شیخ محمد حسن فیضی رحمہ اللہ : حیات و خدمات

تحریر: محمد ہاشم سلفی استاذ معہد الرشد تتری بازار سدھارتھ نگر

17 اکتوبر, 2020

1990ء کا کوئی مہینہ تھا جب میں جامعہ دارالہدی یوسف پور میں بغرض تعلیم گیا تھا۔ اس وقت جامعہ اپنے ماہر اساتذہ کی بدولت عجیب و غریب منظر پیش کر رہا تھا اور جامعہ کی ضیاء صرف بستی و گونڈہ نہیں بلکہ نیپال کی ترائی ہوتے ہوئے اس کی پہاڑیوں تک پہنچ رہی تھی۔ اور طالبان علوم نبوت دور دراز سے آکر اس گلشن علمی کو اپنا آشیانہ بنائے ہوئے تھے، اس وقت کے اساتذہ میں حضرت مولانا محمد ابراہیم رحمانی حفظہ اللہ شیخ الجامعہ، شیخ الحدیث مولانا رحمت اللہ صاحب اثری رحمہ اللہ، امام المنطق و الفلسفہ مولانا محمد ادریس قاسمی رحمہ اللہ (آپ میرے چچا تھے) امام النحو مولانا مجیب اللہ صاحب فیضی رحمہ اللہ (شیخا جوتی) مولانا اسداللہ فیضی رحمہ اللہ، مولانا عبدالعزیز اثری حفظہ اللہ، مولانا محمد الیاس سلفی رحمہ اللہ، مولانا عبدالرحیم امینی حفظہ اللہ، مولانا عبدالرشید اثری رحمہ اللہ، مولانا محمد عمران اثری حفظہ اللہ، اور مولانا محمد حسن فیضی رحمہ اللہ مسند درس و تدریس پر جلوہ آرا تھے۔ ہر استاذ کا اپنا الگ امتیاز تھا جس سے اس کی شناخت تھی افسوس کہ آج اس گلشن میں ان قدیم اساتذہ میں سے صرف دو استاذ مولانا محمد ابراہیم رحمانی اور مولانا عبدالرحیم امینی حفظھما اللہ جامعہ کی شان اور اس کے ترجمان ہیں باقی مولانا عبدالعزیز اثری ریٹائر ہوچکے ہیں اور مولانا محمد عمران اثری اب اردو ٹیچر کی پوسٹ پر کسی جونیئر اسکول میں تعلیم دے رہے ہیں۔ باقی سب باری باری اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ اللہ ان تمام اساتذہ کی قبروں کو نور سے منور کردے اور جنت الفردوس میں اعلی مقام بخشے۔ آمین
اوپر مذکورہ ترتیب میں آخری نام شیخ محمد حسن فیضی جنہیں اب رحمہ اللہ کہنا پڑ رہا ہے، چند دنوں تک جامعہ میں نظر آئے پھر جب غائب ہوئے تو پتہ چلا کہ آپ سعودیہ پڑھنے گئے ہیں اور پڑھ کر پھر یہیں آکر پڑھائیں گے۔ دو سال بعد جب کورس مکمل کرکے واپس آئے تو جسم کی ترقی کے ساتھ ساتھ علم و عمل کی نئی زندگی لے کر آئے اور جامعہ پہنچتے ہی مسند تدریس پر بیٹھ کر لعل و گہر بار ہوئے، آپ کی زندگی کا ایک اجمالی خاکہ اس مختصر مضمون میں پیش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، جو درج ذیل ہے۔

نام : محمد حسن فیضی بن محمد مسلم
تاریخ و مقامِ پیدائش : 1964/03/12 کو اپنے آبائی وطن موضع بھینسہوا، ککر ہوا بازار سدھارتھ نگر (قدیم بستی ) یوپی میں پیدا ہوئے۔
تعلیم و تربیت : ابتدائی تعلیم مدرسہ تعلیم الاسلام ناصر گنج (بسنت پور) میں حاصل کی جو اس پورے علاقے کا قدیم ترین واحد مکتب تھا، مولانا عبدالمجید یوسف پوری بھی اس ادارہ میں تدریس کا کام انجام دے چکے ہیں۔
دارالہدیٰ یوسف پور ؛ مکتب کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد دارالہدیٰ یوسف پور کے عربی درجات میں داخلہ لیا اور یہاں جماعت ثانیہ تک کی تعلیم مکمل کی۔یہاں پر آپ نے مولانا محمد ابراہیم رحمانی، مولانا محمد ادریس قاسمی وغیرہما اساتذہ سے استفادہ کیا۔
بعد ازاں جامعہ سراج العلوم بونڈیہار ؛ میں علمی تشنگی بجھانے کے لیے تشریف لے گئے، جماعت ثالثہ میں داخلہ لیا اور جماعت خامسہ تک کی تعلیم مکمل کی۔ مولانا اقبال رحمانی، مولانا محمد عمر سلفی، محمد خلیل رحمانی وغیرہ سے استفادہ کیا۔
فیض عام مئو ؛ بونڈیہار سے پانچویں جماعت مکمل کرنے کے بعد اس وقت کی مشہور علمی درس گاہ جامعہ اسلامیہ فیض عام مئو میں چھٹی جماعت میں داخل ہوئے اور یہیں سے فضیلت کی تعلیم مکمل کرکے 1981 میں سند فضیلت حاصل کی۔
دوران تدریس آپ نے جامعہ الملک سعود ریاض سے تدریب المعلمین کا دوسالہ کورس مکمل کیا۔ اور پھر مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ سے ایم اے کیا، یہیں سے پی ایچ ڈی بھی کرنا چاہتے تھے، مگر یہ خواب ادھورا رہ گیا۔
تدریسی خدمات : آپ نے فراغت کے بعد تقریباً چھ ماہ تک مدرسہ دار القرآن والحدیث ببھنی، کولہوی بازار میں تدریس کا فریضہ انجام دیا، اس وقت وہاں جماعت ثالثہ / رابعہ تک تعلیم ہوا کرتی تھی۔
اس کے بعد مدرسہ چشمہ صمد مئو آئمہ الہ آباد میں تقریبا تین سال تک تدریس کا کام انجام دیا۔ پھر کچھ مہینے تک مدرسہ میاں سید نذیر حسین دہلی میں بھی تعلیم و تربیت کا فریضہ انجام دیا، پھر 1986 میں مادر علمی جامعہ دار الہدی یوسف پور آگئے۔ یہاں تقریباً بتیس سال تک اور زندگی کے آخری سال تک پوری تندہی اور ذمہ داری کے ساتھ درس دیا۔ واضح رہے کہ دارالہدیٰ میں آپ نے دو مرحلے میں درس دیا پہلی بار 1990 تک پھر 90 اور 91 میں جامعۃ الملک سعود ریاض میں تدریب المعلمین کا کورس کیا اور تکمیل کے بعد دوبارہ 1992 میں دارالہدی آگئے اور پھر یہیں عمر پوری ہوگئی۔ مخلتف اوقات میں یہاں آپ کے زیر تدریس درج ذیل کتابیں رہیں۔
گلستان و بوستاں، دروس البلاغہ، البلاغۃ الواضحہ، المعلقات السبع، شرح العقیدہ الطحاویہ،بلوغ المرام، دروس اللغة العربية لغير الناطقين بها، آخرالذکر کتاب کے دو تین حصے متوسطہ اور ثانویہ درجات میں آپ جامعہ الملک سے واپس آنے کے بعد سے مسلسل پڑھاتے تھے اور تدریبات وتمرینات بہت دلچسپی سے حل کراتے تھے۔ اس کتاب کو پڑھنے والے طلبہ کا پہلا بیچ راقم کا تھا جماعت ثانیہ اور ثالثہ میں ہم لوگوں کو بہت ہی دلچسپی اور دلجمعی سے پڑھاتے تھے اور سچی بات تو یہ ہے کہ مجھ کمترین کو عربی زبان سے شناسائی اور چھوٹے چھوٹے جملے بولنے اور لکھنے کی مشق اسی کتاب سے آپ ہی نے کرائی۔
‌ اخلاق و اوصاف : آپ رحمہ اللہ کم سخن، انتہائی خلیق اور ملنسار تھے، آزاد طبیعت کے مالک تھے، خودداری اور شرافت آپ کا شعار تھا، طلبہ پر انتہائی شفیق اور مہربان تھے، کبر و غرور سے کوسوں دور اور سادگی پسند تھے، ظاہری چمک دمک بالکل نہ تھی، رفتار و گفتار سے یہ سمجھنا مشکل تھا کہ آپ کوئی اعلیٰ تعلیم یافتہ عالم ہیں، عموماً سفید لنگی اور کرتا زیب تن فرماتے، ٹوپی پہننا فرض نہیں سمجھتے تھے خاص مواقع پر ہی استعمال کرتے تھے۔ چائے پان کا ذوق تھا اور دوسروں پر بھی فیاضی کرتے تھے، غرباء و مساکین کا برابر تعاون فرماتے تھے۔
‌دعوتی خدمات : چوں کہ آپ عادتاً کم سخن تھے شاید اسی وجہ سے خطابت اور دعوت و تبلیغ سے دلچسپی کم تھی مگر اس کے باوجود گاہے بگاہے خطبہ جمعہ دیتے تھے۔ جامعہ دارالہدیٰ کی جامع مسجد اور برڈ پور کی جامع مسجد میں راقم نے بذاتِ خود آپ کا خطبہ سنا ہے، بہت ناپ تول کر بڑے محتاط انداز میں خطبہ دیتے تھے اور اختصار کو ملحوظ رکھتے۔ لمبا خطبہ آپ کو بالکل پسند نہیں تھا، بارہا آپ نے میرا خطبہ سنا، حوصلہ افزائی خوب کرتے، مگر خطبہ کے لمبا ہوجانے کی شکایت بھی کرتے تھے۔
‌البتہ سوشل میڈیا پر آنے کے بعد آپ عقیدۂ سلف کی نشر و اشاعت اور گمراہ فرقوں کے باطل عقائد و نظریات کی کھل کر تردید کرنے میں بہت متحرک اور ایکٹیو تھے، بالخصوص تحریکی و اخوانی افکار و نظریات کی ہمیشہ مخالفت کرتے اور منہج سلف کی تائید میں اقوال سلف برابر نشر کرتے اور کتاب و سنت کو لازم پکڑنے کی اپیل کرتے۔ جو حضرات سوشل میڈیا پر موجود ہیں وہ برابر آپ کی تحریروں اور آپ کی پوسٹس کو پڑھتے اور دیکھتے رہے ہیں۔ یہ دراصل آپ کی صحیح عقیدہ و منہج کو اختیار کرنے کی دعوت تھی۔
‌علالت اور وفات : یوں تو آپ کو دو سال سے عارضہ قلب لاحق تھا اور بای پاس سرجری بھی کراچکے تھے مگر وفات سے کچھ دنوں پہلے تکلیف کا پھر احساس ہوا اور چیک اپ کے لیے علی گڑھ کے جے این میڈیکل کالج میں جہاں پہلے علاج کراچکے تھے بنفس نفیس اہلیہ کے ہمراہ گھر سے روانہ ہوئے یہ وفات سے ایک ہفتہ قبل کی بات ہے، اس طرح چیک اپ کے بعد ڈاکٹروں نے دوبارہ بای پاس سرجری کرنا ضروری قرار دیا، مگر دو ہفتہ بعد چنانچہ آپ نے گھر آنے کا فیصلہ لیا اور ٹکٹ بھی بک کرادی احباب کو گھر آمد کی اطلاع بھی دے دی مگر ابھی زیادہ وقت نہیں گذرا تھا کہ ڈاکٹر نے ابو ذر کو فون کرکے بتایا کہ کسی دوسرے مریض کی جگہ پر آپ کو بیڈ مل جائے گا مریض کو ایڈ میٹ کرادیں چنانچہ آپ کو ایڈمٹ کیا گیا اور بای پاس سرجری کی پروسیس شروع ہوئی مگر نتیجہ کامیاب نہ رہا بلکہ پریشانی میں اضافہ ہوگیا جسکی بناء پر ایمرجنسی وارڈ میں داخل کیا گیا اب اوپن سرجری کرنا ضروری قرار پایا پھر اوپن سرجری کے مرحلےسے گزارے گئے،آپریشن کامیاب رہا اور تقریباً 19گھنٹے تک نارمل پوزیشن تھی مگر اچانک کڈنی نے اپناکام کرنا بند کردیا اس طرح موت نے دستک دے دی اور وقت موعود آپہنچا، اس مرحلے میں آپ کو وانٹی لیٹر پر رکھا گیا تھا جس کی وجہ سے ڈاکٹر کی رپورٹ کے بغیر موت کا یقین نہیں ہوتا اور اسی بناء پر 17 ستمبر کو جب پہلی خبر ملی اور احباب نے اس خبر کی حقیقت جاننے کے لیے مولانا کے بڑے صاحبزادے ابوذر (جو ساتھ تھے) کو فون کیا تو انھوں نے بتایا کہ حالت نازک ہے ابھی بڑے ڈاکٹر دیکھ کر بتائیں گے کیا پوزیشن ہے اور ڈاکٹر نے وہی بتایا جس کا خوف تھا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
پھر تو آپ کی وفات کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی کسی کو یقین نہیں ہورہا تھا کہ یہ کیا اور کیسے ہوگیا؟ مگر اللہ کی مشیت جو ہونا تھا وہ ہوگیا۔ ان لله مااخذ وله مااعطى وكل شئ عنده باجل مسمى۔ ادھر نعش کو گھر لانے کی تیاری ہو رہی تھی ادھر گھر پر بچوں کو تسلی دینے کے لیے اساتذۂ جامعہ اور احباب و متعلقین پہنچ گئے، جمعرات کا دن گزر گیا، رات میں بلکہ صبح کے پہر بذریعہ ایمبولینس یوسف پور چوراہے پر آپ کے اپنے مکان پر لاش پہنچ گئی اب جمعہ کا دن تھا اور انتقال ہوئے 24 گھنٹے سے زیادہ وقت گزر چکا تھا اس لیے صلاۃ جنازہ اور تدفین کا اعلان جو جمعرات ہی کو کیا جاچکا تھا اسی کے مطابق 18ستمبر بروز جمعہ 10 بجے دن میں جامعہ دارالہدی کے وسیع کیمپس میں
نمونہ سلف، استاذ الاساتذہ مولانا محمد ابراہیم رحمانی حفظہ اللہ کی اقتداء میں ہزاروں کی تعداد میں علماء طلبہ، محبین و متعلقین اعزہ واقرباء نے نماز جنازہ ادا کی اور آپ کی وصیت کے مطابق یوسف پور کی قبرستان میں نمناک آنکھوں سے سپرد خاک کیا۔ سقی اللہ ثراہ وجعل الجنة مثواه. پس ماندگان میں بیوہ دو بچے چار بچیاں ہیں جن میں سے ایک بچے ابوذر اور دو بچیاں شادی شدہ ہیں۔
اللہ آپکی خدمات کو شرف قبولیت بخشے، بشری لغزشوں کو درگذر فرماے اور جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے آمین

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter