۔ اس وقت فلک آرا سو چکی ہوتی تھی۔ صبح صبح طوطے میری بیوی کے سکھائے ہوئے بول دہراتے تو مجھے گھر ٹھہر یا مشکل ہو جا تا ۔ آخر ایک دن میں اٹھا اور سارے پرندوں کو بیچ آیا۔۔۔“ [۵]

شاہی پرندوں کی دیکھ بھال کے لیے اعلی قسم کا انتظام کیا جاتا تھا۔ ان کو با قاعدہ تعلیم دی جاتی تھی ۔ پرندوں کی رہائش گاہ کے لیے بڑی سطح پر باغات میں انتظام کیا جاتا تھا۔ شاہی پرندوں کی دیکھ بھال کے لیے شاہی خزانے سے تنخواہ پر ملازم مامور کیے جاتے تھے ۔ افسانے میں اس حوالے سے وضاحتی مثالیں دیکھنے کوملتی ہیں جو اس عہد کی ثقافت کا بیان ہے ۔ مثال ملا حظہ ہے:

”۔۔۔پھر وہ مجھے طاؤس چمن میں واپس لائے ۔ تمہارا کام طاؤس چمن کو آئینے کی طرح رکھنا ہے۔ انہوں نے میرے کاموں کی کچھ تفصیل بتائی۔ آخر میں کہا: آج سے تم سلطان عالم کے ملازم ہوئے۔ انہیں اچھی طرح دیکھ لوکالے خاں ، اصیل پہاڑی مینائیں ہیں، مینائیں نہیں سونے کی چڑیاں ہیں، بادشاہ نے خاص اس قفس کے لیے مہیا کرائی ہیں۔ انہیں شہزادیاں سمجھو۔۔۔ ایک بار انھوں نے زرا دیر تک مینا ؤں کو دیکھا پھر بنی بخش سے پوچھا: ان کی تعلیم شروع کرا دی؟“ عالم پناہ، داروغہ ہاتھ جوڑ کر بولے میر داؤ وروز فجر کے وقت آ کر سکھاتے ہیں۔۔۔ “ [۶]

باغات کی خوبصورتی و فروانی کسی بھی سلطنت کی خوشحالی اور ترقی کی علامت ہے۔ برصغیر میں باغات اور درخت خوبصورتی کی علامت ہیں لکھنؤ کی تہذیب و ثقافت میں بادشاہ وسلاطین کا باغات لگوانا اور ان کی خوبصورتی کا اہتمام کروانا ان کا مشغلہ تھا شجر کاری کا بیان تہذیی بیان ہے۔ نیر مسعود نے اس افسانے میں شجر کاری کے ذریعے باغات کو خوبصورت بنانے کے اس عمل کو بھی بیان کیا ہے ۔ مثال ملا حظہ ہے:

”۔۔۔میں ان درختوں کی چھٹائی دیکھ کر حیران تھا۔ موروں کی ایسی کچی شکلیں بنی تھیں کہ معلوم ہوتا تھا درختوں کو پچھلا کر کسی سانچے میں ڈھال دیا گیا ہے۔ یکمونی کلفیاں اور نوک دار چونچیں تک صاف نظر آ رہی تھیں ۔ سب سے کمال کا وہ مور بنا یا گیا تھا جو گردن پیچھے کی طرف موڑ کر اپنے پروں کو کرید رہا تھا۔ ہر مور پاس لگے ہوئے پہلے تنوں والے دو درختوں کو ملا کر بنایا گیا تھا۔ یہی نئے مور کے پیروں کا کام کر رہے تھے اور ان کی کچھ جڑیں اس طرح زمین پر ابھری ہوئی چھوڑ دی گئی تھیں کہ با لکل مور کے پنجےبن گئے تھے۔۔۔ “ [۷]

لباس کا ذکر کسی بھی تہذیب و ثقافت کے بیان میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ ہر علاقے کے رہنے والے لوگوں کا پہناوا ان کی شہری و دیہاتی فرق کی نمائندگی کرنے کے ساتھ ان کے طبقات کی نمائندگی بھی کرتا ہے ۔ وقت بہاؤ کے ساتھ ساتھ اس پہناوے میں بھی فرق آنے لگتا ہے۔ برصغیر میں لوگ سادہ اور عام لباس پہنا کرتے تھے اور آج تک یہ روایت چلی آرہی ہے ۔ نیر مسعود نے اس افسانے میں لکھنو کی اس عہد کی ثقافت میں دیہاتی لباس کا  بھی ذکر کرتے ہیں۔ اس حوالے سے مثال ملاحظہ ہے:

"۔۔۔ان کے ساتھ ایک آدمی اور تھا۔ کچھ دیہاتی سا معلوم ہوتا تھا لنگی باندھے ،موٹا کرتا پہنے، کمر میں چادر لپٹا ہوا اور سر پر بڑ ا سا صافہ جس کا شملہ اس نے مجھ پر اس طرح لپیٹ لیا تھا کہ صرف آنکھیں اور ناک کا آدھا بانسہ کھلا رہ گیا تھا۔۔۔ “ [۸]

اپنی تمام تر نفسیاتی خواہشات کو پس پشت ڈال زندگی کو اپنے مالک حقیقی کے تابع کر دینا یا اس پاک ذات کی خاطر اپنی ذات کی نفی کر دینا تصوف ہے۔ بزرگان دین وہ پاک ہستیاں ہیں کہ جنہوں قرب الہی حاصل کرنے کی خاطر دن رات کی محنت کی اور ایک خاص مقام حاصل کیا ۔ ان کے مزارات آج بھی ان کے خاص مقام اور ان کی قرب الہی کو حاصل کرنے کی محنت کی نشاندہی کرتے ہیں۔ برصغیر کے کسی بھی علاقے کی تہذیب و ثقافت کو بیان کیا جائے تو اس میں مزارات کا ذکر ضروری سمجھا جاتا ہے۔ مزارات وہ مقدس مقامات ہیں جہاں بزرگان دین مدفن ہیں ۔ لوگ ان کے مزارات پر حاضری دیتے ہیں اور ان کے لیے فاتحہ خوانی کرتے ہیں۔ ان مزارات پر سالانہ اجتماع ہونا، قوالیاں ہونا اور میلے ٹھیلوں کی روایت صدیوں سے چلی آرہی ہے۔ نیر مسعود نے اس افسانے میں بیان کردہ اس ثقافتی پہلو کو بھی پیش کیا ہے جس کی لکھنوی تہذیب و ثقافت میں نمایاں حیثیت ہے۔ اس حوالے سے مثال ملاحظہ ہے:

”۔۔۔ان کا گھر بتانے والا کوئی نہ ملا لیکن معلوم ہوا کہ وہ جمعرات کے جمعرات شاہ مینا صاحب کے مزار پر حاضری دیتے ہیں ۔۔۔ آدمیوں کی ریل پیل تھی کسی طرح مزار تک پہنچا۔ وہاں قوالی ہو رہی تھی۔ منشی صاحب ہی کا کلام گایا جارہا تھا۔۔۔ “ [۹]

نیر مسعود نے اس افسانے میں لکھنوی ماحول اور لکھنوی معاشرت کی عکاسی کی ہے۔ وہ ہر لحاظ سے ثقافت کو بیان کرنے کے عادی نظر آتے ہیں ۔ انھوں نے اس افسانے میں جو لکھنوی تہذیب و ثقافت کی پیتیاں بکھیری ہیں ، ان سے لکھنؤ کے امام باڑوں، گھروں میں پرندے پالنے، باغات کی شجر کاری کے ذریعے کی جانے والی خوبصورتی ، لباس اور مزارات پر ہونے والے اجتماع وغیرہ جیسے ثقافتی پہلوؤں کی جابجا خوشبو قاری کو معطر کرتی ہے۔ بلا شعبه نیر مسعودار دو ادب کے ممتاز افسانہ نگارہیں۔

 

حوالہ جات:

۱۔ ڈاکٹرسید عبداللہ مقدمہ، کلچر کا مسئلہ (لاہور: علی پرنٹنگ پریس ہسپتال  روڈ ، ۱۹۷۷ء، اشاعت اول )

۲۔ ڈاکٹر جمیل جالبی، پاکستانی کلچر ( کراچی: مشتاق بک ڈپو ۱۹۶۴ء ) ص ۴۸

۳۔ نیر مسعود، افسانہ طاؤس چمن کی مبینا ( د بلی : عرشیہ پبلی کیشنز ، ۲۰۱۳ء) ص ۲۰۴

۴۔ایضا ص ۱۵۲

۵- ایضا ص ۱۵۳

۶ – ایضا ص ۱۵۶

۷ ۔ ایضا ص ۱۹۶

۹ ۔ ایضا ء ص ۱۸۶

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter