راہِ فقر کو سلجھاتے تجرباتی تجزئیے

تحریر:پروفیسر محسن خالد محسنؔ (شعبہ اردو:گورنمنٹ شاہ حسین ایسوسی ایٹ کالج،لاہور)

5 مئی, 2023

زندگی ہمہ قسم کی رنگینوں اور آلاموں سے اٹی ہوئی ہے۔ اس میں طرح طرح کے عجائب اور متحیر کُن عناصر کی ایسی کارفرمائی ہے کہ انسانی  عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ انسان کی پیدائش سے وفات تک حیرانی و گومگونی کا یہ عمل جاری رہتا ہے۔ دُنیا کے تفکرات حصول و یاس کی ایسی گردش میں انسان کو مبتلا کرتے ہیں کہ ہر لمحے یہاں سے کوئی جار ہا ہے اور آرہا ہے لیکن اس جانے اور آنے کے عمل کو انسان سمجھ کر ان جان بنتا ہے اور موت و حیات کی تصدیق کو  دُنیاوی تفکرات کے غلبہ سے تردید کرتے ہوئے اپنے اصل مقصدِ حیات سے دور ہو جاتا ہے۔

انحراف کا یہ عمل انسان کو پستی و غفلت کی انتہا تک لے جاتا ہے او رپھر ایک ایسا سلسلہ شروع ہوتا ہے جس  کے آواگونی طلسم کدہ سے نکلنا انسان کے بس کی بات نہیں ۔موت کی حقیقت سے انکار نہیں لیکن اس کو پوری طرح قبول کرنا بھی آسان نہیں ہے۔ راہِ فقر ہی ایک ایسا ذریعہ ہے جو انسان،دُنیا،رب  کے درمیان ایک توازن پیدا کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔راہِ فقر انسان کو دُنیا کی حقیقت و مابعد کی صورتحال سے آگاہ کرتا ہے اور رب تعالیٰ کے تصورِ وحدانیت سے کماحقہ واقفیت دلواتا ہے۔ راہِ فقر کیا ہے اور رب تعالیٰ کے عرفا ن کا گیان کس  طرح حاصل کیا جاسکتا ہے۔

اس دولت سے ہم سید سرفراز اے شاہ صاحب کی محافل میں تسلسل سے شریک ہونے کے طفیل سے فیضیاب ہوئے۔ ان کی محافل میں ہم نے خود کو جانا،دیکھا،پرکھا اور ٹٹولا کہ ہم آخر ہیں کیا اور یہ دُنیا اور اس کا ٹنٹا کیا ہے۔زندگی کیا ہے،زندگی کے بعد کیا ہے،موت کیا ہے،موت کی حقیقت کیا ہے؟ اصل کامیابی کیا ہے اور اصل ناکامی کیا ہے؟دین کسے کہتے ہیں، شریعت پر عمل پیرا کس طرح ہوا جا سکتا ہے۔ رب تعالیٰ کی محبت کو کیسے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ایک کامیاب زندگی کیسے گزاری جا سکتی ہے؟

مختصر یہ کہ  رب تعالیٰ کا نیک  اور مقرب  بندہ کیسے بناجا سکتا ہے۔ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات اُستادِ محترم کی موجودگی میں ان کی محافل میں شرکت کے نتیجے میں ہمیں ملے۔ انھوں نے جو کچھ کہا گویا دل سے نکلا اور دل میں اُتر گیا۔ جو سیکھا اور جو ذہن و قلب و روح میں موجزن ہے،پیش کیے دیتے ہیں۔

یہ راہِ فقر ہے کیا!

ہمارے ہاں فقر کے بارے میں بہت سے غلط فہمیاں اور غلط طریق مروج ہیں۔ فقر کو سمجھنے میں لوگ اکثر غلطی کھاتے ہیں۔ ہمارے مشرقی معاشرے میں لوگوں کے خود ساختہ اتنے مسائل ہیں کہ لوگ اپنے ان لاحاصل مسائل سے وابستہ خواہشوں اور آرزؤں کی تکمیل کے لیے اکثر دُنیا سے بیزار اور متنفر عاملوں کی خود ساختہ تصنع آمیز درگاہوں پر جاتے ہیں اور اپنے رب کا خوب شکوہ اور ماتم کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی مسائل اور پریشانیوں کا مدعا یہ ہوتا ہے کہ فلاں نے مجھے تعویذ ڈال دیے ہیں۔ فلاں نے میرا رزق بند کر رکھا ہے۔ان لوگوں کی گفتگو کا حاصل یہ ہوتا ہے کہ ہم جو کچھ چاہتے ہیں وہ ابھی مل جائے اور ہماری خواہش کے مطابق مل جائے جبکہ قدرت کا یہ قانون ہے کہ ہر چیز کے لیے ایک وقت معین ہے۔

درا صل نظام قدرت کے اصول متعین ہیں ان سے انحراف لاحاصل ہے۔ ایسے لوگوں کو جذباتی کرکے ان دُکھوں کا مداوا کرنے والوں کے حلیے عجیب وضع کے ہوتے ہیں۔ایسے لوگوں کو عُرفِ عا م میں "بابا،درویش، فقیر، ملنگ،پیر” وغیرہ کہا جاتا ہے۔ بادی النظر میں یہ لوگ تارک ِ دُنیا دکھائی دیتے ہیں۔ان کی وضع قطع سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانیت نام کی کوئی چیز ان میں سرے سے موجود نہیں ہوتی۔ فقربہت عمدہ لائف سٹائل ہے لیکن کیا یہ ضروری ہے کہ کم سے کم کپڑے پہنے جائیں اور نہانے کے لیے ایک لوٹاپانی سال میں ایک ہی بار استعمال کیا کیا جائے۔ جسم پر دو،دو انچ موٹی مَیل کی تہ جمی ہو؛داڑھی جٹاؤں کی صورت اختیار کر جائے؛بال بکھرے اور مَیل سے اٹے ہوں۔میرا احساس یہ ہے کہ میرا رب ایسی وضع کو پسند نہیں کرتا۔ وہ تو بہت صفائی پسند ہے اور صفائی کو نصف ایمان قرار دیتا ہے۔ وہ خود پاک اور پاکیزگی کا حکم دیتا ہے۔ لہذا اُس کا کلام اور نام جپنے والا انسان نفیس،پاک اور صاف ستھرا ہوگا۔یہ کیسے ممکن ہے کہ ایسے وضع کا حامل شخص کہ جس کے پاس بیٹھنا دُشوار ہو جائے،اُسے ولیِ کامل اور صادقِ امر مان لیا جائے اور اس کی ظاہری ہیت اور فرمودات کی مِن وعَن نقل کی جائے۔

یہ ممکن نہیں کہ رب تعالیٰ سے محبت کرنے والا اور اُس کے کلام اور نام کو جپنے والے انسان کی ڈاڑھی میل سے اٹی ہو،چہرہ غبار آلود ہو اور جس سے مَنوں میل جڑ رہی ہو اور بدبو کے بھبھوکے اُٹھ رہے ہوں کہ دیکھنے والے کو کراہت محسوس ہو۔حضور اکرم ؐ کا یہ حلیہ تو نہ تھا۔ اگررب تعالیٰ کو ایسا ہی حلیہ پسند تھا جیسا کہ آج کے دور میں مروج ہے تو یقینا حضور اکرم ؐ کا حلیہ بھی ایسا ہی ہوتا۔آپؐ نے تو اپنے محدود وسائل میں رہتے ہوئے بہترین صاف ستھرا لباس پہنا۔آپ ؐ کی داڑھی مبارک ہمیشہ خط شدہ اور تراشیدہ ہوتی۔آپؐ کے بال کبھی کسی نے اُلجھے ہوئے نہیں دیکھے۔ آپؐ کے جوتے کبھی کسی نے غبار آلود نہیں دیکھے حالاں کہ آپ ؐ مِیلوں سفر فرماتے تھے۔اگر حضور ؐ کا یہ حلیہ اوروضع تھی تو میں اسی حلیے اور وضع کی نقل کروں گا۔ جسے سنت کہا جاتا ہے۔ مختصر یہ کہ ہمیں ایسے خودساختہ اور بناوٹی پیروں اور فقیروں کے اس سحرِ انگیز وضع کے چُنگل سے خود کو آزاد کروانا ہو گا۔ رب تعالیٰ پر پختہ یقین اور اُس کو اپنا رازقِ حقیقی جانے اور دل سے تسلیم کیے بغیر یہ ممکن نہیں ہے۔

رب تعالیٰ انسان کو دیتے وقت یہ نہیں دیکھتا کہ یہ بندہ اس انعام کا حق دار ہے کہ نہیں۔نہ ہی اس پر نظر رکھتا ہے کہ اُس کے عطا کردہ رزق کو بندہ صحیح جگہ خرچ کرتا بھی ہے کہ نہیں؛ان سب باتوں سے ماورا ہو کر وہ اپنے بندے کو نوازتا رہتا ہے لیکن انسان رب تعالیٰ کے دیے ہوئے میں سے کسی کو دیتے ہوئے یہ سب ضرور دیکھتا ہے۔عجیب ہے!

     چلتے رہیے،سفر جاری رکھئیے

زندگی کا سفر کبھی ہمواری کے ساتھ طے نہیں ہوتا۔ زندگی میں اُتار چڑھاؤ آنا لازم ہے۔ مختلف اسباب سے کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آدمی نقصان اُٹھاتا ہے یا ہار جاتا ہے۔ زندگی میں ہر نقصان یا ہار کی حیثیت وقتی واقعہ کی ہوتی ہے۔ آپ ایسے واقعہ سے بد دل نہ ہو ں بلکہ اپنی کوشش جاری رکھیں۔ آج نہیں تو کل آپ یقینی طور پر کامیاب ہو جائیں گے۔ نئی چیز کو پانا؛کھوئی ہوئی چیز کی تلافی بن جاتا ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ ہمیشہ آگے کی طرف دیکھے۔ آج کی بجائے کل پر اپنی نظریں جمائے۔ جو شخص ایسا کرے گا؛اس کے لیے وقتی ناخوش گواریوں کو جھیلنا آسان ہو جائے گا۔ آنے والی جیت کی خاطر وہ آج کی ہار کو بھول جائے گا۔ شام اس لیے شام نہ ہوگی بلکہ شام صبح میں آخر بدل جائے گی اور صبح نے تو بہر حال آکر ہی رہنا ہے۔

انسان بظاہر بہت بڑی باتیں کرتا ہے جیسا کہ میں راقم الحروف بہت بڑی باتیں کرتا ہوں لیکن پانی پینا، کھانا کھانا ہو،کپڑے استری کرنے ہو، بائیک صاف کرنی ہو، بستربچھانا ہواور اس طرح کے دیگر چھوٹے چھوٹے کام مجھ جیسا بڑی باتیں کرنے والا نہیں کرتا۔ ایسے چھوٹے چھوٹے کاموں کے لیے مجھ جیسا بڑا ذہن رکھنے والا بہن بھائیوں پر رُعب جھاڑتا ہے اور ان کے کان کترتا رہتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ میرے گھر والے مجھے بڑا نہیں سمجھتے اور باہر والے مجھے چھوٹا آدمی نہیں سمجھتے۔مجھے اس بات کا اداک نہیں ہورہا کہ میں اپنی ذات میں چھوٹا ہوں یا بڑا۔اس لیے کہ میں خود کو چھوٹا نہیں سمجھتا جب کہ گھر والے مجھے بڑا نہیں سمجھتے۔ یہ ایک عجیب معما ہے جو حل نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ شائد یہ ہے کہ میں چھوٹا ہو کر خود کو بڑا  منوانے کی کوشش کر رہاں ہوں۔

غلطی کرنے سے پہلے معاف کر دینا

اگر انسان کسی کو غلطی کرنے سے پہلے غلطی کرنے والے شخص کو معاف کر دے،کوئی آپ کو کتنا ہی نقصان پہنچائے،تہمتیں لگائے،بُرا بھلا کہے، جڑیں کاٹے، آپ کاسانس دُوبھر کردے،ان سب صبر آزما حالات میں ایسے انسان سے خفا ہونے اور پلٹ کر منفی ردعمل کا مظاہرہ کرنے کی بجائے صدق ِ دل سے اس شخص کی تمام لغزشوں اور نا مناسب روئیے کو معاف کر دیں۔آپ کا یہ روئیہ بادی النظر میں بہت تکلیف اور اذیت دہ محسوس ہوگا لیکن درحقیقت یہ رویہ مومن کا رویہ ہے جو اسلام کے بنیادی اُسوہ کا عملی نمونہ ہے۔

رحمت و عطا کی بارش

رب تعالیٰ کے بارے میں یہ کہنا کہ جب تک اُس سے ہاتھ اُٹھا کر نہ مانگا جائے وہ عطا نہیں کرتا،سراسر گستاخی ہے۔اس لیے کہ رب تعالیٰ تو ہر لمحہ عطا کرتا ہے۔ اُس کی عطا کبھی ختم نہیں ہوتی۔یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم اگر گھر سے باہر ہونے والی بارش میں بھیگنا چاہتے ہیں تو ہمیں گھر سے خود باہر نکلنا ہوگا۔رب تعالیٰ کی رحمتوں اور عطاؤں کی بارش ہر لمحہ جاری رہتی ہے۔ یہ ہماری ہمت اور حوصلہ ہے کہ ہم کب اس رحمت و عطا کی بارش سے کچھ لے سکتے ہیں۔لہذا یہ کہنا غلط ہے کہ رب بِن مانگے عطا نہیں کرتا۔

قُربِ خداوندی

اگر ہم اللہ کی راہ پر چلنا چاہتے ہیں اور اس کا قُرب حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں چاہیے کہ ہماری زبان سے نکلنے والے الفاظ کسی کی بے عزتی کا موجب نہ بنے،کسی کی توہین نہ ہو جائے اور کسی کی عزت پر حرف نہ آئے۔ہماری زبان سے ہمیشہ ایسے الفاظ ادا ہوں جو دوسروں کی عزت اور احترام میں اضافہ کا باعث بنے۔اگر ہم نے زبان سے ادا ہوئے الفاظ کا درست استعمال سیکھ لیا تو بہت جلد ہم رب تعالیٰ کے قُرب کو پا لیں گے۔

عطائے انسان بامقابلہ عطائے رحمان

انسان کسی کو اُس کی توقع کے مطابق نہیں دے سکتا؛یہ صرف رب ہے جو ہمیشہ انسان کی توقع سے بڑھ کر عطا کرتا ہے۔البتہ یہ دوسری بات ہے کہ انسان اس فضل اور رحمت کو اپنے لیے کم جانے۔اللہ تعالیٰ انسان کو اس کی توقع سے کہیں بڑھ کر عطا کرتا ہے۔انسان بھی خدمت کرتے وقت رب تعالیٰ کی سنت پر عمل کرے اور توقع سے بڑھ کر سوال کرنے والے کو عطا کرے۔جب کوئی انسان رب تعالیٰ کی مخلوق کے لیے اتنا بے لوث ہو جائے ک سزا و جزا کے تصور سے ماورا ہو جائے تو اس شخص کے لیے رب کی رحمت کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ علم کے دروازے بھی کھل کاتے ہیں۔ وہ رب کی رحمتیں بھی حاصل کرتا ہے۔جس پر رب کی رحمتیں ہو گئیں اُس کے تو دونوں جہاں سنور گئے۔

رب کے پیار اور توجہ کا مستحق کیسے بنا جائے!

رب تعالیٰ کے پیار اور اس کی محبت کا مستحق بننے کے لیے انسان کو چاہیے کہ وہ دوسروں کے لیے اپنی خواہشات و ضرویات اور مال و جائداد کی قربانی دے۔خود کو بھوکا رکھ کردوسروں کا پیٹ بھرے۔ خود پرانے کپڑے پہنے اور دوسروں کو نئے کپڑے لے کر پہنائے۔ عید کے روز دُھلے ہوئے کپڑے یہ سوچ کر پہن لے کہ میری جگہ کوئی غریب خاندان نئے کپڑے پہن لے۔ اپنے دُکھوں کو مسکراہٹ میں چُھپا کر لوگوں سے ملے۔

اس روئیے اور عمل سے رب تعالیٰ کی رحمت اور فضل اس انسان کی طر ف دوڑ دوڑ کر آئے گا۔ جب ہم دوسروں کے لیے مہربان ہو گئے تو سمجھ لیجئے کہ اللہ بھی ہم پر مہربان ہو گیا۔دوسروں کی کی ہوئی زیادتیوں کو ہنس کر برداشت کر جائیے اور کبھی بھولے سے بھی یہ خیال دل میں نہ آنے دیجئے کہ اس قربانی کا کوئی اجر بھی ہے۔بس یہ سوچ کر سب کرتے جائیے کہ یہ سنت رسول ؐ ہے۔ اگر آپ نے یہ سب سنت سمجھ کر لیا تو اس کا اجر آپ کی سوچ اور تصور سے بھی بڑھ کر عطا ہو گا وگرنہ سب کچھ دکھاوے کی نظر ہو کر رہ جائے گا جس کا نتیجہ سوائے ذِلّت و خفت اور دائمی پشیمانی کے کیا ہو سکتا ہے۔

 

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter