کورونا وائرس: کیا لاک ڈاؤن سے انڈیا میں غذا کی قلت ہو جائے گی؟

8 اپریل, 2020

انڈیا سب سے زیادہ چاول، گندم، گنا، کپاس، سبزیاں اور دودھ پیدا کرنے والے ممالک میں شامل ہے۔ اب یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ کھیتی باڑی کو روکنے سے نہ صرف کسان اور مزدور متاثر ہوں گے بلکہ اس سے فوڈ سکیورٹی بھی متاثر ہو گی۔

انڈیا کی مغربی ریاست مہاراشٹر میں لسان گاؤں کا بازار عام طور پر کسانوں اور تاجروں سے بھرا ہوتا ہے لیکن بیشتر مہاجر مزدور جو پیاز کو ٹرکوں پر اتارتے، چڑھاتے اور ان کی درجہ بندی کرتے ہیں وہ وہاں سے غائب ہیں۔ خیال رہے کہ پیاز انڈیا کے کروڑوں افراد کی روزانہ کی غذا میں شامل ضروری جنس ہے۔

یہ بازار جہاں انڈیا میں پیاز کی پیداوار کی ایک تہائی کی خرید و فروخت ہوتی ہے، کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے اچانک نافذ کیے جانے والے 21 دن کے لاک ڈاؤن کے ایک ہفتے تک کسی طرح رینگتا رہا۔ اس لاک ڈاؤن کے دوران بس، ٹرین، اور ہوائی سفر پر پابندی لگا دی گئی ہے۔لیکن اس لاک ڈاؤن کے سبب پہلی بار مزدور بڑی تعداد میں اپنے کام کی جگہ سے ملک کے طول عرض میں پھیلے اپنے گھروں کو ہجرت کر گئے۔حکومت کی جانب سے زراعت کو ضروری خدمات قرار دیے جانے کے بعد کسان اپنے پیاز کے کھیتوں میں جا رہے ہیں اور کچھ مزدور جو رک گئے وہ لسان گاؤں کے بازار کو کسی طرح زندہ رکھے ہوئے ہیں۔لیکن اس کے بعد یہ خبر آئی کہ آس پاس کے علاقے میں ایک شخص کا کووڈ-19 ٹیسٹ پازیٹو آیا ہے جس کے بعد وہاں ہراس پھیل گیا۔ اس دن بازار رک گیا اور 450 ٹن پیاز ممبئی کی برآمد کرنے والی بندرگاہ لے جائے جانے سے رہ گیا جہاں سے اسے ملک کے مختلف حصوں میں لے جایا جاتا ہے۔پیاز کے تاجر منوج جین نے مجھے بتایا: ’پہلے ٹرک نے آنا بند کر دیا۔ پھر کچھ مزدور چلے گئے۔ پھر وائرس کی زد میں آنے والے مریض کی خبر آئی تو بچے ہوئے مزدور بھی بھاگ گئے۔‘انھوں نے مزید کہا ’بھیڑ بھار کے پیاز کی نیلامی والے اس بازار میں سماجی دوری بنائے رکھنا انتہائی مشکل کام ہے۔‘اس جگہ سے تقریبا 1700 کلومیٹر فاصلے پر مشرقی ریاست بہار میں ایک کسان کو اسی صورتحال کا سامنا ہے۔بہار کے سمستی پور ضلع کے منونت چودھری اپنے 30 ایکڑ پر پھیلے کھیتوں میں دھان (چاول)، سبزیاں، پھل اگاتے ہیں اور مویشی پالتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ان کے یہاں کام کرنے والے مزدور مقامی ہیں اور سڑک پار ہی رہتے ہیں لیکن انھوں نے بھی کام پر آنے سے منع کر دیا ہے۔انھوں نے بتایا: ’وہ سڑک پار کر کام پر آتے ہوئے بھی ڈرتے ہیں کیونکہ انھیں یہ خوف ہے کہ انھیں واپس نہیں آنے دیا جائے گا۔‘’یہاں وائرس کے بارے میں اس قدر غلط معلومات اور خوف پھیلا ہوا ہے کہ گاؤں والوں نے باہر نکلنا بالکل ہی بند کر دیا ہے۔ جب میں نے اپنی ایک ملازمہ کو کہا کہ اسے تھوڑھی تھوڑی دیر بعد اپنے ہاتھ دھونے ہیں تو اس نے پوچھا کہ کیا وہ اس سے بچنے کے لیے دوا کے طور پر گائے کا پیشاب پی سکتی ہے۔ اس لیے ہم سماجی دوری قائم رکھتے ہوئے کھیتی باڑی بھی نہیں کر سکتے۔‘

خوراک کی ترسیل

انڈیا کی نصف سے زیادہ پیداواری قوت کاشتکاری میں لگی ہوئی ہے جبکہ زراعت کا انڈیا کی مجموعی پیداوار میں 16 فیصد کا حصہ ہے۔ انڈیا سب سے زیادہ چاول، گندم، گنا، کپاس، سبزیاں اور دودھ پیدا کرنے والے ممالک میں شامل ہے۔ اب یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ کھیتی باڑی کو روکنے سے نہ صرف کسان اور مزدور متاثر ہوں گے بلکہ اس سے فوڈ سکیورٹی بھی متاثر ہو گی۔لاک ڈاؤن اس سے زیادہ خراب صورت حال میں نہیں آ سکتا تھا۔

انڈیا میں کاشتکاری کی سب سے زیادہ سرگرمی اپریل سے جون کے مہینوں کے درمیان ہوتی ہے۔ یہ وہ وقت ہے جب جاڑے کی فصل گندم، چاول اور دال کو کاٹا اور فروخت کیا جاتا ہے۔ یہ پھلوں کا بھی سب سے سرگرم موسم ہوتا ہے۔ اور یہی وہ موسم ہے جب کسان گرمی کی بارش میں اگنے والی فصلیں بوتے ہیں جن میں دھان، دلہن، کپاس اور گنا شامل ہیں۔اشوکا یونیورسٹی میں عمرانیات کے ایسوسی ایٹ پروفیسر میکھالا کرشنامورتی کہتے ہیں ’لاک ڈاؤن نے دونوں موسم کو متاثر کیا ہے۔‘اس کے علاوہ وبا کے پھیلنے سے قبل ہی کسان کو مشکلات کا سامنا تھا۔ فصلوں کی کم قیمت نے بڑے پیمانے پر دیہی صرفے کو سست کر دیا تھا۔ مناونت چودھری نے بتایا: ’عام حالات میں بھی کاشتکاری ناقابل عمل ہے۔سنہ 1997 سے اب تک تقریبا دو لاکھ کسانوں نے خود کشی کر لی ہے۔ زیادہ تر خودکشیاں غربت، قرض، فصل اگانے کے خرچ میں بھاری اضافے اور کیڑوں کے حملے سے فصلوں کو ہونے والے نقصانات کی وجہ سے ہوئی ہیں۔

انڈیا بازار

انڈیا میں ساڑھے سات ہزار بڑے تھوک کے بازار جبکہ اس کے علاوہ 25 ہزار ہفتہ وار بازار ہیں

حکومت نے فوڈ سکیورٹی اور غریبوں کو نقد پیسے منتقل کرنے کے لیے 23 ارب ڈالر کے ریلیف پیکج کا اعلان کیا ہے لیکن اس کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ یہ کم اور نامناسب ہے۔ریاستی حکومتیں فنڈ جمع کرنے اور فصلوں کو حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ جنوب میں تمل ناڈو ریاست کسانوں کو قرض پر ٹریکٹر دینے کا منصوبہ بنا رہی ہے لیکن یہ واضح نہیں کہ ان پر عمل درآمد ہو سکے گا یا نہیں۔ ابھی یہ بھی واضح نہیں ہے کہ پبلک ٹرانسپورٹ میں بغیر کسی نرمی کے سپلائی چین کو کس طرح آسان بنایا جا سکتا ہے۔

مہاجر مزدوروں کو کام پر واپس لوٹنے کے لیے کس طرح راضی کیا جائے گا؟ اور کتنی جلدی خریداروں کو لاک ڈاؤن سے پہلی والی سطح پر لایا جا سکے گا؟ اگر وہ کم خریداری کریں گے تو اس کی وجہ سے بازار میں اشیائے خوردنی کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا جبکہ دوسری جانب کسانوں کی آمدن میں مزید کمی ہو گی۔لیکن ساری خبریں بری ہی نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر زمینی سطح پر چیزوں میں تبدیلی لائی جا رہی ہے۔

انڈیا میں ساڑھے سات ہزار بڑے تھوک کے بازار ہیں جہاں کھیت سے اگنے والی اشیا ملتی ہیں۔ اس کے علاوہ 25 ہزار ہفتہ وار بازار ہیں۔ ڈاکٹر کرشنامورتھی کا کہنا ہے ’ان میں سے بعض کھلنے لگی ہیں اور وہاں اس چیز پر غور کیا جا رہا ہے کہ کس طرح سماجی دوری بناتے ہوئے بازار کو کھلا رکھنا ہے اور سامان لانا اور بھیجنا ہے۔‘اس کے ساتھ موسم سرما کی فصل بھی اچھی ہوئی ہے۔ انڈیا کے پاس اشیائے خوردنی کو ذخیرہ کرنے کا مضبوط نظام ہے جس میں چھ کروڑ ٹن اناج کو رکھا جا سکتا ہے اس کے علاوہ سرکاری طور پر دنیا کا سب سے بڑا تقیسم کا سلسلہ بھی ہے۔

ایسے میں اشیائے خوردنی کی کمی غیر متوقع ہے لیکن حالات کو معمول پر آنے سے قبل تک کسانوں، حصہ داروں اور مزدوروں کی امداد کرنے کے چیلنج ضرور ہیں۔ اس کے علاوہ غریبوں تک غذا پہنچانے اور اگلے موسم کے لیے فصل بچا کر رکھنے کے بھی چیلنجز ہیں۔

گنیش نانوتے

ریاست مہاراشٹر کے شہر اکولا کے کسان گنیش نانوتے نے بتایا کہ اب وہ اپنے کھیت پر تنہا ہی کام کر رہے ہیں

ناموافق حالات کے باوجود انڈیا کے کسان زیادہ تر لچک دکھانے والے ہیں۔ریاست مہاراشٹر کے شہر اکولا کے ایک کسان گنیش نانوتے نے بتایا: ’ہماری پریشانی یہ ہے کہ بازار بند ہیں اور کوئی ٹرانسپورٹ نہیں ہے اس لیے ہم اپنی چیزیں فروخت نہیں کر پا رہے ہیں لیکن اب میں اپنے کھیت پر تنہا ہی کام کر رہا ہوں۔‘اس کے بعد انھوں نے کھیت سے اپنی ایک سیلفی بھیجی جس کا مطلب یہ ہے کہ انھوں نے ’ہمت نہیں ہاری ہے۔‘

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter