آه! شیخ جعفربن محمدحنیف سلفی

از:محمدھارون محمدیعقوب انصاری

20 مارچ, 2018

کون روک سکتاہے موت کے فرشتے کو
ایک روزجاناہے کچھ نہیں تیاری ہے
_______________________
شیخ جعفربن محمدحنیف سلفی کا شمار نیپال کے اچھے علماء میں ہوتاتھا آپ کی شخصیت محتاج تعارف نہیں عمر عزیز کا مختصرسفر درس وتدریس اور دعوت توحید پر ختم ہوا (( انا لله وانا اليه راجعون.))
تاريخ پیدائش 22 فروری 1964 بکرمی سمبت11/10/2020 ہے اور انتقال 15 مارچ 2018م علیگڈہوا بازار میں 10:30 پر ہوا
قومی شناختی کارڈ کے مطابق آپ 54 برس کی عمر میں وفات پائے۔
جامعہ سلفیہ مرکزی دارالعلوم بنارس سے سندفراغت حاصل کرنےکے بعد قوم وملت کے دکھ درد کو سمجھتے ہوئے اپنے آپ کو درس وتدریس سے جوڑا اور دعوت توحید کو ہی مشن بنایا اور آخری دم تک اسی مشن میں لگے رہے۔چونکہ آپ کی جائے پیدائش گوتم بدھ کے جائے مولود سے متصل تھا علاقے میں خاص کر لمبنی مضافات میں بدھ پرستاروں کی آمدورفت متواتر تھی اور ہے خدشے اندیشے شکوک وشبہات کی بنیاد پر آپ نے شاید اسی میدان میں رھ کر باطل خداوں کے قلع کو قمع کرنے سچی اور وحدانیت کادرس دینے، بھٹکے لوگوں کوصراط مستقیم پر لانے کی کوشش شروع کی ۔الحمداللہ آپ نے رشتہ کو میدان دعوت توحیدتاعمر بنائے رکھا۔

وسیع ظرفی خوش خلقی، سادہ لوحی، شعائراسلام کی پاسداری ، خلوص نیتی، اصلاحی کوشش کے ساتھ اپنے فرائض کوانجام دیتے رخصت ہوئے اللہ انکے کبیرہ صغیرہ بشری خطاوں کو درگزر فرمائے آمین۔
جامعہ محمدیہ غلہ منڈی بھیرہوا میں آپ بحیثیت مدرس تھے گاہے بگاہے جانے کا اتفاق ہواکرتاتھا مگر اس دوران ملاقات میں میں نے جو محسوس کیا وہ یقینا لائق ستائش ہے قوم کے اندر اصلاح کی تڑپ کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ جو اب کے اساتذہ میں کم دیکھنے کو ملتاہے۔
یوں تو اس دور میں سبھی لوگوں سرمایاکاری اور اونچے محل بنانے کے لئے خواب دیکھتے ہیں اور اسی کی تکمیل کے واسطے تدریسی میدان کو ترک کرکے دیارغیر کا سفر بھی کررہےہیں مگر آپ نے اس بارے میں( میرے خیال سے) سوچاتک نہیں۔
آپ کا علاقہ بدھ مت پرستاروں کا مرکز ہے اور کثیر تعداد میں عقیدت مند آتے ہیں اور ہماری سرکار انہیں ہر قسم کے مراعات دیتی ہے لہذا اس نظریہ کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ کہا کرتے کہ ہر مسلم بچوں کو کم ازکم عربی جماعت رابعہ تک تعلیم دینی بیحدضروری ہے تاکہ بدھ عقیدت مندوں کے نظریات سے ہم آہنگ نہ ہوں اور دین حنیف پر قائم رہیں حق وباطل کے مابین تمیز کی صلاحیت رہے۔
آپ باصلاحیت تھے کتب بینی کے شوقین اور دوسروں کوبھی اس جانب رغبت دلاتے تھے ۔گھر یا مدرسہ سے باہر نکلتے وقت کوئی نہ کوئی کتابچہ ہاتھ میں رہتاتھا، زبان و بیان کے فصیح تھے سستی اور تغافلی ناپیدتھی، وقت کی پابندی امتیازی صفت تھی کسب حلال کے خوگرتھے جو مل جائے اسی پر قناعت کرجاتے اللہ جانے والے کو کروٹ کروٹ جنت عطاکرے آمین
آپ نے اپنے آپکو تدریسی میدان میں رکھا اور وقت کی برق رفتاری کے ساتھ ایک ماہر استاذ مربی کی حیثیت سے حلقہ علم وادب میں جگہ بنائی الحمدللہ ذی علم اور جاھل آپ کی قدر کرتےتھے اللہ نے جو صلاحیت انہیں ہبہ کی تھی کماحقہ ادا کرنے کی کوشش کرتے تھے اور بے شمار تلامذہ آج دنیاکے بیشتر ممالک میں برسرروزگار ہیں اور درس وتدریس سے منسلک بھی اللہ انکے لئے اس خدمت اور سلسلہ علم کو تاقیامت بحال رکھے تاکہ اسکا اجر انکو ملتارہے۔ آمین
آپ تدریسی خدمات کے علاوہ محاضروں ، دروس، اجلاس میں بھی دعوت پر شرکت فرماتے تھے جہاں بنی نوح کو قال اللہ قال الرسول کی بات مدلل بتاتے اور سمجھاتے اور وعظ بھی کرتے تھے موقع اور محل کے اعتبار سے آپ کا خطاب ہوتا اور لوگوں کے دلوں تک بات پہنچانے کی پیہم کوشش کرتے تھے لیکن آپ کا کام دعوت توحید کاتھاآپ لوگوں کے پردہ سماعت تک اللہ اور اسکے رسول کی بات پہنچا دیتے تھے ہدایت دینا اللہ کا کام ہے۔ اللہ دعوتی خدمات کوشرف قبولیت بخشے آمین۔
آپ ابھی موتمر اہلحدیث دہلی میں شرکت کرکے لوٹےتھے کیا پتہ تھا کہ یہ کانفرنس آپکی عمر کا آخری کانفرنس ہوگا ۔

شیخ جعفر سلفی ایک جید عالم دیں تھے جنکی رحلت باشندگان نیپال کے لئے کسی بجلی کے گرنے سے کچھ کم نہ تھی کسی مجلس میں گفتگو کرتے تو پتہ چلتاتھا کہ علم حدیث کا ماھر شخص ہے جسے حدیث کے بارے میں پوری معلومات ہے ویسے بھی انہوں نے اپنی پوری زندگی کتابوں سے مربوط رکھا کوئی موقع فرو گزاشت نہیں ہمیشہ علم دین کے طالب رہے اور علمی بحث کے شائق بھی اور اس کامعترف ہر کس وناکس ہے ۔کسی بھی بات کو سلیقہ سےپیش کرنے کا بہترین ہنر تھا بحث ومباحثہ میں دلائل سے استنباط کرنا اور معاملہ کے جڑتک پہنچنا انکی خصوصیت تھی۔اللہ خدمات کو قبول فرمائے آمین۔
انسان ایک دنیا سے دوسری دنیا کو منتقل ہوجاتاہے مگر کارنامے ہی باقی رہتے ہیں ویسے موضع پڑیا ضلع روپندیہی (لمبنی) بہت معروف جگہ ہے جہاں کبھی بلبل نیپال ہواکرتے تھے ۔ بلبل نیپال حضرت عبدالرحیم امجدنیپالی رحمہ اللہ یہ مضافات عالموں سے بھراپڑا ہے "ایک سے بڑھ کر ایک ہمارے لمبنی میں "مدنی،مکی، ریاضی، سراجی، فیضی، ھادی، سنابلی محمدی اور نہ جانے کتنے جامعات کے فارغین بکثرت موجود ہیں مگر جن خصوصیات کے مالک آپ تھے مثل ڈھونڈھ کرلانا مشکل ہے ۔ اللہ جل شانہ اس علمی خلاء کو پر کرے آمین
آپکی وفات 15 مارچ بروز جمعرات بوقت دس بجے حرکت قلب بند ہونے سے ہوئی ((انالله وانا اليه راجعون))
یہ حقیقت ہے کہ کسی عدم موجودگی اسکی رفاقت پر اسکی اھمیت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے بات ضمن میں آگئی تو ایک بات معذرت کے ساتھ جب بلبل نیپال کی وفات ہوئی تھی اور لوگوں جوق درجوق صف بستہ لوگوں کے ازدھام کو اھل موضع نے دیکھا تو انہیں قیمتی سرمایہ کھونے افسوس رہا لیکن بقیدحیات میں اھمیت کو سمجھنے سے قاصررہے اسی طرح مفسر قرآن عبدالقیوم رحمانی رحمہ اللہ کے وفات پر لوگوں سمیت اہل گاوں کو اندازہ ہوا۔بعینہ شیخ جعفر سلفی کی رحلت سے پورے سلفی برادری کوہوا۔اس بات کا علم سبھی کوہے۔
ازقلم
محمدھارون محمدیعقوب انصاری
چیف ایڈیٹر ہفت روزہ صدائے عام اردو نیپال

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter