جمعیت اہل حدیث اور شادی ڈاٹ کام

محمد ہاشم خان

31 مئی, 2023

جب آپ کوئی بڑا کام نہیں کرپاتے ہیں تو چھوٹی چھوٹی چیزوں میں خوشیاں تلاش کرنے لگتے ہیں۔ اور پھر یہی آپ کا مقدر ہوجاتی ہیں۔ چھوٹی چھوٹی چیزوں میں مگن ہونے والوں کو ‘گاڈ آف اسمال تھنگس’ کہتے ہیں۔ یہی حال وطن عزیز میں جمعیت اہل حدیث کا ہے۔ اس کے اندر کوئی بڑا کام کرنے کی صلاحیت نہیں ہے اس لیے یہ چھوٹی چھوٹی چیزوں کو اپنا مقدر بنانے میں اور ملت کا پیسہ پھونکنے میں مصروف ہے۔ اگر آپ کہتے ہیں کہ بھلا عقیدے کی تبلیغ و تشویق سے بڑا کام اور کیا ہوسکتا ہے تو معاف کیجئے گا کہ یہ کوئی ‘کام’ نہیں، یہ بہ حیثیت مسلمان فرض عین ہے۔ یہ تو آپ کو کرنا ہی ہے ایسے جیسے اسلام کے دیگر فرائض یا اپنی دیگر عبادات انجام دیتے ہیں۔ اس کے لیے الگ سے چندہ کرنے یا الگ سے فنڈ مختص کرنے کی ضرورت نہیں۔ آپ کا اپنا وجود، اپنی ذات، آپ کی موجودگی، آپ کے اقوال و افعال یا آپ کا جملہ طرز حیات اس عقیدہ ناب کا مظہر ہونا چاہئے۔ یہی اصل مطلوب ہے اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر لاکھ جلسے اور کانفرنسیں کروائیں نتیجہ لاحاصل ہی برآمد ہوگا۔ اگر آپ کا عمل آپ کے عقیدے کے عین مطابق نہیں ہے تو آپ کچھ بھی کرلیں لماتقولون مالاتفعلون کی عملی تفسیر ہی رہیں گے اور یوں آپ کی مساعی جمیلہ دائرے کا سفر ثابت ہوگی۔ عقیدے کو ‘ترجیحی’ فہرست میں ضرور رکھیں لیکن صرف اسی پر اکتفا کر لینا اور دیگر سماجی و معاشی مسائل سے آنکھیں چرانا یقیناً مومنانہ فراست کی توہین ہے۔ اگر آپ دیگر مسائل کو اللہ کے حوالے کرسکتے ہیں تو پھر عقیدے کی تبلیغ بھی اللہ کے حوالے کر دیں کہ اصل محافظ تو وہی ہے (انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون) ۔ کم از کم اس طرح غریب غربا کا پیسہ ضائع ہونے سے بچ جائے گا۔ اور اگر ایسا نہیں کرسکتے تو پھر آپ کے لیے بہر صورت توازن برقرار رکھنا لازمی ہے۔ ہم کو دین بھی چاہئے اور دنیا بھی اور یہ دونوں ممکن ہیں۔ اگر آپ کو دنیا نہیں چاہئے تو پھر بلڈنگیں بنانا بند کردیں اور تیرتھ یاترا پر نکل جائیں۔ ہمیں دنیا اور آخرت دونوں جگہوں پر سرخرو ہونا ہے اور یہی اصل کامیابی ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ نکتہ صرف جماعت مذکور کے ذمہ داران اور ان کے اقربا ہی سمجھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ دنیا اور آخرت دونوں بنانے میں حتیٰ الوسع مصروف ہیں، جب کہ باقی لوگوں سے کہا جارہا ہے کہ آپ آخرت کے نام پر اپنی دنیا تباہ کریں اور المیہ یہ ہے کہ وہ اپنی دنیا شوق سے تباہ بھی کر رہے ہیں اور جمعیت ان کی بھرپور مدد بھی کر رہی ہے۔افسوس کی بات یہ ہے کہ جمعیت کو کوئی احساس جرم بھی نہیں ہے۔ سوائے روبوٹوں (مراد بھکت نہیں ہیں) اور گدھے کی طرح چیخنے والے چند کمیاب مقررین کی نسل تیار کرنے کے اس جمعیت کا ملت کے نام پر کوئی تعمیری اور تخلیقی کام نظر نہیں آتا اور چونکہ ان کی ‘ترجیحی’ فہرست میں یہ شامل بھی نہیں ہے اس لیے آئندہ بھی نظر نہیں آئے گا۔ اب اگر جمعیت کا کوئی اسکول، گرلس کالج، نرسنگ، انجینئرنگ اور میڈیکل کالج یا اسپتال نہیں ہے تو امید نہ رکھیں کہ آئندہ بھی وہ یہ سہولیات فراہم کرنے والے نہیں ہیں۔ اگر یہ جماعت اپنے دفتر کو شادی ڈاٹ کام میں تبدیل کردے تو سماج کو جو فائدہ پہنچے گا وہ بیان کی بیکراں حدوں سے باہر ہے۔ اہل حدیث بچیوں بالخصوص تعلیم یافتہ بچیوں کی وقت رہتے شادیاں بھی ہوجائیں گی اور مسلکی و منہجی غیرت بھی محفوظ رہے گی۔ جماعت و جمعیت کو اس مسئلے پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ تعلیم یافتہ بچیوں کی شادیاں کیوں نہیں ہو پارہی ہیں اور اس میں وہ کیا کردار ادا کرسکتی ہے۔

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter