وہ مرد مختار تھا جو حق تھا، سراج کی شکل میں خوب چمکا
وہ ایک صحرا تھا اپنی طاقت سے پھول بن کرکے خوب مہکا
بہت سنا تھا تمہارا چرچا ، دکھا کے لایا ہوں آج سب کو
نہیں تمہارا ہے کوئی ثانی ، ترس رہے ہیں سبھی ادب کو
تو بات کرتا تھا مسکرا کر ، چمک رہا تھا ہمارا چہرا
خطاب کرتا تھا ایسا لگتا تھا ، جیسے برسا ہو کوئی قطرہ
تمہارے جانے کا سب کو دکھ ہے ، بڑا ہی سچا تھا تو بشر میں
خلوص وایماں کی برکتوں سے تو محترم تھا نظر نظر میں
اجل کی آغوش میں ہے سونا ، سبھی کو اک دن پتہ ہے انصر
الہی ! ہم سب کی یہ دعا ہے تو کردے مدنی کی قبر انور
شریک غم : انصر نیپالی
آپ کی راۓ