*اساتذہ* (استدراک)
شیخ رحمہ اللہ نے ہندوستان کے چوٹی کے علماء کرام سے استفادہ کیا، جب جامعہ محمدیہ سلفیہ مئو آئمہ میں تھے تو درج ذیل اہل علم سے کسب فیض کا موقع ملا :
1) مولانا عبد النور اثری
2) مولانا عبد الخالق سلفی
3) مولانا محمد سالم اثری
4) مولانا عبدالقادر سلفی
5) مولانا طاہر حسین سلفی
6) مولانا نثار احمد سلفی
وغیرہم
پھر شیخ رحمہ اللہ یہاں کی تعلیم مکمل کرکے جب ہندوستان کے مشہور و معروف ادارہ جامعہ دار السلام عمرآباد مدراس پہونچے تو یہاں ان کی صلاحیت و لیاقت میں مزید نکھار پیدا ہوا کیونکہ یہاں ھند کے مشہور اہل علم سے استفادہ کا موقعہ فراہم ہوا-
*جامعہ دارالسلام عمراباد کے چند اساتذہ کرام کےنام*
1) دکتور عبدالله جولم عمری مدنی
2) شیخ التفسیر عبد الکبیر عمری
3) شیخ خلیل الرحمٰن اعظمی عمری مدنی
4) شیخ انیس الرحمن عمری مدنی
5) شیخ عبد اللہ عمری مدنی حیدر آبادی
6) شیخ ظفر الحق شاکر عمری
7) شیخ عبدالسلام عمری مدنی
8) شیخ عمیر عمری مدنی
وغیرہم
یہاں سے سند فراغت حاصل کرکے جب اپنے وطن عزیز واپس آئے اور اللہ تعالی کے فضل سے جامعہ اسلامیہ مدینہ طیبہ کے کلیہ دعوہ میں داخلہ ہوا تو اس عالمی ادارہ میں عرب کے جید اور چوٹی کے علماء کرام سے علم حاصل کرنے کا موقعہ میسر ہوا-
*جامعہ اسلامیہ مدینہ طیبہ کے بعض اساتذہ کرام*
1) فضيلة الشيخ العلامة عبد المحسن العباد.
2) دکتور محمد المدخلي
3) أ. دکتور عبد الله بن سليمان الغفيلي
4) أ. دکتور سعود الدعجان
5) دکتور حسين بن لقاع الجابري
6) دکتور محمد بن محمد العواجی
7) دکتور شمس اللہ جلالی
8) دکتور عبد السلام بن عبد الرحمن العوفی
9) دکتور خالد محمد الصاعدی
10) دکتور احمد بن شاکر الحذیفی
11) دکتور ابراھیم بن محمد عمیر المدخلی
12) دکتور عبد الرزاق حمد کامل الحافظ۔ وغیرہم
*خدمات*
شیخ رحمہ اللہ بتاریخ 21/11/1999 دار السلام عمرآباد سے سند فراغت حاصل کرکے اپنے وطن کو لوٹ آئے، اس وقت میں (راقم الحروف) مکتب دعوہ الجالیات جبیل سعودی عرب میں نیپالی داعی کی حیثیت سے کام کرتا تھا، اسی زمانہ میں؛ میں نے فضیلت الشیخ نظام الدین مدنی مدیر جامعہ سلفیہ مفتاح العلوم بیریا کمال، سپول بہار سے گذارش کی کہ میرے گاؤں کٹیا میں رمضان میں افطار پارٹی دیں، چونکہ اس وقت تک کسی نے ہمارے گاؤں میں افطاری نہیں کرائی تھی، مجھے بہت شوق تھا کہ کسی طرح سے ہمارے گاؤں والے بھی اچھی افطاری تناول کریں، میری بات مان کر ميری بستی کٹیا میں بہترین افطار پارٹی دی یہ دسمبر 1999 کی بات ہے-
اس وقت ہمارے گاؤں میں شاید ہی کسی کے گھر میں ٹیویل رہا ہو، مسجد کے اتری سائڈ میں ایک سرکاری ٹیویل تھا جس سے مسجد کے نمازیوں کے ساتھ ہمارے ٹولہ والے بھی پانی پیتے تھے، اور چونکہ یہ رمضان کا مہینہ تھا اور خاص کر اس دن پورے گاؤں والوں کی افطاری مسجد ہی میں تھی اب ایک ہی ٹیویل پر ایک طرف نمازی لوگوں کی بھیڑ اور دوسری طرف ٹولہ کے مرد و زن کا رش، یہ منظر دیکھ کر شیخ نظام الدین مدنی کو کافی دکھ ہوا اور جب وہ جبیل سعودی عرب ملاقات کے لئے آئے تو مجھ پر برس پڑے اور بہت سخت سست کہا، اسی غصہ کے عالم میں انہوں نے ہمارے گاؤں کے اس ٹیویل کی منظر کشی کی اور بولے یہاں آپ تنخواہ پاتے ہی جیب میں رکھتے ہیں اور وہاں آپ کے گاؤں والے پانی پینے کے لئے پریشان ہیں، میں نے کہا تو پھر میں کیا کروں ؟
اس وقت شیخ نظام الدین مدنی نے فرمایا ایک رفاہی ادارہ قائم کریں اور اس کے تحت مشاریع کی تنفیذ کریں، مجھے اس بارے میں کوئی تجربہ نہیں تھا پھر ہم دونوں نے کافی غور و خوض کے بعد طے کیا کہ جمعیة المنھل الخیریہ نام کا ادارہ نیپالی حکومت کے یہاں رجسٹرڈ کرایا جائے اور اس کے تحت مدرسہ امام مسلم لڑکوں کے لئے اور مدرسہ فاطمہ الزھراء لڑکیوں کے لئے قائم کیا جائے-
اس ضمن میں؛ میں نے شیخ کلیم رحمہ اللہ سے بذریعہ رسائل تبادلہ خیال کیا شیخ نے کافی مسرت کا اظہار کیا اور میرے بھائی عبد الحکیم کے ساتھ ملکر شیخ نے جمعیت کی بنیاد کے ساتھ ساتھ مدرسہ امام مسلم کی بھی بنیاد دس دھور زمین میں رکھی اور مسلسل دوسال تک شیخ نے عمید المدرسہ اور جمعیت کے رجسٹرڈ نائب صدر رہے-
بڑی جانفشانی کے ساتھ جمعیت المنھل کو رجسٹرڈ کروایا جب کہ اس راہ میں مخالف عناصر کی طرف سے ہزاروں رکاوٹیں بھی آئیں لیکن شیخ رحمہ اللہ ڈٹے رہے اور مدرسہ کو ترقی دینے میں جہد مسلسل کے ساتھ لومة لائم کی پرواہ کئے بغیر منہمک ہوگئے-
پھر کچھ نامساعد حالات کے تحت مدرسہ امام مسلم بند کرنا پڑا لیکن مدرسہ فاطمہ الزھراء اپنی خدمت مستقل پیش کرتا رہا جو آج ایک تناور درخت کی شکل اختیار کرلیا ہے-
مؤسسہ عالمیہ للاعمار و التنمیہ الریاض سے غالبا شیخ کا تعاقد بھی کرادیا گیا تھا-
اسی اثناء میں شیخ کی منظوری جامعہ اسلامیہ مدینہ طیبہ سے آگئی، جب منظوری لیٹر گھر آیا تو اس وقت شیخ اپنے سسرال گئے تھے، وہ لیٹر لیکر میرا بھائی عبد الحکیم شیخ کے سسرال جاکر ان کی خدمت میں پیش کیا، اور کافی جانفشانی و تگ و دو کے بعد سارے اجراءات مکمل کئے اور شیخ صاحب مدینہ کی سرزمین پہچ گئے- یہ 2002 کی بات ہے-
جب 2003 میں میرے والدین حج کے لئے گئے تھے تو شیخ ان سے ملنے کے لئے آئے تھے اس وقت میں بھی والدین کے ہمراہ تھا-
شیخ کی جگہ پر شیخ محمد اکمل شاکر مدنی بیلہا کی مدرسہ امام مسلم میں بحالی عمل میں آئی- تو گویا کہ مدرسہ فاطمہ الزھراء شیخ رحمہ اللہ کے لئے ایک صدقہ جاریہ ہے ان شاء اللہ تعالی-
جامعہ اسلامیہ مدینہ سے جب چھٹی میں آتے تو مدرسہ امام مسلم میں اونچی کلاس کے بچوں کی دو تین گھنٹیاں پڑھایا کرتے تھے-
2008 میں جامعہ اسلامیہ مدینہ طیبہ سے فراغت کے بعد 2010 یعنی تین سال تک جامعہ الفاروق الاسلامیہ (مرکز الفرقان الاسلامی) جنکپور دھنوشا میں تدریسی خدمات انجام دیں اور بہت سارے بچے مستفید ہوئے-
پھر 2010 سے 2017 مسلسل 8 سالوں تک المعھد الاسلامی العالمی چنئی میں درس و تدریس کی خدمات انجام دیں، اس مدت میں بہت سارے طالب علموں نے آپ سے استفادہ کیا-
2017 سے اپریل 2021 یعنی اب تک جامعہ الفاروق الاسلامیہ (مرکز الفرقان الاسلامی) جنکپور دھنوشا میں عمید الجامعہ اور کامیاب مدرس و مربی کی حیثیت سے کام کیا، شیخ نے اپنی کوشش سے عربی چہارم سے فراغت تک کی تعلیم کی، جشن فراغت میں؛ میں بھی بطور صدر مجلس مدعو تھا اور میرے ہمراہ مشہور و معروف داعی اور محقق شیخ مقبول احمد سلفی بھی تھے-
نظم و نسق، اور انتظام و انصرام کے کافی پابند تھے-
شیخ رحمہ اللہ جامعہ الفاروق کے تنظیمی امور کی انجام دیہی کے ساتھ طلبہ کو تفسیر، حدیث، فقہ، سیرت اور دیگر درسی مواد بڑی خوش اسلوبی اور عالمانہ انداز سے پڑھاتے تھے-
ماہ رمضان میں ہم نے دیکھا کہ شیخ افطار پارٹی کے لئے روزانہ مرکز الفرقان کے لئے نکلتے اور شام ساڑھے سات یا آٹھ بجے گھر پہچتے، کافی محنتی اور جفاکش تھے-
*دعوت و خطابت*
شیخ کے سیرہ ذاتیہ کے مطابق روزانہ بچوں کے لئے فجر کے بعد تحفیظ القرآن کے حلقے قائم کرتے تھے-
مرکز کے اشراف میں مضافات اور بستیوں میں جاکر جمعہ کے خطبے دیا کرتے تھے- ہمیشہ کسی خاص موضوع پر ہی خطبہ دیتے اور قرآن و احادیث کی نصوص و دلائل سے مرصع و مرقع خطاب سامعین کی خدمت میں پیش کرتے، خلاصہ یہ کہ خطبہ جامع و مانع ہوتا تھا اور حاضرین کچھ حاصل کرکے ہی مسجد سے نکلتے تھے-
غالبا نومبر 2018 میں کاٹھمنڈو میں شیخ فھد الغامدی کے اشراف میں دورہ تدریبیہ ہوا جس کے مدرس تھے دکتور عمر العید، اسی دورہ میں ایک روز شیخ کلیم نے درس حدیث عربی میں پیش کیا نہ کہیں جھجھک نہ کہیں رکے اور بہترین اسلوب سے اپنی بات پوری کی، سارے مشارکین ان کے طرز تکلم پر عش عش کرنے لگے-
اسی طرح شیخ کو دعوت دین سے کافی محبت تھی فرقان کے کام سے جہاں جاتے پہلے درس دیتے تھے-
اللہ تعالی کی جانب سے شیخ کو اسلوب بیان، طرز استدلال، طریقہ تخاطب اور ایصال معلومات کا وافر مقدار میں ملکہ ملا تھا-
*تلامذہ* (شاگردان)
تلامذہ کی ایک لمبی فہرست ہے، لیکن ان میں سے چند کے ذکر ہی پر اکتفاء کروں گا-
جامعہ الفاروق کے شاگرد: 1) عبد السبحان عمری طالب جامعہ اسلامیہ مدینہ
2) حافظ حامد حسین سلفی بیلہا
3) عبد الرشید رحمانی دھنوجی کٹیا
4) محمد مستقیم رحمانی موریبا
5) محمد ضیاء الدین عالیاوی بھرڑیا
6) نور الدین انصاری دھنوجی کٹیا
7) ظھیر الدین سلفی دھنوجی کٹیا
8) محمد مستقیم جھونجھی طالب ماجستیر جامعہ اسلامیہ مدینہ
وغیرہم
مدراس کے چند شاگردوں کے نام :
1) ابرار أحمد عثمان
2) عادل محمد
3) محمد سھیل
4) نوح فہیم صدق
5) امان عابد
6) محمد عمار آر کاٹ
7) اسحاق رزاق
8) محمد اسلم
9) سید زید حنان
10) أحمد فخر الدین
11) ارشد احمد عثمان
12) محمد زید جمیل
13) محمد فیصل
14) شیخ محمد فھد
15) عمر آر کے نور
16) نعمان آر کے نور
17) ارباز فیروز سیٹ
18) سید عمار
19) سید عادل
20) یعقوب ریان
21) محمد سعد
22) عمر مختار
*مرض اور وفات*
20 یا 22 رمضان المبارک 1442ھ کو بخار آیا گاؤں گھر کے علاج سے افاقہ نہ ہوا تو جنکپور سے چیک کراکر دوا چلی لیکن بخار بار بار آجاتا، دو تین دن دواء لینے کے بعد افاقہ نہ ہوا تو میں نے بہت دلاسہ دلایا ان شاء اللہ تعالی ٹھیک ہوجائیں گے گھبرائیں نہ، لیکن اس کے دوسرے دن حالت بگڑ گئی پھر جنکپور کے ہسپتال میں ایڈ مڈ ہوئے، پھر براٹ نگر لے جائے گئے وہاں بیڈ نہ ملنے پر پھر واپس جنکپور لائے گئے، ملک و بیرون احباب نے کافی دعائیں کیں، لیکن سارے احباب کو بلکتا سسکتا چھوڑ کر آخر
21/5/2021 مطابق
8 شوال 1442ھ 7 گتے جیٹھ 2078 بکرمی کو علم و عمل، تقوی و طہارت، صبر و تحمل، قناعت و برداشت کا یہ چمکتا ستارہ ہمیشہ کے لئے ڈوب گیا-
رحمہ اللہ رحمہ رحمہ واسعہ و عفر لہ و وسع مدخلہ و ادخلہ فسیحات جناتہ(آمین یا رب العالمین)
ضلعی جمعیت اہل حدیث دھنوشا کے احباب سمیت جن بھائیوں نے شیخ کے لئے محنتیں کیں اللہ تعالی ان کی محنتوں اور کاوشوں کو قبول فرمائے- آمین
و السلام علیکم و رحمہ اللہ و برکاتہ
آپ کی راۓ