نیپال میں خواتین کے خلاف تشدد اور امتیاز: ایک سنگین مسئلہ
نیپال کا آئین عدل، جامع، اور شراکتی اصولوں کی بنیاد پر ایک خوشحال اور منصفانہ معاشرے کی تعمیر کا عزم رکھتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج بھی خواتین امتیاز اور تشدد کا شکار ہیں۔ گھریلو تشدد، جنسی تشدد، اور صنفی بنیاد پر ہونے والے مظالم سب سے زیادہ بچیوں، نوجوان لڑکیوں، اور خواتین کو متاثر کر رہے ہیں۔ انسانی اسمگلنگ اور بیرون ملک ملازمت کے نام پر خواتین اور لڑکیوں کی اسمگلنگ جیسے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
تشدد کا شکار خواتین کو انصاف دلانے کے لیے قوانین میں درج سزاؤں کا مؤثر نفاذ نہیں ہو پا رہا۔ ملک میں بوسیدہ رسم و رواج جیسے کالے جادو کے الزامات، ماہواری کے دوران علیحدگی، جہیز، تلک، چھوت چھات، اور گھریلو تشدد کی وجہ سے خواتین مختلف اقسام کے تشدد، امتیاز، اور توہین برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔
گھریلو تشدد اور قریبی رشتہ داروں کے جرائم
پولیس کے مطابق، گزشتہ مالی سال میں صنفی تشدد کے 20,913 مقدمات درج کئےگئے، جن میں 16,519 شکایات گھریلو تشدد سے متعلق تھیں۔ سب سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ 88.2 فیصد جنسی تشدد کے واقعات قریبی رشتہ داروں یا جان پہچان کے افراد کی جانب سے کئے گئے۔
پولیس نے رپورٹ کیا کہ پچھلے سال 3,243 ملزمان کو گرفتار کیا گیا جن میں سے 810 افراد متاثرہ خواتین کے قریبی رشتہ دار تھے۔ مزید برآں، 62 شوہر، 953 پڑوسی، اور 67 اساتذہ خواتین اور لڑکیوں کے خلاف جنسی تشدد کے مقدمات میں ملوث پائے گئے۔
خواتین کے خلاف تشدد کی یہ تصویر معاشرے کو بدصورت اور خوفزدہ بنا رہی ہے۔ صنفی تشدد کے واقعات میں سے 80 فیصد گھریلو تشدد کے ہیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ بیشتر واقعات میں چاہے وہ متاثرین ہوں یا مجرمین دونوں تعلیمی اعتبار سے کمزور ہیں گویا کہ کم تعلیمی پس منظر رکھنے والے افراد زیادہ متاثرین اور مجرم ہیں۔
خواتین کے عدل پر مبنی حقوق کے لئے جدوجہد
خواتین نے معادل حقوق کے قیام کے لئے باشعور اور منصوبہ بند جدوجہد کی ایک طویل تاریخ طے کی ہے۔ نیپال میں خواتین کے خلاف ہونے والے تشدد کے خلاف سب سے پہلے آواز اٹھانے والی خاتون یوگمایا نیوپانے تھیں۔ انہوں نے اُس وقت کے نیپالی معاشرے میں خواتین پر ہونے والے ظلم، ناانصافی اور دقیانوسی روایات کے خاتمے کے لئے مضبوطی سے آواز اٹھائی۔ کبھی بیداری مہم کے ذریعے تو کبھی سڑکوں پر جدوجہد کے ذریعے، خواتین نے معادلانہ حقوق کے لیے خود کو منظم کیا۔
بیرون ملک کام کرنے والی خواتین کی مشکلات
بیرون ملک روزگار کے لئے جانے والی خواتین بھی اپنے حقوق کے لئے منظم ہو رہی ہیں، لیکن انہیں مختلف مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، جیسے کہ اپنی صلاحیتوں اور قابلیت کے مطابق کام نہ ملنا، مزدوروں کے حقوق کی پامالی، اور دھوکہ دہی کا شکار ہونا۔
صنفی مساوات کی ضرورت
نیپال "مساوات پر مبنی معاشرے کی تلاش: نیپال میں خواتین کے حقوق کے تحفظ کی جدوجہد ”
"نیپال میں خواتین کے خلاف تشدد: مولانا مشہود خاں نیپالی کی اسلام کی روشنی میں مساوات کی دعوت”
نیپال میں خواتین کے خلاف تشدد اور امتیاز: ایک سنگین مسئلہ
نیپال کا آئین مساوی، جامع، اور شراکتی اصولوں کی بنیاد پر ایک خوشحال اور منصفانہ معاشرے کی تعمیر کا عزم رکھتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج بھی خواتین امتیاز اور تشدد کا شکار ہیں۔ گھریلو تشدد، جنسی تشدد، اور صنفی بنیاد پر ہونے والے مظالم سب سے زیادہ بچیوں، نوجوان لڑکیوں، اور خواتین کو متاثر کر رہے ہیں۔ انسانی اسمگلنگ اور بیرون ملک ملازمت کے نام پر خواتین اور لڑکیوں کی اسمگلنگ جیسے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
تشدد کا شکار خواتین کو انصاف دلانے کے لیے قوانین میں درج سزاؤں کا مؤثر نفاذ نہیں ہو پا رہا۔ ملک میں بوسیدہ رسم و رواج جیسے کالے جادو کے الزامات، ماہواری کے دوران علیحدگی، جہیز، تلک، چھوت چھات، اور گھریلو تشدد کی وجہ سے خواتین مختلف اقسام کے تشدد، امتیاز، اور توہین برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔
گھریلو تشدد اور قریبی رشتہ داروں کے جرائم
پولیس کے مطابق، گزشتہ مالی سال میں صنفی تشدد کے 20,913 مقدمات درج کئےگئے، جن میں 16,519 شکایات گھریلو تشدد سے متعلق تھیں۔ سب سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ 88.2 فیصد جنسی تشدد کے واقعات قریبی رشتہ داروں یا جان پہچان کے افراد کی جانب سے کئے گئے۔
پولیس نے رپورٹ کیا کہ پچھلے سال 3,243 ملزمان کو گرفتار کیا گیا جن میں سے 810 افراد متاثرہ خواتین کے قریبی رشتہ دار تھے۔ مزید برآں، 62 شوہر، 953 پڑوسی، اور 67 اساتذہ خواتین اور لڑکیوں کے خلاف جنسی تشدد کے مقدمات میں ملوث پائے گئے۔
خواتین کے خلاف تشدد کی یہ تصویر معاشرے کو بدصورت اور خوفزدہ بنا رہی ہے۔ صنفی تشدد کے واقعات میں سے 80 فیصد گھریلو تشدد کے ہیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ بیشتر واقعات میں چاھے وہ متاثرین ہوں یا مجرمین دونوں تعلیمی اعتبار سے کمزور ہیں گویا کہ کم تعلیمی پس منظر رکھنے والے افراد زیادہ متاثرین اور مجرم ہیں۔
خواتین کے عدل پر مبنی حقوق کے لئے جدوجہد
خواتین نے معادلانہ حقوق کے قیام کے لئے باشعور اور منصوبہ بند جدوجہد کی ایک طویل تاریخ طے کی ہے۔ نیپال میں خواتین کے خلاف ہونے والے تشدد کے خلاف سب سے پہلے آواز اٹھانے والی خاتون یوگمایا نیوپانے تھیں۔ انہوں نے اُس وقت کے نیپالی معاشرے میں خواتین پر ہونے والے ظلم، ناانصافی اور دقیانوسی روایات کے خاتمے کے لئے مضبوطی سے آواز اٹھائی۔ کبھی بیداری مہم کے ذریعے تو کبھی سڑکوں پر جدوجہد کے ذریعے، خواتین نے مساوی حقوق کے لیے خود کو منظم کیا۔
بیرون ملک کام کرنے والی خواتین کی مشکلات
بیرون ملک روزگار کے لئے جانے والی خواتین بھی اپنے حقوق کے لئے منظم ہو رہی ہیں، لیکن انہیں مختلف مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، جیسے کہ اپنی صلاحیتوں اور قابلیت کے مطابق کام نہ ملنا، مزدوروں کے حقوق کی پامالی، اور دھوکہ دہی کا شکار ہونا۔
صنفی عدل کی ضرورت
نیپال کی خواتین اقتصادی اور سماجی طور پر بہت پیچھے ہیں، ایسے میں صنفی عدل حاصل کرنا ایک بڑا چیلنج ہے۔ خواتین کے خلاف امتیاز اور تشدد کے خاتمے کے بغیر ایک منصفانہ اور ترقی یافتہ معاشرے کی تعمیر ممکن نہیں۔ اس مناسبت پر راشٹریہ مدرسہ سنگھ نیپال کے جنرل سیکریٹری و بانی مدرسہ بورڈ لمبنی پردیش نیپال مولانا مشہود خاں نیپالی نے نیپال میں خواتین کے حقوق کی حالت زار پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا: "یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی ماں، بہن، بیٹیوں کو وہ مقام دیں جو اللہ تعالیٰ نے انہیں دیا ہے۔ اسلام نے خواتین کو عزت، وقار اور حقوق عطا کئے ہیں،
انہوں نے کہا کہ نیپال میں خواتین کو مسلسل تشدد اور امتیاز کا سامنا ہے، لہذا ہمیں اپنے معاشرتی نظام کی بنیاد کو مضبوط کرنا ہوگا۔ "اسلام ہمیں بتاتا ہے کہ عورت کو گھر کی ملکہ سمجھو، اسے عزت دو، اس کے حقوق کا احترام کرو۔ اس کی عظمت کو پامال کرنا ہمارے مذہب اور روایات کے خلاف ہے۔”
مولانا نے مزید کہا: ” خواتین کی عزت و احترام کا دروازہ کبھی بند نہیں ہونا چاہیے۔ یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم ہر خاتون کو تحفظ دیں،
انہوں نے کہا کہ "ہم سب کو مل کر اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں خواتین کے حقوق کے لئے آواز بلند کرنی چاہیے، تاکہ نیپال کا ہر کونا خواتین کے لئے ایک محفوظ، عزت دار، اور روشن مقام بن سکے۔”
مولانا مشہود خاں نیپالی نے حکومت، مذہبی رہنماؤں اور عوام سے اپیل کی کہ وہ خواتین کے حقوق کو تحفظ دینے کی جدوجہد میں شریک ہوں، تاکہ نیپال ایک ایسا ملک بنے جہاں ہر فرد کو مکمل احترام اور انصاف ملے، اور عورت کو وہ عزت ملے جو اسلام نے اسے دی ہے۔ طور پر بہت پیچھے ہیں، ایسے میں صنفی عدل پر مبنی حقوق حاصل کرنا ایک بڑا چیلنج ہے۔ خواتین کے خلاف امتیاز اور تشدد کے خاتمے کے بغیر ایک منصفانہ اور ترقی یافتہ معاشرے کی تعمیر ممکن نہیں۔ اس مناسبت پر راشٹریہ مدرسہ سنگھ نیپال کے جنرل سیکریٹری و بانی مدرسہ بورڈ لمبنی پردیش نیپال مولانا مشہود خاں نیپالی نے نیپال میں خواتین کے حقوق کی حالت زار پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا: "یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی ماں، بہن، بیٹیوں کو وہ مقام دیں جو اللہ تعالیٰ نے انہیں دیا ہے۔ اسلام نے خواتین کو عزت، وقار اور حقوق عطا کئے ہیں،
انہوں نے کہا کہ نیپال میں خواتین کو مسلسل تشدد اور امتیاز کا سامنا ہے، لہذا ہمیں اپنے معاشرتی نظام کی بنیاد کو مضبوط کرنا ہوگا۔ "اسلام ہمیں بتاتا ہے کہ عورت کو گھر کی ملکہ سمجھو، اسے عزت دو، اس کے حقوق کا احترام کرو۔ اس کی عظمت کو پامال کرنا ہمارے مذہب اور روایات کے خلاف ہے۔”
مولانا نے مزید کہا: ” خواتین کی عزت و احترام کا دروازہ کبھی بند نہیں ہونا چاہیے۔ یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم ہر خاتون کو تحفظ دیں،
انہوں نے کہا کہ "ہم سب کو مل کر اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں خواتین کے حقوق کے لئے آواز بلند کرنی چاہیے، تاکہ نیپال کا ہر کونا خواتین کے لئے ایک محفوظ، عزت دار، اور روشن مقام بن سکے۔”
مولانا مشہود خاں نیپالی نے حکومت، مذہبی رہنماؤں اور عوام سے اپیل کی کہ وہ خواتین کے حقوق کو تحفظ دینے کی جدوجہد میں شریک ہوں، تاکہ نیپال ایک ایسا ملک بنے جہاں ہر فرد کو مکمل احترام اور انصاف ملے، اور عورت کو وہ عزت ملے جو اسلام نے اسے دی ہے۔
آپ کی راۓ