جاوید آغا عہد ساز شاعر

مقالہ نگار :افشاں بی ایس اردو شعبہ اردو یونیورسٹی آف اوکاڑا

23 نومبر, 2023

ڈاکٹر جاوید آغا کا شمار جدید  اردو شعرا کی فہرست میں ہوتا ہے۔ اردو میں آپ بطور شاعر،محقق اور نقاد مشہور ہیں۔ آپ 10 اکتوبر،1965ء کو سرگودھا کے شہر شاہ پور میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد بہت بڑے استاد تھے۔ادبی ماحول ہونے کے باعث ابتدائی تعلیم گھر سے ہی حاصل کی۔ آپ نے میٹرک کا امتحان گورنمنٹ ہائی سکول جھاوریاں سے پاس کیا۔ آپ نے انٹر میڈیٹ گورنمنٹ کالج سرگودھا سے کیا۔ بی اے کا امتحان بھی گورنمنٹ کالج سرگودھا سے پاس کیا۔ایم اے سے پی ایچ ڈی تک کی تعلیم پنجاب یونی ورسٹی سے حاصل کی۔آپ کے پی ایچ ڈی کے مقالے کا عنوان علم عروض اور شاعری کا فن تھا۔ آپ نے اپنی علمی کتاب 17 برس کی عمر میں لکھی۔ اس کتاب کا نام "رقص بسمل ” تھا۔اس کے علاوہ آپ کی کتب میں "کون کسی کا ہوتا ہے”،”راستے کھو گئے”،”ایک نام پریشان کرتا ہے” اور "تیسری آنکھ کا نوحہ "شامل ہیں۔ اس کے علاوہ آپ کے خطوط کا مجموعہ "سلسلے رفاقت کے”کے نام سے شائع ہوا۔ آپ نے 1986ء میں ازدواجی زندگی کا آغاز کیا۔آپ کے ہاں پانچ اولادیں ہوئیں۔آپ کی بڑی بیٹی ڈاکٹر سلمیٰ آغا پشاور یونیورسٹی کے شعبہ اردو کی صدرہیں۔ آپ کی بیٹی ڈاکٹر صائمہ آغا کے طور پر فائز ہیں۔آپ کے بیٹے ڈاکٹر عرفان آغا جی سی یونیورسٹی میں شعبہ اردو میں پڑھا رہے ہیں۔  آپ کے چھوٹے بیٹے ڈاکٹر حسن رضا الخیر یونی ورسٹی  سندھ میں پڑھا رہے ہیں۔ان کے سب سے چھوٹے بیٹے ڈاکٹر آغا علی رضا اوکاڑا یونی ورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔

ڈاکٹر جاوید آغا نے زمانہ طالب علمی میں ہی شعر کہنے شروع کر دیے تھے۔شاعری میں آپ کے استاد کا نام شوکت راز ہے۔  ڈاکٹر جاوید آغا شاعری میں ان سے مشورہ لیا کرتے تھے۔آپ کی شاعری کے بارے میں ڈاکٹر انور سدید لکھتے ہیں:

"رومانوی مزاج رکھنے والے  جاوید آغا شاعر اور ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ پختہ شعور بھی رکھتے ہیں۔”

ادیب اور شاعر کی حیثیت سے یہ ایک عرصے سے اپنا تعارف رکھتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ادب میں انھوں نے بہت سی خدمات سر انجام دیں۔احساس غم،درد مندی، محبت،افلاس، دوستی اور شکوہ کے عناصر ان کی شاعری میں کارفرما نظر آتے ہیں۔

ڈاکٹر جاوید آغا پر پانچ مقالہ جات پاکستان میں لکھے جا چکے ہیں۔ سرگودھا یونی ورسٹی سے دو ایم فل کے مقالے لکھے جا چکے ہیں جن میں سے  ایک "جاوید آغا کی شخصیت و فن” اور دوسرا "جاوید آغا ایک مقالہ” ہیں۔یونی ورسٹی آف لاہور میں آپ کی شخصیت پر ایم فل کا مقالہ لکھا جس کا عنوان "جاوید آغا کا جدید شاعری میں مقام "ہے۔

پنجاب یونی ورسٹی سندھ سے جاوید آغا کی شخصیت پر لکھے جانے والے مقالوں میں”جدید اردو نظم اور جاوید آغا”اور

دوسرا "اردو غزل کا تیسرا دور اور جاوید آغا”شامل ہیں۔ انڈیا میں آپ کی شخصیت پر دو مقالہ جات لکھے جا چکے ہیں جو کہ "نثری نظم میں جاوید آغا کا نام”اور "جاوید آغا شخص اور شاعر”شامل ہیں۔بنگلہ دیش میں لکھے جانے والے مقالے کا نام "ڈاکٹر جاوید آغا ایک صدی کا شاعر”شامل ہے۔آپ کی زوجہ کا نام ڈاکٹر رفعت آغا ہے جو کہ پشاور یونی ورسٹی میں دین کے عہدے پر فائز ہیں۔

ایک بڑا شاعر وہی ہوتا ہے جو سماج کی عکاسی اپنی شاعری میں کرتا ہے‍۔ظاہری سی بات ہے کہ جس طریقے سے شاعر سماج کو دیکھے گا اسی طرح سے اپنی شاعری میں بیان کرے گا۔ڈاکٹر جاوید آغا کی شاعری میں سماجی مسائل پائے جاتے ہیں۔ان کے مسائل ذاتی نہیں بلکہ اجتماعی ہیں۔یہی ان کی شاعری کا خاصا ہے ۔اس حوالے سے ڈاکٹر جاوید آغا لکھتے ہیں:

تجھے ہی وقت کے فرعون سے اب بات کرنی ہے

میرے بیٹے اب یہاں کوئی پیغمبر نہیں آئے گا

 

 

عرفان ذات سے مراد اپنی ذات یا خودی کا علم ہونا ہے۔جو شخص اپنے آپ کو پہچان لیتا ہے وہ اپنی تکمیل کر لیتا ہے۔خودی دراصل اپنے آپ کو پہچاننے کا نام ہے مثلاً میں اکیلا ہوں،میں کون ہوں،میرے آنے کا مقصد کیا ہے ؟وغیرہ۔ڈاکٹر جاوید آغا نے اپنے آپ کو پہچاننے کی بات کی ہے۔ وہ اپنے آپ کو تلاش کرنے کی بات کرتے ہیں۔ڈاکٹر جاوید آغاکی شاعری میں عرفان زات ملتا ہے۔یہ ان کہ شاعری میں بطور ساز پایا جاتا ہے۔

اب آئینے میں اک نظر خود پر ڈالیے

کس نے کہا تھا آنکھ میں دکھ درد پالیے

 

جاوید آغا کی شاعری میں عشق کے غم اور لطف اندوزی کے اثرات ملتے ہیں۔ان کی شاعری میں ان کا محبوب ان کا دوست نظر آتا ہے۔ان کے ہاں اپنے دوست سے محبت کے دعوے بھی ملتے ہیں اور گلے شکوے بھی ملتے ہیں۔

برسوں کی رفاقت کا صلہ اتنا ملا ہے

اک ہجر کا سحرا ہے کہ مائل ہے میرے دوست

 

ماضی کی یادیں انسان کو مسلسل تڑپاتی ہیں۔جو انسان ماضی کی یادوں کو سینے میں پال لیتا ہے وہ انسان ہر وقت دکھی رہتا ہے۔جاوید آغا کی شاعری کو پڑھنے کے بعد یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ ماضی میں جینے کو اہمیت دیتے ہیں۔

شہر کی آب و ہوا دکھلائے گی اپنا اثر

بھول جائے گا سبھی پرانی یادیں ہائے ہائے

 

سامراج سسٹم کے جلاف بغاوت ترقی پسند تحریک کا نعرہ ہے۔ترقی پسند تحریک والوں نے سب سے پہلے عام آدمی کی بات کی۔مزدور دوست کی بات کی اور سب سے پہلے حکومت کے خلاف بغاوت کا نعرہ بھی ترقی پسند تحریک نے لگایا۔ڈاکٹر جاوید آغا کی شاعری میں ترقی پسند نظریات ملتے ہیں۔وہ سامراج سسٹم کے خلاف بغاوت کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کی شاعری میں ترقی پسند لہجہ بھی ہے جو ان کو باقی شعرا سے ممتاز کرتا ہے‍۔

رات کٹیا میں مرا بھوکا کسی مفلس کا چاند

حکمراں گاؤں کا گاؤں کو اکیلا کھا گیا

سب سے زیادہ ازیت دہ بات زمانے کی ستم ظریفی ہے۔جب زمانہ تکلیف دیتا ہے تو ستم براہ راست دل کو گھائل کر دیتی ہے۔سب سے گہری سچائی یہ ہے کہ زمانہ اسی کا ہے جس کا وقت ہے۔جس کا وقت نہیں اس کا زمانہ نہیں۔

خدایا اک گھڑی ایسی عطا کرنا زندگی میں

جو آنکھیں دیکھنا چاہیں وہی منظر نظر آئے

 

 

یہاں پر چار دیواری نہ کوئی در نظر آئے

مجھے تو شہر بھر میں بے تحفظ گھر نظر آئے

 

نوید صبح نو لے کر چلا کوچہ بہ کوچہ میں

مگر سہمے ہوئے افراد گھر گھر نظر آئے

 

 

علامت نگاری سے مراد کسی ایک شے کو علامت بنا کر پوری ثقافت کا بیان کرنا ہے۔ ڈاکٹر جاوید آغا نے پیڑ کی علامت کو انسان سے جوڑنے کی کوشش کی ہے۔جس طرح تنہا انسان کچھ نہیں کر سکتا اسی طرح پیڑ بھی کچھ نہیں کر سکتا۔جاویدآغا نے اسی پیڑ سے تشبییہ دی ۔

دیو مالائی کہانی ،خواہشیں

اور اک شوکیس میں پتھر جوں

 

 

شہر میں بے در فصلیں ہیں مگر

پل رہا ہے آج بھی گھر گھر جنوں

 

 

مجھ کو دروازے پہ آغا کل مل

ہاتھ میں اپنا ہی لے کر سرجنوں

 

 

تصور تقدیر کی کئ قسمیں ہوتی ہیں۔ایک تقدیر دعا سے بدل جاتی ہےاور ایک مستقل ہوتی ہے۔تصور تقدیر سب سے پہلے علامہ اقبال نے پیش کیا۔یہی تصور ڈاکٹر جاوید آغا کی شاعری میں ملتا ہے۔

پیار کی مٹی میں کیوں ہوتا ہے یہ شجر اپنا

تجھ کو لے ڈوبے گی سینہ زوری دیکھنا

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter