شیخ محمد ادریس ؒعالیاویؔ حیات وخدمات

ترتيب: محمد هارون انصارى

16 جون, 2020
haroon ansari

علاقہ مرچوار،روپندیہی نیپال صوبہ پانچ کا وہ زرخیز علاقہ ہے جہاں اب ہر گاؤں میں قال اللہ اور قال الرسولﷺ کی صدائیں سننے کو ملتی ہیں،ایک وقت تھا جب یہ علاقہ کفروضلالت کی تاریکیوں میں پوری طرح ڈوبا ہوا تھا،لوگ نام کے مسلم تھے مگر ان کے اندر مسلمانیت ناپید تھی،ہرگاؤں میں تعزیہ داری،غیراللہ کے نام سے نذرونیاز اور دیگر مخرب عقائد اعمال ہوا کرتے تھے،لوگ اسلامی تعلیمات سے نابلد تھے،اپنے خلقت کے مقصد سے جاہل تھے،عام سی زندگی گزارتے تھے،کوئی ان کا پرسان حال اور انکے حالات پر رونے  اور صراط مستقیم پر لانے والانہیں تھا،چنانچہ یہاں ابتدائی دنو ں میں تعلیم کا کوئی خاص نظم ونسق نہیں ہوا تھا ابتدائی تعلیم دینے والے میا لوگ تھے اور اس گاؤں میں بھی تعزیہ داری شباب پر تھا۔مولانا محمد ادریس عالیاویؔ نے اسی گاؤں میں اپنی آنکھیں کھولیں واضح رہے کہ مولانا ؒ کے گھر میں خود تعزیہ کا بڑا چبوترا تھاجس کا تفصیلی ذکر دعوتی خدمات ان شاء اللہ ذکر ہوگا۔

نام ونسب

محمد ادریس بن لعل محمد

تاریخ پیدائش:

قومی شہریت کارڈ (ناگرکتا)کے مطابق 1951ء؁ ہے  موضع مڑلا سمری مائی گاؤں پالیکا وارڈ نمبر ۲ ضلع روپندیہی صوبہ نمبر پانچ میں ہوئی۔

سیرت وسلوک:۔

استاذ محترم مولانا محمد ادریس بن لعل محمد عالیاویؔ کے اچھے اخلاق والے تھے،خندہ پیشانی سے لوگوں سے ملتے تھے،اوصاف حمیدہ کے مالک تھے،فرائض کی عدم ادائیگی پرلوگوں کو  کوستے تھے۔

تعلیم

آٖ پ نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی گاؤں سے متصل پڑوس ملک ہندوستان کے مشہور ضلع سدھارتھ نگر کے ایک گاؤں ٹھوٹھری بازار کے مدرسہ مصباح العلوم،سدھارتھ نگر سے حاصل کی جن میں قابل ذکر ٹھوٹھری بازار کے میا عبدالوحید اور مڑلا کے احمد علی تھے۔

جماعت ادنیٰ اور جماعت اولیٰ کے لئے استاذ الاساتذہ سید تجمل حسین منگلپوری(خطیب گورکھپوری) اور مولانا عرفان اللہ ریاضیؔ رحمہم اللہ او رمولانا ثناء اللہ فیضیؔ حفظہ اللہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا۔ اس کے بعد وقت کا مشہور ادارہ جامعہ دارالہدی یوسف پور میں داخلہ لیا، اکابر علماء سے کسب فیض حاصل کی جن میں قابل ذکر اساتذۂ کرام میں بزرگ عالم دین شیخ محمد ابراہیم رحمانیؔ حفظہ اللہ،شیخ محمد ادریس قاسمیؔ،شیخ مجیب اللہ شیخا جوتی رحمہ اللہ وغیرہم تھے۔

ان دنوں مدرسہ انوار العلوم پرسا عماد پوسٹ بھارت بھاری ضلع سدھارتھ نگر یوپی انڈیا کی بڑی شہرت تھی جسے سنکر گاؤں کے ہم سبق وہم عصر رفقاء مولانا جلال الدین اثریؔ،مولانا مطیع اللہ (جامعہ عالیہ عربیہ مؤ ناتھ بھنجن میں مولانا کے ہم سبق تھے فراغت میں دو ماہ باقی تھا کہ چیچک کی بیماری میں انتقال کرگئے)مولانا خیراللہ اثریؔؒ  کے ساتھ جاکر مدرسہ انوار العلوم جماعت اہل حدیث کی بزرگ ومستند شخصیات استاذ  الاساتذہ مفتی عبد ا لعزیز عمری مؤی ؒ و مفتی فیض الحسن فیضی ؔ مؤی رحمہم اللہ،مولانا ابوالکلام اثریؔحفظہ اللہ وغیرہم سے کسب فیض حاصل کرکے 1973ء؁ میں مشرقی یوپی کے قدیم ادارہ جامعہ عالیہ عربیہ مؤناتھ بھنجن سے سند فراغت حاصل کئے وہاں استاذ الاساتذہ شیخ محمد الاعظمی،شیخ عبدالحکیم فیضیؔ رحمہم اللہ وغیرہم سے استفادہ کرکے وطن واپس آئے۔(مذکورہ تواریخ او ر حالات شیخ شمیم الرحمن عبدالغفور اثریؔ  حفظہ اللہ کے تحریر کے مطابق ہے)

تدریسی خدمات

سند فضیلت کے بعد مولانامحمد ادریس عالیاویؔؒ نے تدریسی خدمات کا آغازلمبنی سے چند کلو میٹر کی دوری پر قائم مدرسہ بیت العلوم موضع اماری سے کئے جہاں تقریبا پانچ یا چھ سال درس وتدریس اور دعوت وتبلیغ کا فریضہ انجام دیئے، پھر اپنے مادر علمی مدرسہ مصباح العلوم ٹھوٹھری بازار سدھارتھ نگر یوپی انڈیا درس وتدریس شروع کئے، تقریبا 1983ء میں اپنے مشفق استاذ مولانا محمد ادریس صاحب قاسمیؔ حفظہ اللہ اور مولانا عرفان اللہ ریاضیؔؒ کی خواہش پر مادر علمی مدرسہ عربیہ مفتاح العلوم السلفیہ گلہریا روپندیہی نیپال میں تدریسی دعوتی فرائض انجام دینے لگے۔

تین سال کا عرصہ گزرا ہی تھا کہ حالات وظروف کے تحت مدرسہ مفتاح العلوم السلفیہ گلہریا سے مستعفی ہوکر علاقہ کے مختلف مدارس میں تدریسی ودعوتی خدمات انجام دینے لگے جن میں قابل ذکر مدرسہ عربیہ دارالسلام السلفیہ مڑلا،آپ اس مدرسہ کے مؤسسین میں سے ہیں اس کا قیام 1985ء؁ میں ہوا۔٭مدرسہ عربیہ دارالسلام السلفیہ مڑلا میں آپ نے عمر کا بیشتر حصہ تدریسی خدمات میں گزار دیا،آپ ایک کہنہ مشق مربی اور داعی تھے،ابتدائی درجات سے لیکر ادنیٰ تک اور پھر شیخ شرف الدین سعدی شیرازی کی مشہور ادبی کتاب بوستاں بچوں کو بڑے ہی شوق سے پڑھاتے تھے،آپ دور اندیش تھے بچوں پر سخت نگاہ رکھتے تھے،بچوں کی غیر حاضری پر ان کے سرپرست سے ملتے اور تبادلۂ خیال کرتے تھے نیز انہیں بلا ناغہ مدرسہ بھیجنے پر زور دیتے تھے۔ یہی وجہ ہے آج اس علاقہ میں علماء کرام کی لمبی جماعت دیکھنے کو ملتی ہے۔فجزاہم اللہ أحسن الجزاء

 چند فروعی مسائل پر عدم اتفاق کی بنیاد پر آپ مدرسہ سے مستعفی ہوگئے جو غالبا رمضان شروع ہونے سے دوچار دن قبل کا معاملہ ہے۔بعد ازاں گاؤں کے چند افراد کی ایما پر دوسرے مدرسہ کی بنیاد ڈالی جس کا نام مدرسہ شمس العلوم السلفیہ تھا،آپ وہاں کے مدرس تھے سال ڈیڑھ سال تک یہ مدرسہ چلا لیکن بعد میں بند ہوگیا۔لیکن زمین اب بھی موجود ہے جو تین لوگوں کے نام سے ہے۔اس کے بعد سالوں تک گھر پر ہی رہے پھر آپ کی مدرسہ عربیہ مفتاح العلوم السفلیہ گلہریا میں بحثیت مدرس تقرری ہوئی لیکن مختصروقت کے بعد آپ نے اسے خیرباد کہہ دیا۔اب آپ مستقل گھر رہنے لگے تھے بچے برسرروزگار تھے اللہ نے ہر چیز سے نواز رکھا تھااللہ نے اپنی فضل و کرم سے حج جیسی سعادت سے نوازا،صوم صلاۃ  بڑی پابندی کے ساتھ ادا کرتے تھے۔

مرچوار پر تین اہم کے شخصیات کے دعوتی خدمات:

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے جس سے چشم پوشی ممکن نہیں علاقہ مرچوار میں تین شخْصیات نے اپنے دعوتی مشن کے لئے مختص کیا،اور انتھک محنت مشقت کے بعد بنجر زمین کو کاشت کے لائق بنایا جن میں (۱) شیخ سید تجمل حسین  خطیب گورکھپوری(مدرس مدرسہ عربیہ دارالسلام السلفیہ مڑلا)۔(۲) شیخ عرفان اللہ ؒ ریاضیؔ (ناظم مدرسہ عربیہ دارالسلام السلفیہ مڑلا)۔(۳) شیخ محمد ادریس عالیاویؔؒ(صدر المدرسین مدرسہ عربیہ دارالسلام السلفیہ مڑلا)۔ان تینوں شخصیات کی قدر ومنزلت اس علاقہ میں بہت تھی ہر کوئی عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھتا تھاعلاقہ کے لوگ انہیں اپنے ہر خوشی اور غمی میں شریک رکھتے تھے،علاقہ مرچوار پر استاذ الاساتذہ سید تجمل حسین خطیب گورکھپوری کا خصوصی احسان ہے جنہوں سے توحید کی دعوت  کو عام کیا،لوگوں کو معبود حقیقی کی جانب بلایا،لوگوں کے دل ودماغ پر پڑے غبار کو صاف کیا،دنیاوی خرافات،شرک وبدعات کے قلع کو قمع کیا،یہی وجہ تھی کہ علاقہ کے لوگ منگلپوری سے ملنے سے کتراتے تھے کہ کہیں فرائض اور اسلامی تعلیمات کے بارے میں سوال وجواب نہ کربیٹھیں،نماز پڑھے کہ نہیں اس کے بارے پوچھیں وغیرہ وغیرہ۔اللہ غریق رحمت کرے  دعوتی خدمات کو قبول فرمائے  بشری خطاؤں کو درگذر فرمائے آمین۔واضح رہے کہ مولانا عرفان اللہ ریاضیؒؔ اور مولانا محمد ادریس عالیاویؔؒ خطیب گورکھپوری کے ساتھ ہمہ وقت رہتے تھے او ر دعوتی مشن میں ایک ساتھ ہوتے،رات اکثر پروگرام ہوتے جس میں آپ تینوں حضرات شامل ہوتے تھے۔

جامع مسجد مڑلا اور قرب ومضافات کے مساجد میں اکثر وبیشتر خطبہ دیا کرتے تھے،جب وہ کسی کام سے جمعہ کے دن باہر نکلتے تو کسی کو اس کا مکلف کرتے تھے جیساکہ کئی بارراقم کے ساتھ بھی ہوچکا ہے کہ جمعہ کے روز علی الصبح گھر آئے اور کہا کہ میں کام سے ککرہوا یا کہیں جارہا ہوں جمعہ کی نماز پڑھا دینا اور تہجد کی نماز بھی بڑی مستعدی کے ساتھ پڑھتے تھے اللہ قبول فرمائے آمین۔

دعوتی خدمات:

جیساکہ اوپر ذکرکیا گیاہے کہ یہ علاقہ پوری طرح کفر اوردنیاوی رسومات میں لت پت تھا ایسے حالات میں دعوت وتبلیغ کی اشد ضرورت تھی تاکہ لوگ اپنے معبود برحق کو پہچانیں اس کی عبادت کریں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں،اسی سے استعانت طلب کریں وہی دینے اور لینے والا ہے۔شیخ محمد ادریس عالیاویؒؔ نے دعوت کا آغازدوران طالب علمی میں ہی  اپنے گھر سے کیا،انکے گھر کے آنگن میں بناتعزیہ کے چوکہ کو اپنے ہاتھوں سے کھود کر پھینکاواقعہ یوں ہے کہ ایک سال استاذ الاساتذہ حضرت سید تجمل حسین خظیب گورکھپوری مدرسہ میں ۷ محرم الحرام کو بچوں کو شرک وبدعات پر خطاب کرتے ہوئے کہاں کہ تعزیہ بنانا شرک ہے،اور تفصیل سے اس کی حقیقت پر روشنی ڈالی،مولانا اس وقت طالب علم ہی تھے ان کے دل  میں بات موجزن ہوگئی کیونکہ آپ کا گھرانہ اور گاؤں کے بعض گھرانے تعزیہ دارانہ تھے،بڑے شوق سے تعزیہ بناتے محرم مناتے تھے۔ہوا یوں کہ مولانا کی بہن چوکہ پر مٹی سے لپائی کررہی تھیں مولانا نے ان سے پوچھا یہ کیا کررہی ہوبولی کہ آج ستیئیں ہے یعنی کہ محرم کی ۷ تاریخ آج کیلا کٹے کا اور یہاں نصب کیا جائے گا،اور یہیں پر تعزیہ بابا کو رکھا جائے گا،یہ سن کر مولانا بہت غصہ ہوئے اور گھر میں رکھے کدال سے پوری مٹی کو کھود کر گھر پیچھے گڈھے میں پھینک دیا،پھر کیا تھا لوگ اور ان کے گھر والے آسمان کواٹھالئے اور زبردست ہنگامہ آرائی ہوئی،سب رونے لگے کیونکہ ان کا عقیدہ فاسد تھا راسخ العقیدہ صرف مولانا تھے سبھی رو رو کر کہنے لگے کہ آج کوئی نہ کوئی مرے گا ان تمام صورتحال کے باوجود گھر والے دوسرے کے یہاں تعزیہ بنائے اور مغرب کے بعد جب یہاں رکھنے کے لئے لائے تو مولانانے ماچش سے اس تعزیہ کوجلا کر خاک کردیا،اور چوکہ کو دوبارہ کھود کر پھینک دیا،سب رو رو کر کہنے لگے کہ آج کوئی ضرور مرے گا مولانا نے کہا کہ مین تعزیہ پھونکا ہے اور چوکہ کھود کر پھینکا ہے میں ہی مروں گا کوئی بات نہیں۔ عقیدہ اتنا مضبوط تھا کہ وہ کہنے لگے کہ میں مرنے کے لئے تیار ہوں لیکن تعزیہ نہیں بنے گا،بحمد للہ رات ودن بخوبی گزر گیا وار کچھ بھی نہیں ہوا تو اسی تاریخ ّسے ان کے گھرانے میں تعزیہ کا کام ہمیشہ کیلئے بند ہوگیا(اللہ انہیں اس کا اجرجزیل عطا فرمائے آمین)جس پر لوگ اور گھر والے بہت ناراض ہوئے مگر بفضل اللہ رفتہ رفتہ یہ دوریاں،تلخیاں اور رنجشیں ختم ہوگئیں۔

 دعوت وتبلیغ کا سلسلہ تین شخصیات کی وجہ سے شروع ہوا جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے،مولانا محمد ادریس صاحب عالیاویؔ وفد کی شکل میں درس وتدریس کے ساتھ دعوتی کام کو ترجیح دی اور علاقہ مرچوار کے ہر گاؤں میں جاجاکر لوگوں کو معبود حقیقی کے بارے میں انہیں تعلیم دینا شروع کیا  یہ حضرات وفد کی شکل میں بھی جایا کرتے تھے کچھ عصر کے بعد بھی جاکر گھر گھر پیغام پہنچاتے تھے،میں نے خود دیکھا ہے کہ جب مدرسہ قائم ہوا اس وقت لوگ نہایت جانفشانی کامظاہرہ کرکے دور دراز گاؤں میں مغرب کے بعد پروگرام کیا کرتے تھے لال ٹین کے سہارے کبھی پپرہوا،پپری،بنگائی،مجگاواں،رسیاول،تھمہوا،جگنا،برواسی،گنیش پور،چوری وغیرہ راتوں میں پروگرام کرتے تھے،مقصد لوگوں کو اللہ کی جانب بلانا اور دنیاوی خرافات سے بچانا،شرک وبدعات سے روکناتھا،کیونکہ یہ علاقہ دینی تعلیم سے بالکل کورہ تھا لوگ نام کے مسلم تھے مگر انکے اندر مسلمانیت نہیں تھی،یہ سلسلہ بہت دنوں تک چلا الحمد اللہ علاقہ کے لوگ ایک اللہ جانب پلٹ آئے اور تمام تردنیاوی خرافات کو خیرباد کہہ دیا،یہ پروگرام دو مقاصد سے ہوا کرتے تھے ایک لوگ اپنی خلقت کے مقصد کو سمجھیں دوسرے اپنے بچوں کو دینی تعلیم دیں۔اسی کوشش کا ثمرہ تھا کہ بچے دو تین کلو میٹر کی مسافت کو طے کرکے  پیدل  مدرسہ میں پڑھنے روز آیا کرتے تھے،چاہے وہ  برسات کا موسم ہو یا سخت ٹھنڈی کا۔

تلامذہ:۔

آپ کے بے شمار تلامذہ دنیا کے کونے کونے میں موجود ہیں،جو تجارت،دعوت وارشاد کا کام بحشن وخوبی انجام دے رہے ہیں۔محمد سعید سراجیؔ،مجیب الرحمن فیضیؔ،نظام الدین فیضی، افضال احمد سلفیؔ،محمد ہارون فیضیؔ،سراج الدین فیضیؔ،اقبال احمدسراجیؔ،شبیر احمد فیضیؔ،اشفاق احمد سنابلیؔ،عبدالمعید ربانیؔ،اقبال احمدمقبول احمد فیضیؔ،نور محمد سراجیؔ،قیس محمد سراجیؔ،محمد ابراہیم محمد صدیق عالیاویؔؒوغیرہ کے علاوہ بے شمار ہیں جو فی الوقت یادداشت سے باہر ہیں۔

وفات:۔

آپ تقریبا ۴ سال سے شوگر بلڈ پریشر جیسی موذی بیماری کے شکار رہے آخری ایک سال سے نیرو پریشانی کیوجہ سے دماغ کی بعض وریدیں متاثر ہوگئیں جس کی وجہ سے ذہنی توازن برقرار نہ رہا اس وجہ سے بلا کسی مصاحب کے گھر سے باہر نہیں نکلتے تھے،دن بدن صحت گرتی گئی بالآخر وقت موعود آہی گیا اور آپ ۰۱/جون 2020ء؁ بروز بدھوار بوقت صبح بعد نماز فجر تقریبا 6 بجے داعئی اجل کو لبیک کہتے ہوئے اپنے مولائے حقیقی سے جاملے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون

آ پ نے اپنے پیچھے بیوہ،۳ بیٹے ایک بیٹی ۱۱ پوتے پوتیاں چھوڑ گئے ہیں اللہ انہیں صبر جمیل کی توفیق دے آمین۔

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter