رخِ گلاب کو شبنم سے دھولیا جائے
سکون گر نہ ملے پھر تو رو لیا جائے
ٹپک جو جائے عقیدت سے اپنے دامن میں
ہر ایک قطرہ ہے موتی سمو لیا جائے
نہ کٹ سکے گا یہ تنہا عقیدتوں کا سفر
کہ آؤ ساتھ میں اب آج ہو لیا جائے
مرے وطن کی زمیں سبز ہو بھی سکتی ہے
جو تخمِ پیار و محبت کو بو لیا جائے
یوں انتشار کے خطرات بھی نہیں رہتے
جو ایک سوت میں سب کو پرو لیا جائے
پھر آنے لگتی ہے منزل نظر اسے ثاقب
جو سونی آنکھ میں سپنا سجو لیا جائے
آپ کی راۓ