ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے. یوسف خان (دلیپ کمار) صاحب: کچھ یادیں کچھ باتیں

ڈاکٹر عبد اللہ فیصل

10 جولائی, 2021

سماجی، سیاسی،تعلیمی اور فلاحی کاموں میں سرگرم ہندوستانی فلمی دنیا کے سب سے قدآور فن کاریوسف خان ( دلیپ کمار) اب ہمارے بیچ نہیں رہے.انا للہ وانا الیہ راجعون

یوسف خان صاحب نے اپنی سوانح عمری میں اپنی آپ بیتی بیان کرتے ہوئے پہلے وزیراعظم جواہر لعل نہروکے ساتھ ساتھ لال بہادر شاستری، اندراگاندھی،اٹل بہاری واجپئی،این سی پی رہنماء شرد پوار اور شیوسینا سربراہ بال ٹھاکرے اور ان کے اہل خانہ کے درمیان تعلقات کے ساتھ ہی اپنی سیاسی تعلیمی اور فلاحی سرگرمیوں کو ‘نیاکردار نیک مقصد کی تئیں ‘کے عنوان سے پیش کیا ہے جبکہ کتاب کواپنے والدین سے منسوب کیا ہے، اماں اور آغا جی(والد) کی یاد میں اور یہ شعر تحریر ہے،
سکون دِل کے لیے کچھ تو اہتمام کروں
ذرا نظر جو ملے پھر انھیں سلام کروں
مجھے توہوش نہیں آپ مشورہ دیجیے
کہاں سے چھیڑوں فسانہ کہاں تمام کروں
انہوں نے نیاکردارنیک مقصد کے لیے ، کے عنوان سے سیاسی سرگرمیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہاکہ” مجھے اس بات کا جواب دینے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوئی کہ سیاست میں میری شمولیت انتخابی مہم تک ہی محدود رہی تھی اور ان میں، میں حصہ لیتارہونگا اورمیں پارلیمنٹ کے کسی بھی ایوان میں نشست پر براجمان ہونے کے بارے میں نہیں سوچتا ہوں۔”لیکن پھر راجیہ سبھا میں کانگریس نے نامزد کردیاتھا.دلیپ کمار کے مطابق سیاست میں کئی بار قریب آیا، پہلی بار 1962 میں لوک سبھا امیدوار کے لئے انتخابی مہم میں حصہ لیا تھا، دراصل جب وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے ذاتی طور پر دہلی سے فون پر رابطہ کیااور انڈین نیشنل کانگریس (آئی این سی) کے دفتر جانے کے لئے وقت نکالنے کی گزارش کی تاکہ ممبئی شمالی لوک سبھا حلقہ سے کانگریس امیدوار وی کے کرشنا مینن سے ملاقات کرنے کی درخواست کی تاکہ ان کی انتخابی مہم میں حصہ لیں۔ کیونکہ ان کے مدمقابل اور کوئی نہیں بلکہ اچاریہ جے بی کرپلانی ،جوکہ کانگریس کے سابق صدر ہیں اورکسان مزدور پرجا پارٹی (کے ایم پی پی) کے امیدوار ہیں۔دلیپ کمار نے کرشنا مینن کے بارے میں لکھا ہے کہ مینن نے کشمیر کے قضیہ پر ہندوستان کا موقف پیش کرنے کے لیے جنوری 1957 میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مسلسل آٹھ گھنٹے خطاب کیا تھا۔اس لیے ان کے لیے مہم میں حصہ لینا لازمی تھا۔ نہروجی نے مینن سے کہاتھا کہ دلیپ کمار اردو،ہندی،انگریزی کے ساتھ ساتھ مراٹھی بھی فراٹے سے بولتے ہیں۔

ملک کے قدآور لیڈرااوراین سی پی رہنماء شرد پوار کیساتھ اپنے رشتوں کو دلیپ کمار نے 1967 سے بتایا تھا جب وہ ممبئی سے تقریباً 250 کلومیٹر دور بارامتی ان کی انتخابی مہم میں حصہ لینے گئے تھے۔ شرد پوار جی نے یوسف خان صاحب کو 1980 ء میں ممبئی کا شریف مقرر کیا تھا، واضح رہے کہ شرد پوار 1978 میں کانگریس سے بغاوت کے بعد مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ بن گئے تھے۔اور ریاست میں کافی مقبول و مضبوط ہوئے تھے.

دلیپ کماراپنے پاکستان دورے کا بھی ذکر کیا ہے اور 1935 میں ممبئی ہجرت کے بعد زندگی میں دو مرتبہ پاکستان گئے،پہلی مرتبہ اپریل 1988 آبائی وطن پشاور کے قصہ خوانی بازار بھی گئے اور کراچی ولاہور بھی اور دوسری بار 1998 میں گئے تھے،دراصل انہیں امتیاز پاکستان دینے کا اعلان کیاگیااور اس درمیان انہوں نے عمران خان کے کنیسر اسپتال (شوکت خانم) کابھی دورہ کیا. سرحد پر کشیدگی کی وجہ سے شیوسینا سربراہ بال ٹھاکرے نے سخت اعتراض کیا،اورامتیاز پاکستان نہ۔لینے کے لیے کہا۔ان کے خلاف احتجاج ہوا. دلیپ کمار نے اُس وقت کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی سے نئی دہلی پہنچ کرملاقات کی،اس موقع پر واجپئی نے دلیپ کمار سے نہ صرف ملاقات کی بلکہ کہاکہ "آپ ایک فن کار ہیں اور فن کار کے لیے کسی بھی طرح کی سیاسی یا جغرافیائی پابندی نہیں ہونا چاہیئے،آپ نے ہمیشہ انسانی حقوق اور انسانیت کی بقا کے لیے کام کیا ہے۔آپ جیسے فن کاروں کی وجہ سے دونوں ملکوں کے باہمی رشتہ استوار ہوں گے۔”
آنجہانی شیوسینا سربراہ بال ٹھاکرے کے بارے میں دلیپ صاحب کا کہناہے کہ ” میرا خیال ہے کہ "وہ ضرور ‘ٹائیگر’ کے طور پر مشہور تھے ،لیکن شیوسینا سربراہ کومیں ایک ‘شیر ببر ‘ سمجھتا ہوں،جوکہ اپنی قیادت اور سیاسی قد کے سبب اپنے پرستاروں کوزیادہ متاثر کرتا ہے ۔ہم دونوں ایک دوسرے کو 1966 کے پہلے سے جانتے تھے ،جب شیوسینا بھی نہیں بنی تھی۔ہم دونوں ایک دوسرے کے پیشے یعنی وہ میرے فن کی اور میں ان کے کارٹون کو پسند اور قدرکرتا تھا۔
دلیپ کمار اور ٹھاکرے کی مقبولیت اور شہرت کے پیش نظر مشہور اخبار شامنامہ مڈڈے نے دوتین دہائی قبل ایک شادی کی تقریب میں دونوں کی ملاقات کی تصویرکو صفحہ اول پرشائع کیا ور "دوستاروں کا ملن …” کا کیپشن لگایا تھا۔جس کو کافی پسند۔کیا گیا تھا۔

ممبئی۔فسادات کے درمیان دونوں میں تعلقات میں شگاف پڑ گئے تھے۔
یوسف خان صاحب نے مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ ادھوٹھاکرےکو ایک باصلاحت،باادب اور مہذب انسان بتاتے ہوئے ان کے بہتر مستقبل کی پیش گوئی بھی کی تھی.
انہوں نے سنجے دت کو جیل سے رہائی دلانے میں اداکار سنیل دت کی مدد بھی ،دلیپ کمار خود اس معاملے میں پیش پیش رہے تھے۔کئی بار مظاہرے بھی کیے گئے۔

ممبئی کے ہولناک فسادات کے دوران اور ریلیف کے کاموں میں انکا اہم حصہ رہا ،انجمن اسلام سے تعلیم حاصل کرنے والے یوسف خان صاحب نے تعلیمی اور فلاحی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے ۔شولاپور کے قریب لڑکیوں کا اسکول اور مدرسہ ان کی والدہ۔کے نام سے قائم ہوا اور اس کی دیکھ بھال ان کے بھائی احسن خان اور اسلم خان کرتے تھے۔
تقریبا کم وبیش سوسال کی عمر پانے والے یوسف خان کئ دہائیوں تک فلم انڈسٹری کے ساتھ ساتھ سیاسی، سماجی، ادبی، تعلیمی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینےوالے دلیپ کمار صاحب ایک انجمن تھے.ہندستانی قوم نے اپنے محبوب اسٹار کو شایان شان خراج عقیدت پیش کیا جہاں ایک طرف ان کی رہائش گاہ پر کورونا کی پابندیوں کے با وجود سوگواروں کا اژدہام تھا اور فلم اسٹاروں سے لیکر چوٹی کے سیاست دانوں تک سب کی حاضری کا سلسلہ دن بھر جاری رہا صدر جمہوریہ وزیر اعظم ریاستی وزراء اعلیٰ تک سب نے ان کے انتقال پر تعزیتی پیغامات جاری کئیے ہر طبقے کے فنکاروں نے ان کا سوگ منایا ہر فلم انڈسٹری میں ان کی موت پر تعزیت پیش کی. دلیپ کمار کی شخصیت ہی اتنی بلند وبالا تھی کہ وہ اداکری کا انسٹی ٹیوٹ کہے جاتے تھے پوری بالی ووڈ انڈسٹری میں بیک زبان کہا ہم نے دلیپ صاحب سے بہت کچھ سیکھا ہے.
دلیپ کمار کی فن وشخصیت ہر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے.راقم الحروف سے دلیپ کمار صاحب سے ذاتی مراسم تھے کئ مرتبہ ان کے گھر جانے اور مختلف پروگراموں میں شرکت کا موقع بھی ملا. کئ پروگرام ایسے تھے جس میں دلیپ کمار صاحب نے شرکت کی اور ہم نے نظامت کے فرائض انجام دئے. ان کے بھائیوں (احسن خان. اسلم خان) سے بھی ہمارے ذاتی مراسم ریے ہیں . وہ مطالعہ کے بہت شوقین تھے ان کو ہم نے دنی وادبی کتابیں بھی فراہم کی تھی. یادوں کا ایک طویل سلسلہ ہے. چند ایک کا حوالہ دیکر اپنی بات مکمل کرتا ہوں میں کارپوریٹر (خان محمد بستی والا رح) نے ایک پروگرام باندرہ بھارت نگر میں 1992 میں منعقد کیا تھا.(جس کے انتظام وانصرام کی بھی ذمہ داری ہم.بچوں کو دی تھی سونا پور بھانڈو پ کے کئ لوگ گئے تھے ) جس میں آنجہانی سنیل دت. غلام نبی آزاد مرکزی وزیر. نعیم خان مئیر تھانہ اور دیگر اہم شخصیات نے شرکت کی تھی. اس کےعلاو شہنشاہ جذبات کمار صاحب بھی موجود تھے انہوں نے شاندار تقریر کی اورلوگوں کو محظوظ کیا.پہلی بار یوسف خان صاحب کو دیکھنے سننے اور ملنے کا اتفاق ہوا.
1999 میں ہم نے محمد مقیم (سابق ایم. پی سدھارتھ نگر) کے انتخابی مہم کے جلسے (منعقدہ ماتا پرساد جیسوال گراؤنڈ اٹوابازار) میں ان کےساتھ اسٹیج شئیر کیا اور اس جلسے کی نظامت بھی کی خان صاحب کے ساتھ جانی واکر. عمران قدوائ بھی تھے.
یوسف خان صاحب نے اتحاد کے موضوع پرتقریر کی قرآن کی آیت واعتمصوا بحبل اللہ .. کا حوالہ دیا اور کہا کہ آپ کےووٹ منتشر نہ ہونے پاءے. سامعین میں کئ ممتاز علماء کرام سیاسی لیڈران بھی شریک تھے.(مفسر قرآن ومجاہد آزادی مولانا عبد القیوم رحمانی کانگریس کے پرانے کارکن نے بھی شرکت کی تین دن بعد ڈومریا گنج میں ریلی تھی اور جلسہ تھا سونیا گاندھی آنے والی تھیں لیکن کسی وجہ سے ان آنا ملتوی ہوگیا. محسنہ قدوائ آئیں تھیں رحمانی صاحب نے اس ہروگرام سیاست کے موضوع پر زبردست خطاب فرمایا تھا) مولانا زین العابدین صاحب اتحاد ملت اٹوا بازار نے پروگارم کے بعد جب شام میں قیام گاہ پر آیا تو مجھ سے یوسف خان کے بارے میں تفصیلی بات چیت کی، الیکشن مہم میں میرا قیام اتحاد ملت میں تھا.مقیم صاحب سے میں نے کہا تھا کہ میں اتحاد ملت میں ہی ٹھروں گا وہاں علمی ماحول ہے اس لئے مناسب رہے گا. دن بھر الیکشنی مہم میں رہتا تھا رات میں قیام کرتا تھا. اس جلسے کے چشم دید لوگ آج بھی موجود ہیں اور اس جسلے کی یادیں ان کے ذہن ودماغ میں آج بھی تازہ ہیں .

یوسف خان (دلیپ کمار) صاحب سے تیسری ملاقات نہرو سینٹر کے مشاعرے میں ہوئ اور
ان کو رسالہ المصباح پیش کیا میں نے کہا کہ سر اس کو ضرور پڑھئےگا جس کو انہوں نےشوق سے قبول کیا اور کہا کی مجھے اردو سے عشق ہے میں اس کو ضرور پڑھوں گا. دوستوں کے ساتھ (حاجی عبد السبحان بکا ٹریڈرس سونا ہور بھانڈوپ، اور زید صابر شاعر) وغیرہ بھی تھے
دلیپ صاحب نے فلمی دنیا کےعلاوہ بہت سے علمی ادبی سماجی ورفاہی پروگراموں بھی اپنی موجو دگی سے رونق بخشی اور مجلس کو تاریخی اور یاد گار بنا دیا.

کانگریس کے سرکردہ لیڈر اورسابق وزیر عارف نسیم خان صاحب نے نراءن نگر میں 1996 میں ایک پروگرام منعقد کیا یوسف خان صاحب چیف گیسٹ تھے اس پروگرام میں راقم الحروف نے بھی تقریر کی وہاں بھی یوسف خان صاحب سے ملاقات ہوئ.

یوسف خان صاحب راسخ العقیدہ مسلمان بھی تھے ان کے گھر میں بھی نماز کا اہتما م بھی ہوتا تھا اور انہوں نے حج بیت اللہ کی سعادت بھی حاصل کی ممبئ کی جس شخصیت کو سفر حج میں جانے کا سعادت حاصل ہوئ معروف بزنس مین اورسماجی کارکن آصف فارقی صاحب ہیں.
یوسف خان سے دیرینہ گھریومراسم ہیں سائرہ بانو بھی ان کو بیٹے کی طرح مانتی ہیں .
یوسف خان صاحب آخری پندرہ سولہ سالوں میں وہ بیمار رہے لوگوں سے ملنا جلنا تقریبا بند ہوگیا اکثر ان کی بیماری اور اسپتال جانے کی خبریں آتیں پھر وہ صحت یاب ہوکر گھر آجاتے. ایسا لگا تھا کی اس مرتبہ بھی وہ صحت یا ب ہوکر گھر واپس آجائیں گے لیکن ایسا نہیں ہوسکا صبح سات7 بجے سات 7 جولائ 2021 بروز بدھ ہی خبر آگئ کہ دلیپ صاحب اب اس دنیا میں نہیں ہیں.
خبر ملتے ہی میں ان کے گھر باندرہ میں پہنوچ گیا تھا. آخری ملاقات جسد خاکی کے دیدار اور جنازے کو کندھا دینے کی شکل میں ہوئ.یوسف خان کی تدفین سنتا کروز کے قبرستان میں ہوئ.
مضمون نگار: المصباح کے ایڈیٹر ہیں

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter