گزشتہ روز ایک درخشاں چراغ، ایک پُرخلوص مربی، اور ایک عظیم عالمِ سلفی، پروفیسر علامہ ڈاکٹر ربیع بن ہادی عمیر المدخلی رحمہ اللہ، اپنے رب سے جا ملے۔ ان کا انتقال، عالمِ اسلام کے لیے ایک عظیم علمی خسارہ ہے، جسے مدتوں محسوس کیا جائے گا۔ ان کے جانے سے علم، دعوت، منہجِ سلف اور علمی توازن کا ایک نادر نمونہ رخصت ہو گیا۔
ابتدائی زندگی اور علمی سفر:
شیخ ربیع المدخلیؒ 1351ھ مطابق 1932ء میں سعودی عرب کے جنوبی علاقہ المدخل (صبیّا، جازان) میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے قبیلے میں حاصل کی، پھر ثانوی تعلیم کے لیے مکہ مکرمہ تشریف لے گئے جہاں جامعہ اسلامیہ مدینہ کے قیام کے بعد وہاں داخلہ لیا۔ ان کا علمی کمال، ذہنی توازن، اور سلفی فہم ابتدا ہی سے نمایاں تھا۔
بعد ازاں وہ جامعہ اسلامیہ ہی میں تدریس کے مناصب پر فائز ہوئے، اور پھر جامعہ اسلامیہ کے کلیۃ الحدیث میں کئی عشروں تک تدریس، تحقیق، اور تربیت میں مصروف رہے۔ ان کے اساتذہ میں شیخ عبدالعزیز بن بازؒ، شیخ محمد امان الجامیؒ، شیخ حمود التویجریؒ اور دیگر اجلہ علمائے اہلِ حدیث شامل تھے۔
دعوتی اور سلفی خدمات:
شیخ ربیع المدخلیؒ کی اصل امتیازی شان منہجِ سلف کی حفاظت اور بدعات و انحرافات کے خلاف علمی محاذ آرائی تھی۔ انہوں نے فتنہ پسند افکار، سیاسی اسلام کے نعرے، بدعتی گمراہیاں، اور مذہبی شدت پسندی کے خلاف مضبوط علمی اور استدلالی موقف اختیار کیا۔
ان کی شخصیت نہ صرف سعودی عرب بلکہ پورے عالمِ اسلام میں سلفیت کی ایک جاندار علامت بن گئی۔ وہ کسی پارٹی یا شخصیت کے نہیں، صرف کتاب و سنت اور فہمِ سلف کے علمبردار تھے۔ ان کی دعوت میں بے لاگ اخلاص، علمی دیانت، اور خالص توحیدی وقار نمایاں تھا۔
تصنیفی خدمات:
شیخ ربیعؒ ایک گہرے محقق اور بلند پایہ ناقد بھی تھے۔ ان کی کتابوں کا دائرہ حدیث، منہج، جرح و تعدیل، ردِ بدعات، اور دفاعِ سنت تک پھیلا ہوا ہے۔ ان کی چند معروف کتابیں درج ذیل ہیں:
* منهج الأنبياء في الدعوة إلى الله
* جماعة واحدة لا جماعات
* بین الامامین مسلم والدارقطنی(اس کی پہلی اشاعت جامعہ سلفیہ بنارس سے ہوئی تھی)۔
* حقوق النبی والانتصار لہ
* نظرة سید قطب الی اصحاب رسول اللہ
* المدخل الی الصحیح 4 جزء
* اہل الحدیث ہم الطائفہ المنصورہ
* الرد المفحم علی من اعتدی علی صحیح مسلم
ان کے علاوہ مختلف موضوعات پر بے شمار مولفات ہیں۔
ان کی تصنیفات میں سادگی، استدلال، اور منہجی وضاحت کا حسین امتزاج ہے۔ وہ شخصیت پرستی، جذباتیت، اور تخریبی طرزِ فکر کے سخت مخالف تھے۔
ہندوستان سے قلبی تعلق:
ڈاکٹر شیخ ربیعؒ کو ہند کے سلفی علما، مدارس، اور طلبہ سے خصوصی محبت تھی۔ خصوصاً جامعہ سلفیہ بنارس سے ان کا رشتہ غیرمعمولی تھا۔ جہاں انہوں نے گیسٹ پروفیسر کے طور پر ایک مدت گزاری، دروس دیے، اور سلفی نوجوانوں کو خالص علمِ سنت کی راہ پر استوار کرنے کے لیے ترغیب دی۔ وہ بنارس میں فیملی کے ساتھ مقیم تھے۔ یہیں کے زمانہ قیام میں ان کے لڑکے پروفیسر شیخ محمد بن ربیع حفظہ اللہ کی بنارس ہی میں ولادت ہوئی۔
جامعہ اسلامیہ مدینہ طیبہ میں دیگر ممالک کے طلبہ کے ساتھ ساتھ بر صغیر ہند وپاک اور نیپال کے ڈھیر سارے طلبہ نے ان کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا، جن میں میری ذاتی حیثیت سے بھی شمولیت باعثِ افتخار ہے۔ مجھے جامعہ میں ان سے اکیڈمک طور پر شاگردی کا شرف تو حاصل نہیں ہو سکا، چونکہ وہ میرے اساتذہ کے استاد تھے، لیکن ان کے عام دروس سے استفادہ کے خاطر خواہ مواقع میسر آئے۔ اسی طرح میرے والد محترم کی بھی ان سے علمی نسبت اور تعلق رہا۔ ایک مدت تک راست طور پر شرف شاگردی حاصل رہا۔ تب جب وہ جامعہ اسلامیہ مدینہ طیبہ سے جامعہ سلفیہ بنارس میں گیسٹ پروفیسر کی حیثیت سے بھیجے گئے تھے۔
ان کے زہد، انابت، نرمی، اور توحید پر غیرت نے ہمیں ہمیشہ تحریک دی کہ ہم بھی اسی علم و منہج کے علمبردار بنیں، جو نہ شخصیت پرستی کا شکار ہو اور نہ جمود و تعصب میں گرفتار ہو۔
وقتِ وفات تک استقامت:
شیخ ربیع المدخلیؒ آخری دم تک سلفیت کے دفاع میں مصروف رہے۔ مختلف فرقوں، گمراہ تحریکوں، اور نفاق پر مبنی اسلام دشمن ایجنڈوں کے خلاف علمی مورچہ سنبھالے رکھا۔ ان پر تنقید بھی ہوئی، بہتان بھی لگے، مگر وہ ہمیشہ صبر، وقار اور دلائل کے ساتھ سچائی کی طرف بلاتے رہے۔
ان کی وفات صرف ایک عالم کا دنیا سے جانا نہیں، بلکہ ایک منہج، ایک تاریخ، ایک مکتبِ فکر کی عملی تفسیر کا رخصت ہونا ہے۔
ڈاکٹر شیخ ربیع بن ہادی المدخلیؒ نے اپنی پوری زندگی سنت کے دفاع، توحید کے فروغ، اور منہجِ سلف کی حفاظت میں گزار دی۔ وہ نہ صرف کتابوں میں زندہ رہیں گے بلکہ لاکھوں طلبہ، علما، اور دینی اداروں میں ان کے علمی نقوش جاری و ساری رہیں گے۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ شیخ ربیعؒ کی خدمات کو قبول فرمائے، ان کے درجات بلند کرے، ان کے علم کو امت کے لیے صدقہ جاریہ بنائے، اور ہمیں بھی علم و عمل میں انہی کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
إنا لله وإنا إليه راجعون
اللهم اغفر له وارحمه، واجزه عنا وعن الإسلام خير الجزاء
آپ کی راۓ