احمد ندیم قاسمی کے افسانہ” سفارش“ میں سماجی شعور

مقالہ نگار :یاسمین ایم فل اسکالر شعبہ اردو یونیورسٹی آف اوکاڑہ

11 اپریل, 2023

احمد ندیم قاسمی ایک کثیر حیات شخصیت کے حامل فنکار تھے اردو ادب میں بطور افسار نگار نقاد کے طور پر جانے جاتے ہیں احمد ندیم قاسمی ۲۰ نومبر ١٩١٤ ء میں بمقام انگہ ضلع خوشاب میں پیدا ہوئے آپ نے ابتدائی تعلیم انگہ سے حاصل کی۔ کیمبل پور کے گورنمنٹ مڈل اینڈ نارمل سکول میں ۱۹۲۵ء میں داخلہ لیا وہاں سے آٹھویں جماعت پاس کی ١٩٢٩ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ ١٩٣١ء میں انٹر کا امتحان شیخوپورہ سے پاس کیا۔ صادق الجرٹن کالج بہاول پور سے ١٩٣٥ء میں بی۔ اے کا امتحان پاس کیا۔ ان کے افسانوی مجموعوں کی تعداد پندرہ ہیں جن میں ١٤٥ افسانے شامل ہیں انہوں نے پچاس کتب تحریر کیں اردو ادب کی ترقی پسند تحریک سے بھی وابستہ رہے۔ ان کے زیر سایہ دو ادبی رسائل شائع ہوتے رہے جس میں” پھول ” اور فنون شامل تھے۔  ١٩٤٨ءمیں انھیں انجمن ترقی پسند مصنفین پنجاب کا سیکرٹری مقرر کیا گیا ١٩٦٢ ء میں انہوں نے اپنا ذاتی جریدہ ” فنون“ کی اشاعت کا آغاز کیا اس سلسلے میں انہیں ملک کے نامور شاعروں اور ادیبوں کی حمایت حاصل تھی۔  انھیں تمغہ حسن کارکردگی اور تمغہ امتیاز سے بھی نوازا گیا ۔بھارت کے مشہور ہدایت کار  اور نغمہ نگار گلزار قاسمی کے بہت بڑے مداح ہیں اور وہ ان سے ملنے دو بار پاکستان آچکے ہیں، ١٠ جولائی ٢٠٠٦ء کو ان کا انتقال  ٨٩ برس کی عمر میں ہوا ۔ انہوں نے اردو ادب کو جو سرمایہ عطاء کیا ہے وہ ناقابل فراموش ہے۔

آپ کے ہم عصر افسانہ نگاروں میں کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی اور غلام عباس وغیرہ شامل ہیں ۔ کچھ لوگ ان کے افسانوں کا اظہار و شکوہ کرتے ہیں اور کسی بطور حیرت یہ ان کے  انداز بیان کی بدولت ان کے ہاں جو موضوعات کا تنوع ملتا ہے ، اس کی مثال کہیں نہیں ملتی یہ ایک جگہ اپنے بارے میں خود لکھتے ہیں:

” آپ کو میرے نظریہ فن کی ایک ہی بنیاد نظر آئے گی اور وہ ہے انسان دوستی انسان کا احترام اور انسان کا وقار اور اس کی عظمت ہے۔ انسان دوستی کا فلسفہ مغرب سے اخذ شدہ نہیں ہے  بلکہ یہ ان کے اپنے اندر ثقافت سے گہری رغبت کا نتیجہ تھا اسی وجہ سے وہ اپنی ترقی پسندوں میں ممتاز حیثیت رکھتے ہیں اور ان کی شاعری میں بھی روایت اور جدت کی جو آمیزش ہے وہ بڑے خوبصورت انداز کی عکاسی کرتی ہے۔“

 

افسانہ ” سفارش” میں انہوں نے کس قدر خوبصورتی سے اس حقیقت کو موضوع بنایا ہے کہ جس کس طرح ہم انسان اپنی غیر ضروری اور اپنی ذاتی زندگی کی مصروفیات میں اس قدر مصروف ہیں کہ ہمیں خبر ہی نہیں کہ ہمارے اردگرد بسنے والے لوگوں کے اہم معاملات میں بھی مدد کرنے کا وقت ہی نہیں نکال پاتے پھر اسی ساتھ کو برقرار رکھنے کے لیے کس طرح جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں اور اگر ان کا کام ہماری مدد کے بغیر ہی۔ مکمل ہو جاتا ہے تو بجائے شرمندہ ہو کر انھیں سچ بتاتے اس کام پر داد وصول کرتے ہیں جو اصل میں ہم نے کیا ہی نہیں ہوتا ۔

افسانہ سفارش ان کی کتاب "کپاس کا پھول” سے ماخوذ ہے۔ اس میں وہ ایک کہانی بیان کر رہے ہیں جس کا محور مقصد اس تلخ حقیقت سے آگاہ کرنا ہے جو ہمارے معاشرے میں عام مصنف افسانے کا آغاز اپنی مصروفیات  اور کوچوانوں کی قلت کا ذکر کرتے ہیں اور وہیں گھوڑا گاڑی کے انکار کے انتظار کے دوران کسی نوجوان فیکے  سے ہوئی ملاقات کا حال بیان کرتے ہیں۔ دراصل ایک حکیم کا دیا گیا سرمہ لگانے کے بعد فیکے کے باپ کی آنکھ کی بینائی چلی جاتی ہے اور کافی ٹوٹکے کرنے کے باوجود ان کو آرام نہیں ملتا اس لیے وہ ہسپتال چلے جاتے۔ ہسپتال بدلنے کے باوجود بھی ڈاکٹر فیکے کے بابا کا چیک اپ نہیں کرتے اس لیے فیکا مصنف سے درخواست کرتا ہے کہ وہ اس کے باپ کے علاج کے لیے اسپتال میں سفارش کر دیں مصنف فیکے  کو اپنے ایک ڈاکٹر دوست کا نام بناتے ہیں اور وعدہ کرتے ہیں کہ اگر آج کام نہ ہوا تو کل فیکے کے ساتھ خود ہسپتال جائیں گے  اور اس کے بعد وہ اپنی مصروفیات میں غرق ہو جاتے ہیں اور فیکے کے بار ہا کہنے کے باوجود بھی نہ ہسپتال جاتے ہیں اور نہ ڈاکٹر جبار کو کال کرتے ہیں ۔ ایک دن فیکہ  انہیں ملتا ہے اور کہتا ہے کہ  میرے باپ کو اسپتال میں داخل کر دیا گیا ہے۔  اس سے مصنف جھوٹ کہتے ہیں کہ میں نے ڈاکٹر جبار کو کال کی تھی فیکا ان کا شکر گزار ہو کر وہاں سے چلا جاتا ہے اور کچھ دن بعد آکر بتاتا ہے کہ ابا کی ایک آنکھ کا آپریشن ہوا تو دوسری پر بھی اثر پڑ گیا اور اب مزید دو آپریشن ہونا باقی ہیں۔ مصنف ایک مرتبہ پھر  اس سے وعدہ کرتے ہیں کہ وہ ڈاکٹر سے بات کریں گے لیکن انھیں کال کرنے پر ان کی ڈاکٹر سے بات نہیں ہو پاتی۔ اسی سب میں کافی وقت گزرجاتا ہے اور فیکا ایک روز ان کے گھر آتا ہے۔ مصنف فیکا کو سچ بتانے کے لیے لفظوں کا چناؤ کر رہے ہوتے ہیں کہ فیکا انہیں بناتا ہے کہ میرے باپ کی بینائی واپس آ گئی ہے اور مصنف بجائے اسے سچ بتانے کے  اپنی انا کا بھرم رکھ کر اس کی داد وصول کرتے ہیں اور فیکا عمر بھر کے لیے ان کا غلام ہونے کا اعلان کر دیتا ہے۔ مصنف اس مرتبہ بھی خاموش رہتے ہیں اور بغیر سفارش کے ہی فیکا کا کام ہو جاتا ہے احمد ندیم قاسمی کو خصوصی طور پر پنجاب کی دیہاتی زندگی کا عکاس افسانہ نگار کہا جاتا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں  کہ دیسی پس منظر میں لکھے گئے ندیم کے افسانے ہمارے دیہاتی زندگی، وہاں کی طرز معاشرت رہن سہن طبقاتی نظام معصومیت اور الہڑ پن کے دلکش جیتے جاگتے مرقعے س  یہ ان کے افسانے کی خصوصیت ہے کہ انہوں نے معاشرے کے نچلے طبقے کے لوگ کمزور اور پسے ہوئے طبقے کے لوگوں کے مسائل ان کی دشواریوں کو باریک بینی سے دیکھا تھا اور ان کو پرکھا تھا انھوں نے دیسی زندگی کی جس طرح خوبصورتی سے عکاسی کی ہوتی ہے وہ ہمیں ان کے علاوہ کہیں اور نہیں نظر آتی ۔

ترقی پسند سوچ کی تمام پرچھائیاں ان کے افسانوں میں ڈھونڈی  جا سکتی ہیں ۔ قاسمی صاحب کے پلاٹ کے حوالے سے بات کی جائے تو ان کا پلاٹ سادہ اور آسان اور رواں ہے اس میں کوئی جھول دکھائی نہیں دیتا ان کے واقعات میں پیچیدگی نہیں ہے واقعات کا مربوط ہونا  اور منظم ہونا اس کے افسانے کی خوبی ہے محمد حمید شاہد اپنے مضمون ” احمد ندیم قاسمی کا افسانہ تخلیقی بنیادیں میں لکھتے ہیں ۔

اس پر دوسری رائے تو ہو ہی نہیں سکتی کہ اسکے ہاں بنیادی قصہ وہی طبقاتی تضاد بنتا ہے جو ترقی پسندوں کو درجہ مرغوب رہا مگر پھر یہ بھی جاننا ہوگا کہ اجتماعیت نگاری اس کا بنیادی مسئلہ نہیں رہا اور شاید یہی سبب ہے کہ قاسمی کی پر کہانی کے کردار بطور فرد اپنی شناخت بناتے ہیں ہے۔ان کے کرداروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کے دل میں غریب طبقے کے لوگوں سے پیار اور ہمدردی کے جذبات موجود ہیں اور ان جذبات کو بڑی  خوب صورتی سے انہوں نے اپنے کرداروں کے ذریعے پیش کیا ہے اور ان کا یہی انداز انہیں دوسرے مصنفین سے منفرد بناتا ہے وہ دیہات کے رہنے والے محنتی اور وہ عام لوگ جو بہت محنت کرتے ہیں لیکن انھیں ان کا صلہ بہت کم ملتا ہے پہلے ان کے افسانوں میں ہمیں حقیقی زندگی کا عکس بھر پور انداز میں ملتا ہے گاؤں کے مخصوص ثقافت ، ان کے رسم و رواج، اقدار سے ان کے افسانوں کا نقشہ بنتا ہے میں دن بھر گھر سے غائب رہا اور فیکا دن بھر میرے گھر کے چکر کاٹتا رہا۔ شام کو اس نے مجھے بتایا کہ جبار صاحب بیٹھے تو ہیں پر کوئی اندر نہیں جانے دیتا کہتے ہیں باری سے آؤ اور میری باری آتی ہی نہیں گھٹنا پاجامے میں سے جھانک رہا ہو تو باری کیسے آئے بابو جی – ان کی یہ خصوصیت ہے کہ انہوں نے اپنے افسانوں میں معاشرے کے طبقے کے لوگ کمزور اور پسے ہوئے طبقے کے لوگوں کے مسائل اور ان کی دشواریوں کو باریک بینی سے دیکھا تھا اور ان کو پرکھا تھا۔ ان کے کرداروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے دل میں غریب لوگوں کے لیے ہمدردی ہے۔ اگر کبھی کسی غریب کو کوئی کام پڑ جائے تو وہ امیر لوگ اپنے حیلے اور بہانے سناتے رہتے ہیں یہ چھوٹی چھوٹی ناہواریاں ہیں جس میں غریب طبقے کے لوگ ہی پسے جاتے ہیں۔ بابا مصری شاہ میں سے گزرا تو ایک سرمہ بیچ رہا تھا بابا یہ سرمہ لے آیا اور ہمیں بتایا کہ اس سے آنکھ کی لالی جاتی رہے گی حکیم نے خدا رسول کو بیچ میں ڈال دیا۔ہے تو زرا سا لگا لے اور آنکھ میں سلائی بھر لی۔اس نے لقمان حکیم حکمت کا بادشاہ پڑھا اور آنکھ میں سلائی پھیر لی اس میں انہوں نے دیہاتی لوگوں کی نا اہلی کو پیش کیا ہے اس میں جہالت کا بیان ہے لوگ کتنے سادہ لوح ہیں کہ لوگ اپنے مفاد کی خاطر کس طرح قسمیں کھا کر لوگوں کو بے وقوف بناتے ہیں سماجی حقیقت نگاری غریبوں کے مسائل اور مشکلات ظلم و نا انصافی احساس، ذلت ،عزت نفس ان کے افسانوں میں خاصی موجود ہے قاسمی نے طبقاتی تضاد اور معاشرے میں ہونے والی جہالت اور ناہمواری کو خوبصورتی سے بیان کیا ہے فیکا غریب طبقے اور بابو جی امیر طبقے کا نمائندہ کردار ہے۔ ان کی کہانی بہت سادہ اور  عام لوگوں اور کرداروں سے بات کرتی کہانی بیان کرتے تھے خدا معلوم ان کی کہانیاں آخرت تک مٹی کے کچے گھروں سے جڑی رہیں ان کی تحریریں زندگی کے ہر پہلو سے پردہ چاک کرتی تھیں ان کا انداز بیان ہر حاص و عام کے ذہن میں نقشہ بنا دیتا تھا اور قاری مرکزی خیال کے مدار سے باہر کبھی نہیں بھٹکا۔

 

ڈاکٹر سہیل احمد لکھتے ہیں:

قاسمی صاحب کے ہاں دیہات کا صرف روحانی روپ نہیں تھا وہ اس فردوس میں چلتے ہوئے  گھر دیکھتے تھے ان کی واقعیت نگاری اور قوت مشاہدہ اثر انگیز تھا۔انہوں نے پنجاب کے ایک حصل علاقائی ماحول کو زبان دی۔ اس علاقے کے

کرداروں کو اردو ادب کا حصہ بنایا پریم چند سے شروع ہونے والی دیہات نگاری کو نئی نہج پر ڈالا ۔

 

انہوں سے زندگی کے حقائق کو صدیوں کی معاشرت اور روایت کے پس منظر میں پیش کیا ہے انہوں نے معاشرتی مسائل کو پوری حقیقت کے ساتھ پیش کیا ہے ان کے کردار بالکل ہمارے معاشرے میں رہنے والے بسنے والے افراد ہیں ان کے کردار دیہات کے مخصوص ماحول کی عکاسی کرتے ہیں اب اپنے حالات اور دیہات میں رہنے والے سادہ لوح ہیں یہ جیتے جاگتے کردار ہیں جس کو کسی صورت نظر انداز نہیں کہا جا سکتا۔ ان کے ہاں مقصد اور فن کا حسین توازن ہی ان کی ضمانت ہے ان کے ہاں نظریہ کی آمیزش اور مٹی سے محبت کے حوالے موجود ہیں۔ ان کے ہاں غم و غصے تنگ نظری کا شائبہ نہیں تھے ۔  وہ محبت کا درس دیتے ہیں یہ ان کی بڑائی دلیل ہے ، ایک اقتباس ملاحظہ ہو۔

 

” کپڑے تو میں نے بدل رکھے تھے البتہ میں اپنے تیور بدلنے کی کوشش کرنے لگا اچانک خیال آیا کہ کتنا جھوٹا آدمی ہو دو پیسے یا دو روپے یا چلو دو لاکھ کی بھی بات نہیں دو

آنکھوں کی بات ہے اور میں جھوٹ بولے جا رہا ہوں مجھے فیکے  کے سامنے اعتراف کر لینا چاہیے کہ میں تمہارے لیے کچھ نہیں کر سکا پھر میں نے وہ فقرے سوچے تو مجھے فیکے کے سامنے اس انداز سے ادا کرنے تھے کہ اسے سچی بات بھی معلوم ہو جائے اور اسے دکھ بھی نہ ہو “

انسانی نفسیات سے آگہی اور بیان میں فنی گرفت کے تمام عوامل پوری طرح اپنی موزونیت  کا احساس دلاتے ہیں۔انسانی نفسیات کو جس طرح انہوں نے بیان کیا ہے وہ ایک مثال ہے ان کا انسانی نفسیات اور اس کا مطالعہ بہت خوب ہے انہوں نے بہت خوبصورتی سے انسانی فطرت کے گوشوں کو بے نقاب کیا ہے فیکا دیہاتی ہے اسے کن باتوں سے متاثر اور کس انداز میں کہنی ہے اس سے ان کی گہری نفسیات کا پتہ دیتا ہے

انہوں نے متوسط یا دیہات کی زندگی کا انتخاب یہ سوچ کر کیا ہوگا کہ متوسط یا زیادہ تر نچلے طبقوں کی زندگی میں جو زمین میں اپنی جڑیں مضبوط رکھتے ہیں اور مٹی سے جن کا ناتا بڑا بھر پور ہوتاہے ساری بنیادی انسانی حرکات کا مطالعہ جس بے ساختگی کے ساتھ کیا جا سکتا ہے اتنا شاید ان لوگوں کے حوالے سے ممکن نہ ہو جو اپنی فطرت انسان کو مصنوعی تہذیب ، معاشرت کا لبادہ بنادیتے ہیں اور یوں انکا مصنوعی تہذیب معاشرت کا لبادہ پہنا دیتے ہیں اور یوں ان کا مصنوعی پن ان کے رہن سہن  کے تمام بنیادی موضوعات معاشرتی قدغن  میں معاشی ناہمواریاں میں جو ہماری زندگی میں قدم قدم پر موجود ہیں اور بھیس بدل کر

ہمارا استحصال کرتی ہیں۔ ایک اقتباس دیکھیں:

” آنسوؤں سے بھیگا ہوا بچوں کی طرح گول گول سرخ چہرہ  لیے فیکا اٹھا اور بولا بابو جی کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ میں شکر ادا کروں تو کیسے کروں۔ میرا ہاہا ٹھیک ہو گیا ہے اس کی دونوں آنکھیں ٹھیک ہوگئی ہیں اسے بینائی اللہ نے دی ہے اور آپ نے دی ہے آپ نے مجھے خرید لیا ہے بابو جی قسم خدا کی میں عمر بھر آپ کا نوکر رہوں گا اور میں نے ایک لمبی بہت لمبی بہت گہری سانس لے کر کہا کوئی بات نہیں فیکے ۔ کوئی بات نہیں ”

 

منافقت کے حوالے سے لکھے گئے ان کے افسانوں کا بنیادی موضوع معاشی ناہمواریاں ہیں جو ہماری زندگی میں قدم قدم پر موجود ہیں اور مختلف طرح سے ہمارا استحصال کرتی ہیں اس اقتباس میں بھی منافقت کا پہلو سامنے آتا ہے  کہ کس طرح مصنف فیکے کا کام ہونے کے بعد اسے سچ بتانے کی بجائے خاموشی اختیار کرتا ہے۔ اور ایسے میں ہمارے معاشرے میں جگہ جگہ ملتے ہیں ۔

ان کی انفرادیت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ انہوں نے اپنے افسانوں کے لیے ایسے موضوعات کو بھی چنا جن کی واقفیت سنی سنائی تھی ان کے افسانوں میں انسان” سر فہرست ترجیح رہا وہ انسان کی عظمت اور اہمیت کے قائل تھے وہ جتنے بڑے  شاعر تھے اتنے ہی بڑے افسا نے نگار، اتنے ہی اعلیٰ انسان  بھی تھے زندگی کا ہر جذبہ ایک دوسرے ، سے زنجیر کی کڑیوں کی طرح ملا ہوا ہوتا ہے کوئی جذبہ اپنی ذات میں اکیلا نہیں ہوتا پھول کی خوشبو  میں مٹی کی مہک کے ساتھ ساتھ روشی کی دھنک اور ہوا کی سرسراہٹ بھی شامل ہوتی ہے آپ ایسے فنکار ہیں جس نے ان نازک جزئیات کو محسوس بھی کیا ہے اور ان کے فنکارانہ انداز میں اپنے فنی قدو قامت کی بلندی کا ثبوت بھی بہم پہنچایا ہے ۔ ترقی پسند تحریک کے سرگرم رکن تھے اور عہدہ دار بھی رہے ہیں لیکن یہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ اتنا بڑا ترقی پسند نہیں اتنا بڑا فن کار ہے اگر وہ اسکی ذہنی و فکری تشکیل میں مارکسزم کا ایک نمایاں کردار ہے تاہم وہ ادب میں پروپگنڈے کے لیے اعتدال کا بھی شکار نہیں ہوا اس کی جڑیں اپنی مٹی میں بڑی گہری ہیں یوں وہ غیر جانبدار مصنف کے روپ میں ابھرتے ہیں جن کے ہاں نظریے کی آمیزش سے تیار کیے گئے پنجاب کی کی رومانی فضاء اور وہاں کے لوگوں کی معصومیت و زنده دلی، جرآت و جفاکش اور خدمت و ایثار کی تصویر ان کے افسانوں میں آخر لازوال ہو گئی ہیں۔ دیہات کے لوگوں میں چھوٹی پھوٹی خوشیاں اور غم بہت اہمیت رکھتے ہیں اس افسانے میں وہ سماج کا سماج سے ہی تعلق رکھتا ہے دیہات میں رہنے والے لوگ مسائل کا شکار ہو تے ہیں مثلاً علاج کی کمی سکول کی کمی وغیرہ انھیں وہ سہولیات میسر نہیں آتی جو شہروں میں ہوتی ہے انہوں نے اس افسانے میں ایسے فرد کی کہانی بیان کی ہے جو سادہ لو ہے  اسے اتنا بھی علم نہیں کہ کون سی چیز ان کے لیے فائدہ مند ہے اور کون سی نقصان دہ دیہاتی سماج میں دوسرا مسئلہ کم اہلی کا وہ اتنے سادہ لوگ ہیں ان کو یہ حق بھی نہیں کہ لوگ ان کے ساتھ کیا کرے قاسمی نے فیکا کوچوان کے ذریعے سادہ لوہی  اور کم عقلی کا مظاہرہ پیش  کیا وہ اتنا سادہ لوح ہے کہ وہ سفارش کے نام پر ذلیل ہو رہا ہے اور لوگ اس کا تماشا دیکھ رہے ہیں۔

انہوں نے  دیہی معاشرت کو اپنے افسانوں کا محور و مرکز بنایا اور دیہی کرداروں کو مرکزیت عطا کر کے ان کے جذبات، احساسات اور زندگی کے تضادات کی بہترین عکاسی کی انہوں نے اپنے انسانوں کی اساس گاؤں کے پس منظر میں انسانی زندگی کے ان المیوں پر لکھی جن کا تعلق معاشی نا ہمواریوں سے ہے  ان کی نثر دلکش ہے۔ ان کا فن لافانی ہے انہوں نے معاشرے میں پائی جانے والی ناہمواریوں اور طبقاتی فرق کو بیان کیا اسکی مثال نہیں ملتی

 

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter