چھوٹے قد کا بڑا آدمی پرنپ مکھر جی؛ ایک اصول پسند شخص

ڈاکٹر عبد اللہ فیصل

7 ستمبر, 2020

پیدائش11دسمبر1935
وفات:31اگست 2020
سابق صدر جمہوریہ پرنپ مکھر جی ایک برہمن خاندان کامدکنکر (Kamada Kinkar( مکھرجی لکشمی مکھرجی کے گھر پیدا ہوئے. گاؤں ماراٹی بیر بھو م ضلع ہے. ان کے والد کنکر مکھرجی مجاہد آزادی تھے دس سال تک جیل میں بھی رہے1952سے 1967 تک بنگال اسمبلی کے ممبر بھی تھے.
پرنب مکھر جی صرف سیاست داں ہی نہیں تھے بلکہ ایک مفکر، صحافی، مدرس ،دانشور، ماہر معاشیات، عظیم محب وطن، اور عظیم شخصیت تھے اور شخصیت شناس بھی. انہوں نے اپنے سماجی فلاحی کاموں سے سابق وزیر اعظم اندارا گاندھی کو کافی متاثر کیا تھا جس کی وجہ سے اندراجی نے مکھر جی کو نہ صرف پا رٹی میں شامل کیا بلکہ راجیہ سبھا ممبر بھی بنایا تھا ان کی محنت ڈسپلن کاموں میں انہماک سیاست سے دلچسپی ایسی تھی کی بہت جلد انہوں نے کانگریس پارٹی میں اپنا اہم مقام بنا لیا تھا. ان کو عزت شہرت مقبولیت سب ملی تھی.

پرنب دادا کو لکھنے پڑھنے کا بے حد شوق تھاوہ درس وتدریس سے جڑے ہوئے تھے. بنگال کے ہوڑہ بانکڑا اسلامیہ ہائ اسکول میں استاد کے طور پر ملازمت بھی کی اسلامیہ ہائ اسکول میں پڑھاتے ہوئے انہوں نے آس پاس کے مواضعات میں تعلیمی بیداری پیدا کی اور سماجی سیاسی سرگرمیوں میں بھی حصہ لینے لگے تھے. اسلامیہ ہائ اسکول کےعلاوہ کئ اسکولوں میں بھی درس تدریس کے فرائض انجام دئے 1957سے 1960 تک استاد رہے.وہ بہت ہی فعال ومتحرک شخص تھے مقامی لوگوں سے رابطہ بنایا اپنے اخلاق اور عمدہ کردار سے لوگوں کو بیحد متاثر بھی کیا. پرنب مکھرجی ملک کی سیاست میں ایک قد آور لیڈر تھے.ان کو چھوٹے قد کا بڑا آدمی کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کم سخن مگر بہت ہی دور اندیش تھے. ان کی قابلیت وصلاحیت وسیاسی سوجھ بوجھ کا اعتراف نہ صرف ہندستان نے بلکہ پوری دنیا نے کیاہے.
سابق وزیر اعظم اندار گاندھی کے قتل (31 اکتوبر 1984) کے بعد یہ سوال اٹھنے لگا تھا کہ کسے وزیر اعظم بنایا جائے پارٹی میں سنئیر ہونے کے ناطے مکھر جی نے خواہش ظاہر کی تو کانگریس کے کچھ لوگوں نے گاندھی خاندان کا باغی بتا کر مکھر جی کو کانگریس سے باہر کا راستہ دکھا دیا گیا تھاکانگریس میں ہمیشہ سےچاپلوسوں منا فقوں کا گروپ سرگرم رہا ہے.

پرنپ مکھر جی نے 1986میں راشٹریہ سماجوادی کانگریس پارٹی بھی بنالی تھی جب راجیو گاندھی سے ان کے معاملات بہتر ہوئے تو انہوں نے اپنی پارٹی کو کانگریس میں ضم کردیا. راجیو گاندھی نے بہت جلد ہی پارٹی میں دوبارہ ضرور شامل کیا لیکن انہیں کوئ کلیدی عہدہ دیا نہ وزارت میں شامل کیا تھا. پرنب مکھر جی پانچ مرتبہ راجیہ سبھا کے ممبر رہے اور دو مرتبہ لوک سبھا کے لئیے چنے گئے. راجیو گاندھی کے اچانک بم دھماکے میں قتل(21 مئ 1991) کے بعد سیاست سے سنیاس لینے والے سابق وزیر داخلہ نرسمھا راؤ کووزارت عظمیٰ کا تاج پہنایا گیا. نرسمھا راؤ ایک قابل ومعمر سیاست داں تھے سیاست کے رموزونکات سے واقف تھے راؤ نے مکھرجی کو اہم ترین عہدے دئے. راؤ کی کابینہ میں پرنب مکھرجی کو اہم ترین قلمدان سونپا گیا وزیر مالیات بنایا گیاجب نرسمھا راؤ کی کابینہ میں مکھرجی وزیر خزانہ تھے تو پارٹی میں انکا قد مزید بڑھ گیا تھااور کانگریس کے ایک اہم ستون بھی مانے جاتے تھے.انہوں نے قابل ودید ہ ور اور ماہر معاشیات ڈاکٹر منموہن سنگھ کو ریزروبینک کا گورنر Reserve Bank) Governer)بنایا تھا اور اپنی صلاحیت کی بنیاد پر کم سخن نرم مزاج ڈاکٹر منموہن سنگھ نے اپنے عہدے سے انصاف بھی کیاتھا. ایک وقت ایسا بھی آیا تھا کی جب سونیا گاندھی پر غیر ملکی ہونے کا شدت کے ساتھ آواز اٹھنے لگی تھی اور سبرمنیم سوامی نے کورٹ میں پٹیشن داخل کردیا تھا کی سونیا غیر ملکی ہیں اس لئیے وزیر اعظم نہیں بن سکتی ہیں. سونیا گاندھی نے وزیر اعظم نہ بننے کا بڑا فیصلہ لیکر مخالفین کا منہ بند کردیا تھا. سونیا گاندھی کے انکار کے بعد سنئیر قابل صلاحیت مند لیڈر کون ہے جسے وزارت عظمیٰ کا تاج پہنایا جائے.ان کی تلاش ہوئ تو پرنب مکھر جی پر سب کی نگاہیں آکر ٹک گئیں تھیں. لیکن سونیا گاندھی نے اچانک وزارت عظمیٰ کے لئیے ڈاکٹر منموہن سنگھ کا نام پیش کر کے سب کو حیران کردیا تھا منموہن سنگھ کا نام کسی کے ذہن ودماغ میں بھی نہیں آیا تھا. پرنب مکھر جی وزیر اعظم بننے کے دوڑ میں سب سے آگے تھے پرنب دادا پر ایک بار پھر قسمت مہر بان نہیں ہوئ مکھرجی جیسے قابل اور مناسب ترین سیاست داں کو نظر انداز کر کے ایک اچھے شخص کو (ڈاکٹر منموہن سنگھ) کو وزارت عظمیٰ کا تاج پہنا دیاگیا. یہ عجیب اتفاق ہے کی مکھر جی راؤ کی کابینہ میں تھے تو انہوں نے وزیر مالیات کی حیثیت سے ڈاکٹر منموہن سنگھ کو ریزور بینک کا گورنر نامذد کیا تھا اور ایک وقت ایسا آیا اس گورنر نے وزارت عظمیٰ کا حلف لیا تو پرنب مکھر جی کو وزیر خزانہ کا قلمدان سونپا پانچ سال کی مدت میں ڈاکٹر منموہن سنگھ نے ملک کی معیشت کو استحکام بخشا،تجارت کو معیشت کو فروغ ملا ملک میں خوشحالی پیدا ہوئ کاروبار میں زبردست اچھا ل آیا. دونوں (ایک وزیر اعظم منموہن سنگھ دوسرے وزیر خزانہ پرنب مکھرجی) ماہر معاشیات نے ملک کو معاشی واقتصادی طور پر بہت ہی مضبوط کیا تھا.ملک ہندستان خوشحالی کی طرف گامزن تھا.
جب پوری دنیا مالی بحران کرائسس (Crises)میں مبتلاء تھی مشرق ومغرب میں ہاہارکار مچا ہواتھا.تقریبا ہر ملک کی اقتصادی ومعاشی حالت بد تر تھی. لوگ معاشی بد حالی کے شکار ہوکر خود کشی کر رہے تھے. کچھ ممالک میں فاقہ کشی بھکمری کے شکار تھے. ڈاکٹر منموہن سنگھ نے ملک کو معاشی بد حالی سے پاک رکھا. ملک کی تعمیر وترقی تجارت کے فروغ میں اہم رول ادا کیا اور ملک کو مالی بحران سے بچائے رکھا. اس سلسلے میں پرنپ مکھر جی کے اہم ترین کردار سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے.مکھر جی کو مختلف ادوار میں اہم محکمے سونپے گئے خزانہ.دفاع. خارجہ کے امور میں قابل ستائش کارنامے انجام دئیے تھے. جوقلمدان ان کو دیا گیا تھا بڑی ایمانداری ذمہ داری سے اسے بخوبی نبھایا تھا.جب کی اسوقت کے وزیر زراعت نے خوردنی اشیاء کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ کر کے حکومت کو سنکٹ میں ڈالنے کی عمدا کوشش بھی کی تھی. لیکن عوام پر مہنگائ اثر انداز نہ ہوسکی گرچہ خوردنی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ کردیا گیا تھا.چاول دال گیہوں کی ذخیرہ اندوزی کرائ گئ.لاکھوں ٹن اناج سرکاری گوداموں میں سڑ گئے لیکن عوام تک نہیں پہونچایا گیا. کہا جاتا ہے کی کنگ فشر (King Fisher )شراب بنانے والی کمپنی کے مالک وجے مالیا کو شراب بنانے کے لئیے سارا اناج دے دیا گیا تھا. مارکیٹ میں عوام کے لئیے سو روپیہ کلو تک دال چاول چالس پچاس روپیہ کلو کی قیمتیں کردی گئ تھیں. چاول اوردال کی قمیتیں آج تک کم نہ ہوئیں دال تیس.چالس روپیہ کلو ملتا تھا وہ سو سواسوروپئے میں ملنے لگے.بڑھتی ہوئ قیمتوں کو قابو میں نہ کیاجاسکا. خوشحالی کی وجہ سے عوام پر زیادہ بوجھ پڑنے کے باوجود عوام جھیل گئے. دال چاول کی قیمتوں میں اضافے سے کسانوں کو فائدہ نہیں بلکہ بنیوں، مہاجنوں ذخیرہ کرنے والوں کو زبردست فائدہ پہونچایا گیا.بد عنوانی رشوت خوری کالابازاری ہوتی رہی اور آج تک ہوتی رہی ہے.زمینوں کا بھاؤ آسمانوں کو چھونے لگاتھا ممبئ میں جو روم دس بائ دس 10+10کا بیس ہزار پچاس ہزار میں ملتا تھا وہ ایک ایک کروڑ پچاس لاکھ روپئیے میں فروخت ہونے لگے زمینوں کے مالکان مالا مال ہوگئے. بھومی مافیاؤں کا سرکاری آراضی پر ناجائز قبضہ ہونے لگاسیاست داں بھی زمین کے کاروبار میں آگئے اور اپنے دلالوں کو بھی لگا دیا اربو ں کھر بوں روپئیے کا ھیرا پھیری ہوتی بھی ریی ہے . سونے چاندی کے کارو بار ی زمین کی تجارت میں لگ گئے.اوریہ سچ ثابت ہوا. کہ میرے دیش کی دھرتی سونا اگلے اگلے ہیرا موتی. میرے دیش کی دھرتی.

پرنب مکھر جی اہم ترین سیاست داں تھے .اقتصادیات ومعاشیات کے ماہر تھے. 2012سے 2017تک ملک کے صدر بنے.جیسا کی ذکر کیا گیا ہے کی مکھرجی کو پارٹی سے پانچ سال کے لئیے نکال دیا گیاتھا لیکن دوسال میں دوبارہ کانگریس میں ان کی واپسی ہوگئ تھی.لیکن کانگریسی مکھرجی کو مشکوک سمجھتے تھے.
بنگال کی ایک تیز طرار خاتوںن لیڈر ممتا بنرجی پر پارٹی مہربان رہی.اور کانگریس میں ممتا کو اہم سمجھا جانے لگاتھا .بعد میں ممتا نے کانگریس سے علحدگی اختیا ر کر کے تر یمونل کانگریس پارٹی بنالی. آج وہ بنگال کی وزیر اعلیٰ ہیں اور فرقہ پرستوں کے سامنے شیرنی کی طرح ڈٹی ہیں. پھر ہائ کمان کی توجہ پرنپ مکھر جی پر ہوئ پارٹی میں زبردست اہمیت دی جانے لگی. جب پرنپ مکھر جی. ڈاکٹر منموہن سنگھ کی کابینہ میں وزیر مالیات تھے ایک وفد ممبئ سے گیا تھا ( ممبر آف پارلیمنٹ حسین دلوائ غلام پیش امام.ڈاکٹر عبد اللہ فیصل. عبد الحق شفیع لیثی .رؤف چودھری. سلیم سراجی .جلال احمد)اس دورے میں ملک کے نامور ہستیوں اور مرکزی وزراء سے ملاقاتیں ہوئیں. احمد پٹیل. غلام نبی آزاد.آسکر فرنانڈیز. دگ وجے سنگھ وغیرہ. لیکن ان ملاقاتوں میں دو لوگوں نے ہمیں بیحد متاثر کیا تھا ایک پرنپ مکھر جی دوسرے وزیر دفاع اے کے انٹونی.ایک دم سیدھےسادے عام آدمی بلکل خاص نہیں لگے. چھوٹے قد کا ایک شخص کرسی پر جلوہ افروز تھا. سفید شرٹ، لنگی میں زیب تن تھے پہچان میں نہیں آرہے تھےوہ زیر لب مسکراتےہوئے ملے.
پرنپ مکھر جی سے ملنے گئے تو ان کا ملنے کا انداز جداگانہ تھا. ان کو لیٹر دیا گیا کچھ بولنا چاہے تو مکھرجی نے یہ کہکر روک دیا کہ لیٹر مکمل پڑھ لوں تب بات کرتا ہوں انہوں نے لیٹر مکمل پڑھ لیا تب کہا کی ہاں اب بتائے سب کی باتیں پوری توجہ اور انہماک سے سنتے رہے ایسا لگا کہ ہم ایسے شخص سے مل رہے ہیں جو کافی دنوں کا شناسا ہو اجنبیت بلکل محسوس نہ ہوئ. پرنب دادا نے ہمیں اس قدر متاثر کیا کی ہم بھلا نہیں سکتے وہ ایک اصول پسند آدمی تھے. کانگریسیوں نے کانگریس کے لئیے دو بھیانک غلطیاں کی ہیں جسکا خمیازہ کانگریس آج بھگت رہی ہے ایک یہ کی دوسرے میعاد میں پرنب مکھر جی کو وزیر اعظم نہ بنایا جانا منموہن سنگھ کے ناتوں کند ھے پر وزارت عظمیٰ کا بوجھ دوبارہ لاد دینا دوسرے یہ کہ اگر راہل گاندھی کو بھی وزیر اعظم بنا دیا جاتا تو پرنب مکھر جی کو ماکھ (دکھ) نہیں ہوتا اور ملک کی صورت حال کچھ اور یوتی. لیکن دوسرے ٹرم میں بھی منموہن سنگھ کا وزیر اعظم بنایا جانا کچھ کانگرسیوں کو بہت ہی برا لگا تھاگرچہ انہوں نے اپنی شدید ناراضگی وخفگی کا اظہار نہیں کیا تھا. اگر پرنب مکھر جی یا راہل گاندھی کو وزیر اعظم بنا دیا گیا ہوتا تو ملک کی حالت خراب نہ ہوتی اور نہ کانگریس مکت بھارت ہوتی نہ کانگریس مکت گاندھی پریوار کے نعرے لگتے.کہا جاتا ہے کہ سونیا گاندھی نے اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لئیے ڈاکٹر منموہن سنگھ کو ہی دوبارہ وزیر اعظم بنایا تھا. جبکہ دوسری میعاد میں منموہن سنگھ نے جیسے کانگریس سے انتقام لئیے ہوں . ابھی حال ہی میں کانگریس کے مقبول ترین لیڈر وسنئیر سیاست داں غلام نبی آزاد نے اصول پسندی ڈسپلن کے فوائد اور بے اصولی اور ڈسپلن شکنی پر ناقابل تلافی نقصات کا اظہار کیا ہے کانگریس کے تئیں ہمدردی اور دکھ بھری داستان بتائ ہے وہ قابل توجہ ہے.اس سے کانگریس کو سبق حاصل کرنے کی ضرورت ہے اور سونیا راہل کو بھی نظر ثانی کرنی چاہئیے.یہ حقیقت ہے کی راہل گاندھی جس ڈھنگ سے لڑ رہے ہیں پارلیمنٹ میں اور پارلیمنٹ کے بایر آر.ایس.ایس.پر وار کر رہے ہیں وہ قابل ستائش ضرور ہے لیکن انہیں ایماندار فر ض شناس، ملک کے لئیے عوام کے لئیے ہمدرد وبہی خواہ پارٹی کے لئیے جو مفید ہیں انہیں نظر انداز نہیں کرنا چاہئیے. لیکن ان کی فوج میں جو غدار ہیں آر ایس ایس نواز بھی ہیں.انہیں کانگریس میں رہنے کا کوئ حق نہیں ہے.
راہل گاندھی کانگریس اور ملک کے روشن مستقبل کی علامت ہیں.راہل گاندھی جن حالات میں بیان بازیاں کر رہے ہیں وہ ناموافق ہیں ہندو تو طاقتیں بہت مستحکم ہیں کانگریس کو ان سے مقابلہ کرنے کے لئے حکمت عملی طے کرنی ہو گی. کانگریس کی صدارت کے لئیے آوزیں اٹھ رہی ہیں اگر غیر گاندھی کو صدارت سونپی گئ تو موجودہ حالات میں کانگریس انتشار کی شکار ہوکر ختم ہوجائےگی. راہل گاندھی ہی صدارت کے لئیے مناسب وموزوں ہیں.
وہی جواں ہے قبیلے کی آنکھ کا تارا.
شباب جس کا ہو بے داغ ضرب ہو کاری.

راہل گاندھی جی کیسے جنگ جیت سکتے ہیں؟ ان کو حکمت عملی اپنانی پڑے گی. ٹھوس لائحہ عمل طے کرنا ہوگارفتہ رفتہ کانگریس دشمنوں کو جو پارٹی میں رہ کربھی پارٹی کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں ان کو باہر کا راستہ دکھانا ہوگا.

پرنب مکھر جی 26 جنوری 1919 میں بھارت رتن اعزاز بی.جے.پی کے صدر جمہوریہ کوند کے ہاتھوں سے نوازے گئے. آخری وقت میں پرنپ مکھر جی کا آر.ایس. ایس.کے پروگرام میں شرکت کرنا ان کی کانگریس سے شدید ناراضگی کی وجہ بھی ہو سکتی ہے.کتنے کانگریس کے لیڈرس ہیں جن کا خفیہ طور سے آر.ایس.ایس سے ساز باز ہے.جو کھل کر آتے نہیں ہیں.وہ اس شعر کے مصداق ہیں.
صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں.
آر ایس ایس نواز کانگریسی وقت پر نمک خواری کا حق ادا کر دیتے ہیں. آزاد ہندستان کے بعد سیاست دانوں کے کردار گفتار سے پتہ چلتا ہے کی نہ آئیڈیا لوجی ہے اصول نہ ضابطہ ہے .ان کے کردار وعمل سے پتہ چلتا ہے کی سیاست میں نہ کوئ مستقل دوست ہوتا ہے نہ دشمن.بی. سیکڑوں کانگریسی آج آر. ایس.ایس کی وفاداری نبھا رہے ہیں.نارائن دت تیواری. نٹور سنگھ جیسے کٹر کٹرکانگریسی لیڈرکانگریس چھوڑ کر بی.جے.پی.سماج وادی کا دامن تھام لئیے تھے جب کی کانگریس نے انہیں بہت کچھ دیا تھا.

پرنپ دادا ایک اصول پرست حق گو انسان تھے انہوں نے کبھی اصولوں سے سمجھو تہ نہیں کیا. افسوس کی حق گوئ وبیباکی اب لوگوں کے اندر سے ختم ہوتی جا رہی ہے.یہ صفات ان کے اندر معلم ہونے کے ناطے آئ تھی بنیادی طور پر وہ ایک معلم تھے معلم کا کام ہوتا ہے سکھانا اور سیکھنا. افسوس !! ایسے بیباک واصول پسند شخص کو کانگریس نے وزیر اعظم نہ بنا کر اپنی پارٹی کو ناقابل تلافی نقصان پہونچایا ہے .اگر دادا مکھرجی وزیر اعظم بن گئے ہوتے تو کانگریس اور ملک کی حالت اتنی خراب نہ ہوتی. ایک قابل اصول پسند سیاست داں کو ہم نے کھو دیا ہے.
مضمون نگار ماہنامہ المصباح ممبئ کے ایڈیٹر ہیں. 9892375177

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter