رمضان المبارک کے احکام ومسائل

ابوسعید محمدھارون انصاری نائب مدیر: ماھنامہ مجلہ القلم نیپالی اردو

14 مارچ, 2024
haroon ansari
رمضان المبارک کا مہینہ چونکہ غیر معمولی اہمیت و فضیلت کا حامل ہے اس لئے اس کے روزوں کے احکام و مسائل کی بابت علم رکھنا ہر مسلمان کی بنیادی ذمہ داری ہے تاکہ روزہ کے مطلوبہ مقاصد میں کسی قسم کی کوئی نقص و کمی نہ رہ جائے چنانچہ سطور ذیل میں روزہ کے چند اہم مسائل و احکام بیان کئے جا رہے ہیں :-
روزہ کا معنی:-
لغوی معنی:روزہ کو عربی زبان میں صوم کہتے ہیں اور "صوم” صام يصوم صوما ًو صياما ًکا مصدر ہے جس کا لغوی معنی ہے: مطلقاً رک جانا (الموسوعہ الفقہیہ28/7) اور عرب میں بھی کسی چیز سے رک جانے کو صوم کہا جاتا ہے حتی کہ بات چیت سے رکنے کو بھی صوم سے تعبیر کیا جاتا ہے جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے: فَقُولِي إِنِّي نَذَرْتُ لِلرَّحْمَنِ صَوْماً فَلَنْ أُكَلِّمَ الْيَوْمَ إِنْسِيّاً} [مريم:26] اے مریم تم ملنے والوں سے کہو کہ میں نے اللہ کیلئے نذر مانی رکھا ہے لہذا آج میں کسی انسان سے بات نہیں کروں گی۔
شرعی معنی:اور شریعت میں نیت کے ساتھ طلوعِ فجر سے لے کر غروب شمس تک جملہ مفطرات (کھانے، پینے اور جماع وغیرہ) سے رک جانے کا نام روزہ ہے (الفقہ الاسلامی و ادلتہ للدکتور الرحیلی 3/1626، و فتاوی رمضان لابن جبرین، 27-28/ 1) جیسا کہ قرآن حکیم میں اللہ نے فرمایا: وَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰی يَتَبَيَنَ لَکُمُ الْخَيْطُ الْاَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّيَامَ اِلَی الَّيْلِ (البقرہ/187)۔ ” (روزہ رکھنے کے لئے سحری کی غرض سے) کھاو پیو یہاں تک کہ تم پر صبح کا سفید ڈورا (رات کے) سیاہ ڈورے سے (الگ ہو کر) نمایاں ہو جائے، پھر روزہ رات (کی آمد) تک پورا کرو۔‘‘
روزہ کا حکم: رمضان کا روزہ ہر مسلمان، عاقل، بالغ، صحتمند اور مقیم پر فرض ہے کیونکہ یہ اسلام کا چوتھا اہم رکن ہے، اللہ نے فرمایا: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (البقرة/183) نیز فرمایا: فمَن شَهِدَ مِنكُمُ ٱلشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ (البقرة/185)اسی طرح سے اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: بُنِيَ الإسْلَامُ علَى خَمْسٍ: شَهَادَةِ أنْ لا إلَهَ إلَّا اللَّهُ وأنَّ مُحَمَّدًا رَسولُ اللَّهِ، وإقَامِ الصَّلَاةِ، وإيتَاءِ الزَّكَاةِ، والحَجِّ، وصَوْمِ رَمَضَانَ (البخاری /8)نیز رمضان کے روزوں کی فرضیت شعبان المعظم سنہ 2 ھ میں ہوئی اور رسول اللہ ﷺ نے رمضان کے نو سال روزے رکھے کیونکہ آپ کی وفات ربیع الأول سنہ 11 ھ میں ہوئی۔ (المجموع للنووي، 6/250)۔
روزہ کے ارکان : فرض روزوں کے دو ارکان ہیں جن کے بغیر روزہ درست نہیں ہوگا:
1- نیت : جیسا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مشہور حدیث مروی ہے ” إنّما الأعمالُ بِالنياتِ” (متفق عليه) یعنی جملہ اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے۔ واضح رہے کہ طلوع فجر سے پہلے نیت کرنا ضروری ہے جیسا کہ حدیث میں ہے: مَن لم يُجمعِ الصِّيامَ قبلَ الفجرِ فلا صيامَ لَهُ (صحيح أبي داود للألباني/2454) یعنی جس نے فجر سے پہلے روزہ کا عزم و ارادہ نہیں کیا اسکا روزہ درست نہیں ہوگا۔ البتہ نفلی روزوں میں نیت شرط نہیں ہے جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: دَخَلَ عَلَيَّ النبيُّ صَلَّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ ذَاتَ يَومٍ فَقالَ:هلْ عِنْدَكُمْ شيءٌ؟ فَقُلْنَا:لَا، قالَ: فإنِّي إذَنْ صَائِمٌ (صحيح مسلم/ 1154) ایک دن اللہ کے رسول ﷺ میرے پاس آئے اور فرمایا: تمہارے پاس کھانے کیلئے کچھ ہے؟ تو ہم نے کہا نہیں، آپ نے فرمایا پھر تو میں روزہ سے ہوں۔
2- جملہ مفطراتِ صوم (کھانے، پینے اور مباشرت وغیرہ) سے رک جانا: کیوں کہ اللہ کا فرمان ہے: وَكُلُواْ وَاشْرَبُواْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ (البقرۃ/187)۔
روزہ کن چیزو ں سے ٹوٹتا ہے؟
1- جان بوجھ کرکھانے پینے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ دلیل اللہ کا فرمان ہے: وَكُلُواْ وَاشْرَبُواْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الأَبْيَضُ۔۔۔الخ (البقرۃ/187) البتہ بھول چوک سے کھا پی لینے کی وجہ سے روزہ باطل نہیں ہوگا جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: مَن أكَلَ ناسِيًا وهو صائِمٌ، فَلْيُتِمَّ صَوْمَهُ؛ فإنَّما أطْعَمَهُ اللَّهُ (البخاري /6669)جس نے روزہ کی حالت میں بھول کر کھا لیا تو وہ اپنا روزہ پورا کرے کیونکہ اسے اللہ نے کھلایا ہے۔
2- جماع اور ہم بستری سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے :دلیل اللہ نے فرمایا:” فَالْآنَ بَاشِرُوهُنَّ وَابْتَغُوا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَكُمْ” (البقرۃ/187) علامہ ابن تیمیہ زاد المعاد کے اندر فرماتے ہیں کہ جس طرح سے کھانے پینے کی وجہ سے روزہ کے بطلان پر کوئی اختلاف نہیں ہے ٹھیک اسی طرح سے قرآن کی یہ آیت جماع کی وجہ سے روزہ کے فاسد ہونے پر دلیل ہے۔
3-عمدا قئ (الٹی) کرنے کی وجہ سے: حدیث میں ہے: "مَنْ ذَرَعَهُ الْقَيْءُ فَلَيْسَ عَلَيْهِ قَضَاءٌ، وَمَنْ اسْتَقَاءَ فَلْيَقْضِ” (ابو داؤد/2380، الترمذی /720)۔
یعنی جسے قئ ہو جائے اس پر روزہ کی قضاء نہیں ہے اور جس نے جان بوجھ کر قئ کیا تو اسے چاہئے کہ قضاء کرے۔
4-عورت کا حیض اور نفاس کا خون آنے کی وجہ سے: روزہ کی حالت میں چاہے دن کے اول حصے میں حیض و نفاس کا خون آجائے یا دن کے آخری حصے میں روزہ فاسد ہو جائے گا جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: أَليسَ إذَا حَاضَتْ لَمْ تُصَلِّ ولَمْ تَصُمْ، فَذلكَ نُقْصَانُ دِينِهَا (صحيح البخاري /1951) کیا ایسا نہیں ہے کہ جب عورت حیض کی حالت میں ہو تو نہ نماز پڑھے اور نہ روزہ رکھے کیونکہ یہ اسکے دین کی نقص ہے۔
5-مشت زنی (خودلذتی) سے روزہ باطل ہو جاتا ہے۔ استمناء بالید عام حالات میں بھی حرام اور گناہ ہے اور چونکہ روزہ کا ایک مقصد اللہ کی رضا کیلئے لذت و شہوت کی قربانی دینا ہے اور ظاہر ہے کہ استمناء بالید میں یہ چیز مفقود ہے جیسا کہ حدیث قدسی میں ہے:يَتْرُكُ طَعَامَهُ وشَرَابَهُ وشَهْوَتَهُ مِن أجْلِي الصِّيَامُ لِي، وأَنَا أجْزِي به(البخاری/1894)۔
 یعنی بندہ میری خاطر اپنے کھانے پینے اور شہوت کو ترک دیتا ہے اور روزہ میرے لئے ہے، میں اپنے طور پر اس کا بدلہ دیتا ہوں۔ البتہ اگر کوئی محتلم ہو جائے یا بیماری کی وجہ سے منی خارج ہو جائے تو روزہ باطل نہیں ہوگا۔ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ زاد المعاد کے اندر فرماتے ہیں: اگر بیوی کے ساتھ بوس و کنار کی وجہ سے منی خارج ہو جائے تو روزہ فاسد ہو جائے گا۔
6-طاقت بخش انجکشن لگوانا: علمائے کرام و مفتیان عظام کا متفقہ فیصلہ ہے کہ طاقت بخش انجکشن لگوانے سے روزہ ٹوٹ جاتاہےکیونکہ اس سےغذا حاصل ہوتی ہے البتہ انسولین اور دوسرے انجکشن لینے میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن احتیاط کا تقاضہ یہ ہے کہ انسولین کا انجکشن رات میں لیا جائے۔ (فتاوی الدروس للامام ابن باز)
7-سگریٹ نوشی : علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ سگریٹ نوشی مفطرات صوم میں سے ہے (فتاوی ابن عثیمین و الموسوعہ الفقہیہ/111-10)۔
کن لوگوں کیلئے روزہ توڑنا جائز ہے؟
1- مریض:جیسا کہ اللہ نے فرمایا: "فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَر” تم میں سے جو شخص بیمار ہو یا سفر میں ہو تو وه اور دنوں میں گنتی کو پورا کر لے (البقرۃ /184)۔ واضح رہے کہ مریض شخص کو صحتیاب ہونے کے بعد چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا کرنی پڑے گی تاہم اگر ایسا مریض ہو جس کے شفایابی کی امید ہی نہ ہو تو اسے ہر روزہ کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلانا پڑے گا (البقرہ/184)۔
2-مسافر: حالتِ سفر میں مسافر کیلئے رخصت ہے البتہ وہ بعد میں قضا کرے گا –جیساکہ مذکورہ  بالا آیت ” فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَر”سے واضح ہے۔ تاہم اگر بحالت سفر روزہ رکھنے میں سہولت ہو تو کوئی حرج نہیں جیسا کہ حمزہ بن عمرو اسلمی رضی اللہ عنہ نے اللہ کے رسول ﷺ سے دریافت کیا: أجدُ فيَّ قوَّةً على الصِّيامِ في السَّفرِ، فَهَل عليَّ جُناحٌ ؟ قالَ : هيَ رُخصةٌ منَ اللَّهِ عزَّ وجلَّ ، فمَن أخذَ بِها فحسَنٌ، ومَن أحبَّ أن يصومَ ، فلا جُناحَ عَليهِ (مسلم/1121،صحیح ترمذی للألبانی/ 2302) حالتِ سفر میں روزہ رکھنے کی میں طاقت رکھتا ہوں تو کیا میرے اوپر کوئی گناہ ہے آپ نے فرمایا: یہ اللہ کی جانب سے رخصت ہے لھذا نہ رکھنا بہتر ہے البتہ جو رکھنا چاہے رکھ سکتا ہے کوئی گناہ نہیں ہے۔ علامہ شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حالت سفر میں روزہ ترک کرنے کی افضلیت پر یہ حدیث قوی دلیل ہے۔ (نیل الاوطار 2231/5)۔
3-معمر، بوڑھے اور کمزور : ایسے بوڑھے، معمر اور کمزور مرد و خواتین جنہیں روزے کی طاقت نہ ہو تو وہ روزہ نہ رکھیں تاہم ہر روزہ کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلانا ضروری ہے- دلیل اللہ کا فرمان: وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ (البقرۃ /184) ۔
4-حاملہ اور مرضعہ: ایسی خواتین جو حمل سے ہوں یا دودھ پلانے والی ہوں اگر انہیں روزہ رکھنے سے تکلیف محسوس ہو یا بچے کی صحت متاثر ہو رہی ہو تو انکے لئے رخصت ہے کہ روزہ نہ رکھیں بعد میں پورا کریں گی۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: إنَّ اللَّهَ تعالى وضعَ عن المسافر شطرَ الصَّلاةِ والصَّومَ عنِ المسافرِ وعنِ المرضعِ أوِ الحُبلى(ابو داؤد/ 2408) اللہ نے مسافر سے آدھی نماز نیز مسافر، مرضعہ اور حاملہ سے روزہ کو رخصت دے رکھا ہے۔
بحالت روزہ کس عمل کے ارتکاب پر کفارہ واجب ہے؟
بحالت روزہ شریک حیات سے ہمبستری کرنے پر کفارہ دینا واجب ہے جس کی شکل یہ ہے ایک غلام آزاد کرنا، یا مسلسل دو مہینے کا روزہ رکھنا، یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا (بخاری/6709، مسلم/1111) باقی دیگر مفطرات سے صرف روزہ فاسد ہوگا جس کی بعد میں قضا ضروری ہے۔
کن چیزوں سے روزہ باطل نہیں ہوگا؟
1) انجکشن لگوانا: جبکہ غذا حاصل کرنا مقصود نہ ہو (فتاوی علامہ ابن تیمیہ اور ابن عثیمین رحمہما اللہ ، و الشرح الممتع)۔ اسی طرح شوگر کے کیلئے انشولین کا ٹیکہ لینے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔
2) حجامہ لگوانا :(بخاری/1939) مگر ضعف و کمزوری کا خدشہ ہو تو مکروہ ہے (بخاری/1940)۔
3) بیوی سے بوس و کنار کرنا: (متفق علیہ) اس شرط کے ساتھ کہ نفس و شہوت کے غلبہ پر کنٹرول ہو۔
4)کھانا چکھنا: اگر ایسی مجبوری ہو کہ کھانا چکھنا ناگزیر ہو تو جائز ہے تاہم اچھی طرح سے کلی کرلے اور حلق سے نیچے نہ جانے دے۔ (الشرح الممتع 430/6)۔
5)محتلم ہو جانا: (متفق علیہ)۔
6)مسواک کرنا :(متفق علیہ) اس میں ٹوٹھ پیسٹ بھی شامل ہے۔
7)غسل کرنا اور برودت حاصل کرنا : (ابو داؤد/2365)۔
8)سرمہ، کاجل، عطر اور تیل لگانا اسی طرح سے آنکھ وغیرہ میں دوا کا قطرہ ڈالنا :(نیل الاوطار للشوکانی، و فتاوی ابن تیمیہ، ابن باز، ابن عثیمین) ۔
9)مضمضہ اور استنشاق: (منہ اور ناک میں پانی ڈال کر صاف کرنا) [مسند احمد 21/1، صحیح ابو داؤد/2385، صحیح النسائی / 3048)۔
روزہ دار کے لئے حرام چیزیں:
بحالتِ روزہ وہ تمام چیزیں حرام ہیں جو رمضان کے علاوہ دیگر مہینوں میں بھی حرام ہیں جیسے جھوٹ ، غیبت، حسد، منافقت، دھوکہ، بے ایمانی، چوری ، گالی، موسیقی وغیرہ کیونکہ روزہ کا بنیادی مقصد تقوی حاصل کرنا ہے جیسا کہ اللہ نے فرمایا: ……. لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (البقرة/183) اسی طرح سے حدیث کے اندر جزر و توبیخ ہے اس شخص کیلئے جو روزہ رکھنے کے باوجود جھوٹ اور جہالت وغیرہ سے باز نہیں آتا، اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: مَن لَمْ يَدَعْ قَوْلَ الزُّورِ والعَمَلَ به والجَهْلَ، فليسَ لِلَّهِ حاجَةٌ أنْ يَدَعَ طَعامَهُ وشَرابَهُ ( صحيح البخاري/6057)۔
روزہ دار کے لئے چند مستحب چیزیں:
1-سحری کرنا: سحری کے بغیر بھی روزہ کی نیت کر لینے سے روزہ فاسد نہیں ہوگا البتہ سحری کرنا مستحب ہے کیونکہ اس میں ہر طرح سے برکت ہے: "تَسَحَّرُوا فإنَّ في السَّحُورِ بَرَكَةً.( صحيح البخاري/1923)۔
2-سحری میں تاخیر کرنا: زید بن ثابت سے مروی ہے کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سحری کیا پھر نماز کے لئے کھڑے ہوئے تقریبا نماز اور اذان کے درمیان پچاس آیتوں کے پڑھنے کا وقت تھا (متفق علیہ)۔
3- افطار میں جلدی کرنا: اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: لا يَزَالُ النَّاسُ بخَيْرٍ ما عَجَّلُوا الفِطْرَ.(صحيح مسلم/1098) لوگ اس وقت تک بھلائی پر رہیں گے جب تک افطار میں جلدی کریں گے۔
4-افطار کے وقت دعا کرنا: کیونکہ حدیث میں ہے کہ تین لوگوں کی دعائیں ٹالی نہیں جاتیں انھیں میں سے ایک روزے دار بھی ہے جب وہ افطار کے وقت دعا کرے (صحیح الترمذی/25526، ابن ماجہ/1779، ابن حبان /2407)۔
5-رطب، کھجور یا پانی سے افطاری کرنا: مستحب ہے لیکن اگر رطب، کھجور یا پانی میسر نہ ہو تو طیبات میں سے جو بھی میسر ہو افطار کیا جا سکتا ہے ( أبو داود /2356، والترمذي /696، وأحمد /12676، وحسنه الألباني في السلسلة الصحيحة/2840)۔
افطار کی دعا:
"بسم اللہ” کہہ کر افطار کریں۔ کیونکہ احادیث میں کھانے پینے سے پہلے بسم اللہ ہی کا ثبوت ملتا ہے (البخاری/5376، مسلم 2022) اور افطار کے متعلق خصوصیت کے ساتھ جو ایک مشہور دعاء” اللَّهُمَّ لَكَ صُمْتُ وَعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْتُ” ( ابو داؤد/ 2358 ) عام ہے اسے علامہ البانی نے سندا ضعیف کہا ہے (ضعیف الجامع للألبانی/4349)۔
افطار کے بعد کی دعا:
ذهب الظَّمَأُ، و ابْتَلَّتِ العُرُوقُ و ثَبَتَ الأَجْرُ إنْ شاءَ اللَّهُ۔ یعنی پیاس ختم ہو گئی، رگیں تر ہو گئیں اور اگر اللہ نے چاہا تو ثواب بھی مل گیا۔ (ابو داؤد/2357 وحسنہ الالبانی فی صحیح الجامع/4678)۔
یہ تھے روزہ کے متعلق چند اہم اور بنیادی احکام و مسائل جنہیں کتاب و سنت کی روشنی میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے، ان کے علاوہ اور بہت سے مسائل ہیں جنہیں خوف طوالت سے نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ اللہ ہمیں روزہ کے احکام و مسائل کو سمجھنے اور کما حقہ عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
 وصلی اللہ علی نبینا محمد وعلی آلہ وصحبہ اجمعین۔ ٭٭٭

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter