شاہ عبد العزیز بن عبدالرحمن آل سعود ایک تاریخ ساز شخصیت

عطاء الرحمن المدنی/ المرکز الاسلامی کاٹھمنڈو

12 جنوری, 2023
مملکت سعودی عرب   کابانی شاہ عبد کا العزیز رحمہ اللہ 19ذی الحجہ سن 1293ھ مطابق1876ء کو ریاض میں پیدا ہوئے اپنے والد صاحب کی سرپرستی میں نشونما پائی، انہوں نے شیخ قاضی عبد اللہ الخریجی کواپنے بیٹے کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری سپرد کردی، شاہ عبد العزیز نے شیخ الخریجی سے لکھنا پڑھنا سیکھا۔ قرآن مجید کی بعض سورتیں ان کے ذریعے حفظ کیں اور پورا قرآن پاک شیخ محمد بن مصیبی کے ہاتھوں حفظ کیا۔ اس کے بعد شیخ عبداللہ بن عبد اللطیف آل الشیخ سے اصول فقہ اور توحید کے اسباق سیکھے۔ آپ بچپن ہی سے نڈر اور بہادر تھے گھڑ سواری کا خوب شوق رکھتے تھے۔
شاہ عبد العزیز کی چاچی شہزادی جوھرۃ بنت فیصل آل سعود بہت بڑی عالمہ فاضلہ خاتون تھیں، شاہ عبد العزیز ان سے بہت عقیدت رکھتے تھے، آپ فرماتے ہیں: ” وہ مجھے اپنے پچوں سے زیادہ لاڈ و پیار کرتیں جب میں کمسن تھا تو وہ مجھے اپنی گود میں لیکر کہتیں کے تم بڑے ہوکر ضرور کوئی بڑا کام انجام دو گے اور یہ بھی کہتیں کہ آل سعود کی عظمت رفتہ کو ضرور تم دوبارہ بحال کروگے ” آپ اپنی اسی چچی کی ترغیب اور مشورے پر اپنے خاندان کی کھوئی ہوئی حکومت واپس لینے کی جدوجہد شروع کردی۔ چنانچہ ماہ دسمبر 1901ء میں شاہ عبد العزیز اپنے چالیس ساتھیوں کے ہمراہ کویت سے روانہ ہوئے اور جنوری 1902ء میں ریاض پہنچے، 15 جنوری کو انہوں نے ریاض پر حملہ کردیا، اپنی بہترین جنگی حکمتِ عملی کے باعث انہوں نے انتہائی ڈرامائی اندازمیں  ریاض کو فتح کرلیا اس طرح شہر ریاض ان کی حکمرانی میں آگیا۔
15جون 1904ء کو شاہ عبد العزیز کی فوج کو ابن رشید اور ترک سلطنت کی مشترکہ فوج کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہونا پڑا، مگر انہوں نے ہمت نہ ہاری اور گوریلا جنگ شروع کر دی، صرف دو برس کے اندر  وہ اس قابل ہوگئے کہ اپنی سلطنت کا بدلہ لے سکیں۔ ترک فوج کی مدد سے آل رشید مختصر عرصہ کے لئے ہی نجد میں اپنی حکمرانی قائم رکھ سکے، ادھر شاہ عبد العزیز اپنی حکمرانی کی حدیں وسیع کرنے کے لئے ایک طرف سفارتی مذاکرات کی راہ اپنائی تو دوسری جانب گوریلہ کاروائیوں کا سلسلہ تیز کر دیا۔ نتیجتا 1906ء میں آل رشید کے انتقال پر ترک فوج کو نجد سے واپس جانا پڑا اور شاہ عبد العزیز کو نجد پر مکمل کنٹرول حاصل ہوگیا۔
شاہ عبد العزیز جامع اخلاق حمیدہ کا حامل:  شجاعت و بہادری ان کی پہچان تھی حکمت وفراست ان کی چال، رحم و کرم اور عفو درگزر کے معلم تھے تواضع و انکساری  اور ضعیفوں کا ساتھ دینا ان کا مرغوب عمل تھا۔ بطور نمونہ ان کے چند اخلاقی پہلوؤں کو ضبط تحریر لانے کی کوشش کر رہا ہوں۔
1-   شاہ عبد العزیز کے والد محترم کی وفات کے بعد قاضی حضرات میں سے ایک قاضی شاہ عبد العزیز کے پاس نماز فجر کے بعد تشریف لائے اور کہا کہ آپ کے والد کے ذمہ میرے سو فرانسیسی ریال بطور قرض باقی ہیں۔ شاہ عبد العزیز نے ان سے کہا: کیا تمہارے پاس گواہ ہیں؟ انہوں نے کہا: میرا گواہ اللہ ہے۔ شاہ عبد العزیز نے کہا: جب تک کوئی بات کو ثابت کرنے والا نہ ہو میں کچھ نہیں کر سکتا، تو اس شخص نے جواب میں کہا: اب میرے اور تمہارے درمیان اللہ کی شریعت ہے۔ شاہ عبد العزیز نے فرمایا تم نے سچ کہا۔ پس دونوں مسجد سے نکل کر شیخ سعد بن عتیق (ت 1349ھ) کے گھر کی طرف روانہ ہوۓ، شیخ سعد بن عتیق اپنے وقت کے بہت بڑے قاضی تھے۔ شاہ عبد العزیز نے ان کے دروازے پر دستک دی، شیخ صاحب نے دستک سنی، دروازہ کھولا تو شاہ عبد العزیز اور ایک اجنبی شخص کو پایا۔ قاضی صاحب نے شاہ عبد العزیز سے پوچھا میرے گھر آپ مہمان بن کر آۓ ہیں یا فریق مقدمہ بن کر؟  شاہ نے جواب دیا کہ فریق مقدمہ بن کر۔ شیخ سعد نے کہا اچھا اگر یہ بات ہے تو پھر تم دونوں زمین پر بیٹھ جاؤ، پس دونوں حکم کے مطابق فرش پر بیٹھ گئے اور شیخ سعد دروازہ کی چوکھٹ پر بیٹھ گئے اور پھر دونوں کے درمیان فیصلہ کردیا جس سے دعویدار بخوشی رخصت ہوا، اس کے بعد شیخ سعد شاہ عبد العزیز کی طرف متوجہ ہوۓ اور کہا: اے عبد العزیز! اب تم میرے مہمان ہو پس ان کو اپنی مجلس میں شریک کیا اور عربی قہوے سے ان کی تواضع کی۔
رسالۃ المدینہ شمارہ 5308 مؤرخہ 8-11-1401ھ  یہ قصہ  بہت مشہور ہے  سعودی عرب میں لوگ اکثر اپنی مجلسوں میں روایت کرتے رہتے ہیں۔
2-  شیخ عبد اللہ بن محمد الحسینی بیان کرتے ہیں:  کہ ایک مرتبہ نجد کے دیہی علاقہ سے ایک شخص حکومت کے خزانے  سے مالی تعاون حاصل کرنے کی غرض سے شاہ عبد العزیز سے ملنے ریاض آۓ اور شاہ عبد العزیز سے ملے بغیر اس کا کام بھی نہیں ہوسکتا تھا، جن لوگوں کو شاہ سے ملنا ہوتا وہ عشاء سے پہلے آپ سے ملاقات کرلیتےکیونکہ آپ اپنے معمول کے مطابق عشاء کی نماز پڑھنے کے بعد جلد ہی سوجاتے تھے۔ چونکہ وہ شخص آپ سے عشاء سے پہلے نہ مل سکے اب وہ پریشان ہوگئے کہ کیا جائے! بعض درباریوں نے اسے مشورہ دیاکہ آپ شاہی مہمان خانہ میں رات گزاریں  اور صبح نماز فجر کے بعد شاہ عبد العزیز سے ملاقات کرلیں پس وہ آدمی وہیں سو گئے۔  وہ نیند کے عالم میں تھا کہ رات کی آخری پہر  میں قصر شاہی میں کسی کی نماز پڑھنے کی آواز نے اسے بیدار کردیا، وہ فکر مند ہوا کہ اتنی رات میں  کون نماز پڑھ رہا ہے؟ چنانچہ وہ کھڑکی سے محل میں جھانکا تو نماز پڑھنے والا کوئی اور نہیں بلکہ وہ شاہ عبد العزیز تھے جو رو رو کر بارگاہ الہی میں دعا کررہے تھے: ” اللہم ارزقنا” اے اللہ ہمیں رزق عطا فرما، اے اللہ! ہمیں تو نواز دے شاہ عبد العزیز کی یہ کیفیت دیکھ کر وہ شخص گھبرایا اور غمگین ہوا کہ جس سے میں امیدیں وابستہ کر تے ہوۓ رات یہاں گزار رہا ہوں وہ تو خود بڑا محتاج ہے وہ مجھے کیا دے گا؟ یہ سوچ کر وہ شخص نماز فجر ادا کرنے کے بعد واپسی کا پروگرام بنالیا، نماز فجر کے بعد شاہ عبد العزیز سے ملے بغیر وہ اپنے گاؤں کے لئے روانہ ہوگیا۔ نماز کے بعد شاہ عبد العزیز نے اس شخص کے بارے میں دریافت کیا تو لوگوں نے بتایاکہ وہ نماز فجر ادا کرنے فوراً بعد اپنے گاؤں کے لئے روانہ ہو چکا، شاہ عبد العزیز نے اپنے دو گھڑ سواروں کو اس کے پیچھے دوڑایا کہ اسے جلد میرے پاس واپس لاؤ،  دونوں گھڑ سوار اپنے گھوڑوں کو تیز دوڑاتے ہوۓ ریاض سے باہر اسے پا لیے اور شاہ کا فرمان سنا کر اسے واپس لاۓ، شاہ عبد العزیز نے اس سے پوچھا کہ تم مجھ سے ملے بغیر کیوں اپنے گھر کے لئے روانہ ہوگئے؟ اس شخص نے جواب دیا کہ میرے اوپر بہت قرض ہو چکا ہے جس کی ادائیگی کے لئے مالی تعاون حاصل کرنے کی غرض سے آپ کے پاس آیا تھا لیکن میری ہی طرح آپ بھی  مجبور ہیں اس لئے آپ سے مانگنا میں نے مناسب نہیں سمجھا، کیونکہ رات کو میں نے دیکھا کہ آپ خود اپنی پریشانیوں اور مجبوریوں کو اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔  اس لئے میں چپکے سے روانہ ہوگیا، شاہ عبد العزیز اس آدمی کا جواب سن کر بہت ہنسے اور فرمایا: کہ ہم اللہ تعالیٰ سے مانگتے ہیں اور اللہ ہمیں عطا فرماتا ہے پھر ہم لوگوں کو دیتے ہیں، پھر شاہ حکم صادر فرمایا کہ اسے مکمل رقم دی جائے جس سے اس کا قرض ادا ہوجائے، اور مختلف قسم کے غلے اور اناج اس  کے اونٹ پر رکھ دیا جائے، شاہ کے حکم کی فورا تعمیل کی گئی اور وہ شخص خوشی خوشی اپنے گاؤں کے لئے روانہ
 3- "اللہم افتح لہ خزائن الأرض”
 یہ دل کی گہرائی سے نکلی ہوئی دعا ہے جو ایک لاچار نابینا خاتون نے شاہ عبد العزیز کے حق میں کی تھی۔ اس واقعہ کی اجمالی تفصیل اس طرح ہے کہ ایک دن شاہ عبد العزیز اپنے معمول کے مطابق  رعایا کی خبر گیری کے لئے بغیر کسی باڈی گارڈ کے بازار میں گشت کے لئے نکلےکہ ان کا گزر بازار میں ایسی جگہ سے ہوا جہاں ایک نابینا خاتون اپنے تین بچوں کے ساتھ بیٹھی پنیر بیچ رہی تھی اس کی حالت زار پر ترس کھاکر شاہ عبد العزیز اپنی جیب سے نقد رقم نکال کر اس عورت کے ہاتھ میں تھمادیئے اور اپنے بارےمیں کچھ نہیں بتاۓ، وہ خاتون بہت خوش ہوکر اپنے دونوں ہاتھوں کو آسمان کی طرف اٹھاکر اللہ تعالیٰ سے دعا کی:” اللہم افتح لہ خزائن الأرض ”  اے اللہ! اس کے لئے زمین کے خزانے کھول دے۔ شاہ عبد العزیز وہاں سے لوٹ گئے اور انہیں یقین تھا  اس عورت کی دعا اللہ تعالیٰ جلد ہی قبول فرماۓگا۔  اس وقت سعودی عرب میں دنیا بھر کی مختلف کمپنیاں پٹرول کے کنویں کی تلاش میں سرگرم عمل تھیں، اسی دوران یہ خوش خبری دی گئی کہ دمام میں کنواں نمبر 1 کا انکشاف ہوچکا ہے شاہ عبد العزیز یہ خبر سنتے اللہ کا شکر بجالاتے ہوۓ فرمائے: "الحمد للہ قبلت دعوۃ أم الأطفال” اللہ کا شکر ہے اس نے بچوں والی خاتون کی دعا قبول کر لی ہے۔ پھر اس کے بعد یکے بادیگرے مملکت کی ہر چہار جانب سے کنویں کے انکشافات کی خبریں آنے لگیں، اور اللہ تعالیٰ نے آپ کے دور حکومت میں زمین کے خزانے کھول دیئے۔
4- تاریخ نویسوں نے لکھا ہے کہ جب شاہ عبد العزیز کا بھائی شہزادہ سعد بن عبد الرحمن جنگ کنزان میں قتل کردیئے گئے، شاہ عبد العزیز اپنے گھوڑے سے اتر کر اپنے بھائی کو بوسہ دینے لگے کہ اسی دوران کسی نے آپ پر گولی چلادی جس کی وجہ سے آپ کی کمر میں باندھا ہوا گولیوں کا بیلٹ بلاسٹ ہوگیا اور آپ کا پیٹ پھٹ گیا 15سینٹی میٹر لمبا زخم ہوگیا آپ نے اپنی اس صورت حال سے کسی کو بھی نہ باخبر کیا اور  اپنے گھوڑے پر سوار ہوکر الأحساء کی طرف روانہ ہوگئے،  چھ مہینوں تک اپنے پیٹ میں درد کی تکلیف برداشت کرتے رہے اور جب تکلیف زیادہ بڑھنے لگی تو آپ کے طبیب خاص ڈاکٹر رشاد فرعون نے جانچ کرنے کے بعد بتایا کہ دو گولیاں پیٹ کے چمڑے کے بیچ پھنسی ہوئی ہیں جنہیں آپریشن کے ذریعے نکالنا ضروری ہے اور اس کے لئے نشہ آور انجکشن دے کر آپ کو بے ہوش کرنا پڑے گا، شاہ عبد العزیز نے ڈاکٹر سے سے کہا: اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے پھر آپ نے ڈاکٹر سے قینچی لے کر اپنے ہی ہاتھ سے پیٹ کے چمڑے کو چاک کرڈاکٹر سے فرمایا: لو اب گولیاں نکال دو، اور ڈاکٹر نے ایسا ہی کیا۔
5-  جب شاہ عبد العزیز 1319ھ کو ریاض میں داخل ہوۓ تو آپ سے ملنے کے لئے باشندگان ریاض امنڈ پڑے آپ سے ملنے والوں میں ریاض کے بہت بڑے عالم دین علامہ شیخ عبد اللہ بن عبد اللطیف آل الشیخ بھی موجود تھے ، شاہ عبد العزیز انہیں خطاب کرتے ہوئے تین باتوں کی وصیت کی:  ۱- قدرت  کے باوجود معاف کردینا۔ ۲-  لڑائی کے میدان میں شکشت کھاکر بھاگتے ہوئے لوگوں کا پیچھا نہ کرنا۔  ۳- بوڑھوں، بچوں، عورتوں اور مسافروں کو گزند نہ پہنچانا اسی طرح درختوں اور کھیتوں کو نقصان نہ پہنچانا۔
آپ کی ان وصیتوں پر سبھوں نے پابندی سے عمل کیا دشمنوں سے میدان جنگ میں بھی اخلاقی اقدار، جنگی اصولوں اور اسلامی تعلیمات کا خیال رکھا گیا۔
شاہ عبد العزیز نے کلمہ حق کی سر بلندی خالص توحید کی اشاعت اور جزیرہ نما عرب کے عوام کو اللہ کے دین پر قائم کرنے کے لئے تن من دھن کی بازی لگادی، انہوں نے ملک کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے ایک ایک شہری کے دل میں اللہ کی اور سنت رسول کی شمع روشن کردی۔
شاہ عبد العزیز نے پوری امت مسلمہ کو اسلامی تعاون اور اتحاد واتفاق کی تحریک سے جوڑا، انہوں اس مقصد کے لئے مکہ مکرمہ میں خصوصی کانفرنس بلائی۔ مملکت نے عرب لیگ اور اقوام متحدہ کے قیام میں بانی رکن کے طورپر حصہ لیا، عالمی اور علاقائی مسائل کے حل میں ہمیشہ قابل قدر کردار ادا کیا۔
شاہ عبد العزیز نے سعودی عرب کو سیاسی، انتظامی، اقتصادی اور سماجی لحاظ سے جدید ترین ریاست کی شاہراہ پر گامزن کیا، انہوں نے قبائلی نظام کی جگہ اسلامی اور قومی نظام کی بنا ڈالی، انہوں نے بادیہ نشینوں کو چھوٹی چھوٹی بستیاں قائم کرکے آبادی میں رہنے کا خوگر بنایا۔
انہوں نے اندرون ملک باہم برسر پیکار قبائل کو اپنی دشمنیاں ختم کرکے امن و شانتی کے ساتھ ملک کی تعمیرو ترقی میں کردار ادا کرنے پر پابند بنادیا۔ انہوں نے اپنی مملکت میں جرائم کی بیخ کنی پر بھی خصوصی توجہ دی اور ان جرائم پیشہ افراد کا خاتمہ کردیا جو فریضہ حج ادا کرنے  مقدس مقامات کی زیارت کرنے کے لئے دیگر ممالک سے آنے والے زائرین کو لوٹ لینے کے گھناؤنے جرائم میں ملوث افراد کا صفایا کیا۔
شاہ عبد العزیز کے اقوال زریں:
۱- ” میں دین اسلام کا داعی ہوں، اسلام کو اقوام ممالک میں پھیلانا اپنا فرض سمجھتا ہوں سلف صالحین کے عقائد جو قرآن و سنت سے ماخوذ ہیں دنیا بھر میں پھیلانے کا پختہ عزم کئے ہوئے ہوں ".
۲- ” میں بادیہ میں پلا بڑھا لچھے دار گفتگو سے ناآشنا ہوں البتہ زمینی حقائق کو ہر طرح کی فن کاریوں سے پاک و صاف دیکھنے کا عادی ہوں، مسلمان ہوں اور اسلام کو اپنے لئے انمول سرمایہ مانتا ہوں ".
۳- ” مشورہ میری زندگی کا دستور ہے، حق کی پابندی میرا ایمان ہے، بغیر مشورے کے کسی بھی کام کو نقصان کا باعث سمجھتا ہوں، مشاورت کو قرآن وسنت کے دائرے میں دیکھتا ہوں ".
شاہ عبد العزیز مثالی خوبیوں کے مالک تھے، معمر شہری کی یاد داشتیں:
اخبار عکاظ کے مطابق حائل کمشنری کے جنوبی علاقے حرۃ بنی رشید کے بادیہ نشین فضي الرشيدي جن کی عمر اس وقت ایک سو دس سال سے زیادہ ہوچکی ہے کا کہنا ہے کہ انہیں بانی مملکت سے لیکر خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبد العزیز آل سعود کی بیعت کا شرف حاصل ہے۔
 شیخ فضي بن رشيد اس عمر میں بھی صحتمند ہیں وہ عہد رفتہ کی بے شمار یادیں رکھتے ہیں، ماضی کے واقعات کے عینی شاہد بھی ہیں۔ معمر فضي الرشيدي  کا کہنا ہے کہ بانی مملکت شاہ عبد العزیز انتہائی سادہ طبیعت کے مالک ملنسار اور خوش مزاج رحم دل اور بہادر انسان تھے، شاہ عبد العزیز کی مثالی صفات کی وجہ سے جزیرہ نما عرب کے لوگوں میں محبت اور اخوت کے جذبات ابھرے، الرشیدی کا کہنا ہے کہ جس وقت بانی مملکت شاہ عبد العزیز کا انتقال ہوا اس وقت میری عمر  تیس برس تھی، شاہ عبد العزیز سے لیکر اب تک تمام شاہوں کہ بیعت کرنے کا شرف ملا۔
ارددونیوز جدہ: 22ستمبر 2022ء
نومبر 1953ء کو 77 سال کی عمر میں اپنے شاہی محل طائف میں طبعی موت سے وفات پاۓ آپ کے جنازے کو ریاض لایا گیا اور یہیں مقبرہ العود میں دفن کئے گئے اللہ تعالیٰ ان کے تمام گناہوں اور خطاؤ کو معاف کرے اور جنت میں اعلی مقام عطا فرمائے۔ آمین یارب العالمین۔

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter